• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • فیروز ناطق خسرو صاحب کی سات کتابوں کے مختصر ریویوز از محمد فیاض حسرت

فیروز ناطق خسرو صاحب کی سات کتابوں کے مختصر ریویوز از محمد فیاض حسرت

طلسم مٹی کا (غزلیں)
14 جنوری 2019ء
شاعری ، یعنی خیالات ، احساسات و جذبات کو اِس انداز سے لفظوں کی صورت دے دینا جو قاری پڑھتا جائے اور ہر ہر لفظ اُس پہ اثر کرتا جائے ۔اگر احساسات و جذبات درد و غم کی نمائندگی کر رہے ہوں تو قاری کی زباں سے بے اختیار آہ نکلے اور اگر کسی مسرت یا خوشی کی نمائندگی کر رہے ہوں تو زباں سے بے اختیار واہ نکلے ۔یہ ” آہ ” اور “واہ” کا ربط نا صرف قاری کے ساتھ بلکہ اُن لفظوں کے ساتھ جڑا ہو جنہیں آپ نے بیان کیا ۔ یعنی، قاری کی زباں سے ” آہ ” اور “واہ” نکلنے کے بعد اُسے معلوم پڑے کہ اُس کی زبان سے کیا ادا ہوا۔

یہ بات کہنا اور سننا تو بہت آسان معلوم ہوتی ہے پر اِس پر پورا اترنا اور اس انداز سے کہ کوئی ذرہ برابر بھی فرق نہ ہو ، انتہائی مشکل امر ہے ۔ میرے استاذ مجھے کہتے ہیں ۔ فرض کیجیے آپ مصور ہیں اور ایک خوبصورت مقام کی تصویر بناتے ہیں ۔ تصویر بنا کر آپ یہ دعویٰ کر گزرتے ہیں کہ یہ تصویر عالی شان ہے جسکی مثال یہ تصویر خود ہے ۔ اگر دیکھنے والا وہ تصویر دیکھے اور وہ کوئی دلکش ، حسیں کیفیت محسوس نہ کرے تو سمجھ لیجئے کہ آپ کی مصوری میں کمی ہے ۔ آپ جس مقصد کو سامنے رکھے تصویر بناتے ہیں اور آپ کے دیکھنے پر وہ مقصد خوب واضح نظر آتا ہے ۔تو یہی مقصد کسی اور کے دیکھنے پر بھی واضح نظر آئے بلکہ آپ سے بڑھ کر اُسے واضح نظر آئے ۔

یہ سب باتیں پہلے اِس لیے بیان کیں کہ ” طلسم مٹی کا ” مطالعہ کرتے ہوئے کئی بار میری زباں سے بے اختیار آہ نکلی اور کئی بار واہ۔ ۔اور بات بیاں کرنے کا مقصد مجھ پہ بھرپور واضح ہوتا رہا ۔
شاعری ،اور پھر اِس کی صنف ” غزل” جو سخنوروں کو اور مجھے عزیز ہے ۔کتاب ” طلسم مٹی کا ” غزلوں پر مشتمل ہے۔اِ ن غزلوں سے چند اشعار پیشِ خدمت کیے جاتے ہیں ۔یقین جانیے اس کتاب سے اشعار منتخب کرتے سمے میں بڑے امتحان سے گزرا ہوں کیونکہ 70 سے زائد اشعار میں نے منتخب کیے اور پھر تحریر کی طوالت کو دیکھتے ہوئے ان میں سے صرف 19اشعار منتخب کیے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا میں اس امتحان میں کامیاب ہوا ہوں یا نہیں ؟ اِس کا فیصلہ مصنف اور قاری حضرات کے ہاتھ میں ہے ۔


کچھ تو ہی بتا، نامِ خدا یاد سے تیری
غافل کبھی اے یارِ طرحدار ہوا میں

میں یوسفِ ثانی نہ زلیخا نہ وہ دربار
کیاسوچ کے رسوا سرِ بازار ہوا میں

خود اپنا بوجھ آپ اٹھائے ہوئے پھروں
ہو گی کبھی تو گردشِ چرخ ِ کہن تمام

حریصِ خاکِ کفِ پائے بو تراب ہوں میں
جبیں پہ نقش ہے خسرو یہ اسم مٹی کا

ساحل پہ کھڑا ہے وہ اسی سوچ میں ڈوبا
کیوں مجھ سے گلے آ کے سمند ر نہیں ملتا

شہر میں لوگ روز مرتے ہیں
اس قدر کیوں ہے شور جنگل میں

وہ کم سخن ہے نگاہوں سے بات کرتی ہے
سو چھوڑ آئے ہم اُس کے اُطاق میں آنکھیں


بس ایک دیدہِ عبرت بریدہ سر دیوار
نہ کوئی در، نہ دریچہ، نہ ہے مکان کی چھت

مجھ کو خود بھی نہیں سبب معلوم
الجھا الجھا سا ہوں میں بس الجھا
10۔
سارے جہاں کی رونقیں کر دے اُسے عطا
مجھ کو مرے وجود کی تنہائی بخش دے
11۔
میں ڈھونڈتا رہتا ہوں سورج کو اندھیروں میں
ہیں لفظ مرے روشن ، تختی مری کالی ہے
12۔
گزرتا وقت دکھاتا ہے سینکڑوں شکلیں
رکھیں تو کیسے رکھیں یاد آپ کا چہرہ
13۔
ظلم کے باب میں خاموش نہیں رہ سکتا
میں نہ بولوں تو رگوں میں یہ لہو بولتا ہے ۔
14۔
بنالے اور بھی کاغذ کی کشتیاں، بیٹی !
ابھی تو ہوں گے کئی حادثات ، دریاہ ہے

15۔
خود اپنے بارے میں مجھکو سچ پوچھو تو علم نہیں
کیا بتلاؤں تم کو یارو ،کون ہوں، کیا ہوں، کیسا ہوں
16۔ٍ
ہے جہانِ آب و گِل بے رنگ و بو خسرو بہت
حفظ کر دیوانِ غالب، کلیاتِ میر پڑھ
17۔
غم کا سورج مری دہلیز پہ آ کر ٹھہرا
میرا سایہ مری باہوں میں سمٹ کر رویا
18۔
تجھے یہ غم کہ دروبام لے گیا سیلاب
وہ لوگ بھی ہیں یہاں جن کا گھر سمندر ہے
19۔
میں اپنے آج کو کل پر نہیں رکھتا کبھی خسرو
میں اپنے کل کو اپنے آج سے تعبیر کرتا ہوں

مجھے اِس کتاب سے بہت کچھ حاصل ہوا ۔ مجھ پہ لازم ہے کہ میں مصنف کا شکریہ ادا کروں ۔ خدا خسرو صاحب کو لمبی عمر، صحت و تندرستی و خوشیوں کے ساتھ سلامت رکھے ۔ آمین

آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے (غزلیں )
16 جنوری 2019ء
کم اور سادہ لفظوں میں بڑی بات کہنا اور انداز ایسا اپنانا کہ قاری کے دل و دماغ جھوم اٹھیں ، کہیں یہی سادہ الفاظ لیے بڑے مضمون کو بیان کر دینا جسے سمجھنے کے لیے سمجھنے والے کو سر کھپانے کی ضرورت پڑ جائے ، کہیں لفظوں کو تصویری صورت (Imagination)دینا کہ پڑھتے ہوئے کوئی براہِ راست منظر دیکھنے کا حال معلوم ہو ، کہیں لفظوں کے اتار چڑھاؤ سے ایسی کیفیت پیدا کر دینا جسے محسوس کیا جا سکے ، کہیں لفظوں کو ایسی صورت سے استعمال کر دینا جس طرح سے عہدِ حاضر میں دوسرا کوئی نہ استعمال کر پائے اور کہیں کسی پہلو کو پوری طرح سے بیان کرنے کے بعد اُس میں کوئی اشارتاً بات کہہ دینا جس کا ربط اُسی بیان کردہ پہلو سے جڑا ہو مگر اُس سے ایک نیا پہلو سامنے آئے ۔یہ چند خوبیاں جس شخصیت کے کلام میں مجھے نظر آئیں اُس شخصیت کو ” فیروز ناطق خسرو” کے نام سے جانا جاتا ہے ۔
فیروز ناطق خسرو صاحب کے دونوں غزل کے مجموعے ” طلسم مٹی کا ” ” آئینہ چہرہ ڈھونڈ تا ہے” کا مطالعہ ایک ہی وقت میں ، بغیر کسی وقفے کے مکمل کر لینا میرے لیے بہت غیر معمولی بات ہے ، وہ اس لیے کہ میری کتاب اور مطالعے کے ساتھ دوستی تو رہی پر کئی بار میں اس دوستی کا حق ادا کرنے سے قاصر رہا ۔ بار ہا ہجر کا موسم اپنے عروج پر رہا۔ مگر اب میں سمجھتا ہوں ہجر کے موسم کا زوال شروع ہو چکا ہے ۔ اِس مثبت پیش رفت میں سارا کردار ” طلسم مٹی کا “، ” آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے ” کا ہے ۔مصنف کا جتنا بھی شکر ادا ہو وہ کم ہے ۔
جب آپ کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے ہوں تو آپ کو مطالعہ کرتے ہوئے لطف محسوس ہو ، جوں جوں کتاب کے ورق پلٹتے جائیں آپ کی دلچسپی اور بڑھتی جائے یعنی، مصنف کی بیان کردہ باتوں کو سمجھنے کی سمجھ آتی جائے ۔مطالعے کے دوران کئی سوالات آپ کے ذہن میں ابھرتے جائیں اور پھر زیادہ تر سوالات کے جوابات وہی کتاب آپ کو دیتی جائے ۔آپ چاہیں پر ذہن کتاب سے دوری کی اجازت نہ دے تو سمجھ جائیں کہ مصنف نے پوری طرح سے کتاب لکھنے کا حق ادا کر دیا ہے ۔
“آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے ” سے کچھ اشعار آپ کی نذر ہیں ۔

اوپر سے تو اترے گا نہیں کوئی فرشتہ
بدلے گا یہ حالات کوئی اور نہیں، تو


کہیں چہرہ ہے آئینہ نہیں ہے
کہیں آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے

نشاں قدموں کے خود اپنے مٹا کر
ترا نقشِ کفِ پا ڈھونڈتا ہوں

اک دن یہ راز مجھ پہ اچانک ہی کھل گیا
مجھ جیسا ایک اور بشر آئینے میں ہے

ہر سمت ترا عکس ہے ، ہر شے میں فقط تو
کیا ساتھ کوئی آئینہ بردار پھرے ہے

ہم سفر جس کو سمجھ کر ہم سفر کرتے رہے
اپنی پرچھائی وہ نکلی جس سے دھوکہ کھا گئے

مری تنہائی مجھ کو ڈس گئی ہے
میں برسوں قید اپنے گھر رہا ہوں


عزیز ہے مجھے اپنی زمین کی گردش
نظر میں گر وہ ستاروں کی چال رکھتا ہے


ہر مرض کا علاج ذکر ترا
تیرا ہر اسم ، اسمِ اعظم ہے
10
زندگی کی دلیل تیرا وجود
موت کیا ہے وصالِ محرم ہے
11۔
اب امن کی دیوی کے جھلسنے لگے پاؤں
شعلوں کی زمیں کب گل و گلزار کرو گے
12۔
چین دن کو نہ رات کو آرام
یہ خرابی دل و نگاہ کی ہے
13۔
ہر قدم پر کتنے کعبے، کتنے بت خانے ہوئے
ایک نقشِ پا کے افسانے سے افسانے ہوئے
14۔
پلٹ کر جب کبھی دیکھا ہے خسرو
تعاقب میں مرا سایہ رہا ہے
15۔
زندگی تجھ سے ہارتا ہی رہا
وقت مجھ کو گزارتا ہی رہا

16۔
میں اُس کو ڈھونڈنے نکلا ہوں گھر سے
مکاں رکھتے ہوئے جو لامکاں ہے
17۔
الگ ہو کر شجر سے ایک پتا
ہواؤں کے تھپیڑے کھا رہا ہے
18۔
مرے بیٹے ، مرے قد سے بڑے ہیں
میں نظروں کو اٹھاتے ڈر رہی ہوں
19۔
دعا کو ہاتھ اٹھے ہیں نہ لب ہلے میرے
اُسے خبر ہےکہ میری ضرورتیں کیا ہیں
20۔
جتنی اُس کے ساتھ اپنی دوستی بڑھتی گئی
اُتنی اپنے ساتھ اپنی دشمنی بڑھتی گئی
21۔
ہمراہ اُس کے دین بھی ایمان بھی گیا
اچھا ہے ساتھ ہی دلِ نادان بھی گیا
22۔
خود اپنا سامنا کیا میں نے ہزار بار
اکثر میں اپنے پاؤں کی آہٹ سے ڈر گیا

خدا خسرو صاحب کو جیتا رکھے کہ ان کا فیض جاری رہے ۔

کندقلم کی جیبھ
17 جنوری 2019ء
اِس کتاب کو اگر کھول کر پڑھا بھی نہ جائے صرف دیدار ہی کر لیا جائےتو اتنا بھی قاری کے لیے فائدے سے خالی نہیں ۔ اب کوئی یہ سوچے کہ بھلا اِس کتاب کو محض دیکھ لینے سے کیا حاصل ہونا ہے یا یہ کہے کہ یہ تو سراسر فالتو بات کہہ دی ۔ تو اُسے میں یہ بتلاؤں کہ کتاب کو محض دیکھنے سے آپ کو ایک خوبصورت بات ملے گی اور آپ اُسے پڑھنے سے قاصر نہ رہیں گے یوں کتاب کا مطالعہ کرنے سے بھی آپ قاصر نہ رہیں گے ۔
میں ڈھونڈتا رہتا ہوں سورج کو اندھیروں میں
ہیں لفظ مرے روشن ، تختی مری کالی ہے ( فیروز خسرو)
کتاب ” کند قلم کی جیبھ ” کئی موضوعات پر مضامین ، کئی اچھے سخنوروں کی سخنوری پہ تبصرے اور چند افسانوں پر مشتمل ہے ۔ چونکہ کتاب کا زیادہ حصہ تبصروں پر مشتمل ہے اس لیے کچھ اِس پہلو پہ میرا نقطہ ءِ نظر یا میری سمجھ کے چند الفاظ بیان کیے دیتا ہوں ۔
کسی بھی پہلو پہ تبصرہ کرنا کوئی معمولی کام نہیں کیونکہ تبصرہ تبھی ہو پائے گا جب آپ اُس پہلو کو گہرائی سے سمجھتے ہوں اور اِ س عمل کے پیچھے آپ کے پاس مطالعہ ہو ۔مثال کے طور پر کسی بھی موضوع کی ایک کتاب اور اُس پہ آپ نے تبصرہ لکھنا ہو تو کیا بس اتنا کافی ہے کہ آپ اُس کتاب کا اچھی طرح مطالعہ کر لیں اور تبصرہ لکھیں ؟ جی بالکل بھی نہیں ، اُس کتاب کا مطالعہ ٹھیک طرح سے کر لینا ہی کافی نہیں بلکہ اُس موضوع پر پہلے سے موجود کتابوں کے ساتھ بھی آپ نے رابطہ قائم کرنا ہے ۔ یعنی ، مصنف نے جو بات بیان کی ہے اُس کو من و عن تسلیم نہیں کرنا بلکہ اُسے تسلیم کرنے یا ماننے میں آپ کی بھی کچھ تحقیق ہونی چاہیے ۔
جب کوئی شخص کسی فن میں مہارت حاصل کر لے اور اُسے کہا جائے کہ وہ اُس فن بارے اپنی کچھ رائے پیش کرے یا تبصرہ کرے تو وہ کیا ہی خوب ساماں ہوتا ہے ۔وہ شخص اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے تو سامعین بھر پور خوش اسلوبی اور پوری دلجمعی کے ساتھ تبصرہ سنتے ہیں۔اور اگر تبصرہ تحریری صورت میں ہو تو قارئین پڑھتے ہوئے زیادہ لطف اٹھاتے ہیں ۔
مصنف نے بڑی شائستگی ،عمدگی اور دیانتداری سے تبصرے پیش کیے ۔یعنی، کتاب میں موجود خامیوں اور خوبیوں کو پوری طرح سے سامنے رکھنا یا واضح کر دینا ۔ اِس بات کا اندازہ تبھی ممکن ہو گا کہ آپ کسی سخنور کی تخلیق کا مطالعہ کر چکے ہوں اور اُس کے بعد اُسی تخلیق پہ آپ کو تبصرہ پڑھنے کو ملے ، مجھے یہ سعادت حاصل ہوئی کہ اتفاقاً میں پہلے چند تخلیقات کا مطالعہ کر چکا تھا ۔ دوسرے پیرے میں جو بات میں نے بیان کی وہ اسی کتاب کا کچھ حاصل ہے ۔

اب بات کی جائے کتاب میں موجود چند افسانوں کی ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اِس کتاب کا آخری حصہ پڑھ لینے کے بعدقاری مطمئن نہیں ہوتا ہر قاری کو ایک تمنا ،آرزو کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، قاری کو تمنا ہو تو بس یہی تمنا ہوتی ہے کہ کاش مصنف کچھ مزید افسانے کتاب میں شامل کرتا ۔ بلکہ قاری مصنف سے گلہ بھی کر گزرتا ہے کہ کیوں مصنف نے مزید افسانے کتاب میں شامل نہیں کیے۔ یہ کیا کہ قاری کی پیاس میں شدت کا اضافہ کر کے اُسے چھوڑ دیا ۔
خدا خسرو صاحب کو لمبی عمر، صحت و تندرستی و خوشیوں کے ساتھ سلامت رکھے ۔ آمین

ہزار آئنہ
19 جنوری 2019ء
کتاب ہزار آئینہ ، حمد باری تعالی ، نعت ، منقبت اور سلام پر مشتمل ہے ۔ حمد یعنی ، باری تعالیٰ کی تعریف میں کچھ کہنا ۔ سوچا جائے تو ذہن بات کو صاف کر دیتا ہے کہ وہ ہستی جو ہر شے پہ قادر ہے اُس کی تعریف کرنا ہمارے بس میں نہیں ۔ باری تعالیٰ کا قرآن میں ارشاد ہے جس کا مضمون کچھ یوں ہے کہ “اگر عالم کے سارے سمندر سیاہی بن جائیں اور عالم کے سارے درخت قلم بن جائیں اور عالم کے سبھی جاندار صرف خدا کی شان لکھنے میں لگ جائیں تو وہ سیاہی ختم ہو سکتی ہے ، وہ قلم ختم ہو سکتے ہیں وہ جاندار ختم ہو سکتے ہیں لیکن میری باتیں ختم نہ ہوں گی ، میری شان کہیں بھی جاکے ختم نہ ہونے والی ہے ۔ ہاں اپنے حصے کی شمع ضرور جلانی چاہیے ۔ کیونکہ یہ شمع آنے والی نسلوں کو روشنی مہیا کرے گی ، اور جو شمع خسرو صاحب نے جلائی ہے یقیناً اس شمع سے ان کی اور کئی اور نسلوں کو روشنی میسر آئے گی ۔ فیروز خسرو صاحب نے اپنے اہل و عیال کو جو وصیت کی میں وہ یہاں مکمل پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں ۔
ہونٹوں پہ حمد، نعت و مناقب ، سلام ہوں
جو ” آئینہ ہزار” مقابل ہو صبح و شام
بعد از سلام نذر کروں گا یہی سخن
منکر نکیر شوق سے پوچھیں نشان و نام
میری لحد میں ہو مرے سینے پہ یہ کتاب
اولاد پر ہے فرض وصیت کا احترام
خسرو بروزِ حشر شفاعت کے واسطے
پیشِ حضورؐ جاؤں گا لے کر یہی کلام
کتاب ہزار آئینہ کا پہلا حصہ مطالعہ کرتے ہوئے، شانِ خداوندی پڑھتے ہوئے جہاں سبحان اللہ ، ما شا اللہ اور بیشک کی صدائیں بلند ہوتی ہیں وہاں قاری کو اپنے بارے میں یہ شدت سے محسوس ہوتا ہے کہ باری تعالی کی محبت سے اُس کا دل خالی ہے اور اُسے یہ کتاب عظم کرواتی ہے کہ اُس کا دل بھی باری تعالی کی محبت گرفتار ہو گا۔ حمد میں سے کچھ منتخب اشعار اور نظم آپ کی خدمت میں پیش ہیں ۔

نہ جانے کیوں ہے تو اتنا پریشاں
وجود اُس کاہے نزدیکِ رگِ جاں

نمازِ شوق پڑھ کچھ جستجو کر
کبھی تو خونِ دل سے بھی وضو کر

جو چاہے جس کو چاہے عطا جس طرح کرے
تو جانتا ہے کب ، کسے کس طرح کیا ملے

پھر یہ نبضوں میں کس لیے تیزی
کیوں نظامِ جہاں یہ برہم ہے

میں بھی “میں” کا شکار ہوں خسرو
کم نہیں یہ جو تجھ میں ہم ہے بہت

حمدیہ نظم ، “نہ میں کافر نہ تو کافر” کا آخری حصہ ۔
گنہگاروں کی پرسش
نیکو کاروں کی فراغت پر!
جہنم کی بھڑکتی آگ
جنت کی بشارت پر !
خدائے لم یزل کے روبرو
قائم عدالت پر!
یقیں میرا
یقیں تیرا
نہ تو کافر
نہ میں کافر !!

نظم ، “رمئی جمرات “کا آخری حصہ ۔
منیٰ کی وادی میں سر برہنہ کھڑا ہوا تھا !
وجود میں میرے وہ جو شیطان پل رہا تھا
مرے مقابل وہ بت کے قالب میں
ڈھل چکا تھا!
میں سات کنکر اُٹھائے ہاتھوں میں
اپنے محکم یقین کے ساتھ!
“رمئی جمرات” کر رہا تھا !!

نظم ، “عرفات “آخری حصہ ۔
میرے جیسے گنہگار !
عرفات سے جب چلے
طفلِ نوزائیدہ کی طرح
اپنی فطرت میں سب ایک تھے!
نیک تھے!
ہر طرف یہی آ رہی تھی صدا
کوئی مقصود اپنا نہ مسجود ہے!
تو ہی واحد ہے ، یکتا ہے ، معبود ہے!
لا شریک لک ، لاشریک لک!
لا شریک لک ، لاشریک لک!!

مرا یہ دعویٰ غلط نہیں ہے!
کہ خود سے بہتر میں اُس کے بارے میں جانتا ہوں !
یہ جانتا ہوں کہ میرے بارے میں مجھ سے بہتر
وہ جانتا ہے !
10۔
(قرض)
میں جب آیا تھا
پاک وصاف و پاکیزہ فرشتہ تھا
فرشتہ تھا اور اپنے رب کا
فرشِ خاک پر میں نیک بندہ تھا
مجھے واپس بھی جانا ہے
پلٹ کر پھر اُسی کے پاس
اُس چہرے کو لے کر
ساتھ جس چہرے کے آیا تھا
نہ میرا جسم ہو گندہ
نہ میری روح آلودہ
یہ میرا فرض بنتا ہے
یہ مجھ پہ قرض بنتا ہے
11۔
( اے خدائے امکانات)
آنے والے وقتوں میں
کیا یہاں پہ ایسا بھی
ایک بھی کوئی دن ہے
جب کسی کے لاشے پر
بام و در نہ روتے ہوں !
بے خطر گھروں میں لوگ
اپنی نیند سوتے ہوں!
اے خدائے امکانات !
امن کی کوئی صورت
کیا ابھی بھی ممکن ہے!!
کسی لکھاری کے لیے اِس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے کہ اُسے اپنی بھر پور جوانی میں نعت لکھنے کی سعادت حاصل ہو ۔ نعت یعنی ، وجہ ِ کائنات ، محبوبِ خدا حضرت محمد ؐ کی تعریف میں کچھ بیاں کرنا ۔میں سمجھتا ہوں کہ نعت لکھنے کی سعادت اُسے ہی حاصل ہوتی ہے جس کا دل اس پاک ہستی، حضرت محمدؐ کی محبت میں گرفتا ر ہو چکا ہو ۔ فیروز ناطق خسرو صاحب کو اپنی جوانی میں نعت لکھنے کی سعادت حاصل ہوئی یہ بڑی خوش نصیبی اُن کےلیے اور محبت دیکھیے کہ ابھی تک نعت سے بھرپور رشتہ قائم کیے ہوئے ہیں ۔نعتیہ کلام میں سے کچھ اشعار آپ کی نذر کیے جاتے ہیں ۔

اللہ کے حبیبؐ کی میں کیا ثنا کروں
اللہ کا حبیب ؐ لکھا اور سخن تمام


اک نام جو بن جائے شفاعت کا وسیلہ
اندر سے مرے آئی صدا نامِ محمدؐ

کسی سفینے سے پہنچے ، کسی بھی زینے سے
دعا کا گہرا تعلق ہے دل سے،سینے سے

پرچا کٹا ہوا ہے گرفتارِ رنج ہوں
آ جائیے حضورؐ شفاعت کے واسطے

اے فخرِ مسیخا تری قربت کا ہے اعجاز
اچھا ہے دمِ مرگ بھی بیمار کا عالم

اے کاش رہے ہاتھ میں آئی ہوئی جنت
تا عمر میں پکڑے رہوں روضے کی یہ جالی

لازم ہے کہ جس منہ سے کریں ذکر نبیؐ کا
اس منہ سے نہ نکلے کوئی کوسا، کوئی گالی
غالب کی زمیں میں مولا علی کے قصیدے میں سے ایک شعر یہاں پیش کرنا چاہوں گا ۔

دوستو آؤ کہ شہرِ علم میں
داخلے کا ہے یہی اک در کھلا


بیاں کرے کیا کوئی فضائل، ہو مردِ میداں کہ در پہ سائل
نہ اُس کے جیسا کوئی جری تھا نہ اُس کا ہمسر کوئی سخی تھا (منقبت ،حضرت علی )

جب لکھا میں نے کتابِ دل پہ نامِ فاطمہ
خامہ اٹھ اٹھ کر جھکا بہرِسلامِ فاطمہ (منقبت ،حضرت فاطمہ زہرا )

بس اس خیال سے، آپس میں ہو نہ خوں ریزی
اُتر کے تختِ شہی سے وہ آرہا ہے حسن (منقبت ، امام حسن)

فیروز صاحب کی منظر کشی دیکھیے کربلا کےمنظر کو کس طرح سے کھینچتے ہیں ۔
ایک ہی سر ہے محوِ تلاوت نیزے پر
ایک ہی سر پر سجتی ہے دستار بہت

آخر میں فیروز خسرو صاحب کی نذر اپنی ایک معمولی کوشش۔
کیا کرے تعریف اُس کی، وہ بھی بندائے خدا
جس پہ یہ ذی روح کیا ؟ عالم سبھی نازاں ہوئے (حسرت)

فیروز ناطق خسرو صاحب کی نظمیں
3 فروری 2019ء
میں نے باقاعدگی سے نظموں کی صرف ایک کتاب پڑھی ۔ سارا شگفتہ کی کتاب” آنکھیں “۔اِس کتاب کا مطالعہ کرنے سے یہ ممکن نہیں کہ آپ کی آنکھیں آنسوؤں سے محروم رہ جائیں ۔ درد کی کیفیت اس طرح سے آپ کو محسوس ہو جیسے آپ اس درد کی تکلیف براہِ راست کوئی درد ناک منظر دیکھتے ہوئے محسوس کر رہے ہوں ۔ یہ کتاب میں نے قریباً دو سال پہلے پڑھی تھی ۔کتاب ” آنکھیں “، پہلی نظم جو مصنفہ نے اپنی بیٹی کے نام لکھتے ہوئے لکھا ۔
تجھے جب بھی کوئی دکھ دے
اُس دکھ کا نام بیٹی رکھنا
آج فیروز ناطق خسرو صاحب کی نظموں پر مشتمل کتابیں ” آنکھ کی پتلی میں زندہ عکس ” اور ” ستارے توڑ لاتے ہیں” کا مطالعہ شروع کیا ۔ تو وہ دو سال پہلے کا منظر اچانک میری آنکھوں کے سامنے آیا کہ میری آنکھیں اشکوں سے بھر گئی تھیں اور پھر سے اسی منظر کی طرح آج بھی میری آنکھیں اشکو ں میں ڈوبی جب نظم ” یہ بستی کس کی بستی ہے ” پڑھی ۔ سارا شگفتہ ( م) کی نظموں کا ذکر اس لیے کِیا کہ خسرو صاحب کی اُن نظموں میں مجھے وہ جھلک نظر آئی جو کسی تکلیف ، دکھ درد کے پسِ منظر میں لکھی گئی ۔ خسرو صاحب نے آزاد نظموں کوایک نیا رنگ دیا ۔ یہ کوئی معمولی فن نہیں کہ آپ کسی درد میں مبتلا ہوں اور اُس درد کو آپ اس طرح سے بیان کریں کے سننے والا بھی اُسی درد میں مبتلا ہونے کی سی کیفیت محسوس کرے ۔ یعنی، درد کو لفظوں میں قید کر دینا کہ جو کوئی بھی ان لفظوں کو زبان پر لائے اُسے اُس درد کی کیفیت محسوس ہو اور اُس کے سامنے وہ درد ناک منظر آ جائے ۔اِس فن میں خسرو صاحب استاذی کا مقام رکھتے ہیں ۔ غزل ہو ، نظم ہو یا کہ نثر ہو خسرو صاحب کا اپنا ہی انداز ہے ، ایسا انداز جو قاری کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتا۔بات کو اس شائستگی اور سلیقگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ جس کی مثال وہ خود آپ ہیں ۔

کتاب ” آنکھ کی پتلی میں زندہ عکس ” سے چند نظمیں

سچی آنکھیں جھوٹی آنکھیں ( عبدالستار ایدھی کے لیے نظم ) پہلا حصہ
یہ آنکھیں اک ایسے شخص کا
عطیہ ہیں!
جس نے اس دوزخ میں رہ کر
اک جنت آباد کری تھی !
نفس کو زنجیریں پہنا کر
روح اپنی آزاد رکھی تھی !
(آخری حصہ )
یہ آنکھیں اب
جنگ کی باتیں کرتی ہیں
نفرت کے ترانے گاتی ہیں
یہ آنکھیں میری آنکھیں ہیں !
یہ آنکھیں جھوٹی آنکھیں ہیں !!

یہ دنیا سب کی دنیا ہے !
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ بستی کیسی بستی ہے
یہ بستہ ، کس کا بستہ ہے
یہ تختی کس کی تختی ہے
یہ چہرہ، کس کا چہرہ ہے
یہ لاشہ ، کس کا لاشہ ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ بستی ، کیسی بستی ہے!
یہ بچی ، میری بچی ہے
یہ بچہ ، میرا بچہ ے
یہ لاشہ ، میرا لاشہ ہے
یہ کاندھا ، میرا کاندھا ہے
یہ دنیا کیسی دنیا ہے
یہ بستی ، کیسی بستی ہے
یہ بچی سب کی بچی ہے
یہ بچہ سب کا بچہ ہے
یہ لاشہ، سب کا لاشہ ہے
یہ کاندھا ، سب کا ، کاندھا ہے
یہ بستی سب کی بستی ہے!!
یہ دنیا سب کی دنیا ہے!!


کوئی تخلیق کر سکتا نہیں کا آخری حصہ
کوئی تخلیق کر سکتا نہیں جب تک نہ وہ چاہے
کہ ہر فنکار کے اندر وہ خود موجود ہوتا ہے
جو وہ چاہے تو گہری نیندکی حالت میں
روشن ذہن ہوتا ہے
نہ وہ چاہے
تو بیداری میں بھی یہ ذہن سوتا ہے !!

جو ہاتھ آگے بڑھے گا خنجر نکالنے کو
میں دوست دشمن میں
آج کیوں کر تمیز رکھوں
کسے کہوں میں
کہ پشت میں جو لگا ہے خنجر اُسے نکالے
کسے کہوں میں
کہ جینے مرنے کی کشمکش سے مجھے نکالے
یقین مجھ کو نہیں کہ میری صدا کو سن کر
جو ہاتھ آگے بڑھے گا خنجر نکالنے کو
وہ دوست ہوگا یا میرا دشمن!
وہ ہاتھ مجھ کو سکون دے گا
قرار دے گا
حیات کا اعتبار دے گا
یا پشت میں جو لگا ہے خنر
وہ دل کے اندر اتار دے گا !
رکھے گا مرہم
یا جیتے جی مجھ کو مار دے گا!!


برہنہ خواہشیں کا آخری حصہ
مگر میں اپنی سوچوں پر عمل کرنے سے قاصر ہوں !
میں سیدھی راہ سے ہٹ کر اگر چلنے کی کوشش میں
قدم آگے بڑھاتا ہوں
تو میرے جسم کے سارے رگ و ریشے
بغاوت پر اتر آتے ہیں لمحوں میں !
مرے یہ دست وبازو ساتھ دینے سے مرا انکار کرتے ہیں!
زبانِ بے زبانی سے یہی اظہار کرتے ہیں
تجھے کچھ یاد آتا ہے
انہیں ہاتھوں سے کل تو نے درِ کعبہ کو تھاما تھا !


عصبیت کا بیج ( پہلا حصہ )
اے خدا!
مجھ کو اُٹھا لے
آنے والے وقت سے پہلے
کہ اب ہم
زہر میں ڈوبے ہوئے لفظوں سے اپنے
پھول سے بچوں کے ذہنوں کو یہاں
آلودہ کرتے جا رہے ہیں !

کتاب “ستارے توڑ لاتے ہیں” سے چند نظمیں

جیسے وہ پرچھائی ہے میری
میں نے اپنی آنکھیں
اُس کے شہر میں گروی رکھ دیں
اور پھر اُلٹے پیروں
اپنے گاؤں میں لوٹ آیا ہوں !
لیکن مجھ کو یہ لگتا ہے
جیسے وہ پرچھائی ہے میری!
اور میں اُس کا سایہ ہوں !!
2-
خواہشیں
جسم کا پیڑ بھی اندھا
اس کی شاخیں بھی اندھی ہیں
تیز ہوائیں جب چلتی ہیں
سارے پتے
ایک اک کر کے گر جاتے ہیں !
شاخیں بازو پھیلا کر
اندھوں کی مانند
ہوا کا جسم ٹٹول کے رہ جاتی ہیں !!

تیرے بِنا
بہت سوچا تھا میں نے
زندگی تیرے بنا کیسے گزاروں گا!
مگر میں آج بھی
تیرے بنا
ہر خواب کو تعبیر کرتا ہوں
گزرتے وقت کو زنجیر کرتا ہوں !!

فسانہ زیست
جب کبھی اشک گرا
یا کوئی تارا ٹوٹا
خون میں ڈوبی ہوئی نوکِ مژہ
صفحہ دل پہ رقم کر گئی افسانہ زیست
وصل کا خواب!
کوئی ہجر کا گیت !!

میں جانتا ہوں
میں جانتا ہوں
کہ چندہ روزہ ہے زندگانی !
ہر ایک شے کی طرح ہے یہ بھی
وجود فانی !
مگر کسی کی گھنیری زلفوں کی
چھاؤں میں دن
بتا رہا ہوں !
حیات اپنی گنوا رہا ہوں !!

مجھے کس سے محبت ہے سے دوسرا پیرا
مجھے محسوس ہوتا ہے
مجھے تم سے محبت ہے
مجھے اُس سے محبت ہے
مجھے اِس سے محبت ہے
مجھے خود سے محبت ہے
مجھے کس سے محبت ہے
آخری پیرا
جو خالق ہے محبت کا
اُسے مخلوق سے اپنی محبت ہے
اُسی نے میرے پہلو میں
دلِ غم آشنا رکھا!مجھے اپنے اُسی رب سے محبت ہے!
مجھے سب سے محبت ہے !!

محترم نقاد
کل ہی اپنی شاعری کی میں نے تازہ تر کتاب
احتراماً نذر کی اک محترم نقاد کو !
چلتے چلتے یک بہ یک میں رک گیا فٹ پاتھ پر !!


چلو بازار چلتے ہیں ( اسٹریٹ کرائمز کے پس منظر میں)
کسی کی جیب سے نقدی
کسی کے کان کی بالی
کسی چوڑیاں
ہاتھوں سے
مہنگا کوئی موبائیل
جھلک TTکی دکھلا کر
جو مالا ٹوٹ کر بکھرے
تو موتی بین لیتے تھے!
غریبوں کی بھی کل پونجی
ابھی کل تک یہاں ہم
چھین لیتے تھے!
مگر اب لوگ بھی اپنے بہت ہوشیار بنتے ہیں !
شکستہ ہی سہی
پھر بھی ہماری راہ کی دیوار بنتے ہیں !
نہ کانوں میں کوئی بالی پہنتا ہے
نہ ہاتھوں میں
کڑے سونے کے ہوتے ہیں!
دلہن کے جو بھی زیور ہیں
وہ مصنوعی
جو موبائیل ہی وہ نقلی!
نمائش کے سبھی طور و طریقے
کھوکھلے ہیں
کچھ نہیں اصلی !
تو پھر بازار جا کر کیا کریں
جیبیں تو ہیں خالی!
چلو کچھ ایسا کرتے ہیں
کسی کے ہاتھ سے تھیلا دواؤں کا
لپک کر چھین لیتے ہیں
دوا ئیں بھی تو مہنگی ہیں
کہیں پر بیچ دیتے ہیں !
کہیں پر بیچ دیتے ہیں
یا پھر گھر کو پلٹتے ہیں
ابھی کچھ روز پہلے ہی
جو ہم نے بالیاں کانوں سے نوچی تھیں !
وہ میں نے تحفتاً بخشیں تھیں بیوی کو
کڑے سونے کے اماں کو
تو پھر کچھ ایسا کرتے ہیں
کڑے اماں سے جاکر چھین لاتے ہیں!
وہی دو بالیاں سونے کی جو بخشیں تھیں بیوی کو
انہیں پھر نوچ لاتے ہیں!!
چلو بازار چلتے ہیں !!

فرصتِ یک نفس
8 فروری 2019
زیرِ تبصرہ ساتویں کتاب ، (مطالعے کے لحاظ سے ) “فرصتِ یک نفس” قطعات پر مشتمل ہے۔ میں نے خسرو صاحب کی پچھلی 6 کتابوں کے مطالعے کے بعد مختصر ریویوز تحریر کیے مگر خسرو صاحب کا تعارف کسی بھی ریویو میں رقم نہ کیا ۔ آج اس آخری ریویو میں مختصر تعارف انہیں کی زبانی ، کتاب میں موجود “احوالِ واقعی” سے چند حصہ کوٹ کِیے دیتا ہوں ۔ یہ بات اپنی جگہ وزن رکھتی ہے اور میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ کسی تخلیق کار کا تعارف اُس کی تخلیق کاری سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتا ہے۔
مجھ سے اگر کوئی پوچھے کہ شاعری میں جدت سے کیا مراد ہے یا یہ کہ جدت کیا ہوتی ہے تو اُسے میں خسرو صاحب کا یہ شعر پیش کروں؎

سینہ ِسنگ کٹا، ٹوٹ کے پتھر رویا
بعد اک عمر کے دل خوں کا سمندر رویا

مجھے اگر کہیں پہ کسی بھی قسم کا انتظار کرنا پڑ جائے تو مجھے اُس وقت لگتا تھا کہ میرے لیے دنیا کا سب سے مشکل کام انتظار کرنا ہے ۔ اگر کوئی مجھ سے کہے کہ اب کے دور میں وقت بہت تیزی سے گزر رہا ہے تو میں اُسے کہوں بجا فرمایا آپ نے ۔لیکن آپ چاہو تو اِ س وقت کی تیزی میں کمی لاسکتےہو ۔ پھر وہ حیرت سے کہے کہ ایسا کہاں ممکن ہے ؟ تو میں کہوں کہ جاؤ جا کے کسی کا شدت سے انتظار کرو اور اپنی زباں سے یہ سنو کہ یہ وقت کیوں تھم گیا ، یہ وقت گزر کیوں نہیں رہا ؟ تو ایسے میں تم گواہی دو ۔اور پکارو؎

جستجوئے حیات میں خسرو
ایک لمحہ صدی برابر ہے

کتاب ” آئینہ چہرہ ڈھونڈتا ہے” کا مطالعہ کِیا تو میں نے لکھا کہ خسرو صاحب کے کلام میں کئی اور خوبیاں ہیں ان خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی نمایا ں ہے کہ الفاظ کو تصویری صورت (imagination) دینا یعنی، الفاظ کو اس صورت سے پیش کر دینا کہ پڑھنے والے کو کوئی براہِ راست منظر دیکھنے کا حال معلوم ہو ۔ آج فرصتِ یک نفس کا مطالعہ کیا تو اس شعر کو پڑھتے ہوئے مجھے جتنی خوشی ہوئی اُس خوشی کو الفاظ میں بیاں کر نا کسی کے بس میں کہاں ۔ خسرو صاحب کے کلام میں ایک جس خوبی کا ذکر کیا تھا ٹھیک اُسی پہلو پہ وہ فرماتے ہیں؎

کبھی ایسا بھی ہوتا ہےکہ جو ہم لفظ بنتے ہیں
مجسم ہوکے ان لفظوں سے اک تصویر بنتی ہے

احوالِ واقعی سے کچھ حصہ:-
” میں 19 نومبر 1944، کو ہندوستان کے شہر بد ایوں میں پیدا ہوا پاکستان کے قیام کے بعد ہم سب لوگ سندھ کے شہر خیر پور میرس میں آکر آباد ہوگے ۔ میرا نام خسرو پاشا تجویز کیا گیا ۔ اسکول میں داخلے کے وقت والد صاحب نے نجانے کیا سوچ کر میرا نام خسرو پاشا کی بجائے فیروز ناطق لکھوایا ( خود ان کا تخلص ناطق بدایونی تھا)۔ہم سات بہن بھائی ، گھر کی فضا شعرو ادب سے معمور ، سب ہی سخن فہم و سخن شناس لیکن ؎
حاصل کسی کسی کو ہوئی قدرتِ سخن
ذوقِ سخن وگرنہ برابر کا سب میں تھا
ہر انسان کو اللہ تعالیٰ نے کچھ خاص صلاحیتوں کے ساتھ دنیا میں بھیجا ہے ۔ ضرورت ہے کہ ہم انہیں دریافت کریں ۔ جہاں تک شاعری کا تعلق ہے تو اس کے لیے نہ تو عشق و محبت ضروری ہے نہ سگریٹ کے مرغولے فضا میں چھوڑنا ، نہ شراب و شباب سے دل بہلانا ۔ شاعری عطیہ خداوندی ہے۔ طبیعت کی موزونیت شرطِ اولیں ہے اور دلِ درد آشنا اس کےلیے مہمیز ؎
جب بناتا ہوں میں کوئی تصویر
اوڑھ لیتا ہوں اک نیا چہرہ

ساتویں جماعت میں پہنچا تو ایک دن اسکول پیدل جاتے ہوئے آسمان پر چھائے ہوئے بادل اور فضا میں لہراتے رقص کرتے پرندوں کو دیکھ کر بےاختیار دل کی خواہش زبان سے کچھ یوں ادا ہوئی؎

فضا میں یہ اڑتے پرندوں کے جھنڈ
کتنے آزاد ہیں، کتنے مختار ہیں

ایم اے (اردو) ، ایم اے (اسلامک ہسٹری) اور بی ایس سی ( وار سٹیڈیز) کی ڈگری حاصل کی ۔ میری شاعری کے حوالے سے میری تربیت میں میرے والدین کا بڑا حصہ رہا ۔
قطعہ ہو یا رباعی ، غزل ہو یا نظم ( پابند ، آزاد، نثری نظم ) میں نے کبھی شعوری طور پر یہ کوشش نہیں کی کہ کسی خاص بحر ، ردیف قافیہ یا مشاعرہ کا ماحول دیکھتے ہوئے شعروں کہوں، خیال اپنے ساتھ شعر کی ہیت ، لفظیات اور علامات بھی لاتا ہے؎

خسرو مجھے ہے آج بھی اُس حرف کی تلاش
وہ حرف جو سخن کو توانائی بخش دے

مجھے باقاعدہ شعر کہتے ہوئے 50 سال سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا؎

پوچھا کہاں ہیں میرے سخن کے بچاس سال
آئی صدا کہ رخ سےہٹا گردِ ماہ و سال

اسی گردِ ماہ و سال کے ساتھ ائر فورس کی ملازمت کے دوران پاکستان کے مختلف شہروں میں رہنے کا موقع ملا ۔1999 میں پاکستان ائیر فورس سے، اسکواڈرن لیڈر کے رینک میں قبل ازوقت ریٹائرمنٹ حاصل کی؎

افتاد کیا پڑی تھی جو سیکھے فنونِ حرب
خسرو ترا مقام تو شعرو ادب میں تھا ”

کتاب ” فرصتِ یک نفس” میں سے کچھ منتخب کلام آپ کی نذر:-

ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی ( انڈیا) فیروز خسرو کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں؎
روح کو ملتی ہے اُن کی فکر سے آسودگی
جاری و ساری رہے گا اُن کا فیضِ خاص و عام

تصویرِ کائنات کو بے رنگ دیکھ کر
تخلیقِ زن کو مظہرِ ذاتِ خدا کیا

تزئینِ کائنات تو خالق نے کی مگر
لیکن ذرا یہ سوچیے خود ہم نے کیا کِیا

دیکھتاہے جہاں پہ گنجائش
دل بناتا ہے آشیاں اپنا
ہم نے سجدہ وہیں پہ کر ڈالا
اُس نے رکھا قدم جہاں اپنا

طلب میں تیری کہ میں اپنی آرزو میں ہوں
اسیر ہوں پہ طلسماتِ رنگ و بو میں ہوں
تمام عمر اسی سعیِ رائیگاں میں کٹی
نجانے کون ہے وہ جسکی جستجو میں ہوں

کسی کو دعویٰ ہے خود شناسی کا
قطرہ قطرہ یہاں سمندر ہے
جستجوئے حیات میں خسرو
ایک لمحہ صدی برابر ہے

زہر کو زہر سے تعبیر کیا جائے گا
جھوٹ کو جھوٹ ہی تفسیر کیا جائے گا
کاٹنا چاہو تو یہ ہاتھ بھی کاٹو لیکن
سچ اسی ہاتھ سے تحریر کیا جائے گا

آج یہ تنگیِ داماں کی شکایت کیسی
برہنہ پارہِ پرخار پہ چل کر دیکھو
ہم سے بے مہریِ حالات کا شکوہ کیسا
دوستو زاویہء بدل کر دیکھو !

سینہ ِسنگ کٹا، ٹوٹ کے پتھر رویا
بعد اک عمر کے دل خوں کا سمندر رویا
غم کا سورج مری دہلیز پہ آکر ٹھہرا
میرا سایہ مرے قدموں سے لپٹ کر

یارو ہے اک فریبِ مسلسل یہ زندگی
اوجِ فلک کو زیرِ کفِ پا کِیا تو کیا
احساس کے صحن میں وہی تیرگی رہی
مانگے ہوئے دیوں سے اُجالا کِیا تو کیا

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو ہم لفظ بنتے ہیں
مجسم ہوکے ان لفظوں سے اک تصویر بنتی ہے
اسی تصویر میں جب دستِ قدرت رنگ بھرتا ہے
وہی تصویر پھر انسان کی تقدیر بنتی ہے
10۔
میں کہ اپنی ہی دھن میں رہتا ہوں
اور لمحے گزرتے رہتے ہیں
آئینے ہو چکے ہیں زنگ آلود
لوگ پھر بھی سنورے رہتے ہیں

حصہ ءِ نظیر اکبر آبادی سے ایک قطعہ
11۔
آبرو شعر و سخن کی ہیں نظیر
آج بھی ان سے بھرم اردو کا ہے
مصحفی و غالب و اقبال و میر
دم قدم سے ان کے دم اردو کا ہے

حصہ ءِ میر تقی میر سے ایک قطعہ
12۔
کر چکے اے دل تو جب یہ ہاؤ ہو اچھی طرح
جیبِ جاں کا چاک پھر کریو رفو اچھی طرح
رقص میں آنے سے پہلے رقص میں آنے کے بعد
آئینے میں دیکھیو خود کو بھی تو اچھی طرح

حصہءِ غالب سے
13۔
سیکڑوں عکس، ہر اک عکس کے لاکھوں پہلو
یہ جہاں آئنہ خانہ نظر آتا ہے مجھے
14۔
غالب کی ہی زمیں میں کیا خوب کہتے ہیں؎
محفلیں بھی باعثِ تزئینِ مژگاں ہو گئیں
آہ اگلی صحبتیں خوابِ پریشاں ہو گئیں
وقت کے ہاتھو ہوئے ہم چار دیواری میں قید
گھر کی دیواریں بھی اب دیوارِ زنداں ہو گئیں

حصہءِ اقبال سے ایک قطعہ
15۔
ولولے پیدا کئے مردہ دلوں میں اُس نے
خفتہ ذہنوں کو جھنجوڑا انہیں بیدار کیا
اپنے افکار کی دولت سے نوازا ہم کو
صاحبِ جہد و عمل، حاملِ کردار کیا

Advertisements
julia rana solicitors

فیروز ناطق خسرو صاحب کی اب تک 8کتابیں اشاعت پزیر ہوچکی ہیں۔آٹھویں کتاب جو سب میں پہلے(2010ء) شائع ہوئی وہ آپ نے اپنے والد مرحوم حضرت ناطق بدایونی کا منتخب کلام “انتخابِ کلامِ ناطق بدایونی” کے نام سے شائع کیا۔
ان کی مزید 03 کتابیں ابھی زیرِ ترتیب ہے۔

Facebook Comments

محمد فیاض حسرت
تحریر اور شاعری کے فن سے کچھ واقفیت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply