سنگین غلطی (ہم وہیں ٹھہرے ہیں) – ماسٹر محمد فہیم امتیاز

کیا ایسا ممکن ہے کہ بھارت کے ساتھ جنگ ہو اور ہم اس کے میزائلوں،بمبوں،راکٹوں،اور جدید بندوقوں کے مقابلے میں تلواریں،نیزے،منجنیقیں اور ٹینکوں کے مقابلے میں اونٹ اور گھوڑے لے کر نکلیں اور پھر ساتھ یہ دعویٰ بھی کریں کہ ہم تو تہس نہس کر دیں گے کفر کو وغیرہ وغیرہ۔۔؟یا ایک اور بات کہ چور کو پکڑنے کے لیے چور کی طرح سوچنے کا کیوں کہا جاتا ہے۔۔؟ان مثالوں کا مقصد یہ چھوٹی سی بات سمجھانا ہے کہ جس طرح کا حملہ ہو گا اسی طرح کا دفاع ہوگا، یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایک بندہ تلوار کا وار کر رہا ہے اور  آپ اسے مُکے کی طرح ہاتھ سے روک لیں،اس طرح سے ہاتھ ہی کٹے گا الٹا اپنا ہی نقصان ہوگا،تلوار کے وار کو روکنے کے لیئے ضروری ہے کہ تلوار،بھالہ یا ڈھال ہی ہو سامنے،خیر غلطی پر آتا ہوں۔۔۔غلطی یہ کہ ہم ٹھہرے رہتے ہیں اپنی جگہ پر دنیا گزر کر آگے چلی جاتی ہے،جنگوں کے طریقے بدل گئے،جنگیں میدان سے نکل کر اذہان میں سمٹ گئیں،مگر ہم ابھی تک میدان میں بھٹک رہے۔
1400 سال پیچھے نہیں جاوں گا صرف گزشتہ صدی پر نظر دوڑائیں،صیہونیوں کے بابے بوڑھے بیٹھے اور جنگ کے نئے طریقے کار وضع کر کے ہم پر مسلط کر دیئے،کیونکہ دو بدو میں انہیں شکست کا سامنا تھا لہٰذا اقوام متحدہ بنی،امن کونسل قائم ہوئی،جنگ بندی کے معاہدے ہوئے اور جہاں ہم مضبوط تھے وہ محاذ بند کر دیا گیا،اچھا اب یہ ذہن میں رکھیں کہ ہم کہا تھے اور کہاں ہیں،ہم تھے نعرہ تکبیر بلند کر کے تلوار اٹھا کر پل پڑنے والے،ہم پر مسلط کر دی گئی پروپیگنڈہ وار،اردو بنگالی سے چلا فتنہ  ہمیں دو ٹکڑوں میں بانٹ گیا،،پی ٹی ایم،بی ایل اے،سندھو دیش،سرائیکستان جیسے عناصر پھر مسلط ہیں،اور ہم وہیں کھڑے ہیں۔ہم ادر ہی کھڑے رہے،کفر آگے بڑھا ہم پر   مسلط کر دی معاشی جنگ،آج ہم آئی ایم ایف،ورلڈ بینک ڈالر،بینکنگ سسٹم کے گرد گھوم رہے ہیں کیوں۔۔؟ کیونکہ ہم اگے نہیں بڑھے ہم نے اپنا معاشی نظام رائج نہیں کیا،ہم نے اپنی کرنسی رائج نہیں کی،صدام،قذافی کی کاوشیں الگ موضوع ہیں،ہم نے سود کا انکار کر کے کے مسلم ممالک کے درمیان قرض حسنہ رائج نہیں کیا،ہم نے بینکنگ کا متبادل نہیں بنایا،آج یہ جنگ کفر جیت چکا ہم وہی کھڑے ہیں اپنے نعروں کے ساتھ۔ہم ادر ہی کھڑے رہے،ہم پر مسلط کر دی گئی میڈیا وار،آج ہم اور ہماری نسلیں سر کے بال سے پاوں کے  ناخن تک اس میڈیا کے زیر اثر ہیں آج ہمارا کھانا،پینا،اٹھنا،بیٹھنا،جاگنا،سونا،اوڑھنا،بچھونا حتیٰ کہ سوچ کا زاویہ تک کفار کی طرز پر ہے کیوں۔۔؟ کیونکہ ہم آگے نہیں بڑھے،ہم اپنے میڈیا ہاوسز قائم نہیں کر سکے،جہاں ہمارا کلچر دکھایا جاتا،ہمارے اسلاف کے کارنامے بتائے جاتے،جہاں ہماری نسلیں صیہونی علامات کے بجائے اسلامی تعلیمات،و احکامات کا عملی اطلاق دیکھ سکتیں،جہاں  شادی میں فحاشی کی جگہ سادگی اور اس کے فوائد بتائے جاتے،جہاں گرلفرینڈ کلچر کے بجائے نکاح کا بتایا جاتا،ایسی پروڈکشن جسے دیکھنے والے سپائیڈر مین اور بیٹ مین کے بجائے صلاح الدین ایوبی اور محمد بن قاسم بننے کی خواہش لے کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے، آج ہماری نسلیں امریکہ،یورپ جا کے بسنا چاہتی ہیں،آج ہمارے بچے کفار جیسی زندگی گزارنے کے خواب دیکھتے ہیں،تو مان لیجیئے یہ جنگ بھی کفر جیت چکا ہے اور ہم ادر ہی کھڑے ہیں اپنے نعروں کے ساتھ۔موجودہ صورتحال پر آجائیں آج گلوبلائز کیا جا رہا ہے دنیا کو اور اس گلوبلائزیشن میں حریف کو ہرانے کے لیئے اسے تنہا کیا جاتا ہے عالمی سطح پر اس کا تصور بگاڑا جاتا ہے،میری بات سمجھیے گا اگر دو سو بندے میں سے ایک کے متعلق یہ نظریہ کامیابی سے پھیلا دیا جائے کہ یہ تو ظالم ہے،پاگل ہے،دہشتگرد ہے،شدت پسند ہے،امن کے لیئے خطرہ ہے، آخر وہ دو سو بندہ اس ایک کو دھکیل کر سائیڈ پر کر دیں اس کا کھانا پینا بند کر دیں،اس کے ساتھ زندگی کے تمام تر معاملات لین دین ختم کر دیں،چند ایک زیادہ خطرہ جان کر اسے مارنے کا مشورہ بھی دے دیں تو سبھی تائید کریں گے کہ ہاں ٹھیک ہے مارو اسے گند ختم کرو،ایک سو ننانوے بندہ کسی ایک بندے کے خلاف محاذ آرا ہو جائے اسے مارنے پر تل جائے تو اس بندے کی صورتحال کیا ہو گی؟

یہی صورتحال آج اسلام و پاکستان پر مسلط کی جا رہی ہے،آج جب ہم اپنی اسی غلطی اپنی جگہ ٹھہر جانے کی وجہ سے کافی حد تک دوسرے ممالک یعنی کفار  پر انحصار کر رہے ہیں خود کفیل نہیں ہیں،تو اس حالت میں ہمیں عالمی سطح پر بدنام کر کے تنہا کر دینے اور پوری دنیا کو دشمن کر دینے کا مطلب آپ یقیناً سمجھ رہے ہوں گے،آج دنیا میں اسلام کو دہشت گرد مذہب،مسلمانوں کو شدت پسند طبقہ اور پاکستان کو دہشتگرد ملک کہا جا رہا ہے،کیونکہ یہ نظریہ پھیلایا جا رہا ہے ہمارے متعلق،تاکہ پوری دنیا،تمام ممالک تمام لوگ اسلام و پاکستان کو دہشتگرد،شدت پسند،اور امن کے لیئے خطرہ سمجھنے لگیں،یہ ہے آج کی جنگ،کہ اس عالمی دنیا میں دشمن کو تنہا کردو اپنی موت آپ مر جائے گا،یہ کوئی نئی بات نہیں،عراق کی مثال سامنے ہے آپکے،ایران سے لڑوایا گیا،کویت سے لڑوایا گیا سعودیہ کو خلاف کیا گیا،جب کفار کے ساتھ ساتھ تمام مسلم ممالک بھی خلاف ہوگے تو حملہ کر دیا کہ لو جی اس کے پاس تو ہتھیار ہیں یہ تو خطرہ ہے،افغانستان کی مثال سامنے ہے، القاعدہ کا،نائن الیون کا،آپریشن اینڈریو کا ڈرامہ رچایا گیا لولی پاپ دیا گیا ،جب چین،روس جیسی بڑی طاقتوں نے بھی کہا ٹھیک ہے یہ خطرہ ہے تو حملہ کر دیا گیا۔
آج یہی کام پاکستان کے ساتھ کیا جا رہا کیونکہ یہ واحد ایٹمی اسلامی ریاست ہونے کی وجہ سے اور بہت سی دوسری وجوہات کی بنا پر عالم کفر کے سر پر لٹکتی تلوار کی مانند ہے،آج یہی جنگ ہم پر مسلط کی جا رہی ہے آج ہمیں تنہا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے عالمی سطح پر،مسئلہ یہ نہیں ہے کہ دشمن کیا کر رہا مسئلہ یہ ہے کہ اس جنگ میں بھی ہم وہیں کھڑے ہیں اپنے نعروں کے ساتھ،ہم آج بھی آگے بڑھنے کو تیار نہیں ہم آج بھی غیر روایتی جنگ کو روایتی طریقہ کار سے لڑنے کی کوشش کر رہے ہیں،ہماری عوام ہمارے لیئے نادان دوست کا کام کر رہی ہے اور دشمن کا کام آسان کر رہی ہے،آج دنیا ہمارا متشدد چہرہ سامنے لانا چاہتی ہے،اس کے لیئے اسے کچھ بھی کرنا نہیں پڑتا،گیرٹ ویلڈر بیٹھ کر گستاخانہ خاکوں کی نمائش کا اعلان کر دے گا،پاکستان میں موجود صیہونی سیٹ اپ کے ذریعے سے ختم نبوت پر حملہ کرنے کی کوشش کی جائے گی،کسی گستاخ ملعون کو یہود ونصاریٰ اپنے ذرائع سے بری کروا لیں گے،کسی چوڑے،مراثی سے گستاخی کروا دیں گے،اور پھر بس ریکارڈنگ اور مشہوری ہماری عوام کے جذباتی رد عمل کی کیونکہ کسی بھی حکیمانہ ردعمل کی توقع انہیں بھی نہیں ہم سے کیونکہ انہیں بھی معلوم ہے کہ ہم وہی کھڑے ہیں،اپنے نعروں کے ساتھ،ہماری عوام سڑکوں پر نکلے گی،روڈ بلاک کرے گی،اسی میں شامل ہو کر قادیانی فساد کریں گے،اسی میں شامل ہر کر،سیاسی مفادات والے فساد کریں گے،اسی میں گاڑیاں جلائی جائیں گیں،ڈنڈے سوٹے لہرائے جائیں گے،بغاوت کا اعلان کیا جائے گا،قتل کے فتوے دیئے جائیں گے،جوشیلے نعرے لگائے جائیں گے،مرنے مارنے کی باتیں کی جائیں گی ،کبھی کوئی سیاستدان سیاسی بغض میں دھرنا دے رہا ہے،کبھی ہماری جذباتی عوام کے جذبات حکمت پر غالب آ جائیں گے،اچھا میں اس سب کو غلط نہیں کہنے والا،میں یہ کہنے والا ہوں کہ یہ طریقہ کار درست نہیں یہ پرانا فرسودہ طریقہ کار ہے،جس سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں،اس سے صرف اور صرف نقصان ہوتا ہے،کوئی فائدہ نہیں،دنیا ایسی آگ لگا کر پھر اس سب کو استعمال کرتی ہے،پوری دنیا میں دکھایا جاتا ہے کہ یہ دیکھیں یہ ہیں مسلمان،یہ ہے اسلام،یہ ہے پاکستان،وہ امیج جو بنانا چاہتے بنا کر کامیاب ہو جاتے،وہ آپ کو دہشتگر،شدت پسند،جاہل،گنوار ثابت کرنے میں کامیاب ہو جاتے،کیوں۔۔؟ کیونکہ ہم آگے نہیں بڑھے،ہم نے عدالتی طریقہ نہیں اپنایا ،ہم نے حکومت کو اداروں سے روابط نہیں کیے تہذیب یافتہ طریقے سے ہم نے اداروں،تنظیموں،جماعتوں سے رابطے،حکومت کو اداروں کو چیلنج کرتے ہوئے،انہیں مدلل انداز میں غلط ثابت نہیں کیا۔۔آخر کیوں ہم لاحاصل جدوجہد،اور جذباتیت میں دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں،ہم کیوں وقت کے ساتھ نہیں چلتے طریقہ کار کے مطابق نہیں چلتے،اوپر کہ مثالوں میں بتایا پھر بتا رہا ہوں اس تحریر کا مقصد متن ہی یہی ہے کہ میرے بھائیو جیسا حملہ ہو اس کا ویسا ہی دفاع کرنا ہوتا ہے،جیسا معاملہ ہو اسے اسی کے انداز میں حل کرنا ہوتا ہے،مجھے ایک سوال کا جواب دیں،اگر آج ہم سپر پاور ہوں،آج ہمارے میزائل بھی امریکہ کی طرح پوری دنیا تک رسائی رکھتے ہوں،آج ہماری اپنی کرنسی ہو،ہمارا اپنا نظام تعلیم ہو،ہمارا اپنا میڈیا ہو،ہمارا اپنا معاشی نظام ہو آدھی دنیا کی معیشیت پاکستان کے ساتھ جڑی ہو،ہمارا اپنا نظام حکومت ہو،ہمارا اپنا مسلم بلاک اور عالم اسلام کے ساتھ تجارتی،سفارتی تعلقات ہوں،ہمارے اپنے قوانین ہوں،اگر آج ہم دنیا سے ایک قدم آگے چل رہے ہوں تو۔۔مجال ہے کسی گیرٹ ویلڈر کی،کسی ٹرمپ کسی اوبامہ کی کہ ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھے،کوئی ملعونہ پیدا ہو سکتی ہے اس پاک سر زمین پر،یا پاکستان میں دین حق کے عملی اطلاق میں کوئی چیز مانع ہو سکتی ہے؟کبھی بھی نہیں،ایک بات یاد رکھیں،ہمیں سنبھلنا ہوگا،

Advertisements
julia rana solicitors london

اور دوڑنا ہوگا،وقت کے ساتھ،ہمیں وقت کے تقاضے پورے کرنے ہوں گے،جب ہم عالم کفر کے برابر یا اس سے آگے دوڑیں گے پھر ہی اسے روک سکیں گے ٹکر دے سکیں گے،اگر اپنی جگہ کھڑے رہے تو پیچھے سے صرف چیخ چلا سکیں گے جو آج بھی کر رہے ہیں،،ہمیں معاشی جنگ،معاشی طریقے سے،میڈیا وار،میڈیا سے،ہائبرڈ وار ،ہائبرڈ سے،قانونی جنگ،قانونی طریقے سے،علمی جنگ علم سے،اور آج کی تمام تر جنگ حکمت سے لڑنی ہوگی تو ہی ہم کامیاب ہو سکتے ہیں،ورنہ معاذاللہ یہ گستاخیاں بھی رکنے والی نہیں،آپکی تذلیل بھی رکنے والی نہیں،آپکی بقاء کی بھی ضمانت نہیں،لہٰذا سنبھل جائیے،سوچیئے سمجھیے،جذبات کو حکمت کے سینچے میں ڈھالیے،طریقہ کار کے مطابق چلیے،اپنے اٹھائے جانے والے اقدامات اور ان کے اثرات کا پیشگی اور دوراندیشی سے جائزہ لیجیئے،لاحاصل سے بچیے،مثبت کوشش کیجیے،حق کے لیے لڑتے ہوئے حکیمانہ انداز اپنایے،بہترین طریقے کا انتخاب کیجیے پھر ہی ہم صحیح معنوں میں دین حق اور وطن عزیز کی سر بلندی کے لیے،دفاع کے لیے مجاہدانہ کردار ادا کر سکیں گے،ورنہ تو اپنے پاوں پر خود کلہاڑی مارنے کی سنگین غلطی۔۔۔!!

Facebook Comments

ماسٹر محمد فہیم امتیاز
پورا نام ماسٹر محمد فہیم امتیاز،،ماسٹر مارشل آرٹ کے جنون کا دیا ہوا ہے۔معروف سوشل میڈیا ایکٹوسٹ،سائبر ٹرینر،بلاگر اور ایک سائبر ٹیم سی ڈی سی کے کمانڈر ہیں،مطالعہ کا شوق بچپن سے،پرو اسلام،پرو پاکستان ہیں،مکالمہ سمیت بہت سی ویب سائٹس اور بلاگز کے مستقل لکھاری ہیں،اسلام و پاکستان کے لیے مسلسل علمی و قلمی اور ہر ممکن حد تک عملی جدوجہد بھی جاری رکھے ہوئے ہیں،

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply