آج ہمارے معاشرے میں شدید اخلاقی انحطاط پایا جاتا ہے۔ لوگ جوق در جوق بے راہ روی کا شکار ہورہے ہیں۔لوگوں نے نیکی اور بدی، حلال اور حرام کی سمجھ بوجھ ر کھنا چھوڑ دیا ہے۔ آخر اس معاشرتی بگاڑ کی وجہ کیا ہے؟۔ہمیں غور کرنا ہوگا کہ کیا ہم بحیثیت مسلمان اپنا فرض اچھے طریقے سے ادا کررہے ہیں، کیا ہم اپنے نفس کا محاسبہ کررہے ہیں، کیا ہم سیدھے راستے پر ہیں، کیا ہم اپنے ماتحت اور اہل و عیال کی اصلاح کا ذریعہ بن رہے ہیں، کیا ہم اپنے حقوق اور فرائض اچھے طریقے سے ادا کررہے ہیں؟ اب ہمارے ا س معاشرے میں نفرتوں اور تعصبات کی بجائے رواداری، برداشت اور عفو و درگذر کے جذبات کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ رواداری، برداشت، مذہبی ہم آہنگی کا ماحول کو ہم اسی صورت میں پروان چڑھاسکتے ہیں جب ہم محبت کے ذریعے لوگوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
آج کے معاشرے کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ ہم اپنی خوشیو ں میں دوسرے انسانوں کو شریک کریں اور دوسروں کے غموں میں باہم شریک ہوں۔دوسروں کے لیے خوشیاں کشید کرنے اور دوسرے انسانوں کے سماجی و معاشرتی مسائل کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ایک دوسرے کے ساتھ خیر خواہی کا معاملہ اپنائیں، اور جو مسائل ہمیں درپیش ہوں ان کو باہم اتفاق و یکجہتی سے حل کریں۔بلاشبہ اتفاق اتحاد اور یکجہتی انسانوں کی سب سے بڑی طاقت ہے اس کا مشاہدہ ہم زندگی کے ہر مرحلے میں کرتے ہیں۔ انسانوں کے زندگی گزارنے کا سماجی نظام اسی وحدت اور یکجہتی کو حاصل کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ اسی سے تہذیبیں وجود پذیر ہوتی ہیں اور نئے سماجی نظام نمو پاتے ہیں۔ ہمارے معاشرے اور حلقہ احباب میں انسانی یکجہتی کی شدید ضرورت ہے، دوسروں کے ساتھ خیر خواہی کرنے والے جذبے کو بیدار کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ دوسروں کے دکھوں کو بانٹنے، نفرتوں اور بے حسی کی روش ترک کرتے ہوئے ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بننے کی ضرورت ہے ۔ معاشر ے کی اہم ضرورت میں سے ایک معاشرے کی اصلاح ہے جس پر ہم خود کوئی عملی اقدام نہیں کرتے۔ دوسروں کے حق میں ہم بہترین جج اور اپنے حق میں ہم بہترین وکیل ہیں۔ دوسروں پر ہم جھٹ سے کفر، شرپسند یا فسادی ہونے کا فیصلہ سنا دیتے ہیں اور اپنی ہر چھوٹی بڑی غلطی کی ہزاروں تاویلیں، دلائل پیش کرکے اپنا دفاع کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔معاشرے کی اصلاح کے لیے واحد کام جو ہم کرتے ہیں وہ دوسروں کو نصیحت ہے۔ ہم ہر اچھے کام کی دوسروں کو نصیحت کرکے سمجھتے ہیں ہمارا فرض پورا ہوگیا۔ اسی نصیحت پر خود عمل پیرا ہونا بھول جاتے ہیں۔ عمل قول سے زیادہ تاثیر رکھتا ہے معاشرے کی اصلاح ہماری اپنی ذات سے شروع ہوتی ہے۔ اصلاح آپ کے قول سے نہیں آپ کے عمل سے ہوگی لوگ یہ نہیں دیکھتے کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں لوگوں کی توجہ اس بات پر زیادہ ہوتی ہے کہ آپ کیا کر رہے ہیں۔
سب سے پہلے خود میں بہتری لانے کی کوشش کیجیے۔ جب تک آپ خود بہتر نہیں ہوں گے آپ دوسروں کو بھی بہتر نہیں بنا سکتے۔ اگر ہم میں سے ہر شخص صرف اپنی ذات کو بہتر بنانے میں لگ جائے تو ہمارا سارا معاشرہ بہتر ہوجائے گا۔جس معاشرے میں انصاف مہنگا ہو جائے تو اس معاشرے میں جرائم اور بدامنی عام ہو جاتی ہے، انصاف ہر فرد کی ضرورت ہے جو اسے بلاتفریق اس کی دہلیز پر ملنا چاہیے، قرآن حکیم میں اللہ کریم نے عدل قائم کرنے کی تلقین فرمائی ہے، عدل قائم کرنے کا حکم دیا ہے، سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’جب کوئی فیصلہ کرو تو انصاف کے ساتھ کرو‘‘ انبیائے کرائم اور رسولوں کی بعثت کا سب سے بڑا مقصد لوگوں کی زندگیوں میں عدل کو قائم کرنا بھی ہے، عدل سے ہی ایک معاشرہ پوری طرح پرامن معاشرہ بن سکتا ہے، مثالی معاشرے کے قیام کیلئے ضروری ہے کہ انسان اپنے اخلاق و کردار میں عدل قائم کرے، جب تک انسان اپنے کردار اور اخلاق میں عدل قائم نہیں کرے گا اس وقت تک وہ معاشرے میں عدل قائم نہیں کر سکتا، عدل و انصاف ہی انسانیت کی خوشحالی اور بقاء کا سب سے بڑا ذریعہ ہے، حضور اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ پوری انسانیت کیلئے نمونہ عمل ہے، حضور اکرم ﷺ سے تربیت پانے والے صحابہ کرام نے زندگی کے تمام شعبوں میں کردار و گفتار کے حوالے سے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں عدل و انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کا حسن اور اسکی اساس ہے۔
دنیائے عالم کی مختلف اقوام اپنی تہذیب و ثقافت کی رو سے کسی نہ کسی انداز میں معاشرے میں مساوات اور عدل و انصاف کی قائل اور دعویداردکھائی دیتی ہیں۔دین اسلام کو یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ اس کی بنیادی اور اولین تعلیمات میں سے معاشرے میں عدل و قسط کا قیام اور ظلم و جور کا خاتمہ ہے ناانصافی، بدامنی کو جنم دیتی ہے اور انصاف امن، بھائی چارے اور اخوت کو لاتا ہے، حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے ’’بے شک میں اخلاق کی خوبیوں کو تمام کرنے کیلئے مبعوث کیا گیا ہوں‘‘ آپ ﷺ کے اس فرمان عالی شان کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اخلاق کاایک مصداق معاشرے میں عدل قائم کرنا بھی ہے، آپ ﷺ سے رہنمائی لینے والے خلفائے راشدین نے بھی عدل و انصاف کو قائم کیے رکھا جس کی وجہ سے ان کے ادوار میں امن و امان قائم رہا ان کا عدل و انصاف آج دنیا میں رہنے والے تمام انسانوں کیلئے نمونہ ہے۔معاشرے کو اس علم کی ضرورت ہے جو جہالت کے خاتمے اور لوگوں کی بھلائی کے لیے ہوہمارے معاشرے کو دور حاضر میں تعلیم کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اقوام کی تقدیر نوجوان نسل کی تعلیم و تربیت پر منحصر ہوتی ہے۔ پاکستانی زمانہ حال میں ہماری ترقی و تنازلی کی حالت قابل رشک تو بالکل بھی نہیں ہے۔ ہمارا تعلیمی معیار اور اداروں کی حالت بد سے بدتر ہو چکی ہے۔ ہمارا نظام تعلیم و تربیت قابل رحم حالت میں ہے جس کو ایک فرشتہ صفت انسان کی راہنمائی کی اشد ضرورت ہے۔ ترقی کا واحد راستہ تعلیم اور جستجو میں ہے۔ ضروری ہے کہ ہمارے معاشرے کے نوجوان بھی تعلیم و تحقیق کے میدان میں ترقی یافتہ ممالک کے شانہ بشانہ چلیں۔
آج کے نوجوانوں میں ایسی بیداری کی لہر جگانے کی ضرورت ہے کہ وہ وقت آنے پر مشکل سے مشکل حالات کا سامنا کر سکیں۔آج کے نوجوانوں میں شعور پیدا کرنا ہوگا تا کہ وہ ترقی کی منازل طے کر نے کے لیے سینہ ٹھوک کر میدان میں اتریں اور کامیابی کی اونچائیوں کی چھو سکیں۔ ظاہر سی بات ہے کہ ہمارے اس معاشرے میں تعلیم کی سہولت تو ہے لیکن ہمارے پاس اتنے وسائل اور وہ اعلیٰ تعلیمی معیار نہیں ہے جس کی وجہ سے بہت سے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کیلئے دوسرے ملکوں میں بھیجتے ہیں۔ اور وہ وہیں کے ہو کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک تعلیم کی کوئی اہمیت ہی نہیں ہے وہ آج بھی زمانہ جاہلیت کے اصولوں کو اپناتے ہیں۔ اسی دقیانوسی سوچ کے مالک ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کروانے کو گناہ سمجھتے ہیں اور آج بھی خود کو اسی گھٹیا سوچ تلے دبا کر رکھا ہے۔ہمارے اس معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کے خواہشمند تو ہوتے ہیں لیکن اسی کی حیثیت نہیں رکھتے۔ آج ہمارے یہاں تعلیم کا معیار زوال پذیر ضرور ہے۔ لیکن یہیں سے بہت سے بڑے لوگوں نے تعلیم حاصل کر کے اپنا نام دنیا بھر میں روشن کیا۔ لہذا ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو بہتر بنانا ہو گا۔ علم، صحت، روزگار کے بہتر مواقع اور بہترین ماحول فراہم کرنا ہو گا۔ ان کی حوصلہ افزائی کرنی ہو گی تا کہ ہمارے نوجوان ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں کیونکہ وہی ہماری امید کا مرکز ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں