• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی پیشکش

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کی سانحہ ساہیوال کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی پیشکش

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان نے سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو واقعے کی جوڈیشل انکوائری کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے عینی شاہدین کو طلب کرکے بیانات ریکارڈ کرنے کا حکم دے دیا۔

چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس سردار محمد شمیم خان کی سربراہی میں جسٹس صداقت علی خان پر مشتمل دو رکنی بنچ نے سانحہ ساہیوال پر جوڈیشل کمیشن بنانے کی درخواستوں پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران وفاقی حکومت کے وکیل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ‘وزیراعظم نے پنجاب حکومت سے سانحہ ساہیوال پر رپورٹ مانگ لی ہے’۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ ‘متاثرہ فریقین نے وزیراعظم سے جوڈیشل کمیشن بنانے کے لیے استدعا نہیں کی’۔

جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ ‘یہ بتائیں کیا ضروری ہے کہ کوئی متاثرہ فریق ہی درخواست دے؟’

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ‘یہ ضروری نہیں کہ جوڈیشل کمیشن کے لیے متاثرہ فریق درخواست دے’۔

جسٹس صداقت علی خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ‘وقوعہ کی تاریخ بتائیں’۔

ساتھ ہی انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ‘یہ ہوا میں لکھتے ہیں، سب کچھ ہو رہا ہے، لیکن کاغذ میں کچھ نہیں ہوتا’۔

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ‘جے آئی ٹی جائے وقوع کا بار بار دورہ کر رہی ہے جبکہ سی سی ٹی وی فوٹیج اور اہلکاروں کو لیب میں بھجوا دیا گیا ہے’۔

جسٹس صداقت علی خان نے سرکاری وکیل سے استفسار کیا کہ ‘کن کن کے بیانات ریکارڈ کئے گئے ہیں؟ چشم دید گواہان کے بیانات سے متعلق بتائیں’۔

سرکاری وکیل نے بتایا کہ ‘ابھی تک چشم دید گواہ کا بیان ریکارڈ نہیں ہوا’۔

سماعت کے دوران سرکاری وکیل نے عدالت عالیہ کو بتایا کہ ‘سانحہ ساہیوال کے تمام ملزمان جسمانی ریمانڈ پر ہیں اور اے ایس آئی محمد عباس کا بیان ریکارڈ کیا گیا ہے’۔

دوران سماعت چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے مقتول خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل بیرسٹر احتشام سے استفسار کیا کہ ‘کیا آپ کا کوئی گواہ موجود ہے؟’

جس پر بیرسٹر احتشام نے جواب دیا کہ ‘عمیر خلیل ہمارا اہم گواہ ہے، ابھی اس کا بیان جمع کرا رہے ہیں’۔

جسٹس محمد شمیم خان نے ہدایت کی کہ ‘آج ہی عمیر کا بیان ریکارڈ کرائیں’۔

چیف جسٹس نے بیرسٹر احتشام سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ ‘آپ عینی شاہدین کے نام دیں، اگر آپ ان پر بھروسہ کریں گے تو آپ کا کیس خراب ہوجائے گا’۔

اس موقع پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے متاثرین کو جوڈیشل کمیشن کی بجائے جوڈیشل انکوائری کرانے کی پیشکش کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر آپ کہیں تو جوڈیشل انکوائری کا حکم دے سکتے ہیں’۔

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ ‘جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آپ کیس کا حصہ نہیں بنا سکیں گے، لیکن اگر مجسٹریٹ سے جوڈیشل انکوائری کروائی جائے تو وہ کیس کا حصہ بن سکے گا’۔

جس پر مقتول خلیل کے بھائی جلیل کے وکیل نے جوڈیشل انکوائری کرانے کے لیے مہلت دینے کی استدعا کردی، جسے عدالت عالیہ نے منظور کرلیا۔

دوران سماعت مقتول ذیشان کی والدہ کے وکیل سید فرہاد علی شاہ نے موقع کے گواہ ڈاکٹر ندیم، میاں عامر اور رشیدکی فہرست پیش کردی۔

جس پر چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ نے حکم دیا کہ ‘جے آئی ٹی عینی شاہدین کو فون کرکے بلائے اور گواہوں کے بیانات ریکارڈ کرے’۔

سماعت کے بعد عدالت عالیہ نے حکم دیا کہ وفاقی حکومت ایک ہفتے کے اندر جوڈیشل کمیشن کی تشکیل سے متعلق آگاہ کرے، بعدازاں درخواستوں پر سماعت 14 فروری تک ملتوی کردی گئی۔

سانحہ ساہیوال

گذشتہ ماہ 19 جنوری کی سہہ پہر پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) نے ساہیوال کے قریب جی ٹی روڈ پر ایک مشکوک مقابلے کے دوران گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کردی تھی، جس کے نتیجے میں ایک عام شہری خلیل، اس کی اہلیہ اور 13 سالہ بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور تین بچے زخمی ہوئے جبکہ 3 مبینہ دہشت گردوں کے فرار ہونے کا دعویٰ کیا گیا۔

واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کی جانب سے متضاد بیانات دیئے گئے، واقعے کو پہلے بچوں کی بازیابی سے تعبیر کیا گیا، تاہم بعدازاں ویڈیو منظر عام پر آنے کے بعد مارے جانے والوں میں سے ایک کو دہشت گرد قرار دے دیا گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میڈیا پر معاملہ آنے کے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی واقعے کا نوٹس لیا، دوسری جانب واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہلکاروں کو حراست میں لے کر تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی تشکیل دے دی گئی، جس کی رپورٹ میں مقتول خلیل اور اس کے خاندان کو بے گناہ قرار دے کر سی ٹی ڈی اہلکاروں کو ذمہ دار قرار دے دیا گیا

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply