ترقی کی دوڑ اور ہمارا نظامِ تعلیم ۔۔۔وقار احمد چوہدری

معمول کے برعکس آج میری آنکھ جلدی کھل گئی اسکی وجہ یہ تھی کہ ایک پروگرام میں شرکت کرنی تھی جسکا وقت 10 بجے صبح تھا۔تیار ہو کر سوچا پہلے دفتر جاوں پھر کچھ دیگر دوستوں کے ساتھ پروگرام میں شرکت کی جائے۔گھر سے تھوڑا دور ہی تھا کہ مجھے محسن راستے میں ساڑھے آٹھ بجے ملا وہ سکول سے واپس گھر کی طرف جا رہا تھا اور مجھے وہ کچھ ڈرا ڈرا سا محسوس ہوا۔میں رُکا اور پوچھا محسن بیٹا سکول سے صبح صبح ہی واپس آ گئے طبیعت تو ٹھیک ہے نا؟محسن شرارتی مسکراہٹ کے ساتھ گویا ہوا‘‘اگر سکول جاتا تو طبیعت صاف کر دینی تھی ماسٹروں نے اسی لیے سکول کے باہر سے ہی بھاگ کر گھر واپس جارہاہوں’’میرے مزید استفسار پر اس نے بتایا کہ سکول میں ماسڑ صاحبان اس قدر تشدد کرتے ہیں کہ سکول گیٹ سے اندر جانے کا دل نہیں کرتا اور سکول ایک قید خانہ لگتا ہے،اب گھر جاوں گا اماں کی تین چار جھڑکیں کھاوٗں گا اور سارا دن کھیلوں گا،جس دن گھر والے زبردستی سکول چھوڑ آئیں گے اس دن مار بھی کھانی پڑے گی اور سکول بھی رہنا پڑے گا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

محسن ایک سلجھا ہوا لڑکا ہے اور اس نے سکول سے بھاگ کر کہیں مٹرگشت کرنے سے گھر آنا بہتر سمجھا۔کیا محسن کو پڑھانے والے ماسٹر بھی سلجھے ہوئے مہذب انسان ہیں۔جب دنیا کائنات کو فتخ کر رہی ہے اور چاند پر انسانی زندگی بسانے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے عین اسی وقت میں ہم اپنے تعلیمی اداروں میں طلباء وطالبات پر تشدد کر رہے ہیں اور وہ بے چارے استاد سے محبت کے بجائے خوف کے مارے سکول سے بھاگنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق مار کھانے والا بچہ کبھی بھی مارنے والے کے ساتھ گھل مل نہیں سکتا اور اسکے سوال کرنے کی صلاحیت پر بچپن سے ہی ڈر غالب آ جاتا ہے اور پھر وہ ساری زندگی کسی فرم میں چھوٹی موٹی ملازمت،کسی ہوٹل پر لانگری یا کسی گودام میں ٹرک لوڈ کرتے گزار دیتا ہے،وہ کبھی نہیں سوچتا کہ مجھے بھی کچھ ایجاد کرنا چاہیے نہ اسکو یہ خیال آتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی نالائق نہیں بلکہ قدرت نے ہر فرد کو کوئی نہ کوئی خوبی ضرور عطا کی ہوتی ہے۔ہمارے ہاں بچپن سے ہی ڈنڈے کے زور پر بچوں کو پڑھایا جاتا ہے اور اگر ان میں سے کوئی پڑھ کر محکمہ تعلیم میں بھرتی ہو جائے تو وہ روایتی انداز میں ڈنڈے کے زور پر ہی علم تقسیم کرتا ہے۔ہمارے ہاں مدرسوں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں تشدد کا عنصر اس قدر غالب آ چکا ہے کہ طلباء کے والدین بھی سمجھتے ہیں کہ تشدد کے بغیر تعلیمی نظام جاری نہیں رہ سکتا،اکثر مدرسوں اور سرکاری سکولوں سے طلباء تشدد کی وجہ سے بھاگ جاتے ہیں اور پھر کم عمری میں آوارہ دوستوں کے ساتھ مختلف وارداتوں کا حصہ بن جاتے ہیں۔ہمارا سرکاری سطح پر تعلیمی نظام انتہائی بوسیدہ اور قدیم ہوچکا ہے جسے ازسر نو جدت کے تقاضوں پر استوار کیا جانا چاہئے۔
نچلی سطح کے نجی تعلیمی اداروں میں تشدد کا عنصر چین سسٹم سکولوں کی نسبت ذرا کم ہے اسکی ایک بڑی وجہ والدین کی بچوں پر توجہ بھی ہے اور اس توجہ کی ایک بڑی وجہ بچوں پر خرچ ہونے والی بھاری رقم ہے جسکی وجہ سے والدین کو احساس رہتا ہے کہ ان بچوں کے بہتر مستقبل کیلئے ان پر رقم خرچ ہو رہی ہے لہذا روزانہ کی یا ہفتہ وار سکول کارگزاری پر نظر رکھی جاتی ہے جسکی وجہ سے بچوں کی تعلیم قدرے بہتر ہوتی ہے اسکے برعکس سرکاری اداروں میں پڑھنے والے بچوں کے 80 فیصد والدین کو دلچسپی ہی نہیں ہوتی کہ انکے بچے کیا پڑھ رہے ہیں بس اتنا پتہ ہوتا کہ’’مُنا سکول روز جا رہا‘‘۔
مدرسوں،سرکاری سکولوں اورچھوٹے پرائیویٹ اداروں کے بعد ذکر آتا ہے چین سسٹم سکولز اور کالجز کا۔یہ ایسے ادارے ہوتے ہیں جن کی برانچیں مختلف شہریوں میں ہوتیں ہیں اور بھاری فیسوں اور داخلوں کے عوض تعلیم کا زیور آفیسران اور بڑی کاروباری شخصیات کے لاڈلوں کے گلوں میں ڈالتی ہیں۔چین سسٹم سکولز میں بہترین سہولیات دی جاتی ہیں اور بین الاقومی جدید ترین نصاب پڑھایا جاتا۔اصل تعلیم تو چین سسٹم سکولز میں دی جاتی۔جہاں طلباء و طالبات کھل کر سوال کر سکتے،جہاں بیٹھنے کیلئے بہترین کلاس رومز مہیا ہوتے،جہاں پینے کا فلٹر پانی ملتا،جہاں باتھ روم ہوتے،جہاں بچوں پر تشدد نہیں کیا جاتا اور جہاں پڑھنے والا کوئی محسن سکول کو قید خانہ نہیں سمجھتا۔
راقم تعلیمی نظام پر اخبارات میں بھی لکھ چکا اور ایجوکیشنل ایکسپرٹس کے ساتھ متعدد دفعہ پروگرام بھی کر چکا مگر تاحال نظام تعلیم پر ذرا بھر بھی توجہ نہیں دی گئی،کیونکہ ریاست کو چلانے والی اشرافیہ کے گھروں کے چشم و چراغ یا تو چین سسٹم سکولوں میں یا پھر بیرون ملک پڑھ رہے ہیں اور انہی نے پڑھ کر اس ملک کو سنبھالنا ہے۔سرکاری کھنڈر نما سکولوں میں تو عام عوام کے بچے پڑھتے ہیں جو ڈگریاں لے کر بھی در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں یا پھر غلط صحبت کا شکار ہو کر easy money کے چکر میں ہیں۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم دنیا میں عملی طور پر ترقی کریں تو ہمیں اپنی مدرسوں اور سرکاری سکولوں کو چین سسٹم سکولوں کے برابر لانا ہوگا،ہماری گورنمنٹ کو تعلیم کیلئے بھاری بجٹ پاس کرنا ہوگا اور ہر سرکاری ملازم کیلئے لازم قرار دینا ہو گا کہ وہ اپنا بچہ سرکاری تعلیمی ادارے میں بھیجے تاکہ سرکار کی توجہ ان کیڑے مکوڑوں جیسے طلباء پر بھی رہے،ساتھ ہی ساتھ ہمیں اساتذہ کیلئے تربیتی ورکشاپس منعقد کرنا ہوں گی جس میں انہیں بچوں کی نفسیات کے باری آگاہی دی جائے تاکہ وہ طلباء وطالبات کی موثر انداز میں تربیت کرسکیں گے۔سرکاری ادارے
جدید ترین نصاب کو جدید ترین طرز سے پڑھائیں گے تو ہی دنیا کا مقابلہ کر سکیں گے ورنہ ترقی کی دوڈ میں ہماری قوم ہی روند دی جائے گی۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply