بچی بڑی خوش رہے گی۔۔۔۔گل نوخیز اختر

حاجی اقبال صاحب نے تصویر میری طرف بڑھائی اور قدرے جھجکتے ہوئے بولے’’رنگ ذرا کالا ہے ‘ تعلیم بی اے ہے‘ پرائیویٹ نوکری ہے اور گھر بھی اپنا نہیں۔۔۔آپ پلیز ان سے معذرت کر لیجئے۔‘‘ میں نے سرکھجاتے ہوئے تصویر وصول کی’’ٹھیک ہے لیکن آپ کی کیا ڈیمانڈ ہے؟‘‘۔ حاجی صاحب نہایت ملائمت سے بولے’’دیکھیں لڑکا کم ازکم شکل و صورت کا اچھا ہو‘ اچھا کماتا ہو تاکہ میری بیٹی سُکھی تو رہ سکے۔‘‘ میں نے سرہلایا ’’حاجی صاحب! جو لڑکا اچھا کماتا ہوگا‘ شکل و صورت کا بھی اچھا ہوگا‘ آخر اس کی بھی تو کوئی ڈیمانڈ ہوگی‘‘۔حاجی صاحب جلدی سے بولے’’ہاں تو بتائیں ناں! ہے کوئی ایسا لڑکا نظر میں؟‘‘۔ میں نے گہری سانس لی’’جی ہاں! ایک ہے تو سہی۔کاروں کا شوروم ہے اس کا‘ ایم اے انگلش ہے اور اونچا لمباگورا چٹا ہے۔‘‘ حاجی صاحب اچھل پڑے’’تو وہ دکھائیں ناں ‘ اِس کو گولی ماریں ‘‘۔ میں نے ان سے وعدہ کیا کہ میں لڑکے کے گھر والوں سے پوچھ کر بتاؤں گا۔
سچی بات ہے مجھے کنوارے لڑکے ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ کم بخت اتنے مزے کی زندگی گذارتے ہیں کہ حسد کے مارے سوچ سوچ کر دماغ ابلنے لگتا ہے۔ سو میرے پاس بدلہ لینے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جہاں کوئی خوش وخرم لڑکا دیکھوں۔ فوراً کہیں نہ کہیں اُس کی شادی کروا دوں۔الحمد للہ میری بدولت بہت سے ہنستے بستے لڑکے جو کبھی موٹر بائیک پر اٹھکیلیاں کرتے پھرتے تھے آجکل سبزی والے کی دوکان پر چھانٹ چھانٹ کر اچھے آلو خریدتے نظر آتے ہیں۔ایسے ہی ایک تازہ تازہ شادی شدہ لڑکے سے میں نے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خوش ہوتے ہوئے پوچھا’’ہاں بھئی! آج کل بالوں میں جیل نہیں لگارہے اور میوزک بھی نہیں سنتے‘ سب خیر تو ہے ناں؟‘‘۔ اُس نے ایک ٹھنڈی سانس بھری ’’بس جی کوشش کر رہا ہوں کہ کسی طرح پہلے والی زندگی لوٹ آئے‘‘۔ میں نے دل ہی دل میں دندیاں نکالیں اور بظاہر بڑی متانت سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا’’بیٹا! اگر رہے وہ دن نہیں تو انشاء اللہ جاتے یہ بھی نہیں‘‘۔
حاجی اقبال میرے محلے دار ہیں۔ کافی پرانی واقفیت ہے۔ ان کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ حاجی صاحب روایتی انداز میں اِن کی شادیاں کرنا چاہتے ہیں ۔ یعنی بلحاظ ترتیب پہلے بڑی بیٹی کی شادی ہو‘ پھر دوسری کی ‘ پھرتیسری کی اور سب سے آخر میں بیٹے کی۔اسی ترتیب کو نبھاتے نبھاتے ان کی بڑی بیٹی کی عمر تیس سال ہوچکی ہے‘ چہرے پر ہلکے سے چیچک کے داغ ہیں اور تھوڑے سے دانت باہر کو نکلے ہوئے ہیں۔ لیکن انتہائی سعادت مند اور فرمانبردار ہے۔وہ چاہتے ہیں کہ میں ان کی بیٹی کے لیے کوئی اچھا سا لڑکا ڈھونڈوں۔ میں دس گیارہ لڑکوں کی تصویریں اور بائیو ڈیٹا انہیں فراہم کرچکا ہوں لیکن انہیں کوئی پسند نہیں آتا۔تاہم اب انہوں نے شوروم والے لڑکے کے حوالے سے پسندیدگی کا اظہار کیا ۔ یہ لڑکا میرے دوست کا بیٹا ہے ۔ میں نے دوست سے بات کرنے کی بجائے پہلے حاجی صاحب کو لڑکے کی تصویر وغیرہ دکھائی ۔ ایک دفعہ بہانے سے اس کے شوروم پر بھی لے گیا۔ حاجی صاحب بہت خوش تھے۔ انہیں لڑکا ہر لحاظ سے پسند تھا۔حاجی صاحب کی تسلی ہوگئی تو میں نے اشاروں کنایوں میں دوست سے بات کی۔وہ گہری سوچ میں گم ہوگیا۔ میں نے تسلی دی کہ رشتہ ہونا نہ ہونا تو بعد کی بات ہے‘ ایک دفعہ حاجی صاحب کے گھر جانے میں کیاحرج ہے۔ دوست نے اثبات میں سرہلایا اورقدرے دھیمی آواز میں بولا’’یار تمہیں تو پتا ہے آجکل کے بچوں پر زورزبردستی تو ہونہیں سکتی‘ ایسا کرتے ہیں ہم شائق بیٹے کو بھی ساتھ ہی لے چلیں گے تاکہ اگر اسے لڑکی پسند آجائے تو وہیں کوئی شگون وغیرہ کرلیں۔‘‘ میں نے فوری طو رپر تجویز کی حمایت کردی۔
ایک ہفتے بعد میرا دوست‘ اس کی وائف اور بیٹا شائق حاجی صاحب کے گھر موجود تھے۔حاجی صاحب کی فیملی بہت خوش تھی۔ کچھ دیر بعد روایتی انداز میں چائے کے بہانے ان کی بڑی صاحبزادی اندر داخل ہوئی۔ سلام لیا‘ چائے بنائی‘ کچھ دیر بیٹھی اور چلی گئی۔تھوڑی دیر گپ شپ کے بعد ہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگلے دن میرے دوست نے مجھے شائق کا جواب بتا دیا۔ حاجی صاحب تشریف لائے تو میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں انہیں کیسے بتاؤں کہ لڑکے نے ان کی صاحبزادی کو ریجکٹ کردیا ہے۔ میں نے ڈائریکٹ بات کرنے کی بجائے عمومی انداز میں کہا’’حاجی صاحب! آج کل لڑکوں کی ڈیمانڈز بہت ہوگئی ہیں۔ شائق کو بھی شوق ہے کہ اس کی بیوی کسی اونچے گھرانے سے ہو‘ گاڑی چلاتی ہو‘ کم عمر ہو اور بہت زیادہ حسین ہو۔‘‘ حاجی صاحب کے نتھنے پھول گئے’’یعنی جواب ہے؟‘‘۔میں کھسیاناہوگیا’’نہیں! کچھ بھی جواب نہیں ‘ وہ تو بس اپنی پسند بتا رہا تھا‘‘۔ حاجی صاحب کچھ دیر مجھے غور سے دیکھتے رہے۔ پھر بمشکل اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے بولے’’لعنت ہو ایسے لڑکوں پر جو سیرت کی بجائے صورت اور مال کو ترجیح دیتے ہیں‘ ان بے غیرتوں کو شرم نہیں آتی کہ یوں پلک جھپکتے میں کسی بھی بچی کو ریجکٹ کرکے چلے جاتے ہیں۔۔۔‘‘ حاجی صاحب بولتے رہے اور میں سنتا رہا۔۔۔!!!
اگر لڑکی والوں کو خوبصورت ‘ کماتا کھاتا اور پڑھا لکھا دامادچاہیے تو کیا لڑکے والے اپنی بہو کے حوالے سے ایسی کوئی خواہش نہیں رکھ سکتے؟کیا وجہ ہے کہ ڈیمانڈز صرف لڑکے والوں کی ہی مشتہر ہوتی ہیں۔لڑکے والے جہیز مانگیں تو ان پر لعنت‘اور لڑکی والے شادی سے پہلے پلاٹ لکھوانے کی بات کریں تو یہ ان کا حق۔لڑکی اگر خوابوں کا شہزادہ چاہتی ہے تو لڑکے کے بھی کچھ خواب ہوتے ہیں۔بدقسمتی سے معمولی سے معمولی شکل و صورت اور غریب خاندان کی لڑکی بھی خوبصورت اور مالی طور پر مستحکم لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ بالکل ٹھیک ہے‘ یہ اس کا حق ہے۔ لیکن لڑکا بھی اگر یہی ڈیمانڈ رکھے تو نفرت کا نشانہ کیوں بن جاتا ہے؟ لڑکی والے دس لڑکوں کو بھی ریجکٹ کردیں کوئی بات نہیں‘ لیکن اگر کوئی لڑکا ان کی لڑکی کو ریجکٹ کرجائے تو دنیا بھر کا لالچی اور گھٹیا کہلاتا ہے۔لڑکے کا کریکٹر چیک کرنا ہو تو لڑکی والے اس کے دوستوں رشتہ داروں تک کے پاس جاپہنچتے ہیں۔ لیکن تصور کیجئے کہ یہ حرکت اگر لڑکے والے کرلیں تو ؟؟؟
آج کل لڑکے نہیں لڑکی والے جہیز مانگتے ہیں۔ اپنا گھر‘ گاڑی‘ بینک بیلنس۔۔۔تاکہ بچی خوش رہ سکے۔گویا لڑکے کو زیب ہی نہیں دیتا کہ وہ بھی سُکھی رہنے کا خواب دیکھے۔لڑکیوں کی شادیاں بروقت نہ ہونے کا سبب یہ نہیں کہ لڑکے نہیں ہیں‘ لڑکے تو ہیں لیکن مطلب کے نہیں۔سب کو ایک پلا پلایا‘خوشحال اوربانکا سجیلاداماد چاہیے۔عموماً لڑکی والوں نے ہی یہ طے کیا ہوا ہے کہ غریب‘ کالا اور کم تعلیم یافتہ لڑکا ان کی لڑکی کے لیے موزوں نہیں ۔لیکن اُن کی لڑکی میں کوئی نقص نکال کر تو دیکھے۔میٹرک پاس لڑکی کو بھی ایم اے پاس لڑکا چاہیے۔ قسمت ہو تو مل بھی جاتا ہے لیکن عموماً ایسا ہوتا نہیں۔لڑکی کی طرح لڑکے کے پیچھے بھی اس کی فیملی ہوتی ہے جن کا جرم یہ ہوتاہے کہ وہ بھی اپنے بیٹے کے لیے کھاتی پیتی اورچاند سی بہو چاہتی ہے۔
حاجی اقبال سے میں نے ایک دفعہ باتوں باتوں میں پوچھا کہ آپ پہلے اپنے بیٹے کی شادی کیوں نہیں کر دیتے؟ گردن اکڑا کر بولے’’ہاں سوچا جاسکتا ہے لیکن ذہن میں رکھنا‘ ایم اے پاس ہے میرا گھبرو ندیم‘ویسے کوئی باہر کی فیملی ہو تو بتانا‘بچی بڑی خوش رہے گی‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors

بشکریہ جنگ اخبار

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply