قومی دولت کی لوٹ مار اور میڈیا کا کردار۔۔۔آصف محمود

31 جنوری 2019 کی خبر یہ تھی کہ ڈان نیوز نے اپنے ملازمین کی تنخواہوں میں 40 فیصد کٹوتی کا اعلان کیا ہے۔
اس سے پہلے بھی کئی چینلز کے بند ہونے اور کئی چینلز اور اخبارات کے اپنے ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی خبریں آتی رہی ہیں۔

ایک کے بعد ایک نیوز چینل اور نیوز پیپر سے مالی مشکلات کی خبریں آ رہی ہیں اور کئی بھاری بھرکم صحافیوں کو بھی نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے۔

اس سے ایک بات یقینی ہو گئی ہے کہ ملک کو لوٹنے میں میڈیا نے بھی بھرپور کردار ادا کیاہے ۔ اب یہ بات کھل کر واضع ہو رہی ہے کہ یہ میڈیا ہاوسز زیادہ تر حکومتی اشتہاروں کے سر پہ چلتے تھے اور حکومتوں سے اربوں روپے لیکر سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرتے تھے۔

ڈان نیوز نے نومبر 2018 میں ایک خبر شائع کی تھی جس میں ڈان نیوز کی ذیلی ایجنسی اور کراچی کی ایک ایڈورٹائزنگ ایجنسی کی تحقیقات کی روشنی میں یہ بتایا گیا تھا کہ سال 2017 میں حکومتی اور پرائیویٹ اشتہارات کی مد میں تقریبا 87 ارب روپے سے 90 ارب روپے کے اخراجات کیے گئے۔ اور اس میں سے 45 فیصد یعنی تقریبا 42 ارب روپے ٹیلی ویژن کے حصے میں آئے۔ اور اس 42 ارب روپوں میں سے تقریبا 45 فیصد حصہ 6 بڑے چینلز کے حصے میں آیا جس میں اے آر وائے، ہم ٹی وی اور جیو نیوز سر فہرست رھے۔
اسی طرح پرنٹ میڈیا کے حصے میں تقریبا 20 ارب روپے آئے اور اس میں سے 47 فیصد حصہ تین بڑے چینلز، جنگ، ایکسپریس اور ڈان نیوز کے حصے میں آیا۔

صرف ایک سال کے عرصے میں میڈیا انڈسٹری میں اتنی خطیر رقم کے اشتہارات اس بات کا ثبوت ہیں کہ میڈیا انڈسٹری میں کمائی کے بے تحاشہ مواقع موجود ہیں اور اسی طرح اس میں کرپشن کرنے کے چانسز بھی بہت زیادہ ہیں۔ چنانچہ یہ ممکن ہے کہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کیا جائے۔

دوسری طرف اس خطیر رقم میں ممکنہ طور پر زیادہ تر حصہ حکومتی اشتہارات کا ہوتا ہے اور اس میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی اپنی سیاسی جماعتوں، سیاسی شخصیات، اور اپنے سیاسی ایجنڈے کی تشہیر کے لئے قوم کے پیسے کو بے دریغ استعمال کرتے ہیں۔
دوسری طرف میڈیا ہاوسز نے ریٹنگ کے چکر میں بریکنگ نیوز کے ذریعے سنسی پھیلانے کے لئے ہر چھوٹی بات کو بھی بڑھا کر قوم کے سامنے پیش کیا اور اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ان میڈیا ہاوسز نے پیسے کمانے کی دوڑ میں لگ کر کھل کر زرد صحافت اور پروپیگنڈا نیوز کا سہارہ لیا۔ جس سے نہ صرف قوم کی دولت کو غیر ضروری طور پر لوٹا گیا بلکہ رائے عامہ کو بھی بری طرح سے کنفیوز کیا۔

اب جب پی ٹی آئی کی نئی حکومت نے 70 ارب کے اشتہارات روک کر میڈیا کے ساتھ مذاکرات کے بعد اشتہارات کے حوالے سے ایک مناسب ریٹ طے کر دیا ہے تو میڈیا ہاوسز کو واضع ہو گیا ہے کہ اب لوٹ مار نہیں چل سکتی۔
اس کا واضع ثبوت نامور صحافیوں کی نوکریوں سے برخاستی اور پھر یو ٹیوب پہ ویڈیوز بنا کر گزارہ کرنے سے ہوتا ہے۔

میڈیا ہاوسز نے، صحافیوں نے، قوم کے پیسے پہ، کرپٹ حکمرانوں کے ساتھ مل کر، قومی مفاد کے بجائے اپنے اپنے ذاتی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے غلط ملط خبریں سنسنی بنا کر پھیلائیں اور قوم کی ایک غالب اکثریت کو ہمیشہ حقائق سے دور رکھا۔

یہی وجہ ہے کہ ملک کے دو بڑے چور سیاسی خاندان پچھلے تیس پینتیس سال سے اس ملک کو بھیڑیوں کی طرح نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں اور آج بھی ان کے ہمدرد اور سپورٹرز ایک بڑی تعداد میں موجود ہیں۔ میڈیا نے اس گھناؤنے کھیل میں کمال مہارت سے سیاہ کو سفید اور سفید کو سیاہ کر کے پیش کیا اور رائے عامہ کو الجھائے رکھا۔ آج ملک میں حالت یہ ہے کہ کسی بھی درپیش مسئلے پہ آدھی قوم ایک طرف اور آدھی قوم دوسری طرف کھڑی ہوتی ہے۔

لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اب صحافی حضرات اور میڈیا ہاوسز اس طرف توجہ دیں اور ریٹنگ کے اس گھناؤنے کھیل سے باہر نکلیں تاکہ اپنے ملک و قوم کے لئے کچھ بہتر کردار ادا کر سکیں۔
حکومت کو چاہئیے کہ میڈیا کے حوالے سے ایک جامع اور بہتر پالیسی مرتب کرے جس سے میڈیا انڈسٹری کے بقایا جات کی ادائیگی ممکن ہو اور میڈیا ہاوسز میں چھپے ایسے عناصر کی نشاندہی کر کے مناسب کاروائی کی جا سکے جو حقائق کو مسخ کر کے پروپیگنڈا پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔

اور ساتھ ہی ساتھ عوام الناس سے بھی ہاتھ جوڑ کر التجا ہے کہ ہر خبر پہ بغیر تصدیق کے آمنا و صدقنا کی صدا بلند نہ کی جائے،تھوڑی تحقیق کی جائے، تھوڑا صبر کیا جائے اور خبر کو پرکھنے کے لئے تھوڑی سی کامن سینس استعمال کی جائے تاکہ خبر کی حقیقت معلوم ہو سکے اور پھر اسے آگے پھیلایا جائے یا شئیر کیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

شکریہ۔ بقلم خود آصف محمود اسلم۔ دبئی یو اے ای۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply