انتہا پسندی، ردِ عمل کی نفسیات۔اختر علی سید (آخری قسط بمعہ مکمل سیریز)

(مضامین کا یہ سلسلہ مغرب کے ساتھ ہمارے پیچیدہ تعلق کے نفسیاتی پہلوؤں کی یافت کی ایک کوشش ہے۔ استعمار کا جبر اور اسکے نتیجے میں تشکیل پاتی ردعمل کی نفسیات کا جائزہ مسلم دنیا بالعموم اور پاکستان کے مخصوص سیاسی اور سماجی حالات کے تناظر میں لینے کی ایک درسی کاوش ہے۔ معروف سائیکالوجسٹ ڈاکٹر اختر علی سید کی یہ علمی کاوش کل چودہ اقساط میں پیش کی گئی۔ پچھلی تمام اقساط کے لنکس اس تحریر کے آخر میں موجود ہیں۔ یہ تحریر اس سے قبل ہم سب پر بھی شائع ہوئی۔ طلبا یا محقیقین اس مکمل سلسلے کو بطور ریفرنس استعمال یا تعلیمی مقاصد کیلیے پرنٹ کر سکتے ہیں۔ ادارہ مکالمہ) 

اب تک کی گفتگو میں ہم نے ڈاکٹر اختر احسن کے ان چار اسالیب Mechanisms کا تذکرہ کیا جو انہوں نے بچے اور والدین کے درمیان تعلق کو دیکھتے ہوے دریافت کیے تھے. ہم نے ان اسالیب کا اطلاق استعمار اور محکومین کے تعلق پر کر کے اس کے مریضانہ پہلوؤں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے.

اس سلسلے کا پانچواں اسلوب شناخت Identity کا ہے. ہم سب جانتے ہیں کہ بچہ والدین کے نظریات، خیالات، عقائد، عادات، پسند اور نا پسند کو اختیار کر کے والدین کے حوالے سے اپنی شناخت استوار کرتا ہے. ایسا کر کے بچہ والدین کے قریب ہوتا ہے. ان کی شاباش حاصل کرتا ہے ان کا منظور نظر ٹھہرتا ہے اور اس طرح خود کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے…. محکومین استعمار کے ساتھ اپنے تعلق میں بھی یہی کچھ کرتے ہیں. نو آبادیاتی نظام پر بنیادی کام کرنے والے مفکرین نے محکومین کی اس خصوصیات کو خوب سمجھا اور انتہائی عمدگی سے بیان بھی کیا ہے. لیکن ڈاکٹر احسن کے کام سے ایک ایسے گوشے کی جانب رہنمائی ہوتی ہے جو ان سے پہلے کسی کی گرفت میں نہیں آئی تھی. ڈاکٹر اختر احسن نے یہ بتایا کہ شناخت کے حوالے سے بچہ والدین کے مابین تفریق کرتا ہے. … والدین ظاہر ہے دو مختلف انسان ہوتے ہیں اور ان کا ایک دوسرے سے مختلف ہونا لازمی اور فطری ہوتا ہے. اکثر صورتوں میں ماں اور باپ کے درمیان فرق بہت گہرا اور واضح ہوتا ہے. بچہ ایسی صورت میں کسی ایک کو رد کرکے دوسرے کی ذات، نظریات، عادات، اطوار، جائز و نا جائز اور صحیح و غلط کی تعریف کے قریب ہو جاتا ہے. بچہ جس شدت سے کسی ایک کے نظریات اور عادات اختیار کرتا ہے اسی شدّت سے دوسرے کے عادات و اطوار سے دوری اختیار کرتا ہے. اس کشمکش میں ایسا نہیں ہوتا کہ والدین میں سے ایک مکمل طور پر رد ہوجاے بلکہ بچہ مختلف حوالوں سے والدین کے مختلف طور اورطریقوں کا انتخاب کر کے اپنی ذات میں والدین کے خصائص کا ایک مجموعہ یا ملغوبہ بن جاتا ہے.

اس حقیقت کو استعمار اور محکومین کے تعلق کے حوالے سے دیکھنے والے مفکرین فینون اور مینونی نے بہت وضاحت سے بیان کیا مگر ان کے سامنے استعماری حاکمیت اور ہتھکنڈوں کی وہ صورت نہیں تھی جو آج ہمارے سامنے ہے. ان دونوں مفکرین نے صرف ایک استعماری طاقت (فرانس) اور محکومین کے تعلق کا مطالعہ پیش کیا تھا. Neo-Colonialism جیسی اصطلا ح کے خالق اور گھانا کے پہلے صدر کوامی کروما Kwame Nkrumah نے فینون کے انتقال (1961) کے چار سال بعد شائع ہونے والی اپنی کتاب Neo-Colonialism: The last Stage of Imperialism میں استعمار کے بدلتے تیور، طور اور طریقے بیان کیے ہیں. انہوں نے   ان سیاسی اور اقتصادی حربوں کی نشاندہی کی جن کے ذریعے بظاہر آزاد نظر آنے والی (محکوم) ریاستوں کو کنٹرول کیا جاتا ہے… اس طالب علم کو اقتصادیات کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے. تاہم اتنا ضرور سمجھا جاسکتا ہے کہ تبدیل ہوتی ہوئی دنیا میں اب استعمار کوئی ایک خاص قابل اشارہ اور لائق شناخت اکائی نہیں رہا. اس کے بہت سے روپ اور بہت سی شکلیں ہیں. روپ بدلنے اور کسی بھی وقت کسی بھی شکل میں  سامنے آنے کی ایسی صلاحیت استعمار نے پہلے کبھی حاصل نہیں کی تھی.

یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ استعمار کے مقاصد بہر طور چار ہی ہوتے ہیں جو ہم گزشتہ گزارشات میں تفصیل سے بیان کر چکے ہیں . اس دور میں استعمار اپنے مقاصد سے شناخت ہوتا ہے نہ کہ اپنی شکل سے. استعمار کی اس صلاحیت کو اس کے خلاف لڑنے والے بڑے بڑے ماہرین نہیں دیکھ سکے. مثال کے طور پر کوامی کروما کی شہرہ آفاق کتاب کا نام دیکھیے. انہوں نے Neo-Colonialism کو امپیریلزم کا آخری پڑاؤ قرار دیا تھا. کیا ایسا ہوسکا؟ چہرے اور نام بدل لینے کی یہی صلاحیت استعمار کی مضبوطی اور طول عمر کی ایک اہم وجہ ہے . چہرے اور نام بدل لینے کی اس حیرت انگیز صلاحیت کے باوجود استعماری طاقتوں میں مسابقت اور مقابلہ بھی ہمارے مشاہدے کا حصہ ہے. شاید Brexit اسی کا ایک شاخسانہ ہے. اس مقابلے کے سبب ایک محکوم ریاست بیک وقت کئی استعماری طاقتوں کے نشانے پر ہوتی ہے. بعض صورتوں میں محکوم ریاستوں پر تصرف استعماری طاقتوں کے مابین پہلے سے طے شدہ منصوبے کے مطابق ہوتا ہے. جیسا کہ عراق، افغانستان اور لیبیا کے معاملے میں ہوا. اور بعض صورتوں میں ہر استعماری طاقتیں اپنے اپنے عزائم کے تحت محکوم ریاستوں پر اپنی عملداری مسلط کرنے کی کوشش کرتی ہے. ریاست پاکستان اس کی ایک اہم مثال ہے.

یہ صورتحال مینونی اور فینون کے سامنے نہیں تھی. اس لیے ان کی تحریروں میں استعمار کی متعدد صورتوں کے ساتھ محکومین کے تعلق کا تجزیہ شامل نہیں تھا. ایک طالب علم کے طور پر میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ ڈاکٹر اختر احسن کا اوپر بیان ہونے والا اسلوب اس صورتحال کو سمجھنے کے لیے سب سے مفید اور کار آمد طریقہ ہے. جس طرح بچہ والدین میں سے ایک کو قبول اور دوسرے کو رد کرتا کرتا ہے. بالکل اسی طرح محکوم معاشرے بھی استعماری طاقتوں میں سے ایک کے ساتھ قربت اختیار کر کے دوسسری استعماری طاقت سے دوری اور سرد مہری اختیار کرتے ہیں. … محکوم کی قربت بھی جذباتی ہوتی ہے اور دوری بھی. اس لیے دونوں اپنی انتہاؤں تک جانے کی صلاحیت رکھتی ہیں. یعنی محکوم اپنی محبت اور نفرت دونوں میں انتہا پسندی کی طرف مائل ہو سکتا ہے. اس لئے اس کی قربت نظریات اور عقائد سے لے کر عام بول چال، رہن سہن کے طریقوں اور انسانی تعلقات کی نوعیت تک کو تبدیل کر دیتی ہے. …

پاکستانی معاشرے نے استعماری طاقتوں کے ساتھ شناخت استوار کرنے کے دو مختلف پیرائے اختیارکیے ہیں…. ایک مذہبی اور دوسرا سیاسی … پاکستان کی سیاست ابھی اپنی سمت کے تعین کے لیے بند کمروں سے باہر نہیں نکلی. اس کے بنیادی خد و خال آج بھی طاقت ور حلقے عوام کی اجازت اور شمولیت کے بغیر طے کرتے ہیں. وہ ہی یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ کس وقت، کس استعماری طاقت کے ساتھ کن شرائط پر معاملہ کرنا ہے. اور کس طاقت سے دوری اختیار کرنی ہے. ان ترجیحات کو طے کرنا شاید عوام کے منتخب نمائندوں کے اختیار میں بھی نہیں ہوتا. لیکن مذہبی حوالوں سے عوام میں مختلف استعماری قوتوں کے ساتھ وابستگی نہ صرف یہ کہ بہت نمایاں ہے بلکہ اس نے معاشرے میں ایک خون ریز تفریق کو بھی جنم دیا ہے. … ہم سب جانتے ہیں کہ تکفیری رجحانات اور رویے برصغیر کے مذہبی حلقوں میں موجود رہے ہیں. مگر حالیہ وقتوں تک وہ کبھی خوں ریزی کا سبب نہیں بنے تھے. گو ان نعروں کی شدّت اب دم توڑ چکی ہے مگر ہم سب جانتے ہیں کہ اسلامی انقلاب، مرگ بر امریکہ، اور لا شرقیہ و لا غربیہ، اسلامیہ اسلامیہ، جیسے نعرے کہاں سے درآمد ہوے تھے.

اسی طرح بڑے پیمانے پر کھلنے والے مذہبی تعلیم کے مدرسے، کافر کافر کے نعرے، جہاد اور قتال کی تعلیم اور دین خالص کے بارے میں بھی ہم جانتے ہیں کہ ان کا منبع کون سا ملک ہے. لیکن ہمارے ملک کے لوگوں نے جس طرح ایک کے کے ساتھ وابستگی اختیار کر کے دوسرے کو رد کیا اس کو بیان کرنے ضرورت نہیں ہے. صرف سوشل میڈیا پر پوسٹ کی جانے والی ان تصویروں کو دیکھنا کافی ہوگا جن میں ایک جگہ ہندوستانی وزیر اعظم کو اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازا جا رہا ہے اور دوسری تصویر میں وہ ایرانی اور افغانی سربراہان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہاتھ ملا رہے ہیں. ہر گروہ ایک مختلف تصویر قرانی آیات کے ساتھ پوسٹ کر کے دوسرے گروہ کو مطعو ن کرتے ہوئے یہ بتا رہا ہے کہ مشرکین کے ساتھ تعلق استوار کرنے والوں کے بارے میں قرآنی ارشاد کیا ہے.

مختلف استعماری طاقتوں کے ساتھ وابستگی کے نتیجے میں جب محکومین اپنی شناخت تشکیل دینا شروع کر دیں اور اس کی بنیاد پر اپنے کو دوسروں سے الگ کر لیں تو محکوم معاشروں میں ٹوٹ پھوٹ، انتشار، بے معنی بحث و تکرار، اور مناظرہ باز اذہان کی ترویج اور فروغ انہونی نہیں بلکہ لازمی ہوتی ہے. کیچڑ اچھالنے والے، دوسروں کو القابات سے پکارنے والے، اور نفرت کے بیوپاریوں کی ایک کثیر تعداد توجہ حاصل کر لیتی ہے. دشنام اور گالی میں مکالمہ ہوتا ہے. ایسے میں استعماری طاقتوں کو بے پیسے کے وکیلوں کی ایک بڑی تعداد میسر آجاتی ہے. یہ وکیل اپنی وابستگی پر اپنا تن من دھن لٹانے پرآمادہ نظر آتے ہیں. ان کی شاد کامی معاشرے میں ایک خون آلود انتشار کا سبب بنتی ہے. اس سارے سلسلے کی بنیادی وجہ ڈاکٹر اختر احسن کے دریافت کردہ اسلوب Identification سے جڑے وہ جذبات ہیں جن کی جڑیں ہو سکتا ہے زیادہ گہری نہ ہوں مگر ان کی مسلسل آبیاری اس کی بقا، اور طول عمر کی ضمانت فراہم کرتی ہے. اگر مختلف استعماری طاقتوں کے ساتھ اس سطحی جذباتیت پر مبنی وابستگی کو ختم کرنا مقصود ہو تو اس کی آبیاری کے سلسلے کومنقطع کرنا بھی ضروری ہے.

ڈاکٹر اختر احسن نے بچے اور والدین کے تعلق کے حوالے سے چھٹے اور آخری اسلوب کو Neurotic Projection کا نام دیا ہے. اس اسلوب کے مطابق بچہ اپنے دونوں والدین سے کچھ نظریات، خیالات، اور عادات و اطوار منسوب کرتا ہے جو ان میں موجود نہیں ہوتیں. والدین کے ساتھ اپنے تعلق میں بچہ ان کے خیالات اور احکامات کو کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ ان کو سمجھ کر والدین کی پسند و نا پسند کے حساب سے خود کو ڈھال سکے. اس سارے عمل میں بچے اور والدین کی پسند و ناپسند کا ٹکراؤ ایک لازمہ ہے. اس تصادم اور کشمکش میں بچہ غلطیاں کرتا ہے ان میں سے ایک کو ڈاکٹر اختر احسن نے Neurotic Projection کا نام دیا ہے. بچہ والدین سے خوش ہو تو ان میں ایسے اوصاف دیکھتا ہے جو ان کو سپر مین کے رتبے پر فائز کرکے حقیقت سے بھی بڑا بنادیتے ہیں اور کشمکش Conflict کی صورت میں ان سے منفی اوصاف منسوب کرتا ہے جو ان میں موجود نہیں ہوتے. غا لباً یہ بات بیان ہو چکی ہے کہ والدین کے ساتھ بچے کا ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے یہاں فاصلہ تو ممکن ہے لیکن مکمل لا تعلقی ممکن نہیں ہوتی. اس تعلق کا تکلیف دہ اور مریضانہ پہلو اس کا ایک ہی وقت میں متضاد جذبات (محبت اور نفرت) پر مبنی ہونا ہے.

اس اسلوب کو استعمار اور محکومیں کے تعلق پر منطبق کیجئے . حال ہی میں پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے امریکہ کو”خود غرض ” دوست قرار دیا. یقیناً ان کے سامنے سفارتی سطح پر کچھ ایسے حقائق ہوں  گے جن کی بنیاد پر امریکہ اس لیبل کا مستحق ٹھہرا ہوگا. لیکن ذرا اس فرمودے کے نفسیاتی اور جذباتی پہلوؤں کو دیکھیے…. ایک دکاندار اور گاہک کیا ایک دوسرے پر خود غرض ہونے کا الزام لگا سکتے ہیں. ظاہر ہے کہ نہیں… اس لیے کہ دونوں ایک معاہدے کے تحت خرید و فروخت کے مراحل سے گزرتے ہیں. جدید صارف معاشروں میں یہ معاہدہ خرید و فروخت کے عمل کے مکمل ہو جانے کے بعد بھی قائم رہتا ہے. گاہک اور دکاندار ایک دوسرے پر معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام تو لگا سکتے ہیں مگر”خود غرضی” کا نہیں. اس لیے کہ خرید و فروخت کا سارا سلسلہ ایک دوسرے کی اغراض کے گرد گھومتا ہے. اسی طرح ممالک بھی ایک دوسرے سے ربط و رشتہ کچھ شرائط و ضوابط کے تحت روا رکھتے ہیں. بعض ضابطے بین الاقوامی ہوتے ہیں اوربعض اوقات دو یا دو سے زائد ممالک باہمی معاہدوں کے تحت کچھ امور میں ایک دوسرے کے ساتھ تعا ون کرتے ہیں. ”خود غرضی” کا الزام ان تعلقات میں لگتا ہے جہاں رشتوں کی نوعیت جذباتی ہو. جہاں توقع اٹھ جائے وہاں گلہ نہیں ہوتا. استعمار سے محکومین کی توقع احساس عدم تحفظ کے گرد گھومتی ہے.

استعمار کے ساتھ تعلق میں محکومین کی اولین اور سب سے بڑی شرط حفاظت کی ضمانت ہوتی ہے. جنگوں کی صورت میں محکومین اپنی حفاظت کے لیے استعمار کی جانب مدد طلب نظروں سے دیکھتے ہیں…. جنگوں میں شکست ہو رہی ہو تو ان کے بحری بیڑوں کا انتظار کرتے ہیں. اگر پس قدمی کا فیصلہ کرنا ہو تو استعمار سے مذاکرات کروانے کی درخواست کرتے ہیں. .. استعمار اس احساس عدم تحفظ کو پہلے پیدا کرتا ہے پھر مہلک ہتھیار ایجاد کرکے.. ہتھیاروں کی صنعت کو پھیلا کر ..اپنی امداد کو ہتھیاروں کی خرید سے مشروط کرکے، محکوم قوموں کو احساس تحفظ اور ہتھیاروں کی صنعت کو فروغ دیتا ہے. محکومین ہتھیاروں کے ساتھ یہ خود فریبی بھی خرید لیتے ہیں کہ ان کو بوقت ضرورت کچھ اور بھی میسر آئے گا. اس “کچھ” اور” کا” نہ محکومین کو علم ہوتا ہے اور نہ استعمار کو. یہ خود فریبی پر مبنی توقع اس جذباتی تعلق کا پتہ دیتی ہے جو محکوم استعمار سے استوار کر لیتے ہیں. اسی لیے اس توقع کے پورا نہ ہونے پر استعمار پر”خود غرضی” کا الزام لگتا ہے. استعمار کبھی خود غرضی کا الزام نہیں لگاتا وہ یا تو حکم دیتا ہے یا معاہدوں کے پورا نہ ہونے پر سزا دیتا ہے. اس سزا کی بھی متعدد صورتیں ہو سکتی ہیں.

اوپر بیان ہونے والی خود فریبی ہی اصل میں ڈاکٹر اختر احسن کا دریافت کردہ Neurotic Projection کا اسلوب ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

اب تک کی تمام گفتگو میں اس طالب علم نے خصوصیت کے ساتھ پاکستانی معاشرے اور مسلم معاشروں کی عمومی نفسیاتی ساخت اور صوتحال پر چند معروضات پیش کرنے کی کوشش کی ہے. یہ تجزیہ جس علم، معلومات اور ذکاوت کا متقاضی ہے یہ طالب علم اس سے عاری ہے چونکہ پاکستان کے اصحاب علم نے اس جانب تا حال توجہ نہیں فرمائی اس لیے یہ خیال کیا گیا کہ اس موضوع پر بات شروع کرنے کے لئے کچھ لکھا جائے. اس تجزیے کی سمت درست کرنے، اس میں موجود کمی کو دورکرنے، اور اس میں موجود غلطیوں کی اصلاح پر یہ طالب علم ممنون و احسان  مند ہو گا.  ختم شد

انتہا پسندی،ردِ عمل کی نفسیات۔قسط 13

انتہا پسندی، ردِ عمل کی نفسیات۔قسط 12۔ ڈاکٹر اختر علی سید

انتہا پسندی،ردِ عمل کی نفسیات۔قسط11

انتہاپسندی، ردعمل کی نفسیات۔ (10) اختر علی سید

انتہاپسندی، ردعمل کی نفسیات۔قسط9

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 8

انتہا پسندی اور ردِ عمل کی نفسیات ۔قسط7

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 6

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 5

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات- 4

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (3)

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (2)

انتہا پسندی اور رد عمل کی نفسیات (1)

Facebook Comments

اختر علی سید
اپ معروف سائکالوجسٹ اور دانشور ہیں۔ آج کل آئر لینڈ میں مقیم اور معروف ماہرِ نفسیات ہیں ۔آپ ذہنو ں کی مسیحائی مسکان، کلام اور قلم سے کرتے ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”انتہا پسندی، ردِ عمل کی نفسیات۔اختر علی سید (آخری قسط بمعہ مکمل سیریز)

  1. سیدی! والدین اور بچے کے تعلق کے مختلف پہلوؤں کے حوالے سے اختر احسن صاحب کے افکار کے تناظر میں استعمار اور محکومین کے رشتے پر جیسے آپ نے روشنی ڈالی یہ آپ کا ہی خاصہ ہے۔آپ نے ہم جیسے قارئین کیلئے قوموں کی نفسیات کو، خاص طور پر اپنی قوم کے حوالے سے، سمجھنا آسان کردیا۔ جزاک اللّٰہ۔
    میں نےمذکورہ موضوع پر آپ کے مضمون کی تمام اقساط پڑھی ہیں؛ اور ہر بار آپ کا بہت ممنون ہؤا ہوں اور دعائیں دی ہیں ۔

    آج گیارہویں قسط سے پڑھنا شروع کیا تھا۔ کچھ جملے اعلٰی کوٹیشنز جیسے ہونے کے سبب اور کچھ بہت ڈائریکٹلی بعض دوستوں کی اور اپنی صورتحال سے متعلق ہونے کے سبب الگ کر لئے ہیں، دوسروں سے شیئر کروں گا:

    استعمار کا تشدد غصے کی بجائے سوچی سمجھی حکمت عملی پر مبنی ہوتا ہے، جبکہ محکوم کا تشدد صرف اور صرف غصے پر مبنی ہوتا ہے۔

    اپنی افادیت کھونے کے باوجود اگر خود کش حملے جاری رہیں تو یہ نتیجہ نکالنا آسان ہو جاتا ہے کہ یہ حملے کسی حکمت عملی کا حصہ نہیں بلکہ نفسیاتی شکست کا ثبوت اور ذہنی پیچیدگی کی علامت ہیں۔

    ھم انتہا پسند نہیں کہلوانا چاہتے مگر ہمارا ہر کام اس نام کو ہمارے لئے درست ثابت کرتا ہے۔

    استعمار اگر محکومین کی زندگیوں کی توقیر پر آمادہ نہیں ہے تو خود محکومین کی نظر میں اپنی جانوں کی کوئی عزت نہیں ہے۔

    ایڈورڈ سعید نے حقیقت بیان کی کہ محکومین کے عقائد، نظریات، اور علمی اثاثے، سب پر طعنہ زنی ہوتی ہے۔ ان کی حیثیت کو کم کیا جاتا ہے۔ محکومین کی مذہبی رسومات کا ٹھٹہ اڑایا جاتا ہے۔۔۔۔ بالکل درست۔۔۔۔ مگر محکومین نے ایک دوسرے کے ساتھ کیا کیا۔

    کیا کسی کے قتل کا قاتل کے علاوہ بھی کوئی اور ذمہ دار ہو سکتا ہے؟ جی ہو سکتا ہے۔ مگر اس کے لئے استعماری سائنس درکار ہے۔ فلسطینیوں کی سیاسی، قومی اور بڑی حد تک پر امن جدو جہد کو پہلے حماس تشکیل دے کر مذہبی رنگ دیا گیا۔ اسرائیلی پارلیمنٹ نے اپنے وزیر اعظم پر اس تنظیم کے بنوانے کی ذمہ داری عائد کی۔

    استعمار اپنے مقاصد سے شناخت ہوتا ہے نہ کہ اپنی شکل سے۔

    بچہ (والدین میں سے) کسی ایک کو رد کرکے دوسرے کی ذات، نظریات، عادات، اطوار، جائز و نا جائز اور صحیح و غلط کی تعریف کے قریب ہو جاتا ہے. بچہ جس شدت سے کسی ایک کے نظریات اور عادات اختیار کرتا ہے اسی شدّت سے دوسرے کے عادات و اطوار سے دوری اختیار کرتا ہے.۔۔۔۔۔۔۔۔ جس طرح بچہ والدین میں سے ایک کو قبول اور دوسرے کو رد کرتا کرتا ہے. بالکل اسی طرح محکوم معاشرے بھی استعماری طاقتوں میں سےایک کے ساتھ قربت اختیار کر کے دوسری استعماری طاقت سے دوری اور سرد مہری اختیار کرتے ہیں. … محکوم کی قربت بھی جذباتی ہوتی ہے اور دوری بھی.

    والدین کے ساتھ بچے کا ایک اٹوٹ رشتہ ہوتا ہے یہاں فاصلہ تو ممکن ہے لیکن مکمل لا تعلقی ممکن نہیں ہوتی. اس تعلق کا تکلیف دہ اور مریضانہ پہلو اس کا ایک ہی وقت میں متضاد جذبات (محبت اور نفرت) پر مبنی ہونا ہے.

    اس اسلوب کو استعمار اور محکومیں کے تعلق پر منطبق کیجئے . حال ہی میں پاکستان کے ایک اعلیٰ عہدے دار نے امریکہ کو”خود غرض ” دوست قرار دیا.

Leave a Reply to شاہد عثمان Cancel reply