مہنگا حج ۔۔۔ مہر ساجد شاد

 اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس سال حج پالیسی کا اعلان ہوا تو ملک بھر میں ایک بحث کا آغاز ہو گیا، نئے اعلان کے مطابق اب حاجی کو گذشتہ سال سے تقریباً 63% زیادہ اخراجات ادا کرنا ہونگے۔ ایک طرف اس مہنگے حج پر اعتراض کیا جارہا ہے تو دوسری طرف اسلامی نقطہ نگاہ سے حج کی فرضیت کے دائرہ پر جوابی دلائل دئیے جارہے ہیں، گویا دو مختلف سمتوں میں گفتگو جاری ہے۔ 

اس مسلۂ کے دو پہلو ہیں ان دونوں کو سمجھے بغیر مسلۂ سمجھ نہیں آئے گا، اسکا ایک پہلو مذہبی ہے اور دوسرا ریاستی ہے۔ 

مذہبی اعتبار سے حج ایک انفرادی فرض عبادت ہے جو کہ مقررہ وقت پر مقررہ مقامات پر اجتماع میں ادا کی جاتی ہے۔ اس عبادت کی فرضیت پر قرآن پاک میں واضع حکم ہے۔  وَ لِلهِ عَلَي الناسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطاعَ إِلَيْهِ سَبيلاً (قرآن: سورۃ آل عمران:97)

ترجمہ: خدا کے لیے لوگوں پر حج بیت اللہ ہے جو شخص اس تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے۔   

نبى كريم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كا فرمان ہے: “يقينا اللہ تعالى نے تم پر حج فرض كيا ہے اس ليے تم حج كرو”۔ 

شریعت کے احکامات کے مطابق حج کی فرضیت کی یہ شرائط ہیں ، ۱۔مسلمان ہونا ۲۔عاقل ہونا(پاگل مجنوں پر فرض حج نہیں) ۳۔بالغ ہونا ۴۔آزاد ہونا (غلام لونڈی پر حج فرض نہیں) ۵۔ استطاعت ہونا (حج محض ان افراد پر فرض ہے جو اسکی جسمانی اور مالی استطاعت رکھتے ہوں، عورت کیلئے شرعی محرم کا ہمراہ ہونا بھی لازم ہے) گویا ان شرائط کا ہونا حج کو فرض کر دیتا ہے اس صورت میں حج نہ کرنا گناہ ہے۔ 

حج کی فضیلت اسے دیگر عبادت میں ممتاز کر کے مسلمانوں کی ترجیح بنا دیتی ہے، حج کی فضیلیت میں سے پہلے اسے اسلام کے پانچ ستونوں (ارکان) میں سے ایک قرار دینا ہے، نیز محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حج کی فضیلت و اہمیت پر بہت سی احادیث مروی ہیں، جن میں مناسک حج ادا کرنے کے فضائل اور حاجی کو ملنے والے ثواب و انعام کا ذکر کیا گیا ہے۔ 

بخاری میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دریافت کیا گیا کون سا عمل سب سے افضل ہے؟ تو کہا: اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا، پھر دریافت کیا گیا کہ: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو کہا: اللہ کی راہ میں جہاد کرنا، پھر دریافت کیا گیا کہ: اس کے بعد کون سا عمل افضل ہے؟ تو کہا: مقبول حج۔ 

بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی اور ابن ماجہ میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا اور فسق اور فحش کلام سے بچا تو وہ ایسا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا۔ 

صحیح مسلم میں ابن خزیمہ اور عمرو بن العاص سے روایات ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ حج ان گناہوں کو دفع کر دیتا ہے جو اس سے قبل ہو چکے ہوں۔ 

سنن نسائی میں ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: بوڑھوں، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے۔ 

عائشہ بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے حج کو عورتوں کے لیے جہاد کا متبادل قرار دیا۔

صحیح مسلم میں عائشہ بن ابی بکر سے روایت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: اللہ کے یہاں یوم عرفہ سے زیادہ کسی دن جہنم سے بندے آزاد نہیں کیے جاتے۔ 

یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کی مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ سے عقیدت و محبت اور یہاں کی زیارت کی روحانی خواہش اس فریضہ کی اہمیت بڑھا دیتی ہے۔

پاکستانی مسلمان جن کاموں کی زندگی میں خواہش رکھتا ہے ان میں سے ایک حج ہے اس مقصد کیلئے ماہانہ بنیادوں پر بچت کر کے روپیہ اکٹھا کرنا ایک روحانی تسکین ہے۔ سعادت مند اولاد اپنے والدین کی اس روحانی خواہش کا انتظام کرتے نظر آتی ہیں۔ 

اب دوسرا پہلو دیکھیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان ایک فلاحی ریاست بنانے کیلئے وجود میں لایا گیا جہاں ریاست اپنے عوام کو اسلامی شریعت اور اسلامی اقدار کے ماحول میں  زندگی گذارنا ممکن بنانے کی زمہ دار ہے۔غیر مسلموں کیلئے بھی اسلامی احکامات کے مطابق مذہبی رواداری کیساتھ مذہبی آزادی میں زندگی گذارنے کو یقینی بنانا بھی ریاست کا فرض ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس انفرادی  عبادت حج کیلئے بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں وزارت مذہبی امور کی حج پالیسی کے تحت اس جام کو با سہولت بنانے کیلئے ہر ممکن اقدامات کیلئے جاتے ہیں۔ 

پرانے وقتوں میں حج قافلے خشکی کے راستے جاتے تو ریاست انکی حفاظت کے خاطرخواہ اقدامات کرتی تھی۔ پھر بحری جہاز سے سفر عام ہوا تو ریاست نے ہر سال با سہولت سفری انتظامات شروع کئے۔اب پچھلی کئی دہائیوں سی ریاست پاکستان کے شہری یہ فریضہ ادا کرتے ہیں۔

اس بڑی تعداد کے سفر اور سعودی عرب میں رہائش و کھانے کے انتظام کو حج پالیسی کے تحت  ایک مربوط نظام سے کیا جاتا ہے, یہ گذشتہ چند سالوں میں  یہ انتظام بلند ترین معیار پر دیکھا گیا اور حجاج اکرام نے اس کے تحت سہولیات کو قابل ستائش قرار دیا۔  

عازمین حج کو سفری اور دیگر سہولتیں دینا اسلامی جمہوریہ پاکستان کا ریاستی فرض ہے اس میں اگر ریاست کے باشندوں کے ٹیکس کا کچھ پیسہ خرچ بھی ہو جائے تو کوئی ہرج نہیں اسی طرح غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں پر ان کو سہولیات دینے میں، کرسمس اور دیوالی پر خصوصی رعائتی بازار قائم کرنے میں، سکھوں کو انکے مذہبی مقامات کی زیارت کیلئے سہولتوں پر اخراجات میں عوام کا ٹیکس کا پیسہ خرچ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ 

لیکن یہ بھی درست ہے کہ حج کے سفر اور اسکے دیگر اخراجات انفرادی سطح ہر حاجی کی زمہ داری ہے،لیکن ریاست ان انتظامات کے عمل کو فرد کیلئے با سہولت بنانے کی بھی زمہ دار ہے، طلب اور رسد کے قانون کے تحت آپ زیادہ خریداری کرتے ہیں یا کوئی بڑا انتظام کرتے ہیں تو یہ انفرادی انتظام سے کہیں سستا ہوتا ہے، بس یہی بچت اگر حکومت حاجیوں تک پہنچائے تو فلاحی ریاست والا کام ہو گا۔ 

حاجیوں کو سعودیہ لے جانے اور لانے کے کام کو تقریباً مکمل طور پر حکومت اپنے ادارہ پی آئی اے کے زریعے کرتی ہے اس لئے دو طرفہ کرایہ پی آئی اے اپنی مرضی سے بغیر کسی سے مقابلہ کے مقرر کرتی ہے۔ اسی طرح سعودی عرب میں عمارات کو کرایہ پر حاصل کرنا اور دیگر انتظامات وزارت مذہبی امور ہی انجام دیتی ہے، حجاج کو یہ مقرر شدہ مجموعی پیکج ادا کرنا ہوتا ہے حکومت ہر سال مقرر کئے گئے مجموعی اخراجات میں حجاج کو کچھ پیشگی اور کئی بار کچھ واپسی پر رعایت دیتی ہے یہ رعایت بھی دراصل حاصل منافع سے رعایت ہوتی ہے۔ اب جبکہ ان رعایات کو ختم کیا جارہا ہے تو دراصل حکومتی منافع کو مکمل طور پر حاصل کیا جارہا ہے۔ اس پر یہ بدنیتی سے دلیل دی جا رہی ہےکہ حج اخراجات حاجی کو ہی ادا کرنا چاہیئں اگر وہ استطاعت نہیں رکھتا تو حج نہ کرے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ حج ایک انفرادی عبادت ہے اس کا کاروباری انتظام کرنا بھی ریاست کیلئے درست نہیں اس پر یہ مطالبہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سارے نظام کو ختم کر دیا جائے، حاجی دیگر ممالک کی طرح سعودی ایمبیسی سے وزٹ ویزا لے اپنی پسند کی ائر لائن ، مناسب قیمت بہتر سہولت کے پیش نظر اپنی مرضی کا روٹ منتخب کرے، ریاست اس مقصد کیلئے آنے والی دیگر ائر لائنز پر پابندی نہ لگائے اور مقابلہ کی فضا بننے دے تا کہ سفر کرنے والوں کو کم کرایہ پر سفر کی سہولت حاصل ہو۔ 

ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کی جاتی ہے جو فلاحی ریاست کا تصور ہے جس میں سب کیساتھ صاحب استطاعت لوگوں کیلئے بھی آسانیاں مہیا ہونا چاہیئں، اس میں حج کو مہنگا کرنے کی بجائے سستا کیا جائے تاکہ یہ مذہبی فریضہ رغبت سے ادا کیا جائے اور اس سستے حج کی وجہ سے زیادہ سے زیادہ لوگ صاحب استطاعت ہو جائیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply