مُجھے مزید لاشیں نہیں چاہئیں ۔۔۔۔عارف خٹک

مُجھے خیسور کے حیات اللہ سے دلی ہمدردی ہے۔ مگر میری ہمدردیاں مغوی زاہد خان کے ساتھ بھی ہیں۔جس کو بمورخہ 23 اکتوبر 2018 اسی حیات اللہ کے بھائی شریعت اللہ ولد جلات خان نے سپین وام سے اغوا کرلیا تھا۔میری ہمدردیاں اُن تین غریب بندوں کے ساتھ بھی ہیں۔جن کو حیات اللہ کے بھائی نے اس واقعہ میں زندہ جلا ڈالا ہے۔

یار دوست سب کہہ رہے تھے،کہ آپ آواز نہیں اُٹھاتے۔چلو میں نے آج آواز بُلند کرلی۔اب آئیے دریا خان کو سزا دلاتے ہیں۔مگر حیات اللہ کے بھائی شریعت اللہ سے بھی مغوی زاہد خان کو رہا کرنے کی درخواست کرتے ہیں۔کیوں کہ زاہد خان کے تین معصوم بچے اپنے باپ کا انتظار کررہے ہیں۔

چلو ایک شٹر ڈاؤن ہڑتال زاہد خان کےلئے کرتے ہیں۔
کیا میری اس آواز پر لبیک بول کر گلالئی اسماعیل، ثناءاعجاز، بشرٰی گوہر اور دوسرے این جی او زدگان مغوی انجینئر زاہد خان کے گھر جاکر اس کی ماں کو دلاسہ دیں گے؟ اور اُن بچوں کےآنسوؤں کو صاف کریں گے؟
جن کے والدین کو زندہ جلا دیا گیا تھا۔
ہر گز نہیں۔۔۔۔
کیونکہ یہاں آپ کا چُورن نہیں بکے گا۔ آپ کو نفرت کی چکا چوند چاہیئے،آپ کو زندہ رہنے کیلئے کسی معصوم پشتون کا خون چاہیئے۔یا پھر کوئی اور بڑی بھینٹ۔پھر وہ بھینٹ چاہے حیات اللہ کی ماں کی عزت کی صُورت ہو ،یا پھر ارمان لونی جیسے اُستادکی لاش کی شکل میں ہو۔
کراچی میں کتنے لوگوں نے الطاف حسین پر اپنے بچے قربان کرڈالے؟
کیا ملا؟
ایک عفریت زدہ مستقبل؟
ایک تاریک ماضی اور ایک بدبُودار حال؟

خدارا اب بس بھی کردیں۔ آپ لوگوں کے ذہن آلودہ کر کے خود تو ایک کونے میں بیٹھ جائیں گے۔کوئی کھوکا شوکا کھول کر پیسہ بنائیں گے۔ اور ان کم عقل پشتونوں کی طرف ایک زہریلی مسکراہٹ اچھال کر خود کو کسی میجر واصف کی  گود میں چُھپا لیں گے۔

مگر ۔۔۔۔۔مرےگا یہی پشتون۔
پھر بولیاں لگیں گی ان کی عزتوں کی۔ بہنوں کے چادر تارتار ہوں گے۔ ماؤں کی گود اُجڑے گی۔آپ کا کیا ہے؟
کسی مذہبی جماعت یا لبرل ازم کے نام پر بنے این اجی اوز یا پھر اپنے کسی پسندیدہ لیڈر کی گود میں چُھپ کر بیٹھ جائیں گے۔

خبردار۔۔۔۔۔۔یہ خون آشام درندے ہیں۔ ان کے منہ کو خون لگ چکا ہے۔ ریاست میں بیٹھے یہی مُنتظمین چور ہیں۔ان میں سے کُچھ جن کے ریاست کےساتھ سیاسی اختلافات ہیں۔ کل کو وہ دوبارہ کشمیر پالیسی کے نام پر پھر کسی جنرل کی داشتہ بن جائیں گے۔ یا پھر ان کا سربراہ رہا ہونے کے بعد وکٹری کا نشان بنا کر اپنی محرومیوں کا ازالہ کرنے میں مصروف ہوجائےگا۔
یہی فوج ایک بار پھر آپ کے کندھوں پر بندوق رکھ کر آپ کو ایک اور یو ٹرن لینے پر مجبور کرے گی۔۔۔۔۔اور لکھ کر دیتا ہوں آپ خوشی خوشی یوٹرن بھی لے لیں گے۔

لیکن مُجھے خواب دیکھنا اور اُسے سچ کر دکھانا ہے۔ مُجھے وزیرستان عزیز ہے۔ کیونکہ “بابا” کا پہلا لفظ میں نے اپنی توتلی زبان سے اسی وزیرستان میں سیکھا تھا۔
مُجھے وزیرستان کو بستا اور اسکے لوگوں کو ہنستا دیکھنا ہے۔ مُجھے میرعلی بازار میں ایک دفعہ پھر منگل بازار دیکھنا ہے۔ مُجھے پھر سے گورنمنٹ ہائیر سیکنڈری سکول ہرمز کی اسمبلی دیکھنی ہے۔ مُجھے مکین کے جرگے دیکھنے ہیں۔ مُجھے وہ محسود اور وزیر دیکھنے ہیں جو ہر ماتمی اعلان بھی ڈھول سے کیا کرتے تھے۔ مُجھے بچیوں کو اسکول کی اجلی یونیفارم میں دیکھنا ہے۔ یہ میرا مرنے سے پہلے ایک خواب ہے۔

مُجھے ابراہیم ارمان لونی کا لاشہ نہیں دیکھنا۔ آپ کے ان زہر آلودہ خوابوں اور گندے کھیل نے نہ جانے کتنے لوگ مروا دئیے ہیں۔کتنے بچوں کو یتیم اور عورتوں پر بیوگی کا داغ لگا دیا ہے۔مزید نہ جانے کتنے انسانوں  کو رشتوں کا ادھورا پن برداشت کرنا ہوگا۔میں آپ کے اس گندے کھیل میں اپنے کلاس فیلوز کی لاشیں گنتے گنتے تھک چکا ہوں۔ جس طرح میرعلی کے نوجوان صحافی حیات اللہ شہید کی بیوہ مہرالنساء کی گولیوں سے چھلنی لاش نہیں بُھولتی۔ اسی طرح آج ارمان لونی کی والدہ کا چہرہ بھی نہیں بُھول پا رہا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مجھے اپنے خواب کی تعبیر سچ کرکے دکھانی  ہے۔اس تعبیر کی راہ میں جو بھی آئے گا،وہ میرا دشمن ہوگا۔
آپ کے ہزار روپ ہیں۔ کبھی سیاسی لیڈر شپ، کھبی مسیحا اور کھبی محافظ کے روپ میں خود کو ظاہر کرتے ہوئے ہر بار آپ چُھپنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔لیکن اس بار آپ کو چُھپنے نہیں دوں گا۔ میرا وجود میرے لئے یکسر بے معنی ہے۔سو اندازہ لگا لیں،کہ میرے لئے آپ کا وجود کیا معنی رکھتا ہوگا۔
مجھے مزید لاشیں نہیں چاہئیں

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply