تذکرہ کچھ جعلی پیروں گا۔۔۔۔۔۔ محمد منور سعید

بناکر فقیروں کا ہم بھیس غالب
تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں
کسی نے کیا خوب کہا ہے کی جس ملک کے پارک اور کھیلوں کے میدان ویران ہوں وہاں کے ہسپتال آباد ہوتے ہیں۔ہمارے یہاں لوگوں کی دو ہی تفریح ہیں ۔خوب کھانا پینا اور پھر بیمار پڑنا۔
ہمارے یہاں سب سے منفعت بخش کاروبار دو ہیں ایک اسکول دوسرا ہسپتال۔
دونوں میں منافع کی بھاری شرح ہے۔اگر چل پڑیں تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہئ میں.
ملک میں مہنگائی کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہے ہاسپٹلز کا مہنگا علاج افورڈ کرنا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے ۔جس طرح آپ کراچی میں 50 روپے فی کس سے لیکر 5000 روپے فی کس تک کے کھانے کھا سکتے ہیں اسی طرح ہمارے یہاں علاج معالجے کی بھی وسیع رینج دستیاب ہے۔اپنی اپنی استطاعت کے مطابق آ پ فیضیاب ہو سکتے ہیں ۔
ہزاروں روپے فیسیں بٹورنے والے کوالیفائیڈ اسپیشلسٹ ڈاکٹرز سیے لیکر عام ایلو پیتک ہومیوپیتھک حکیم ہربلسٹ پیر فقیر اور عامل بابے سنیاسی شبانہ روز خدمت خلق میں مشغول ہیں ۔مولوی صاحبان بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھولینے سے نہیں چوکتے دم کرتے ہوے پھونکیں آپ کے جسم پرمارتے ہیں اور نگاہیں آپ کی بائیں جیب پر ہی مرکوز رکھتے ہیں تاکہ بالواسطہ انکی جیب گرم ہوسکے ۔
یقین کریں ان سب طبی مراکز پر خلق خدا کا ہجوم دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم من حیث القوم بیمار ہیں۔
سب سے دلچسپ حال تو پیروں فقیروں اور عاملین کا ہے۔جن کے یہاں کینسر جیسی موزی بیماری سے لیکر شادی بیاہ عشق محبت طلاق نوکری بچوں کی پیدائش جیسے معاشی و معاشرتی مسائل کا علاج اور حل بدرجہ اتم موجود ہے۔غرضیکہ یہ عامل حضرات قلیل معاوضے پر زندگی میں درپیش مسائل و مصائب کے حل کا complete package مہیا کرتے ہیں ۔
اللہ مغفرت فرمائے یماری بی اماں فرما یا کرتی تھیں کہ انکے بچپن میں ایک بہت پہنچے ہوے اللہ والے بزرگ ہوتے تھے عجب آزاد مرد تھے انکی واحد وجہ شہرت یہ تھی کہ وہ دنیا و مافیہا سے بے خبر بے ہمہ وقت ظاہری کپڑوں سے نیاز پڑے رہتے تھے۔یہ انکا تجاہل عارفانہ تھا کہ شان بے نیازی کہ ایک زمانہ انکا معتقد تھا۔
زمانہ حال میں اللہ والوں کا حال تو ہم گناہ گار نہیں جانتے مگر بہت سے پیر فقیروں سے ہم بخوبی واقف ہیں۔
جو ہمہ وقت بہترین وضع قطع کے مغربی لباس میں ملبوس رہتے ہیں ۔
ان کے آستانوں پر غربا کے لیے تو لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہیں جن کو اپنی باری کے انتظار میں گھنٹوں بیٹھنا پڑتا ہے
مگر جن کے پاس قائد اعظم کی سفارش ہو تو انکا جلد نمبر لگ سکتا ہے۔
ایک مرید سے کسی من چلے نے پوچھا کہ بھائی میاں آپکے پیر صاحب کی تو داڑھی ہی نہیں ہے تو نہایت عقیدت سے بولے کہ داڑھی تو ہے مگر ہماری آنکھیں ہی نہیں ہیں ۔پوچھا کہ آپکے پیر صاحب نماز تو پڑھتے ہی نہیں تو گویا ہوے کہ حضرت کی نمازیں مکہ مدینہ میں ادا ہوتی ہیں ہماری بصیرت اس درجہ کی نہیں کہ انہیں دیکھ سکییں۔
آپ جس پیر فقیر عامل کے پاس بھی چلے جائیں وہ آپکو آپکے دیرینہ مسئلہ کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی قرانی آیت تکرار سے بطور وظیفہ پڑھنے کیلئے دے دے گا۔
دیکھا یہ گیا ہےکہ لوگ کچھ عرصے تو بہت ذوق وشوق سے جھوم جھوم کر انکا ورد کرتے ہیں مگر چند روز اگر کام نہ بنے تو تساہل کا شکار ہوجاتے ہیں اور اگر مزید کچھ روز میں مطلوبہ نتایج کا حصول ہوتا نظر نہ آئے تو یہ نہ صرف ذکر وازکار ترک کررہتے ہیں بلکہ اللہ کی رحمت سے بھی مایوس ہوجاتے ہیں ۔
ایک بار ہم اپنے دوست کم بزرگ کے ساتھ ایک مشہور پیر صاحب کے آسستانے پر حاظری کے لیے گئے۔بزرگ کے گھٹنوں میں درد تھا اور ہمیں بھی اپنی ڈوبی ہوئ رقم کی وصولی درکار تھی۔
وہاں پہنچے تو عجیب ہی پراسرار منظر سامنے تھا۔ایک چھوٹے سے کمرے میں کافی خلق خدا جمع تھی اور قبلہ خود ایک اونچی سی چوکی پر براجمان تھے۔
منحنی جسامت ، سرخ انگارہ آنکھیں اور اس پر طنتناتی ہوئی آواز واللہ عجب قیادت ڈھا رہی تھی بقول غالب ایک شعلہ سا لپک جائے ہے آواز تو دیکھو۔
فردا فردا ایک ایک سائل انکی قدم بوسی کرتا اور اپنا مسئلہ بیان کرتا ۔
ہمارے لئے یہ منظر بالکل نرالا تھا لہذا مجسم حیرت بنے عقیدت اور احترام سے اس مجلس کا حصہ بنے رہے۔
پیر صاحب حضرت آدم علیہ اسلام سے لیکر اکیسویں صدی تک اس دنیا سے گزرنے والی تمام مقدس ارواح سے براہراست رابطے میں تھے۔جس علاقے کا سائل ہوتا وہاں کی نیک روح سے براہ راست مشورہ فرماتے اور پھر سائل کی مشکل حل کرنے کی عرضی پیش کردیتے۔
اس دوران ایک مظلوم شوہر نے پیر صاحب سے اپنی ساس اور بیوی کے گستاخانہ رویے کی شکایت کی تو پیر صاحب نے ان دیکھی قوتوں کو حکم دیا کہ اسکی ساس اور بیوی دونوں کو اوندھا لٹا کراتنے ڈنڈے لگاو کہ دونوں سدھر جائیں پھر چند لمحات غائبانہ طور پر سارے منظر سے لطف اندوز ہوتے سائل کو مبارکباد دی کہ جاو تمھاری بیوی راہ راست پر آگئی وہ بیچارہ خوشی سے نہال قدم بوسی کرکے اطمینان سے جانے لگا تو پیر صاحب کی پاٹ دار آواز نے اسکے قدم ساکت کردیے ۔
میاں ایسے ہی منہ اٹھائے چل دیئے ۔
اس عمل کی زکوتہ کون دے گا ؟
کیا پیر صاحب کو بیوقوف سمجھا ہوا ہے ؟
جو چپکے نکل رہے ہو۔
اس غریب بے گستاخی کی معافی مانگی اور فورا سو دو سو روپے کے نوٹ جیب سے نکالے اور نذرانہ پیش کردیا ۔اس کے بعد حاظرین میں سے کسی کی مجال نہ ہوئی کہ بغیر نذرانہ دیئے وہاں سے نکلتا۔
غرض بورڈ آفس میں امتحانی کاپیوں کی چیکنگ سے لیکر گھٹنوں تک کے روحانی آپریشن پیر جی نے وہیں بیٹھے بیٹھے نمٹا دیئے ۔
ہم نے بھی اپنا مسئلہ بیان کیا کہ ایک شخص ہماری رقم ہڑپ کرگیا ہے ۔چونکہ ہم کسی خاص شخصیت کے ریفرنس سے گئے تھے لہذا پیر صاحب نے بڑی شفقت فرمائی اور ان دیکھی قوتوں کو ہماری ریکوری کرنے کی ہدایت کی اور ہمیں جلد معاملہ حل ہونے کی نوید سنائی ۔
ہنوز انتظار جاری ہے۔
ہمارے ساتھ گھٹنوں کے علاج کے لے جائے والے بزرگ آج کل گھر پر آرام فرما ہیں کیونکہ وہ چلنے پھرنے سے معذور ہوچکے ہیں۔اگر بروقت صحیح علاج کروالیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔
اندھے اعتقاد کی کمی تھی یا ایمان کی حرارت ۔
ناچیز کے ناپختہ ذہن میں اس دوران ایک کشمکش چلتی رہی کہ کیا میرا ایمان اسقدر کمزور ہے کہ میں اللہ رب العزت جوکہ مسبب الاسباب ہے اس کے در پر سر بسجدہ ہونے کے بجائے آسکے بندہ کے در پر سوالی بنکر آیا ہیوں جو کہ خود مجبور محض ہے۔
لوگ اتنی بڑی رب کی زات کو چھوڑ کر ایک معمولی سی جگہ پر بیٹھے ایک شاطر مزاج آدمی سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں ۔یہ مقام افسوس ہے۔
کیا یہ بھی ایک طرح کی بت پرستی کی شکل نہیں ہے ۔ اللہ کا وجود چونکہ ظاہر ی طور پر نظر نہیں آتا نہ ہی بظاہر ہماری اس تک رسائی ہے لہذا یہ آدمی ہے جو کہ نظر بھی آرہا ہے اور ہماری پہنچ میں بھی ہے تو اپنی حاجتیں اسی کو پیش کردیتے ہیں یہ اللہ تک اپروچ رکھتا ہے یہ ہماراکام ضرور کرواکر دے دیگا ۔بس تھوڑی فیس لے گا۔جہاں اتنے خرچے ہوتے ہیں وہاں تھوڑا اور سہی۔ یہ ایک شارٹ کٹ ہے۔ پاک صاف رہنا پانچ وقت نماز کئ ادائیگی،صدقہ وخیرات کرنا تو درکنار خود دعا کرنا بھی بہت مشکل کام لگتا ہے ،کیونکہ یہ محنت طلب یے اور ہم حددرجہ سہل پسند ہوچکے ہیں ،ہر راہ چلتے سے دعاوں کی درخواست کرتے ہیں ۔
اب دعائیں بھی مارکیٹ میں کئئ قسم کی گردش کررہی ہیں جسمیں رقت آمیز دعا کافی مشہور ہے۔
یہ رویے ہماری ضعیف ا الاعتقادی کا مظھر ہیں اور سہل پسندی کا بھی اظہار کرتے ہیں۔۔
حالانکہ اللہ تعالی تو بے نیاز ہے وہ تو چاہتا ہے کہ لوگ اس سے مانگیں اس کی بندگی کریں ۔اللہ کو راضی کرنا کچھ مشکل نہیں ہے۔وہ تو ہماری شہہ رگ سے بھی قریب ہے۔
بس اسکی یاد میں رونے والی آنکھ اور تڑپنےوالا دل چاہیے ۔تسبیحات و وظائف میں دنیاوی مقاصد اور فوائد کے بجائے اللہ کی رضا اور محبت کا حصول پیش نظر ہو تو یر بگڑی بات بنتی ہوئی نظر آئے گی۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ٹٹڑ روایت ہے کہ
رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:
“جب رات کا تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے توہمارے رب آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں اور ارشاد فرماتے ہیں: کون ہے جو مجھ سے دعا کرے میں اس کی دعا قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے مانگے میں اس کو عطا کروں؟کون ہے جو مجھ سے مغفرت طلب کرے میں اس کی مغفرت کروں گا۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دنیا پاکستان

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply