سوہنے رسول ﷺ کا عشق۔۔۔بابر اقبال

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میری نانی جان، نانا کے ساتھ عمرے پر گئیں تھیں، وہ آخری سال تھا جب بحری جہاز کے ذریعے لوگ عمرہ کر سکتے تھے، نانی جان بوڑھی تھیں اور رسّے کے ذریعے بحری جہاز کے عرشے پر چڑھی تھیں، میں ان کو سی آف کرنے نہیں گیا تھا مگر دیکھنے والے بتاتے  ہیں کہ ایسے عرشے پر چڑھنے میں پتّہ پانی ہوجاتا ہے، مگر نانی جان کو سوہنے رسول ﷺ کا روزہ دیکھنا تھا، نہ جانے کون سی طاقت ان سے یہ سب کرواتی رہی۔
خیر ہم کو لگا شاید نانی کی آنکھوں کی پیاس بجھ جائے، مگر رب ہی جانے کون بشر تھیں وہ، جب واپس آئیں تو کچھ عرصے بعد ہی بیمار ہوگئیں، بستر سے اٹھ ہی نہیں پاتی تھیں مگر جیسے ہی پاکستان ٹیلی ویژن پر اذان نشر ہونے کا وقت  ہوتا تھا کسی نہ کسی کا سہارا لے کر ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی اذان دیکھنے پہنچ جاتیں، وہ ہی سوہنے رسول ﷺ کا روزہ دیکھنے کے واسطے۔
ایک مرتبہ بارہ ربیع الاول کو نانی نے کہا کہ میں نے روشنیاں دیکھنی ہیں، میں حیران ہوا کہ یہ کیا ہوتا ہے، تو کسی نے بتایا کہ سوہنے نبی ﷺ کا ربیع الاول ہوتا ہے، اس میں مساجد سجائی جاتی ہیں نانی ماں وہ مساجد دیکھ لیتی ہیں تو ان کو بہت خوشی ہوتی ہے، مجھے یاد ہے کہ کتنی مشکل سے میں نے رضوان اور عروج کے ساتھ نانی کو وہ روشنیاں دکھائی تھیں مگر سوہنے رسول ﷺ کی محبت۔۔۔۔
کچھ عرصے بعد نانی بالکل بستر سے لگ گئیں، انہیں کوئی صدمہ کھاتا رہا یا کوئی پراسرار بیماری، اس کا فیصلہ تو روز محشر ہی ہوگا، مگر کسی نے بتایا وہ سمجھتی ہیں کہ جو عمرہ کرلے اس پر حج فرض ہوجاتا ہے، اس روز میرے دل میں کسک اٹھی کہ کاش میرا مولا ان کی آنکھوں کی اس پیاس کو مٹا دے، مگر مولا ہی جانے ایک روز وہ اسی کے پاس اس آرزو کو لیے ہی چلی گئیں۔
یہ تو تھا قصّہ نانی کا، ان کے شوہر نانا جان، ایک ضدی روح تھے، انہوں نے حج بھی کر رکھا تھا اور عمرہ بھی کئی دفعہ، زندگی میں جب بھی ان کے پاس کچھ پیسہ جمع ہوتا وہ عمرے کی ٹکٹ کٹا کر عمرے پر چلے جاتے، وہ ایک اسکول میں اسلامیات کے استاد تھے، ذات کے سید تھے، اپنے نانا ﷺ کی محبت میں بار بار وہیں جانا چاہتے، سنا تھا وہ مسجد نبوی ﷺ میں ایک خادم کے طور سے کام کرنا چاہتے تھے، مگر یقیناً ایسا ممکن نہیں تھا، ہر بار انہیں واپس آنا پڑتا۔ ان کی زندگی میں ایک وقت ایسا آیا کہ ان کے پاس عمرے کے پیسے نہیں تھے اور ان کا پاسپورٹ بھی ایکسپائر ہوگیا تھا، آخر میں ان کو کسی نے کہہ دیا کہ میں آپکو عمرہ کروادیتا ہوں، اسی کوشش میں انہوں نے شدید گرمی میں اپنا پاسپورٹ رینیو کروایا اور شاید اسی گرمی سے انہیں وہ مرض لاحق ہوا جس نے انہیں قید حیات سے آزاد کردیا۔
نانا اور نانی قطعی طور پر صاحب استطاعت نہیں تھے، صاحب عشق تھے، اگر میں اتنا بڑا فلسفی بھی ان کو جا کر سمجھاتا کہ ’’ آپ لوگوں پر آپ کے رب نے یہ سختی نہیں رکھی ‘‘ تو وہ بھی ہنس کرکہتے کہ ’’بیٹا کون سی سختی کون سا فرض، ہمیں تو بس سوہنے رسول ﷺ کا روزہ دیکھنا ہے‘‘ مجھے نہیں پتہ کے سوہنا رب جب ان کی ان کوتاہیوں کا حساب کرے گا تو شاید اس کی سزا بھی یہ ہی دے کہ جا کر بیٹھ جاؤ اپنے سوہنے رسولﷺ کے قدموں میں اور پیتے رہو عشق کی مہ حوض کوثر سے‘‘
میں حج پر حکومتی سبسڈی کے خاتمے پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا، حکومت گھر، دکان، لاش سب گرا سکتی ہے یہ بجلی بھی گرادی تو کیا ہوا، بس سوہنے رسول ﷺ کے عاشقوں کے زخموں پر فقہ کے نمک نہ چھڑکیں، انہوں نے زندہ رہنے کی لیے جو زاد راہ چنا ہے وہ کسی شریعت کا پابند نہیں ہے۔
وما علینا الا البلاغ

Facebook Comments

بابر اقبال
گمشدہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply