• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • بلوچستان کے مسائل اور اسلام آباد کا بیانیہ۔۔۔۔گہرام اسلم بلوچ

بلوچستان کے مسائل اور اسلام آباد کا بیانیہ۔۔۔۔گہرام اسلم بلوچ

پارٹیشن کے بعد کثیر الاقومی ریاست کے نام پر پاکستان معروضِ وجود میں آیا۔ مشرقی پاکستان، موجودہ بنگلہ دیش بھی اس وقت قائداعظم محمد علی جناح صاحب کے اسلامی جمہوریہِ پاکستان کا حصہ تھا ۔بعد میں 27 مارچ 1948 ء میں بلوچستان کو جبری طور پر خان صاحب کی انفرادی منشا کے مطابق پاکستان سے الحاق کرانے ،ضمن ہونے کی ایک الگ داستان ہے اور وہ تاریخ کا حصہ بھی ہے۔ روزِ اول سے اس ملک کے اصل وارثوں نے اس کثیر الاقومی ریاست کے نام پر بنی باقی اکائیوں اور قوموں کو نہ ذہنی طور پر تسلیم کیا بلکہ اس میں بسنے والی قوموں کا مسلسل استحصال کرتے آرہے ہیں اورانہیں یہی احسا س دلایا جا رہا ہے کہ آپ ایک کالونی کے اندر قید ہیں۔

اس وقت بلوچستان میں کالونیل اثرات اور غلامی کا احساس بلوچستان کے مظلوم عوام کو زیادہ دیا جا رہا ہے۔ اس غلامی اور محرومی کے احساس کوبلوچستان کے عوام کے ساتھ ساتھ اسلام آباد میں بیٹھا لکھا پڑھا طبقہ اور صحافی حضرات و دانش ور حضرات ،سول سوسائٹی بھی شدت سے محسوس کررہی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ وہ خاموش ہیں کیوں کہ کچھ کو تو اپنا کچن چلانا ہے اور کچھ کو زندگی عزیز ہے ۔ کم ہوتے ہیں جو ظلم کے خلاف بولتے ہیں ،ان میں سے کچھ زندگی کی آخری لمحے تک بولتے رہتے ہیں ۔۔۔اور کچھ کو خاموش کرا دیا جاتا ہے۔

حالاں کہ اس فیڈریشن کی بغیر وحدتوں کے بالخصوص بلوچستان کے ،اسے خطے میں وہ اہمیت ہی نہیں ہے ۔دنیا کی نظریں بلوچستان کی معدنیات ،ساحل و وسائل، سیندک، ریکودک پرہیں ۔ اس وقت گوادر اپنے ڈیپ سی پورٹ کی وجہ سے اہمیت رکھتاہے اور وہ بلوچستان میں ہے ۔مگر پھر بھی نہ جانے بلوچ اور بلوچستان کی باقی اقوام کیوں اتنی پسماندہ ہیں ۔پاکستان کا وجود اسی میں ہے کہ وہ قوموں کے احساسِ محرومی کا ازالہ کرکے سب کو ساتھ لے کر چلے مگر اس کا رویہ اکثر حکمانہ اور ظالمانہ رہا ہے۔ اب بھی اپنے برتاؤ پہ اسے ذرا سی پچھتاوا نہیں ہے۔ بلوچ سمیت سندھی، سرائیکی اور پشتون کے وجود سے بھی انکاری ہے۔

اپنی انا اور اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے اقتدار کی ہوس اور طاقت پہ گھمنڈ و غرور سے مقتدرہ اور ایوب خان کی آشیرباد سے ملک کو دولخت کیا۔ اگر اس وقت بھاری اکثریت سے کامیاب شیخ مجیب الرحمن صاحب کی جماعت ( عوامی لیگ )کو اقتدارمنتقل کرکے جمہوریت کی بالادستی کی خاطر عوامی مینڈیٹ کا احترام کرتے تو شاید آج ملکی سیاست میں یہ سرحدوں کی حفاظت کرنے والوں کی سولین اداروں کے اندر ضرورت محسوس نہیں ہوتی یا اس حد تک عمل دخل نہیں ہوتا اور ہماری نسل اس نعرے سے بھی ناآشنا تھے کہ ’ ووٹ کو عزت دو ‘۔۔۔ وغیرہ۔

اور اس وقت سب سے زیادہ پاکستان پیپلز پارٹی اوربلوچستان کی قوم پرست جمہوری جماعتیں بھگت رہی ہیں۔بھٹو صاحب اپنی کرسی کی خاطر مقتدر قوتوں کا سہارا لے کر وزیراعظم تو بن گیا مگر انہی کے ہاتھوں سے اس کی حکومت کو گرایا گیا۔ وہ گرفتار ہوا اور تختہ دار تک پہنچا۔

پاکستان اپنے قیام سے لے کر آج تک اندورنی طور پر جن مشکلات اور مصائب کا شکار ہے، یہ حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور قوموں کے ساتھ استحصالی سلوک روا رکھنے کا نتیجہ ہے۔ اس وقت فیڈریشن کے اندر سب سے زیادہ پسماندہ اور ظلم وبربریت بلوچستان میں بلوچ و پشتون کے ساتھ ہو رہا ہے۔

اسلام آباد میں بیٹھے حکمران بلوچستان کے جغرافیہ اور ساحل کی اہمیت کے ساتھ ساتھ بلوچستان میں بسنے والے عوام کے احساسِ محرومی اور ان کے حقوق کے لیے اتنا سنجیدہ اور کوشاں ہوتے تو شاید آج بات حقوق اور احساسِ محرومی کے نعروں سے نکل کر علیحدگی تک نہ پہنچتی اور بلوچ مجبور ہو کر اپنے وجود کی جنگ پہاڑوں میں نہ لڑتے۔

پنجاب کا ہمیشہ مؤقف یہی رہا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی اور ترقی کی راہ میں سردار و نواب رکاوٹ ہیں اور بلوچستان کے اندر ایک نوجوان طبقہ جن کی خاص طور پر بلوچستان کی پارلیمانی سیاست اور قوم پرستوں پر گہری نظر کے ساتھ ساتھ وسیع مطالعہ بھی ہے ۔ وہ اس پارلیمانی و جمہوری طرزِ سیاست کرنے والوں اور قوم پرستوں کے عمل و کردار سے مطمئن نظر نہیں آرہے ہیں ۔ کیوں کہ کی ملکی سیاسی تاریخ اپنا ستر سال کا سفر طے کر چکی ہے مگر بلوچستان میں صرف آئیڈیل دور اور بہتر کارکردگی نیشنل پارٹی کی ڈھائی سالہ حکومت کی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آج بلوچستان کے ہر ڈسٹرکٹ میں یونیورسٹی اور میڈیکل کالجز ہوتے مگر شعبہ صحت کا المیہ یہ ہے کہ ابھی حالیہ دنوں تربت کے علاقت تمپ میں فوری طبعی امداد اور سہولیات کی عدم دستیابی کے باعث ایک ماں اور بچہ وفات پا گئے۔ بلوچستان میں اس طرح کی ہزاروں مثالیں دی جاتی ہیں کہ اس کے ذمہ دار حاکم وقت و صاحبِ ثروت ہیں۔ اس سب کا ذمہ دار ہم ریاست کو ٹھہراتے ہیں کیوں کہ ریاست ایک شفیق ماں اور رحمدل باپ کی طرح ہوتی ہے۔ مگر تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں سیاستدانوں کا شاندار یا قابلِ فخر ماضی نہیں رہا ہے جو نونوں اور عوام کی توجہ اپنی طرف کرے۔ (ہمیں اپنی اداؤں پہ غور کرنے کی ضرورت ہے)۔

مجھ سمیت ادب اور سیاست کے ہر طالب علم اور لکھے پڑھے طبقے کا یہی خیال ہے ۔ قیادت بے شک سیاست دانوں کے ہاتھوں میں ہے مگر رائے عامہ اور فیصلہ عوام اور نوجوان کریں گے کیوں کہ ان کی ملکی تاریخ و سیاست پر گہری نظر ہے اوروہ چیزوں کا بہتر ادراک رکھتے ہیں ۔ وہ الگ بات ہے کہ کوئی کچھ نہیں لکھتا مگر اپنے اپنے سرکلز میں سب بولتے ضرور ہیں۔

یہ تمام صورت حال اور مسائل اپنی جگہ مگر ایک سوچھی سمجھی سازش کے تحت اسلام آباد میں بیٹھے سورماؤں کی طرف سے،بلوچ قوم پرستی کی سیاست اور پسماندگی کے خلاف حقوق و بقاکی جدوجہد کے بیانیے کو تیزی کے ساتھ غلط پیش کیا جا رہا ہے۔انہوں نے ایک راؤانڈٹیبل میں بیٹھ کر بلوچوں کے حوالے سے اپنا ایک مائنڈ سیٹ بنا رکھا ہے ۔حالاں کہ آج کے جدید دور میں ہر ذی شعور خطے اور بین الاقوامی حالات پہ نظر رکھتا ہے۔ ان کو آسانی سے بیوقوف اور قوموں کے حوالے سے ان کا بیانیہ غلط پیش کرکے ان کے خلاف ایک رائے ہموار نہیں کرسکتے۔ بلوچستان میں پنجاب کے لیے یا دوسرے صوبے کے لوگوں کے لیے اس حد تک کی کوئی نفرت نہیں ہے جتنا پیش کیا جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ریاست قوموں کو آپس میں دست و گریباں کرنے میں مصروف ہو اور سیاست دان ایک دوسرے کی جماعت کی کردار کشی میں مصروف ہوں تو اس ملک و قوم کا اللہ ہی حافظ ہو گا۔

Facebook Comments

حافظ محمد زبیر
ڈاکٹر حافظ محمد زبیر صاحب علوم اسلامیہ میں پی ایچ ڈی ہیں اور کامساٹس یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔ آپ تقریبا دس کتب اور ڈیڑھ سو آرٹیکلز کے مصنف ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply