ک سے کشمیر۔۔۔۔روما رضوی

میں ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑوں کے درمیان عرصے دراز سے کھڑا ہوں۔ میری گود میں پونچھ، جموں، لداخ مظفر آباد جیسے شہروں نے پرورش پائی ہے۔ اس وادی میں اوپر تلے اگے ننھے منے درختوں کے سائے بھی سیاہ رات میں بہت دور تک پھیلے نظر آتے ہیں۔ کبھی کبھی سردی کا موسم نیلے بہتے ہوئے چشموں کو برف ہی بنا دیتا ہے پھر دیکھنے والوں کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ سستی سے بہہ رہے ہوں۔ رات کا سناٹا بس ہوا کی آوازوں سے آباد لگتا ہے۔ ہاں جھینگروں کی جھائیں جھائیں تو مینڈک کے ٹرانے کی آواز سے ماحول میں موجود خاموشی ذرا دیر کو دور ہوجاتی ہے۔

جیسے میں نے بتایا کہ عرصے سے ان بہتے نیلم جہلم ستلج چناب روای جیسے دریاوں کے کنارے پر جما کھڑا ہوں۔ میرے دامن میں پھیلی اس سبز وادی کے بہت سارے سبز درخت میرے پتھریلے جسم کو چھپائے ہوئے ہیں۔ کچھ برس پہلے میرے سر پر بھی ایک چھوٹی سی بستی بنا لی گئی ہے اونچے نیچے گھروں کے درمیان ایک اسکول بھی ہے۔ جب اسکول میں صبح صبح بچوں میں دعا ہوتی ہے تو انکی ان گننت آمین کی آوازوں کیساتھ میں بھی آواز ملا کر آمین کہتا ہوں۔ معلوم ہے یہ بچے کیسی دعا مانگتے ہیں؟

یہ بچے اس وادی میں سکون کی۔ خوشی کی اور سب میں پیار و محبت کی دعا مانگتے ہیں۔ پر مجھے وہ ننھی بچی بہت پیاری لگتی ہے جسکی سبز آنکھیں ہیں اور وہ انہی کا ہم رنگ اسکارف پہن کر اسکول آتی تھی۔ وہ بستے میں سے چاول کے دانے نکالتی اور راستے میں غٹر غوں کرتے کبوتروں میں ننھی ننھی انگلیوں سے بکھر دیتی۔ مجھے لگتا ہے میرے ساتھ وہ بھی اسکی راہ تکتے تھے۔ اوہ ہاں ایک دن تو عجیب ہی واقعہ ہوا۔ وہ کیاری ہے نا سرخ سرخ گلاب کے پھولوں والی۔ جسکی روز مالی بابا نگرانی کرتے ہیں اس میں ایک دن کئی رنگوں کے پھولوں والا پودا بھی نظر آیا اس پر پانچ یا چھ رنگ برنگے پھول رہے ہوں گے۔ مالی بابا پانی دیتے تو وہ ننھی گڑیا کبوتروں کو دانہ ڈالتے چپکے چپکے پھولوں کو دیکھتی اور مسکراتی رہتی۔

مجھے لگتا ہے اسے اپنے باغ کے ہر پھول سے میری طرح بہت پیار تھا۔ ایک دن مالی بابا بیمار تھے۔ پھولوں کو پانی دینے والا کوئی بھی نا تھا۔ وہ اسکول کی دیوار سے لگی دانہ ڈال رہی تھی کہ کچھ بڑے بچوں نے ایک سرخ پھول توڑا۔ وہ ان بچوں کے پیچھے دوڑی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دوسرا پھول بھی توڑا گیا اس نے رونا شروع کردیا۔ وہ ان پھولوں کو ننھے سبز پودے سے الگ ہوتا نہیں دیکھ سکتی تھی۔ ایسے ہی جیسے میری وادی اپنے شہروں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں دیکھ سکتی۔ میں اس ننھی بچی کیساتھ عہد کرنا چاہتا ہوں کہ ہم پھر اس سبز پودے پر پھول لگائیں گے پھر میری وادی کے سارے لوگ ایک ساتھ مل جل کر بہاریں دیکھیں گے۔

ارے ذرا ٹہرو۔۔۔ دوستو کان لگا کر سنو تو، اسکول میں بچے سبق یاد کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

الف انار ۔۔۔ ب بندر ۔۔۔
اور اور ک سے کشمیر۔۔۔۔
میرا اور آپ سب کا کشمیر ۔۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply