افسوس کہ فساد کا رد نہ ہو سکا۔۔ فہیم عامر

پیارے دوست آصِف سٹیفن،

اُمیدِ کامِل ہے کہ تم قطعی خیریت سے نہیں ہو گے۔ اور ہو بھی کیوں کہ تُم قید خانوں کی صرصر میں جل جل کے انجُم نُما ہونے والے، آنے والے دِنوں کے سفیر تو ہو نہیں۔ ہو تو تُم ایک خطرناک مُجرِم، جِس سے قاری رانا مُحمد ارشد رِضوی جیسے سیاسی قاری کے ایمان کو خطرہ لاحق ہے۔
ہاں بھئی، جانتا ہوں کہ تُم غریب لوگ مین میخ نِکالنے میں خاصے طاق ہوتے ہو۔ یہی کہو گے نا کہ پہلے تُمھیں  مُحمّد نواز نامی شخص نے پکڑ کر اِس لیے پیٹا کہ اُسے شبہ تھا کہ تُم بابا سُنڈے شاہ کے مزار پر رکھے ہوئے ڈبّے میں سے چندے کے پیسے چُرا لیتے ہو، پھِر قاری رانا ارشد رِضوی نے ۱۲ اگست کو، تم پر ۲۹۵ بی کا جھوُٹا پرچہ درج کروا دیا۔ اور تُم یہ جاننا چاہتے ہو کہ تُمھارا اصل قُصور کیا ہے۔ ڈبےسے چندہ چُرانا یا توہینِ مذہب؟؟

بھیّا، تُمہارا اصل جُرم تو جُرمِ ضعیفی ہے جِس کی سزا علامہ اِقبال نے مرگِ مفاجات تجویز کی اور دوسرا یہ کہ تُم پاکستان میں پیدا ہو گئے اور وہ بھی ایک غریب مسیحی گھرانے میں۔دراصل، تُم جانتے نہیں کہ قاری ارشد رانا کے گُروعلامہ خادِم حسین رضوی کے مُطابِق یہ ملک اِسلام کے نام پر بنا تھا، جِس میں کِسی اور مذہب کے ماننے والوں کے لیے کوئی گُنجائش نہیں۔ یہاں رہنا ہے تو شریعت کے تابع رہو اور شریعت سے مولانا کی مُراد اُن کی اپنی وضح کی ہوئی شریعت ہے، شریعتِ اِسلامی نہیں۔

ارے، بار باراِسے قائدِاعظم کا پاکِستان کہتے ہو، کیا پاکِستان بنانے کی ساری ذمہ داری محمّد علی جِناح پر ڈالنا چاہتے ہو؟ تُمہارے اپنے ہم مذہب بھی تو اِس کارِخیر میں شریکِ کار تھے ۔ جوشوا فضل دین اور چوہدری چندو لعل تو خیر سے تھے ہی عیسائی، اِس کے علاوہ دیوان بہادر ایس پی سِنگھا  سِکھ تھے اور جوگندر ناتھ منڈل تو ہندو تھا ۔۔۔ جی بھائی وہی ہندو، جِسے ہر 14  اگست اور6  ستمبر کو ایک اچھا پاکِستانی شہری گالیاں دیتا ہے۔ کم از کم عامِر لیاقت جیسا سچا پاکِستانی۔چلو، میں تُمہاری یہ حیرت بھی دور کر یتا ہوں کہ تُمھیں جھوُٹے کیس میں پھنسانے والا قاری رانا ارشد رضوی بیک وقت راجپوُت اور سیّد کیسے ہو گیا؟ تو بھیّا، یہ راجپوُت تو ہماری طرح موروثی مجبوری کے تحت ہوگا مگر رضوی وہ علامہ خادِم حسین رضوی کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے بعد عقیدت میں ہوا۔

پیارے بھائی،
خادِم حسین رضوی کا بُنیادی تعلُق تو سُنی تحریک (ثروت قادری گروپ) سے ہے اور خود کو بریلوی بتلاتے ہیں مگرتحریکِ لبیک یا رسول اللہﷺ کے نام سے ایک گروپ چلا رہے ہیں۔ یہ وہی گروپ ہے جِس نے غازی ممتازقادری شہید کی نمازِجنازہ کو سیاسی جلسہ بنانے میں ایک اہم کِردار ادا کیا۔ اور تُم اِنہی کے پیروکاروں کی مرضی و منشا کے خِلاف انصاف کے طلبگار ہو؟ واہ۔۔۔تُمھیں معلوم ہی کب ہے کہ اِنہی کے گروپ کے لوگوں نے ایک طرف تو گجرات میں نواز شریف کا استقبال کیا اور دوسری طرف شیخ رشید احمد نے بھی میڈیا پر اپنی اِس گروپ سے دوستی کا دعویٰ کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ جنوبی پنجاب میں (یعنی، جہاں ہم رہائش پذیر ہیں) وہاں سے اِس گروپ کے ذریعے، عمران خان کو انتخابات میں کامیاب کروائیں گے۔ اب تُم ہی بولو، کہ تُمھارا مسئلہ لے کر کِس گھر جائیں؟

جانم!کوئی  زیادہ عرصہ نہیں گزرا، خادِم حسین رضوی نے رائل سِٹی بہاولپورمیں جہاں ہم عارضی طور پر رہائش پذیر ہیں، ایک جلسہ منعقد کیا تھا۔ ہم نے جب ضلعی انتظامیہ سے معلوم کرنے کی کوشِش کی کہ اُنہوں نے کیونکر انسدادِ دہشتگردی میں شامِل ایک فورتھ شیڈول کے مُلّا کو جلسہ کرنے کی اِجازت دی تو جواب مِلا کہ اُنہیں اِس بارے میں کوئی عِلم ہی نہیں۔ ہاں ڈپٹی کمشنر نے اِجازت دی بھی ہو تو اِس میں بقول اُن کے قطعاً کوئی مضائقہ نہیں کہ وہ نبی پاکﷺ پر درود و سلام ہی تو بھیجیں گے۔ بھلا اِس سے ایک انگریزی اخبار کے مسیحی مُدیر کو کیا خطرہ ہو سکتا ہے؟
بات تو ٹھیک تھی مگرخود ہی بتاؤ، کیا نبی پاکﷺ پر درود بھیجنے سے کِسی کا نام فورتھ شیڈول میں آجاتا ہے اور کیا فورتھ شیڈول میں نام آ جانے سے قانون اِن کا کُچھ بِگاڑ سکتا ہے؟؟

اسٹیفن میاں،
ڈی پی او بہاولپور نے ہماری سکیورٹی کا بندوبست تو کر دیا مگر تُم کیا کرو گے؟ جانتے ہو، اُس دن ہمیں اپنے بچوں کو ہنگامی طور پر خانیوال بھیجنا پڑا تھا۔ اور یہی کیا، آج بھی اِس تنظیم کے خیر خواہوں کی جانب سے ہمیں دھمکی نُما شِکوے مِلتے رہتے ہیں۔ کِسی کو گِلہ ہے کہ ہمارا صاحبزادہ گلی کے پلید کُتوں کو کھانا ڈالتا ہے۔ اب پوُچھو اِس میں کیا حرج ہے؟ تو بھائی حرج یہ ہے کہ کُتوں سے اُنہیں خطرہ ہے کہ کہیں وہ کالونی میں آنے جانے والے لوگوں کو ناپاک نہ کر دیں۔ دوسرا شِکوہ اُنہیں ہماری بیٹیوں سے ہے کہ وہ جینز پہن کر کالونی میں کھیلتی ہیں جو غیر شرعی ہے۔ یہ توبھلا ہو ہمارے درمیانے طبقے کے معاشی حالات کا کہ ہم اِنہیں گِٹار خرید کرنہیں دے سکے، ورنہ سوچو، کہ اگر  میری بیٹیاں کالونی کے پارک میں گِٹار بجاتی پائی جاتیں تو اِس سے اِسلام کِس قدر شدید خطرے میں آ جاتا۔

میاں، تُم تو خیر مسیحی ہو، ابھی ۲۲ اگست کو علامہ خادِم حسین رضوی ہی کے ایک پیروکار، اکرام اللہ خان نے چنیوٹ کی ایک مسجد میں سوتے ہوئے، کراچی سے تبلیغ پر آئے ہوئے اپنے ہی ایک مُسلمان بھائی کو مذہبی اِختلاف کی بنیاد پر قتل کر دیا اور دوسرے کو شدید زخمی۔ سُنا ہے، کہ وہ درانتی کے وار کرتے ہوئے لبیک یا رسول اللہﷺ پُکار رہا تھا۔ تُم کِس کھیت کی موُلی ہو؟

میاں، بانیِ جماعت اِسلامی، مولانا مودودی نے ایک جگہ لِکھا ہے کہ غلطیاں بچے جنتی ہیں۔ ٹھیک ہی لِکھا تھا کہ اُن سے بہتر اِس حقیقت کو کون جان سکتا ہے کہ جِن کے پیروکار آج بھی مولانا کی جنمی ہوئی غلطیوں کی ماں بن کر حِفاظت کر رہے ہیں۔ خود ہی دیکھ لو، مودودی صاحب نے جو لاہوری تحریک شروع کی، علامہ خادِم رضوی آج بھی اُسی کو چلا رہے ہیں۔اُن کے مُطابق، وہ سب شیعانِ علی جو عزادارہیں ،کافِر ہیں کہ اُنہیں عزاداری کی بجائے شاتمِ صحابہ کا قتل کرنا چاہیے کہ اصل اِسلام یہی ہے۔ احمدی تو خیر واجب القتل ہیں، ہندو بھی ناپاک ہیں اور عیسائیوں کا اِس مُلک سے کوئی تعلق نہیں، اُنہیں فِی الفور یہ مُلک چھوڑ کر کِسی عیسائی مُلک میں چلے جانا چاہیے۔ وہ ببانگِ دہل اعلان فرماتے ہیں کہ اِسلام امن کا دین نہیں ہے اور جو اُسے امن کا دین کہے وہ کافِر ہے۔

سو میاں آصِف سٹیفن،

Advertisements
julia rana solicitors london

جنھیں  سکیورٹی میّسر نہیں، جو اِسلام کو امن کا دین مانتے ہیں، جِن کا عقیدہ انہیں عزاداری سِکھاتا ہے، جو احمدی ہیں ،وہ تو واجب القتل ہیں ہی اورتُم وہ عیسائی جِن کے بیٹے کتوں کو کھانا ڈالتے ہیں یا جِن کی بیٹیاں جینز پہنتی ہیں اُن کا ایسے مُلک میں رہنا کیونکر واجب ہو سکتا ہے جو خادِم رضوی کے اِسلام کے نام پر حاصِل کیا گیا ہے۔ ہم تو صحافی ہیں میاں۔ ہمیں تو دھمکیوں کی عادت ہے۔ تُم جیسے لوگوں کی خبریں پڑھنا، اِن پر لِکھنا ہمارا معمول ہے۔ مگر خادِم حسین رضوی اور اُس کے پیروکاروں کا کھُلے عام پھِرنا ایک سوال ہے انسدادِ دہشت گردی کے تمام قوانین پر، اِن نیشنل ایکشن پلانز پر اور آئے دِن ہونے والے اِن فوجی آپریشنوں پر۔ مُجھے افسوس ہے، آصف سٹیفن کہ  فساد کا ردّ نہیں ہو سکا۔
فقط ایک بے مایہ کالم نِگار،
فہیم عامِر!

Facebook Comments

فہیم عامِر
ایک عرصے سے صحافت سے منسلک ہیں اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم نگاری کرتے ہیں۔ بقیہ تعارف تو ہماری تحریریں ہی ہیں، جِن میں سے کچھ ہماری فیس بُک پر موجود ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply