میں ٹھیک ،تم غلط۔۔۔۔ گل نوخیز اختر

مجھ پر پہلی بار سچائی 8 سال کی عمر میں آشکار ہوئی جب میری نانی جان نے بتایا کہ یہ ساری دنیا ایک گائے نے اپنے ایک سینگ پر اٹھا رکھی ہے‘ جب وہ تھک کر زمین دوسرے سینگ پر منتقل کرتی ہے تو زلزلہ آتاہے۔دوسری سچائی دس سال کی عمر میں حاصل ہوگئی جب پتا چلا کہ ایک پودے کے روئی نما گچھوں کو اللہ میاں کا سلام دے کر بھیجا جائے تو وہ ساتویں آسمان پر جاکر یہ سلام بحفاظت پہنچا آتے ہیں۔بارہ سال کی عمر میں یہ بھی منکشف ہوگیا کہ اگر کوئی قسم توڑ دی جائے تو اس کا کفارہ صرف اتنا کہہ کر ادا ہوجاتاہے کہ’’کوٹھے تے مصلہ۔۔۔ساڈی قسم لان آلا اللہ‘‘
پندرہ سال کا ہونے تک بے شمار کائناتی راز وں سے پردہ ہٹ چکا تھا مثلاًاگر ہاتھ سے سرخ مرچیں زمین پر گر جائیں تو قیامت والے دن اِنہیں پلکوں سے اُٹھانا پڑے گا۔۔۔رات کو قبرستان کے قریب سے نہیں گذرنا چاہیے کیونکہ چڑیلیں چمٹ جاتی ہیں۔۔۔جنات کے حملے کا خطرہ ہو تو منہ کے اوپر رضائی لے لینی چاہیے۔۔۔عورتیں کھلے بالوں کے ساتھ چھت پر جائیں تو جنات عاشق ہوجاتے ہیں۔۔۔شام کے وقت جھاڑو نہیں دینا چاہیے ورنہ آمدنی کم ہوجاتی ہے ۔۔۔جو عورتیں اپنی ’آئی برو‘ بنواتی ہیں قیامت کے دن ان کے ماتھے پر کیل ٹھونکے جائیں گے۔۔۔لاؤڈ سپیکر قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔۔۔بارش نہ ہورہی ہو تو کسی بوڑھی عورت کے سر میں پانی انڈیلنا چاہیے۔۔۔جماہی لیتے وقت منہ پر ہاتھ نہ رکھیں تو شیطان اندر چلا جاتاہے۔۔۔کسی کو لومڑی کے بال مل دیے جائیں تو اسے شدید خارش شروع ہوجاتی ہے۔۔۔سرخ آندھی تب آتی ہے جب کسی بے گناہ کا خون ہوتاہے۔۔۔جوتی اتفاقاً الٹی پڑی ہو تو اس کامطلب ہے کہ عنقریب کوئی سفر درپیش ہے۔۔۔مہمان نے آنا ہو تو پہلے منڈیر پر کوّ ا اعلان کرتاہے۔۔۔وغیرہ وغیرہ۔ایک مدت تک مجھے ان میں سے بہت سی باتوں پر ایمان کی حد تک یقین رہا‘ اگر کوئی مجھ سے اختلاف کرتا تھا تو میرا دل چاہتا تھا کہ اسے ایک گھونسہ لگاؤں۔مجھے ہر وہ شخص احمق لگتا تھا جو میری باتوں سے اتفاق نہیں کرتا تھا۔
ہم سب ایسی ہی باتیں سن کر بڑے ہوئے ہیں‘ ہر شخص اپنے عقیدے میں پکا ہے۔ بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ ایک سچا اور کھرا مسلمان وہی ہوتا ہے جو ہم جیسا ہوتاہے۔ ہم جیسے سے مراد‘ ہم جیسی نماز پڑھنے والا‘ ہم جیسا روزہ رکھنے والا اور ہم جیسے عقائد رکھنے والا۔ اس معاملے میں ہمیں یقین ہے کہ سچائی ہم پر آشکار ہوچکی ہے اور دوسرے تاحال گمراہی میں پڑے ہوئے ہیں۔ایسے میں اگر کوئی ذرا سی بات پر بھی ہم سے اختلاف کی جرات کرلے تو ہمارا دل چاہتا ہے کہ اس کی تکا بوٹی کر دیں۔جب کچھ نہیں بن پاتا تو اتنا کہہ کر دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ یہ توہے ہی دوزخی۔ایسے میں ہمارے منہ سے ہر بات فیصلے کی شکل میں نکلتی ہے ‘ ہم یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کسی بات کو سمجھنے میں ہم سے بھی غلطی ہوسکتی ہے۔ایسے میں جب کوئی دلیل ہمیں لاجواب کرتی ہے تو ہماری شکل دیکھنے والی ہوتی ہے۔ جواب تو ہوتانہیں لہذا آواز بلند کرتے ہیں‘ آنکھیں نکالتے ہیں اور خود ہی اپنی جیت کا اعلان کر دیتے ہیں۔
آپ کسی محفل میں بائیں ہاتھ سے گلاس پکڑ کر پانی پئیں تو ایسے لوگ جھٹ سے آپ کو یاد دلاتے ہیں کہ پانی دائیں ہاتھ سے پینا چاہیے۔۔۔آپ کھڑے ہوکر پانی پی رہے ہو ں تو یہ آپ کو اطمینان سے یاد دلاتے ہیں کہ بیٹھ کر پانی پینا چاہیے۔۔۔لیکن اِس دوران اگر آپ انہیں کوئی نصیحت کردیں کہ ’’قبلہ آپ کو سونے کی انگوٹھی نہیں پہننا چاہیے‘‘ تو سمجھ لیں کہ آپ نے اپنی شامت کو آواز دے لی۔یہ اُس وقت تک سکون سے نہیں بیٹھتے جب تک آپ کے دماغ کا بھرکس نہ بنا دیں۔ ا س دوران اِن کے تما م تر دلائل یہی ہوتے ہیں کہ فلاں فلاں واقعے کی رُو سے مرد کا انگوٹھی میں سونا پہننا جائز ہے۔ان کے پاس خود کو سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی ایک ہی ترکیب ہوتی ہے۔۔۔غصہ!!!جب یہ غصے میں نہ ہوں تو ہر ایک کی بات میں کیڑے نکالتے ہیں‘ جہاں کیڑے نہ نکال سکیں وہاں ڈال دیتے ہیں۔یہ جہاں جہاں خود دین کی پیروی نہیں کرتے اس پر کسی کو بولنے کی اجازت نہیں دیتے بلکہ مثالوں کے ذریعے واضح کرتے رہتے ہیں کہ اِن کے طرز زندگی پر کوئی انگلی اٹھانا بھی سخت ترین گناہ کے زمرے میں آئے گا۔
ایسے لوگ ہم میں سے ہی ہوتے ہیں‘ ہماری ہی گلیوں محلوں میں پائے جاتے ہیں اور دن رات مذہب کو مشکل سے مشکل تر بنانے کا فریضہ سرانجام دیے رکھتے ہیں۔یہ خود توہر وقت ‘ ہر کام میں استخارہ کرنے کی تلقین کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ حضور آپ زندگی میں اتنے ناکام کیوں رہے تو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔ایسے ہی ایک نیک کالم نگار زلزلوں کے بارے میں آئے روز پیشین گوئیاں کرتے رہتے ہیں‘ کبھی کبھی تو لگتاہے زلزلہ آنے پر سب سے زیادہ خوشی بھی انہی کو ہوتی ہے۔اِدھر کوئی زلزلہ آتا ہے اُدھر وہ ٹی وی پر نمودار ہوتے ہیں اور بڑی متانت سے زلزلے کی وجوہات بتانا شروع کر دیتے ہیں۔جو لوگ ان سے ذاتی طور پر واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر موصوف کی کسی بات سے اختلاف کرلیا جائے تو خود ہی زلزلہ لے آتے ہیں۔
ہم میں سے ہر شخص اپنی اپنی تحقیق کے مطابق سچا ہے کیونکہ ہماری ساری تحقیق اپنے ہی فرقے اور اپنی سوچ کے مطابق رہی ہے ۔ تحقیق اگر یقین کے جذبے کے ساتھ کی جائے تو ظاہری بات ہے ہر جواب مثبت ملتاہے۔کیا وجہ ہے کہ ہم میں سے ہر شخص خود کو پرفیکٹ مسلمان کہنے پر مصر ہے پھر بھی کہیں’مسلمان‘ نظر نہیں آتا۔اگر کسی کا دادا بہت اچھا مکینک تھا تو اس کا پوتا صرف اپنے دادا کی وجہ سے اچھا مکینک نہیں کہلایاجاسکتا‘ اس کے لیے اسے خود کو بھی اچھا مکینک ثابت کرنا ہوگا ۔
ہمیں بھی اپنے بزرگوں پر فخر ہے کہ وہ بہت اچھے مسلمان تھے۔۔۔بھئی ہوں گے‘ ہم خود کیا ہیں؟؟؟ دنیا کسی کو اس کے ماضی کے حوالے سے نہیں یاد رکھتی‘ اگر آپ زندہ ہیں تو آپ کا حال ہی آپ کا پیمانہ ہے۔آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ یورپ نے اسلام کے سنہری اصولوں کو اپناکراپنا آپ سدھار لیا ہے‘ تو قبلہ یہ اصول آپ بھی اپنا لیجئے ‘ آپ تو اس کی ابتداء کے دعویدار ہیں‘ آپ کو تو یہ اصول ازبر ہونے چاہئیں۔لیکن نہیں! بس اتنا اطمینان ہی کافی ہے کہ یہ اصول ہمارے تھے۔ یہ بات کہتے ہوئے ہم اکثر یہ کہنا چاہتے ہیں کہ گویا مغرب نے ہم سے ہمارے اصول زبردستی چھین کر اپنے ہاں لاگو کر لیے ہیں ۔ہم میں سے ہر شخص یہی رونا روتانظر آتاہے کہ مسلمانوں کا کیا بنے گا؟ یعنی ہمارے علاوہ سب لوگوں کا کیا بنے گا۔یہی وہ سوچ ہے جس نے ہمارے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی ہیں۔ہم کھلے ذہن سے نہ کوئی بات کرسکتے ہیں نہ سن سکتے ہیں ‘ ہمیں بس اپنے جیسے لوگوں میں بیٹھ کر واہ واہ سننے کا مزا آتاہے‘ ہر فرقے کے لوگ آپس میں مل بیٹھتے ہیں‘ اپنی اچھائیاں اور دوسروں کی برائیاں بیان کرتے ہیں‘ داد و تحسین سمیٹے ہیں اور سکون کی نیند سو جاتے ہیں۔۔۔اللہ اللہ خیر صلٰی!!!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میں ٹھیک ،تم غلط۔۔۔۔ گل نوخیز اختر

  1. بہت سیدھی اور سادہ سچائی بھرا مضمون مگر اس کی بھی سمجھ نہیں آنی ۔۔۔۔۔۔۔کسی کو ۔ ہا ہا

Leave a Reply