*ہمارے سورج کا پڑوسی ستارہ*
میری یہ تحریر اُس مُمکِنہ خلائی مخلوق کے نام جو کائنات کے کسی گوشے میں اپنی ایک الگ ہی نوعیت کی زندگی گزار رہی ہوگی، ایک ایسی زندگی جو ہمارے شعور سے بالاتر ہے۔
دُوربین کے ذریعے دور خلاء کی دنیاؤوں میں تانکنے جھانکنے والے یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ بڑے شہروں کی مصنوعی روشنیوں میں آدھی رات سے پہلے چاند کے علاوہ کسی اور خلائی جسم کا ٹھیک سے مشاہدہ کرنا مشکل سا ہوتا ہے، اسی لئے میں اکثر نصف رات ہونے پر ہی خلائی نظاروں کو نگاہوں میں سمونے کے لئے چھت پر جاتا ہوں۔اس رات بھی معمول کے مطابق دوربین Telescope کا رُخ ایک نامعلوم ستارے کی طرف کئے دوربین کے آئی پیس طEyepiece میں بڑے ہی تجسّس کے ساتھ اس ستارے سے پھوٹنے والی روشنی اور اس کے آس پاس کے خلاء کو دیکھ رہا تھا کہ یکایک ذہن کے مُتجسس گوشوں میں دور کہیں یہ خیال ابھرنے لگا کہ “جیسے ہم ان دور دراز کے ستاروں کو رات رات بھر دیکھ کر اپنے تجسس کی آگ بجھاتے ہیں ہو سکتا ہے کہ ایسے ہی سینکڑوں ہزاروں نوری سال کی مسافتوں پر کہیں کوئی ایسا سیارہ موجود ہو جس پر ہم جیسی یا ہم سے مختلف کوئی مخلوق بَس رہی ہو اور اُس مخلوق کے پاس بھی ہماری دوربین کی طرح یا اس سے مختلف قسم کا کوئی آلہ ہو جس سے وہ بھی اس کائنات میں پھیلے چمکتے دمکتے ستاروں کو (بشمول ہمارے سورج کے) حسرت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوں، اور ہو سکتا ہےوہ مخلوقات بھی ہماری ہی طرح ان دوردراز کے ستاروں کی دنیاؤوں تک پہنچنے کی تمنّا رکھتے ہوں!
آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ اپنی تحریر میں رنگ بھرنے کے لئے ایسی باتیں کہہ رہا ہوں۔یقین مانئے ایسا بالکل نہیں، ذرا خود ہی سوچئیے یہ تجسس سے بھرپور کائنات کسی ذِی شعور مخلوق کو چین سے بیٹھنے دے گی کیا؟؟؟ کوئی یہ جان کر “کہ اس کائنات میں کئی سو کھرب ستارے اور سیارے ہیں” کیسے چین سے بیٹھ سکتا ہے؟ اندر کا اِضطراب اور بے چینی اسی بات کی تو ہے کہ ہم ان دنیاؤوں کو صرف دیکھ ہی کیوں سکتے ہیں، وہاں جا کیوں نہیں سکتے؟؟؟ پھر خیال آتا ہے کہ قدرت کے بچھائے ہوئے اس پچیدہ نظام کو سمجھنا انسان کے بس میں کہاں! ہاں اسی قدر سمجھا جا سکتا ہے جہاں تک قدرت چاہے۔لیکن یہ سوچ کر ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنا قدرت کی طرف سے عطا کردہ عقل و شعور کی بے حرمتی ہے، ہمارا مقصدِ حیات صرف کھانا پینا اور سونا ہی نہیں بلکہ اس کائنات میں غور و فکر کرنا اور زندگی کے ہر “جائز” شعبے میں آگے بڑھنا بھی ہے۔انہی خیالوں میں گم چھت سے نیچے آ گیا اور قلم و کاغذ پہ ذہنی خیالات کو سجانے لگا۔
ویسے تو ہم ابھی تک اپنے نظام شمسی کو ہی پوری طرح نہیں سمجھ سکے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ نظام شمسی اگر تین میل چوڑا ہو تو ہم نے معلوماتی لحاظ سے ابھی تک صرف تین اِنچ کا فاصلہ ہی طے کیا ہے۔نظام شمسی سے نامکمل آگاہی ہونے کے باوجود ہماری نظر نظام شمسی سے باہر کی دنیاؤوں کو کھنگالنے میں لگی ہے۔نظام شمسی سے باہر قدم رکھنے کے بعد کم و بیش چار سو کھرب کلومیٹر (چالیس ہزار ارب کلومیٹر کے لگ بھگ) کا سفر کریں تو سورج کا پڑوسی ستارہ ایلفا سینٹوری (Alpha centauri) ویلکم کہتا ہوا ملے گا۔اگر لا محدود کائناتی فاصلوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو نظام شمسی سے چالیس ہزار ارب کلومیٹر (سورج اور الفا سینٹوری کا یہ فاصلہ) کچھ اہمیت نہیں رکھتا۔لیکن اس کے برعکس اگر اپنے اب تک کے ایجاد کردہ خلائی جہازوں کی سُست رفتاری اور ان خلاء میں ان کی محدود پہنچ کو دیکھا جائے تو آپ اس چالیس ہزار ارب کلومیٹر کو عبور کرنا ہی انسان کی عظیم کامیابی سمجھیں گے۔
جیسا کہ آپ نے میرے ایک پچھلے مضمون “انجان دنیاؤوں کا مسافر” میں وائجر ون کے متعلق پڑھا تھا کہ وہ خلائی جہاز باسٹھ ہزار کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے اس ستارے (ایلفا سینٹوری) کی طرف بڑھ رہا ہے۔اسی رفتار سے بڑھتے ہوئے وہ خلائی جہاز تقریباً چھہتر ہزار سال بعد اس ستارے کے علاقے میں پہنچے گا۔یہ ستارہ ہمارے سورج کا ہمسایہ ستارہ ہونے کے باوجود اتنا دور ہے کہ اس کی دوری کو یوں سمجھئے “آپ جانتے ہیں سورج اور زمین کا فاصلہ پندرہ کروڑ کلومیٹر ہے” جسے ایک فلکیاتی اکائی یا انگلش میں Astronomical unit بولا جاتا ہے۔۔۔ایلفا سینٹوری (Alpha centauri) سٹار تک پہنچنے کے لئے ہمیں دو لاکھ تہتر ہزار “273000” فلکیاتی اکائیوں (Astronomical units) کی دوری طے کرنا پڑے گی۔ایک فکلیاتی اکائی (AU) کو ہوائی جہاز (آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار) سے طے کرنے میں تقریبا اکیس سال کا عرصہ درکار ہے۔یعنی ایک ہوائی جہاز اکیس سال تک بغیر رکے چلتا رہے تو زمین سورج تک پہنچے گا، ایلفا سینٹوری تک جانے کے لئے ہوائی جہاز کو اس طرح کے کم و بیش پونے تین لاکھ سفر کرنے پڑیں گے۔کہاں ایک فکلیاتی اکائی اور کہاں دو لاکھ تہتر ہزار فلکیاتی اکائیاں! آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار (ہوائی جہاز کی رفتار) سے ایلفا سینٹوری کا فاصلہ کم و بیش اٹھاون لاکھ تینتالیس ہزار (5843000) سالوں میں پورا ہو۔۔۔ذرا عقل و خرد کے تمام ابواب و حجاب وَا کیجئیے اور سوچئے کہ یہ ہمارے سورج کا پڑوسی ستارہ ہے، کہاں چار نوری سال کی مسافت پر یہ پہلا ستارہ اور کہاں کائنات کی اربوں نوری سال کی مسافتیں!!!
ایلفا سینٹوری ہمارے رات کے آسمان کا تیسرا سب سے روشن ترین ستارہ ہے۔ایلفا سینٹوری دراصل ٹرپل سٹار سسٹم (Triple star system) ہے.جس میں ایلفا سینٹوری A, ایلفا سینٹوری B اور پروکسِما سینٹوری (جسے ایلفا سینٹوری C بھی کہا جاتا ہے) نام کے تین ستارے ہیں لیکن ستاروں کے اس سسٹم کی کہانی بہت عجیب ہے۔چند صدیاں پہلے لوگ تین ستاروں کے اس سسٹم کو ایک ہی ستارہ سمجھتے تھے، دسمبر 1689ء میں ایک انگریز فلکیاتدان Jean Richaud نے اس کو دو ستارے (ایلفا سینٹوری A اور ایلفا سینٹوری B ثابت کیا۔پھر اس کے دو سو چھتیس سال بعد ایک سکوٹش فلکیاتدان Robert Innes نے 1915ء میں اس سسٹم کا سب سے چھوٹا اور اس سسٹم میں موجود دو ستاروں کی بنسبت سورج کے قریب ترین ستارہ کھوج نکالا، جسے پہلے پہل V645 Centauri کا نام دیا گیا جو بعد میں پروکسِما سینٹوری (Proxima centauri) سے تبدیل کر دیا گیا۔اس سٹار سسٹم کے تینوں ستاروں کے ڈائی میٹر کو سمجھنے کے لئے ہمارے سورج کے ڈائی میٹر کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے۔ہمارے سورج کا ڈائی میٹر تقریباً چودہ لاکھ کلومیٹر ہے اور اس سسٹم کے سب سے بڑے ستارے کا ڈائی میٹر سترہ لاکھ (1700000) کلومیٹر ہے جو کہ ہمارے سورج سے تھوڑا ہی بڑا ہے۔رنگ، درجہ حرارت، کشش ثقل اور حجم کو دیکھا جائے تو یہ ستارہ ہمارے سورج کے خاندان (G2V) کا ہی ایک فرد ہے۔ایلفا سینٹوری A کا ساتھی ستارہ ایلفا سینٹوری B ہمارے سورج سے تھوڑا ہی چھوٹا ہے، جس کا ڈائی میٹر بارہ لاکھ کلومیٹر (1200000km) ہے جو کہ ہمارے سورج سے تھوڑا ہی چھوٹا ہے, ایلفا سینٹوری A کے برعکس اس کا رنگ اورینج ہے۔یہ روشنی، ڈائی میٹر اور ماس میں ایلفا سینٹوری A سے کم ہے۔یہ دونوں ستارے ایک دوسرے سے عموما ایک سو پینسٹھ کروڑ کلومیٹر (گیارہ فلکیاتی اکائیوں کی) کی دوری بنائے رکھتے ہیں اور اسی (80) سالوں میں اپنے مدار پر ایک چکر پورا کرتے ہیں۔
یہ تھے اس سسٹم کے دو بڑے ستارے جو کافی حیرتناک اعداد شمار اور معلومات کے حامل ہیں لیکن ان ستاروں سے نہایت دور اور ان سے بہت چھوٹا سرخ بونا ستارہ پروکسِما سینٹوری “جسے ایلفا سینٹوری C بھی کہا جاتا ہے” ہمارے فلکیاتدانوں کی نظر میں بہت ہی اہمیت سمیٹے ہوئے ہے۔
ایلفا سینٹوری C یعنی پروکسما سینٹوری اپنے دونوں ساتھی ستاروں سے تیرہ ہزار ایسٹرونومیکل یونٹس (13000AUs) کی دوری پر رہ کر ان دونوں کے گرد ایک چکر پانچ لاکھ پچاس ہزار سالوں (550000yrs) میں پورا کرتا ہے۔یاد رہے ایک ایسٹرونومیکل یونٹ زمین سے سوارج تک فاصلہ کہلاتا ہے۔یہ سرخ بونا ستارہ پروکسما سینٹوری پچھلے بتیس ہزار سال سے ہمارے سورج سے قریب ترین ستارہ ہے اور ائندہ پچیس ہزار سال تک یہ ہمارے سورج کا ہمسایہ رہے گا، پچیس ہزار سال گزرنے کے بعد ایلفا سینٹوری A اور ایلفا سینٹوری B ہر اناسی “79” سال بعد باری باری ہمارے سورج کے ہمسائے ستارے بنتے رہیں گے۔پروکسما سینٹوری صرف دو لاکھ (200000) کلومیٹر کا ڈائی رکھتا ہے اور درجہ حرارت ہمارے سورج کے درجہ حرارت کے آدھے سے تھوڑا ہی زیادہ ہے، جو کہ دو ہزار سات سو ساٹھ ڈگری سینٹی گریڈ (2760c) ہے.اس سرخ بونے ستارے کا رنگ اپنے دونوں ساتھیوں a centauri A اور a centauri B سے بالکل مختلف ہے۔یہ مکمل طور پہ سرخ ستارہ ہے، اس کی روشنی، حرارت اور سائز اس قدر کم اور چھوٹا ہے کہ ہمارے نظام شمسی کا پڑوسی ہونے کے باوجود اس کو زمین سے عام چھوٹی دوربین کے ذریعے نہیں دیکھا جا سکتا۔روشنی، حرارت اور سائز کم ہونے کی وجہ سے اس کی عمر حیرتناک حدتک طویل ہونے کا اندازہ ہے، فلکیاتدانوں کا اندازہ ہے کہ اس کی عمر چار اعشاریہ آٹھ ارب سال ہے جو کہ سورج کی عمر سے بیس سے تیس کروڑ سال زیادہ ہے۔حیرانگی کی بات بیس یا تیس کروڑ سال ہمارے سورج سے بڑا ہونا نہیں بلکہ یہ بات حیرانگی پیدا کرتی ہے کہ جس مقدار اور رفتار سے یہ ستارہ اپنا فیول (ہائیڈروجن) جلا رہا ہے اس حساب سے یہ ستارہ آنے والے چار سو ارب سال تک اسی حالت میں (زندہ) رہے گا۔اگر اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے سورج کی عمر نکالی جائے تو ہمارے سورج کی اس کے ایندھن استعمال کرنے کی رفتار سے اندازہ لگائی گئی بقیہ کی عمر پانچ ارب سال بتائی جاتی ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پروکسِما سینٹوری کے اندر ہیلیم جمع ہوتی جائے گی، جس سے یہ اور چھوٹا اور گرم ہونے کے ساتھ ساتھ نیلے بونے ستارے (Blue dwarf star) میں تبدیل ہو جائے گا۔جب اس کا ایندھن (ہائیڈروجن) مکمل طور پہ ختم ہو جائے گا تو یہ ایک سفید بونے ستارے کی شکل اختیار کر لے گا اور اسی کے ساتھ اس کی بچی ہوئی گرمی بھی اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔(جدید تحقیق کے مطابق قابلِ مشاہدہ کائنات کی عمر ابھی تک اتنی نہیں ہوئی کہ کوئی سرخ بونا ستارہ سفید بونے ستارے میں تبدیل ہوا ہو)
زمین پر اپنے ہاتھوں سے پیدا کئے ہوئے بگاڑ کے سبب آج کا انسان ہر لمحہ کسی ایسے سیارے کی تلاش میں ہے جو ضروریات زندگی کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ زمین سے بہت زیادہ دور بھی نا ہو۔زندگی کے اس وائرس کو زمین سے اٹھا کر کائنات کے کسی دوسرے گوشے میں منتقل کرنا فی الحال انسانی اختیار میں نہیں، آنے والے کسی دور میں انسان زندگی کو زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر پہنچا کر وہاں آباد ہو سکے گا یا نہیں؟ اس سوال کا جواب آنے والا وقت ہی دے گا لیکن فی الحال ہم انسان نظام شمسی کے اندر اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں چھان بین کر رہے ہیں۔
حصہ اول مکمل۔۔۔
(دوسرے حصے میں ہم پروکسما سینٹوری کے گرد چکر لگاتے اس سیارے کے بارے میں پڑھیں گے جو آنے والے وقتوں میں ہماری توجہ کا خاص مرکز بننے والا ہے)
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں