جوانان جنت کے سردار امام حسن مجتبی (علیہ السلام)

آج 28 صفرالمظفر، سبط پیغمبر(ص)، دل بند علی(ع)، جگر گوشہ بتول(س) کا یوم شہادت ہے تو اس مناسبت سے امام کی حیات طیبہ کے چند پہلو غور طلب ہیں.

امام حسن مجتبی(ع) 15 رمضان المبارک 3 ہجری کو بی بی زہرا(س) کی پاک آغوش میں متولد ہوئے. رسول پاک(ص) نے حکم خدا سے “حسن” نام رکھا جس کا معنی ہے “خوبصورت”. بقول واعظ امام حسن علیہ السلام کی ولادت سے پہلے تاریخ بشری میں کسی کا نام بھی حسن نہیں تھا. عربوں میں حسن بطور صفت استعمال ہوتا تھا لیکن صفت اور اسم میں فرق ہے. صفت وقت کے ساتھ بدلتی رہتی ہے مثلا کوئی بندہ اگر جوانی میں خوبصورت ہو لیکن بڑھاپے میں خوبصورت نہ ہو تو اس کو جوانی میں حسن کہیں گے، بڑھاپے میں حسن نہیں کہیں گے لیکن امام حسن وہ واحد ہستی ہیں جن کا نام سب سے پہلے حسن رکھا گیا یعنی اگر بچپن میں ہو تو حسن، جوانی اور بڑھاپے میں ہوں تب حسن اور حتی کہ دنیا سے چلے بھی جائیں تب بھی حسن (خوبصورت) ہیں.

امام کی عظمت کو دیکھیں تو الفاظ بیان کرنے سے قاصر ہیں. جن کا نام خدا کی طرف سے رکھا گیا ہو، جن کی ماں کائنات کی عورتوں کی سردار ہو، جن کا بابا کل ایمان ہو، جن کی سب سے پہلی غذا (جس کو ہم عام زبان میں گھٹی کہتے ہیں) رسول پاک کا لعاب مبارک ہو اور جن کی سواری رسول اکرم(ص) بن جائیں ان کی عظمت الفاظ میں بیان نہیں کی جاسکتی. کائنات انسانی میں امام حسن علیہ السلام ہی وہ پہلی ہستی ہیں جن کی ماں بھی معصوم تھیں اور بابا بھی معصوم.

امام کی عظمت کو دیکھیں تو رسول اکرمﷺ بھی حسنین شریفین کو اپنے بیٹے کہتے ہیں. جب رسول اکرمﷺ کو نجران کے عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کا حکم ہوا تو امام حسن اور امام حسین علیھم السلام کو اپنے بیٹوں کی جگہ لے گئے. رسول پاکﷺ کی اکثر ایسی احادیث جو امام حسین(ع) کے بارے میں مشہور ہیں وہ امام حسن(ع) کے بارے میں بھی نقل ہوئیں ہیں. جیسا کہ اپنے ان دو شہزادوں کے بارے میں فرمایا کہ

“حسن و حسین(علیھم السلام) جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کا بابا(علی)(ع) ان سے بھی افضل ہیں.”

اور ایک بزرگ نے بڑا اچھا نقطہ بیان کیا کہ اگر عام طور پر ایک گھر میں دو سردار ہو یا ایک یونین کونسل میں دو چیئرمین ہوں تو وہاں فساد ہوتا ہے اور ہر سردار اپنے مزاج کے مطابق حکمرانی چاہتا ہے لیکن حسنین شریفین ایک ہی جنت کے دو ایسے سردار ہیں جن میں سرداری پر کوئی جھگڑا نہیں کیونکہ یہ دونوں ہستیاں مزاج کے تابع نہیں بلکہ مشیت خدا کے تابع ہیں.

صورت کو دیکھا جائے تو امام حسن(ع) سر سے سینے تک اور امام حسین(ع) سینے سے پاوں تک نانا رسول کی شبیہہ تھے. جب امام حسن(ع) بولتے تو یوں لگتا جیسے رسول اکرمﷺ بول رہے ہوں اور جب امام حسینؑ چلتے تو یوں لگتا جیسے رسول اکرمﷺ چل رہے ہوں.

سیرت و کردار کو دیکھا جائے تو عظیم سیرت کے حامل نظر آتے ہیں. جو ایسی ہستیوں کی گود میں پلا بڑھا ہو جن کی صداقت، طہارت اور اخلاق کی گواہی خود خدا دے، اس ہستی کی سیرت یقینا عظیم ہی ہوتی ہے.

امام غلاموں کے ساتھ نہایت حسن سلوک سے پیش آتے. جنت کے سردار غلاموں کے ساتھ بیٹھ کے کھانا کھا لیتے تاکہ غلام احساس کمتری کا شکار نہ ہوں. اسی حسن سلوک کی وجہ سے لوگ حسرت کرتے تھے کہ کاش ہم بھی امام کے غلام ہوتے. اسی طرح عبادت، سخاوت و کرامت میں بھی امام حسن(ع) اپنی مثال آپ ہیں. عبادت کا یہ عالم تھا کہ خشوع و خضوع سے خدا کی عبادت کرتے اور خدا کی بارگاہ میں جب جاتے تو ذات باری تعالی کی عظمت سے جسم کانپنے لگ جاتا. سخاوت میں اتنے مشہور ہوئے کہ باہر سے لوگ آپ کے دستر خوان پہ کھانا تناول کرنے کے لئے آتے، خود بھوکے رہ کے دوسروں کو کھلاتے. ایک بار تو ایسا ہوا کہ اہلبیت نے تین دن روزے رکھے اور تینوں روز افطار کے وقت یتیم، مسکین اور اسیر کو کھانا دے کر خود پانی سے افطار کرتے رہے اور خداوند متعال نے اہلبیت کی عظمت میں سورہ انسان(سورہ دہر) نازل فرمائی۔ اسی طرح دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کر دینا بھی اہلبیت کا خاص وطیرہ تھا.

امام حسن(ع) کی زندگی کا اہم اور غور طلب پہلو وقت کے حاکم کے ساتھ صلح کا ہے. لوگ بعض اوقات متذبذب ہوتے ہیں کہ امام حسنؑ نے صلح کی اور امام حسینؑ نے جنگ کی تو کیا دونوں کی امامت میں فرق تھا یا نعوذ باللہ امام حسنؑ صلح جو تھے لیکن امام حسینؑ جنگ جو تھے؟ ایسا بالکل نہیں بلکہ در حقیقت زمینی حقائق کا فرق تھا. امام حسنؑ کی امامت کے وقت حالات ایسے ہوگئے کہ امام کے سپاہی خرید لئے گئے، امام کے اپنے چاہنے والوں کی صفوں میں لوگ منافق ہوگئے اور حالات اس نہج پہ آگئے تھے کہ امام کو صلح کرنا پڑی۔ مگر امام نے اپنی شرائط منوا کے صلح کی اور جب تک ان شرائط کی علی الاعلان مخالفت نہ کی گئی تب تک اہل بیت خاموش رہے۔ لیکن جب یزید کے بر سر اقتدار آنے کے بعد علی الاعلان مخالفت ہوئی اور احکام شریعت پامال ہونے لگے تو امام حسینؑ نے قیام کیا. تو گویا حالات کے تقاضے ایسے تھے کہ اگر امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ کی جگہ ہوتے تو یقینا جنگ کرتے اور اگر امام حسینؑ اپنے بھائی حسنؑ کی جگہ ہوتے تو یقینا صلح کرتے اور آج انعام رانا نے خوبصورت فقرہ لکھا کہ امام حسنؑ نے اپنی صلح سے ملوکیت و حاکمیت کا فرق واضح کیا اور امام حسینؑ نے خون دے کر اس حقیقت کو ابدیت بخشی.

اتنے فضائل و مناقب کے حامل سبط پیامبر کے ساتھ لوگوں نے کیا سلوک کیا، یہ اپنی جگہ فکر کا مقام ہے. دشمن نے دولت اور اپنے بیٹے کے ساتھ شادی کا لالچ دے کر امام کی بیوی کے ہاتھوں امام کو پہلے زہر دلوایا اور پھر جب امام کا جنازہ رسول اکرمﷺ کے پہلو میں دفن ہونے کےلئے آیا تو جنازے پہ 70 تیر برسائے گئے. آج تک لوگوں نے کئی جنازے اٹھائے لیکن کوئی جنازہ نہیں دیکھا یا سنا کہ گھر سے گیا ہو اور واپس آیا ہو یا اس جنازے کی کسی نے اس طرح حرمت پامال کی ہو کہ جنازے پہ تیروں کی بارش کی ہو، لیکن واحد جنازہ امام حسنؑ کا تھا جو گھر سے دفن ہونے کے لئے گیا، جنازے پر تیروں کی بارش ہوئی، سفید کفن کا رنگ خون کی وجہ سے سرخ ہوا، پھر گھر واپس آیا، گھر والوں نے جنازے سے تیر نکالے، دوبارہ گھر سے جنازہ نکلا اور جنت البقیع میں دفن کر دیا گیا.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہمیں ضرورت ہے کہ نا صرف امام کا تذکرہ کریں اور انکی یاد کو تازہ رکھیں، بلکہ امام کے پیغام و فکر کو بھی اپنانے کی ضرورت ہے۔

Facebook Comments

محمد حنان صدیقی
مضمون و کالم نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply