پاک فوج کے نئے سالار کو درپیش چیلنجز

طاہر یاسین طاہر
دنیا بھر میں یہ عمل مشترک ہے کہ فوج کی کمان ایک معینہ مدت کے بعد تبدیل ہوتی ہے۔ یہ بات بھی ثابت شدہ ہے کہ فوج کی کمان پیشہ ورجنرل کے ہاتھ ہی ہوتی ہے۔ ہمارے پڑوس بھارت اور ایران میں بھی یہ عمل ایک مقرر مدت کے بعد انجام پاتا ہے۔ممکن ہے فوج کی کمان کی تبدیلی کی تقریب پڑوسی ممالک سمیت دنیا کے کسی بھی ملک میں’’جنگی‘‘جذبے اور لگن و توجہ سے نہ کی جاتی ہو جیسی ہمارے ہاں روایت بن چکی ہے۔جنرل(ر) پرویز مشرف نے جب کمان سٹک جنرل کیانی کےحوالے کی تو ان کی آنکھیں بھیگ گئی تھیں۔جنرل کیانی کا زمانہ بھی اتار چڑھاو کا رہا۔اگرچہ وہ فوج کو بیرکوں تک لے آئے اور با رہا مواقع کے باوجود ٹیک اوور نہیں کیا البتہ ایکسٹینشن ضرور لے لی۔ ان ہی کے زمانے میں دہشت گردوں نے جی ایچ کیو پر حملہ بھی کیا تھا۔ جنرل کیانی نے سوات کا کامیاب آپریشن کیا دہشت گردوں کے خلاف،لیکن آئی ڈی پیز سمیت وہ تمام علاقے جنھیں فوج نے دہشت گردوں سے کلیئر کروایا تھا بوجہ سول حکومت وہاں رٹ بحال نہ کر سکی اور دہشت گرد سوات سے بھاگتے ہوئے جنوبی وزیرستان اور پھر شمالی وزیرستان میں پناہ گزین ہو گئے۔جنرل کیانی کے بعد پاک فوج کی کمان جنرل راحیل شریف نے سنبھالی تو ملک میں دہشت گرد پوری طرح متحرک تھے۔نون لیگ کی حکومت چاہتی تھی اور اس حوالے سے نون لیگ کی حکومت نے باقاعدہ مذاکراتی ٹیم بھی بنا لی تھی جو کالعدم تحریک طالبان کی قیادت سے مذاکرات کر رہی تھی کہ اس اثنا میں دہشت گردوں نے پاک فوج کے جوانوں کے گلے کاٹ کر ان سے فٹ بال کھیلنے کی ویڈیو جاری کر دی۔جنرل (ر)راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے آپریشن ضرب عضب شروع کر دیا،اے پی ایس کے واقعے کے بعد اس آپریشن میں تیزی لائی گئی اور افغانستان کی حکومت کو بھی اس بات پر قائل کیا گیا کہ پاکستان کو مطلوب دہشت گرد اس کی سرزمین پر چھپے ہوئے ہیں۔تاریخ کے اوراق میں کئی واقعات ان حادثات سے جڑے ہوئے ہیں۔
جنرل (ر)راحیل شریف نے عوامی سطح پہ بے پناہ مقبولیت حاصل کی۔ یہاں تک کہ جنرل(ر) راحیل شریف کے حق میں ایسے بینرز بھی لگے کہ آپ ریٹائرمنٹ لینے کے بجائے ایکسٹینشن لیں یا پھر اقتدار پر قبضہ کر لیں۔پی ٹی آئی کے دھرنے کے دواران میں تو ایسی فضا بن چکی تھی کہ محسوس ہو رہا تھا فوج آ جائے گی،حتی کہ عمران خان نے دھرنے کے دوران میں کئی بار ’’امپائر کی انگلی اٹھنے‘‘ کی بات بھی کی۔اس سب کے باوجود جنرل (ر) راحیل شریف نے معاملات کو ایک پیشہ ور سپاہی کی طرح ہینڈل کیا اور سیاسی عدم استحکام نہیں آنے دیا،بلکہ یوں کہنا درست ہو گا کہ ان کی ترجیح سسٹم کو چلنے دینا رہی۔ان کے کارناموں میں سی پیک کا کارنامہ اپنی مثال آپ ہے۔دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں پاک فوج اور عوم کی قربانیاں لائق تحسین ہیں۔جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں قابل ذکر کامیابیاں حاصل کیں اور دہشت گردوں کے منظم نیٹ ورک کو نقصان پہنچایا۔ البتہ یہ بھی درست ہے کہ دہشت گردوں نے اس دوران جوابی کارروائیاں بھی کیں اور فرقہ وارانہ ٹارگٹ کلنگ بھی جاری رکھی۔کراچی آپریشن اگرچہ رینجرز نے شروع کیا مگر ابھی تک اس آپریشن کے ثمرات حاصل ہونا باقی ہیں۔جنرل (ر) راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے جن محاذوں پر کامیابیاں حاصل کرنے کا رواج ڈالا ہے ان کے بعد آنے والے جنرل قمر جاوید باجودہ کو ان کامیابیوں کو بام عروج تک لے جانا ہے۔
گذشتہ سے پیوستہ روز پاکستانی فوج کے نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے راولپنڈی میں منعقدہ تقریب میں باضابطہ طور پر برّی فوج کی کمان سنبھال لی ہے۔ یاد رہے کہ کمان کی تبدیلی کی تقریب راولپنڈی میں واقع بری فوج کے صدر دفتر جی ایچ کیو میں منعقد ہوئی جس میں جنرل راحیل شریف نے نئے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کو کمانڈ سٹک سونپی۔ جنرل قمر جاوید باجوہ پاکستان کے بری فوج کے 16ویں سربراہ ہیں اور بلوچ رجمنٹ سے تعلق رکھنے والے چوتھے آرمی چیف ہیں۔ تقریب میں بّری فوج کے سبکدوش ہونے والے سربراہ جنرل راحیل شریف اور نئے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے یادگار شہدار پر فاتحہ خوانی اور سلامی پیش کی اور سبکدوش ہونے والے جنرل راحیل شریف کو الوداعی گارڈ آف آرنر بھی پیش کیا گیا۔اپنے الوداعی خطاب میں جنرل راحیل شریف کا کہنا تھا کہ ’’ہم نے دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑ کر تاریخ کے دھارے کو موڑا اور اس خطے بالخصوص پاکستان کی عوام کو امن کی ایک نئی امید دی۔بلوچستان اور کراچی میں امن کا قیام، آپریشن ضرب عضب ہو یا ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے سی پیک پراجیکٹ ہر میدان میں کامیابی کے ثمرات واضح نظر آرہے ہیں۔اس موقع پر انھوں نے وفاقی و صوبائی حکومتوں اور سول قیادت کا بھی شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ان کے تعان ان کی کوششوں میں شامل رہا۔ان کا کہنا تھا کہ خطے میں سکیورٹی کے حالات پیچیدہ ہیں اور ملک کو درپیش چیلنجز ابھی ختم نہیں ہوئے۔بیرونی خطرات کو بہتر انداز میں نمٹنے کے لیے اندرونی کمزوریوں خصوصا ًجرائم، بدعنوانی اور انتہاپسندی کا جڑ سے خاتما کرنا ہوگا اس کے لیے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد لازم ہے۔اس موقع پر انھوں نے انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی صورتحال اور سرحدی کشیدگی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’’ہماری تحمل کی پالیسی کو کسی قسم کی کمزوری سمجھنا خود اس کے لیے خطرناک ثابت ہوگا۔ جنوبی ایشیا میں دیرپا امن کے لیے مسئلہ کشمیر کا حل ضروری ہے جس کے لیے عالمی توجہ ضروری ہے‘‘۔
ہم سمجھتے ہیں کہ جنرل (ر) راحیل شریف کی کامیابیاں نئے عہد کا آغاز ہے اسے تکمیل کے راستے پہ ڈالنے کہ ذمہ داری اب جنرل باجوہ پہ آن پڑی ہے۔سابق آرمی چیف نے اپنے خطاب میں خطے کی بدلتی صورتحال،پیچیدگیوں اور بھارتی رویہ پہ جو گفتگو کی جنرل باجوہ کو یہی چیلنجز نہیں ہیں بلکہ داخلی چیلنجز اس سے بھی زیادہ ہیں۔ بالخصوص یہ افسوس ناک مہم بھی چلائی گئی کہ نئے آرمی چیف’’بد عقیدہ‘‘ ہیں۔اپنے اہداف اور ٹائمنگ کے حوالے سے یہ مہم انتہائی خطرناک اور فوج کو تقسیم کرنے کی خطرناک سازش تھی،ہم سمجھتے ہیں کہ اس مہم کے ’’ہیڈ کوارٹر‘‘ کا پتا لگا کر قوم کے سامنے عیاں بھی کیا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں جو ہر ایک کا عقیدہ اپنے عقیدے کی کسوٹی پہ پرکھتے ہیں۔اس کے علاوہ لائن آف کنٹرول کی صورتحال ،جس کے بارے جنرل باجوہ نے کمان سنبھالنے کے بعد میڈیا کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹھیک ہو جائے گی،اسی طرح آپریشن ضرب عضب کو پوری طرح ثمر بار کرنا بھی جنرل باجوہ کے لیے ایک امتحان سے کم نہیں۔ہم سمجھتے ہیں کہ آپریشن ضرب عضب اسی صورت اپنے پورے ثمرات دے سکتا ہے جب نیشنل ایکشن پلان پہ اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے گا،نیز دہشت گردوں،اور ان کے ’’جلی و خفی‘‘ سہولت کاروں کے خلاف جارحانہ اور فیصلہ کن کارروائی ہی ملک سے داخلی مسائل کو بڑی حد تک کم کر سکتی ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے سنگین مسئلے کے ساتھ ساتھ ہزارہ کمیونٹی کی لشکر جھنگوی کی جانب سے نسل کشی بھی ملک وملت کی بدنامی کا باعث ہے اور سب سے بڑھ کر پنجاب میں کرپشن اور دہشت گردی کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا۔ ہمیں یقین ہے کہ نئے آرمی چیف ملک و ملت کی ترقی کے لیے اپنی بہترین صلاحیتوں کو کام میں لائیں گے،اور قوم کا اسی طرح اعتماد اور محبت حاصل کریں گے جیسا اعتماد اور محبت سابق آرمی چیف نے حاصل کیا ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply