• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستان کو درپیش چیلنجز اور انٹیلی جنس ادارے۔۔۔ کاشف رفیق محسن

پاکستان کو درپیش چیلنجز اور انٹیلی جنس ادارے۔۔۔ کاشف رفیق محسن

گذشتہ برس جب امریکی سینٹ میں اس حوالے سے زور دار بحث چل رہی تھی کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ” ڈبل گیم ” کر رہا ہے اور کہا جا رہا تھا کہ پاکستان کی دفاعی امداد فوری طور پر بند کر دی جائے ہم نے جب بھی لکھا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ، وزارت خارجہ ، داخلہ اور دفاع کے قلمدانوں سے بندوقیں اٹھا لے اور ان کی جگہ قلم رکھنے کی سعی کر لے ورنہ آنے والے وقت میں پاکستان کے لیئے بہت سی نئی مشکلات اٹھ کھڑی ہونگی ۔

اس وقت ہمارے مقتدر ادارے سرل المینڈا کی رپورٹ میں کچھ اس طرح الجھے کہ انھیں ایسا محسوس ہوا جیسے امریکہ میں جاری بحث سے ہمارے ” سول اقتدار اعلیٰ ” کا کوئی گٹھ جوڑ ہے۔ ایک طرف امریکہ پاکستان پر ڈبل گیم کا الزام لگا رہا ہے اور دوسری طرف حکومت بند کمرے میں اسی الزام کا اعادہ کرتے ہوئے دنیا میں تیزی کے ساتھ تنہا ہوتے پاکستان کی ذمہ داری ملٹری اسٹیبلشمنٹ پر ڈال رہی تھی۔ سو جو کرنے کے کام تھے وہ نہیں کیئے گئے کالعدم جماعتوں کو کھلی چھوٹ دی گئی پورے ملک میں دہشت گردی کے واقعات ہوتے رہے اور ہم را را کھیلنے میں مصروف رہے ۔ نہ ہی ہم سے یہ ہو سکا کہ افغان سرحد کو محفوظ بنانے کیلئے جس کام کا آغاز کیا گیا تھا اسے ہر قسم کے احتجاج کو ملحوظ خاطر لائے بنا انجام تک پہنچا دیتے ۔

آج ٹرمپ کی جانب سے نہ صرف پاکستان پر یہ الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ ایسے عناصر کو پناہ دیتا ہے جو دنیا میں افراتفری پھیلانے کا سبب بنتے ہیں بلکہ کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرتا ہے ۔صدر امریکہ نے الزام عائد کیا کہ پاکستان ہم سے اربوں ڈالر کی امداد دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر لیتا ہے اور دہشت گردوں کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں بد امنی کے حوالے سے بھی تمام تر ملبہ پاکستان پر ڈال دیا گیا۔

ہماری اسٹیبلشمنٹ کو اب بھی ان تمام الزامات سے کوئی سروکار نہیں وہ سر جوڑ کر اس مسئلے پر گفتگو کر رہے ہیں کہ اپنی تقریر میں ڈونالڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا میں بھارت کو اپنا بہترین حلیف قرار دیا ہے اور بھارت سے کہا ہے کہ وہ افغانستان میں امن اور معاشی سرگرمیوں کی بحالی کیلئے اپنا کردار ادا کرے ۔ہمارے لیئے اس سے بڑی تشویش کی کوئی بات نہیں ہو سکتی کہ ہماری سرزنش کی گئی ہے اور بھارت کی تعریف۔ حالانکہ ٹرمپ نے یہ وارننگ بھی دی ہے کہ وہ ،یعنی امریکہ اب پاکستان میں دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کے حوالے سے چپ نہیں بیٹھےگا اور سفارتی ، سیاسی و فوجی ہر پہلو سے جائزہ لینے کے بعد نئی حکمت عملی اختیار کرے گا۔ اس تشویشناک پہلو پر غور کرنے کے بجائے ہم نے کس پہلو پر غور کیا ہے اسکا اندازہ اس بات سے ہو جاتا ہے کہ کل رات گئے پاکستان کے دفتر خارجہ کےترجمان نے ایک عبوری بیان جاری کیا ہے ( تفصیلی رد عمل دو دن بعد قومی سلامتی کونسل کے اجلاس کے بعد دیا جائے گا ) جس میں کہا گیا ہے کہ” امریکہ کو پاکستان پر محفوظ پناہ گاہوں کا الزام لگاتے ہوئے یہ سوچنا چاہئے تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وہ امریکہ کا اہم ترین حلیف رہا ہے اور اسے چاہئے کہ پاکستان پر الزام لگانے کے بجائے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کا ساتھ دے۔ پاکستان نے اس جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں افغانستان میں فوجی کارروائی سے امن نہیں آ سکتا ہم نے سترہ سال میں ان کوششوں کا نتیجہ دیکھ لیا ہے ۔ خطے میں امن کیلئے مسئلہ کشمیر کا حل ہونا ضروری ہے۔ اس کے بنا امن ہونا ممکن نہیں پاکستان اپنی زمین کسی کے خلاف استعال کرنے کی اجازت نہیں دیتا ”

پاکستان مسئلہ کشمیر پر امریکہ کی مدد چاہتا ہے تو اس کے اور بھی کئی مواقع آئے اور آتے رہیں گے مگر اس موقع پر مسئلہ کشمیر کا ذکر کر کے پاکستان نے اپنی کمزوری کا اظہار کر دیا ہے جس کے بعد یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ بھارت کی افغانستان میں بڑھتی ہوئی سرگرمیوں کے پیش نظر وہاں درپیش امن کی صورتحال میں بلواسطہ پاکستان ملوث ہے جیسا کے کل ٹرمپ الزام بھی عائد کر چکے ہیں ۔پاک افغان سرحد پر روزانہ کی بنیاد پر سرحد پار کرنے والوں کی اوسط تعداد 50 ہزار کے قریب ہے اور پاکستان کے پاس ایسی کوئی سہولت موجود نہیں کہ وہ ان پچاس ہزار افراد پر بیک وقت نظر رکھ سکے اس کا صاف اور سیدھا حل یہی تھا کہ حالت امن تک پاک افغان سرحد مکمل طور پر سیل کر دی جاتی مگر ایک طویل اور دشور گزار سرحد پر یہ بھی گھنٹوں یا دنوں کا کام نہیں تاہم اس کام کیلئے پاکستان کو اپنے بین الاقوامی مددگاروں سے مدد لینی چاہئے تھی اور یہ کام بہت پہلے کر لینا چاہئے تھا۔ اس کے بعد سرحد پار کرنے والوں کو مانیٹر کرنا قدر سہل ہو جاتا ۔ پاکستان میں دیرپا امن کیلئے بھی پاک افغان سرحد کا محفوظ ہونا از حد ضروری ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ طے ہے کہ سی پیک کے حوالے سے امریکہ کے پاس ایک سفارتی مسکراہٹ کے سوا پاکستان کیلئے کوئی نیک خواہشات اور جذبات موجود نہیں اور وہ کسی بھی دستیاب موقع سے فائدہ اٹھا کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر سکتا ہے اور اس کار خیر میں افغانستان کی زمین اور بھارت کا عملی تعاون بھی اسے حاصل ہوگا ۔ہماری بندوقوں کے سائے تلے پنپنے والی ناقابل فہم خارجہ پالیسی اور غیر فعال سفارتکاری نے ہمیں تباہی کے دہانے پر تو پہنچا دیا ہے مگر لگتا ایسا ہے کہ ہم واقعی کسی خودکش بمبار کی طرح جنت کی تلاش میں ہیں ۔ گو کہ فوج کی اعلیٰ قیادت اس بات کوبخوبی سمجھ رہی ہے اور وہ سینٹ کے چیئرمین کی جانب سے گرینڈ ڈائیلاگ کا خیر مقدم بھی کرتی نظر آ رہی ہے مگر یہ طے ہے کہ جب تک وہ اپنی ناک کے نیچے نہیں دیکھتی اور معاملات کو وہاں سے ٹھیک کرنے کی کوشش نہیں کرتی جہاں سے خرابی پیدا کرنے کی لگاتار کوششیں کی جارہی ہیں بہتری کی توقعات معدوم ہیں ۔ لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کو گو آج بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے مگر اس وقت سب سے اہم چیلنج حساس اداروں کا سیاسی کردار ہے جب تک انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سیاسی کردار کو کنٹرول نہیں کیا جاتا  بہتری کی کوئی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔

Facebook Comments

کاشف رفیق محسن
اسلام انسانیت کا مذہب ہے ،انسانیت ہی میرا مذہب ہے اور انسانیت ہی اسلام کا اصل چہرہ ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply