نمائندہ خصوصی(اسلام آباد)ڈیفنس آف ہیومن رائٹس پاکستان کا لاپتہ افراد کی بازیاب اور ساہیوال میں ہونے والے المناک ظلم کے خلاف مظاہرہ ۔ مظاہرے میں چئیرپرسن ڈی ایچ آر آمنہ مسعود جنجوعہ، اسلام آباد سول سوسائیٹی کے ممبران، وکلاء، طلبہ ، لا پتہ افراد کے لواحقین اور عام شہریوں نے بھرپور شرکت کی۔
چئیر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ساہیوال میں ہونے والے ظلم کی جتنی شدید مذمت کی جائے کم ہے بلکہ ایسے الفاظ شاید ہیں ہی نہیں کہ اس واقع کی مزمت کی جائے۔ معصوم عمیر، حادیہ اور منیبہ سے جس بے رحمی کے ساتھ انکی آنکھوں کے سامنے انکے ماں باپ اور بہن کو گولیاں ماری گئی ہیں وہ اس حیوانی فورس کےظلم کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بچے تو بچے ہوتے ہیں، انکوماں باپ کا پیاراور توجہ چاہیے ہوتی ہے، ہم ہر اس گھناؤنے فعل کی مذمت کرتے ہیں جو حکومت معصوم بچوں کے ماں باپ چھین کر ادا کر رہی ہے۔
ایسے ہی پاکستان کے بےشمار بچوں کے باپ بھی سالہ سال سے سی ٹی ڈی اوراسی جیسی بدنامِ زمانہ فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدہ کئے گئے اور بغیر کسی ثبوت کے دہشتگرد کہلائے۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے ہونے والے اس ظلم سے ثابت ہوتا ہے کہ لاپتہ افراد کو بھی انکے گھروں اور مزدوری کی جگہوں سے جبری گمشدہ کرنے کے بعد ان طاقتور لوگوں کی جانب سے بے قصور پاکستانی شہریوں کو من گھڑت اور جھوٹے مقدمات میں پھنسایا جاتا ہے۔ پنجاب حکومت کی جانب سے عوام کے ساتھ یہ رویہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ ان حالات میں پنجاب حکومت کو مستفعیٰ ہو جانا چاہیے۔ پنجاب حکومت کی نا اہلی اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ اس حادثہ کے فوراً بعد گورنر پنجاب نے ان بے گناہ اور معصوم شہریوں کو داعش جیسی بد نام زمانہ تنظیم کے کارکن بھی ثابت کر دئے۔ خداںخواستہ اگر موقعے پر موجود عینی شاہدیں نے ان مناظر کو کیمرہ میں عکسبند نہ کیا ہوتے تو یہ معصوم پاکستانی شہری بھی لاپتہ افراد کی طرح دہشت گرد ثابت ہو چکےہوتے۔
لاپتہ افراد کے لواحقین نے مطالبہ کیا کہ ہمارے پیاروں کو کس جرم کی پاداش میں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے؟ اگر کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو ملک کی عدالتوں میں انہیں پیش کیا جائے اور سزا دی جائے۔ ڈی ایچ آر نے اب تک ڈھائی ہزار سے زائد لاپتہ افراد کے مقدمات رجسٹرڈ کئے ہیں جن میں سے 950 سے زائد افراد اپنے اپنے گھروں کو واپس آچکے ہیں، 169 جبری گمشدہ افراد مختلف آرمی انٹرمنٹ سینٹروں اور جیلوں میں ٹریسڈ ہوئے جبکہ تقریباً 60 رجسٹرڈ جبری گمشدہ افراد بدقسمتی سے شہید کئے جا چکے ہیں۔ ڈی ایچ آر نے جبری گمشدگی کے تمام مقدمات کمیشن آف انکوائیری انفورس ڈس اپئیرنسز میں درج کروائے ہیں جبکہ 750 مقدمات سپریم کورٹ میں دائر ہیں۔
چیئر پرسن نے مزید کہا کہ انھیں اور تمام لا پتہ افراد کے اہلِ خانہ کو نئے آنےوالے چیف جسٹس صاحب سے بہت سی اُمیدیں وابستہ ہیں کہ وہ جبری گمشدہ افراد کے مقدمات کو نہ صرف ترجیحی بینادوں پر سنیں گے بلکہ اس دیرینہ حل طلب مسئلے کو جلد حل کر کے دکھی دلوں کی دعائیں لیں گے
میڈیا ٹیم
ڈیفینس آف ہیومن رائیٹس پاکستان
دفتر نمبر 24 تیسری منزل مجید پلازہ
بینک روڈ ، صدر راولپنڈی۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں