• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بچوں کے تعلیمی نصاب میں جنسیات کو شامل کیا جائے۔۔۔۔۔اسد مفتی

بچوں کے تعلیمی نصاب میں جنسیات کو شامل کیا جائے۔۔۔۔۔اسد مفتی

اقوام متحدہ کےا دارہ صحت نے انکشاف کیا دنیا بھر میں ایڈز سے متاثرہ مریضوں کی تعداد پانچ کروڑ ہوگئی ہے۔اس موذی مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کا زیادہ تر ایشیا اور مشرقی یورپ سے ہے۔اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ اس رپورٹ کے مطابق ایچ آئی وی ایڈز کا موذی وائرس دو دہائی قبل دریافت ہوا جبکہ ان بیس برسوں میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد 5 کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ موذی مرض ایشیا اور مشرقی یورپ میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔
ایک طرف ایڈز کو گلوبل ایشو تصور کیا جاتا ہے جبکہ دوسری طرف دوسری جانب بہت سے ممالک بالخصوص مغربی ملکوں نے ایڈز کو اپنے ایجنڈے سے نکال دیا ہے۔
2018 کے دوران دنیا بھر می ںمزید 80 لاکھ افراد ایڈز کے وائرس کا شکار ہوگئے اور 1981 کے بعد اس مرض میں مبتلا ہونے والے افراد کی یہ سب سے بڑی تعداد ہے۔
گزشتہ برس اس مرض سے 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے/اقوام متحدہ نے دنیا بھر کی حکومتوں پر زور دیا ہے کہ اس مرض کو پھیلاؤ سے روکنے کے لیے خصوصی اقدامات کریں ورنہ دوسری صورت میں ایڈز کا مرض تیزی کے ساتھ براعظم ایشیا کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔چونکہ اس مرض پر دنیا کے مخٹلف خطوں میں بالخصوص ایشیا میں کوئی توجہ نہیں دی جاتی جسکی وجہ سے اس وائرس میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔اور ایشیا فرنٹ لائن پر ہے جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ایشیائی ممالک میں زیادہ تر مسلمان بستے ہیں اور ان مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے بیشتر علما کرام کا یہ فتویٰ ہے کہ “ایڈز یقیناً ایک مہلک مرض ہے جس کے لیے اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے نہ کہ جنسی تعلیم کی”۔۔۔
ملت یا علاقہ یا جو بھی ہے اس کی پسماندگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ۔2017 میں 50 لاکھ افراد ایڈز کے وائرس کا شکار بن گئے ان میں 12 لاکھ سے زائد مسلمان تھے۔اس کے باوجود ہمارے علماء کرام کا کہنا ہے کہ جہاں تک ایڈزز سے بیماری کا معاملہ ہے ہم اس کے قطعی خلاف نہیں ہیں ،لیکن ہمارے بچوں کے لیے جنسی تعلیم بہر حال قابلِ قبول نہیں ۔یہ غیر قانونی کام کو قانونی بناے کی سازش کا حصہ ہے۔علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم جنسی کی ضرورت ہی محصوس نہیں کرتے کہ کروڑ ہا برس سے آباد اس دنیا میں جنس کی تعلیم کی ضرورت کبھی نہیں پڑی۔
انسانی تحقیق نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ایچ آئی وی ایڈز ایک ایسا مرض ہے جو کہ فی الحال لا علاج ہے اس کے لیے جنسی تعلیم کے ساتھ ساتھ تحقیق کے میدان میں بھی زور شور سے کام جاری ہے۔
حال ہی میں امریکہ نے ایڈز کی ویکسین تیارکرنے کے بعد اسے دنیا بھر میں تجربات کے لیے بھجوا دیا ہے۔امریکی نے گزشتہ سال ایڈز کے لیے مخصوص کردہ رقم یعنی تیب ارب ڈالر کے بجٹ کا 22 فیصد صرف ویکسین کی تیاری پر خرچ کر ڈالا۔ جبکہ دس سال قبل امریکہ میں ویکسین کی تیاری پر بجٹ کا صرف آٹھ فیصد حصہ خرچ کیا گیا تھا۔
حال ہی میں ایڈز ویکسین کے انسانوں پر تجربات کے لیے تھائی لینڈ میں ایک کیمپ لگایا گیا، بدھ مت کے ایک مندر کے باہر لگائے گئے اس کیمپ کا انعقاد ایک گیم شو کی طرح کیا گیا ،جس میں میزبان وہاں موجود لوگوں کو لاؤڈ سپیکروں پر کیمپ کی طرف آنے اور رجاکارانہ طور پر ایچ آئی وی ویکسین کو ٹیسٹ کرنے کی دعوت دے رہا تھا،تھوڑی ہی دیر کے بعد کئی لوگ اس ویکسین کو ٹیسٹ کرنے کے لیے کیمپ کے سامنے بنے اسٹینڈ جن میں “حصہ لیں “،”حصہ نہ لیں “ اور “غیر یقینی ہیں “ ۔۔جیسے نشانات بنے ہوئے تھے،پہنچنا شروع ہوگئے۔
گزشتہ چار برس سے تھائی لینڈ میں اس طرح کے کیمپوں کا انعقاد ہورہا ہے۔نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ کی جانب سے شروع کردہ اس مہم میں ایک اندازے کے مطابق 16 ہزار نوجوان ویکسین کا تجربہ کرکے انسانیت کی خدمت کریں گے۔اس مہم میں امریکہ اس وقت تک کئی ملین ڈالرز خرچ کرچکا ہے۔جبکہ صرف تھائی لینڈ میں اس مہم پر 120 ملین ڈالرز خرچ ہوچکے ہیں ۔
ایڈز ایک ایسی بیماری کا نام ہے جو انسانی جسم کے دفاع کو اتنا کمزور کردیتی ہے کہ معمولی بیماری بھی خطرناک ثابت ہوتی ہے،سا کا کوئی علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا۔یہ بیماری ایک وائرس ایچ آئی وی کے ذریعے پھیلتی ہے۔یہ وائرس ایک انسان سے دوسرے کو غیر محفوظ جنسی تعلقات ،سوئی یا بلیڈ (استعمال شدہ) یا نجکشن والے خون سے منتقل ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ ایڈز کی علامات وائرس داخل ہونے کے کافی عرصے بعد ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں ۔جو کہ چار سے سات ال کے عرصے پر محیط وہسکتی ہیں ۔
سائنسدانوں اور محققین کا خیال ہے کہ تھائی لینڈ میں ٹیسٹ کی جانے والی ویکسین اس بیماری سے بچاؤ کا حقیقی طریقہ نہیں بلکہ بنیادی طور پر ایک “چال “ہے۔
یاد رہے کہ انسانی جسم کو دھوکہ دیا جاسکتا ہے۔۔۔اس طریقہ کے مطابق وائرس یا اس کا ایک حصہ اسے ناکارہ بنا دیا جائے یا اس کے اسٹرکچر میں اس طرح کی تبدیلی کی جائے کہ وہ انسانی جسم کو محصوس نہ ہو اور اسے نقصان نہ پہنچا سکے،بعد میں اس تبدیل شدہ وائرس کو انسانی جسم میں داخل کردیا جائے، انسانی مدافعتی نظام یہ سمجھے گا کہ کسی بیرونی وائرس نے حملہ کردیا ہے،اور وہ ایک “امیون” خارج کرے گا۔ جو کہ حقیقی طور پر وائرس کے حملہ آور ہونے کی صورت میں جسم کا دفاع کرے گا،اور یوں ہم اپنے جسم کا دفاع کرسکیں گے،امیر ممالک میں لوگ ا وائرس پر مختلف ادویات اور حفاظتی تدبیر کے ذریعے نظر رکھے ہوئے ہیں ۔جبکہ اس کی ادویات اور ویکسین جس کی غریب ممالک میں اشد ضروت ہے،ناپید ہے تو اسیسی صورتِ حال میں اس مرض کے سدِ باب کے لیے علاج سے احتیاط بتر نہیں ہے؟۔۔۔۔۔ کیا ہمیں جنسی تعلیم و نصاب کئ ضروت نہیں ہے؟ اور کیا اس موذی مرض سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیراور بیداری نہیں اپنانی چاہیے۔؟
میں بھی سوچتا ہوں ،آپ بھی سوچیے!

Facebook Comments

اسد مفتی
اسد مفتی سینیئر صحافی، استاد اور معروف کالم نویس ہیں۔ آپ ہالینڈ میں مقیم ہیں اور روزنامہ جنگ سے وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply