تعلیم یافتہ۔۔۔۔۔۔محمد اقبال دیوانؔ/قسط11

شہر کی ایک مشہور پبلک یونی ورسٹی کے ایام وابستگی سے منسلک سچے واقعات سے جڑی ایک جھوٹی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ
شام چھ بجے اس کے پاس ساوتری سکسینہ آگئی۔بچوں کے اسکول میں کوئی تقریب تھی۔دونوں نے ٹریس پر بیٹھ کر باتیں کیں رومینہ نے آ ج مگر یہ احتیاط کی کہ اس سے نومی کے بارے میں کوئی بات نہ کی۔البتہ اس کی اپنی زندگی کے بارے میں کسی مرد کی موجودگی کے نہ ہونے کا پوچھا تو وہ بتانے لگی کہ ’’ اس کا ایک لور (Lover) ہے نریندر گوپال نام ہے۔اب میرا شادی میں زیادہ یقین نہیں۔میرا یہ لور ہمارے سفارت خانے میں کام کرتا ہے۔پولیس کا افسر ہے مگر یہاں کور پوسٹنگ پر آیا ہوا ہے۔اس کی بھی بیوی تھی ۔طلاق ہوگئی تو اس کا بھی شادی سے یقین اٹھ گیا  ہے‘‘۔’’ملاقاتیں کہاں ہوتی ہیں؟‘‘رومینہ نے پوچھا۔وہ بتانے لگی “We both work out at the same gym and we burn- out at his place” اس کا جواب سن کر رومینہ ہنس کر کہنے لگی کہ ع ’’ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں‘‘۔اس کے اس مصرعے کا ساوتری نے بہت لطف لیا اور جتانے لگی کہ زاہد کو بھی شعر بہت یاد تھے۔اس کا مطالعہ تو کوئی ایسا خاص نہ تھا مگر جتنا بھی علم تھا اس کا وہ بہت برمحل استعمال کرتا تھا۔رومینہ نے گفتگو کا  موضوع ایک سلیقے سے زاہد سے بدلتے ہوئے جب گوپال کے بارے میں ایک خاص انداز سے شرارت بھرے لہجے میں پوچھا تو وہ کہنے لگی کہ ’’ وہ دیکھنے میں تو کچھ ایسا خاص خوش شکل نہیں۔تامل ناڈو کا ہے اس لیے ذرا کالا بھی ہے But he is very intense, witty and very caring.‘‘(وہ ذرا شدت پسند ہے،خوش مذاق ہے اور بہت خیال رکھنے والا ہے)۔ وہ کوئی گھنٹہ بھر اس کے پاس ٹھہری پھر اسے گوپال لینے آگیا۔رومینہ نے اسے روکا بھی نہیں اور گوپال کو اندر آنے کی بھی دعوت نہ دی۔وہ نعمان، آفتاب اور خالہ کی وجہ سے اپنی رہائش گاہ کو ایسے مہمانوں سے پاک رکھنا چاہتی تھی جن کی اگر آمد و رفت کا علم کرائے داروں کی وجہ سے ان تینوں میں سے کسی کو ہو تو اس کی وضاحت  کسی  کے پاس نہ ہو۔
نئی قسط

ساوتری کے چلے جانے کے بعد وہ اس کی زندگی اور مرد سے برتاؤ کے بارے میں سوچتی رہی۔اسے خیال آیا کہ ہوسکتا ہے ڈونی بھی ایسا ہی ہو۔اس کے caringہونے کی گواہی تو اسے پچھلے چند دنوں میں مل گئی تھی۔بوبی کی شادی ہوجاتی ہے تو لے دے کر بس وہ ہی ایک مرد اس کی زندگی کا سہارا بن سکتا ہے۔نعمان سے نمٹنے کے لیے بہرحال اسے ایک مضبوط سہارے کی تلاش تھی۔
اپنی انہی  سوچوں میں وہ گم تھی کہ خالہ زیبا کا  پاکستان سے فون آگیا۔وہ بتارہی تھیں کہ نومی اور آفتاب کا کسی رقم کی واپسی کے پیچھے بڑا جھگڑا ہوگیا ہے۔ وہ اگر بیچ بچاؤ نہ کراتیں تو ممکن تھا کہ نوبت ہاتھا پائی تک آجاتی۔وہ فکر مند ہیں۔نومی ،آفتاب سے دس کروڑ روپے مانگ رہا تھا۔اس نے آفتاب کے ذریعے یہ رقم دوبئی کے کسی پراجیکٹ میں لگائی تھی جس میں دونوں کو نقصان ہوا ہے۔آفتاب کا خیال ہے وہ دوبئی آئے گا اگر وہ اسے واپس پاکستان جانے کا کہے تو رومینہ نومی کی یہ بات ہرگز نہ مانے۔کوشش کرے کہ اس دوران اسے کہیں ملازمت مل جائے۔
رومینہ اپنی درخواست ملازمت پہلے ہی ڈونی کی کمپنی میں بھیج چکی تھی۔اسے اس حوالے سے کوئی پریشانی نہ تھی۔چند دنوں کی بات تھی کہ اس کا ویزہ اسٹیٹس بدلنے والا تھا۔
کچھ دیر بعد اسے نعمان کا فون بھی آگیا۔آج اس کی باتوں میں اس کے حوالے سے بڑی گرم جوشی اور اظہار محبت تھا جس پر مینو کو تھوڑی سی حیرانی بھی ہوئی۔وہ تین بعد وہاں آنے کا کہہ رہا تھا ،یہ بھی بتارہا تھا کہ وہ تین دن اس کے پاس ٹھہر کرایک طویل کاروباری ٹرپ کے لیے ویت نام، ملائیشیا،انڈونیشیا اور تھائی لینڈ جائے گا۔وہ آفتاب والے ولا پر قیام نہیں کرے گا۔ان دونوں میں کچھ کاروباری ان بن ہوگئی ہے۔ اس نے نومی کو اعتماد دلانے کے لیے یہ کہا کہ وہ اس کی بیوی ہے اور اس کا ہر حکم اور ہر فیصلہ ماننا اس پر لازم ہے لہذا وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی پرواہ نہ کرے۔ وہ اگر مناسب سمجھے تو وہ اس کی رقم کی وصولیابی میں مدد کے لیے اپنی خالہ کے ذریعے آفتاب پر اثر انداز ہوسکتی ہے۔اس کی یہ تجویز نومی کو اچھی لگی۔

نومی  سے باتیں کرکے وہ سوگئی ۔صبح ناشتہ کرکے وہ بیچ پر چلی گئی۔اسے لگا کہ اب اس کی زندگی میں تیزی سے تبدیلیاں آنے والی ہیں۔سب سے پہلا فیصلہ تو وہ نومی کے آنے پر بچے کے بارے میں کرے۔ ایک ماں کے لیے یہ دکھ بھرا فیصلہ تھا۔وہ اس کے وجود کا حصہ تھا۔اسے ایک سوال پر ان دنوں بہت حیرت ہوئی تھی جب بوسنیا میں مسلمان خواتین کو سربیائی افواج نے زبردستی قید کرکے اپنی  تحویل میں رکھا اور انہیں بے دردی سے ریپ کیا ۔وہ اس وقت تک ان کی قید میں رہیں جب تک ان کے  ایام حمل پورے ہوگئے۔یہ سب کچھ ان کے طہارت نسل یعنی ethnic cleansing کا ءپروگرام تھا۔وہ بہت سوچتی تھی کہ ایسے حالات میں جب بچہ زبردستی ایک عورت کے وجود کا حصہ بنادیا جائے بچہ بھی اس مرد کا جو ان کا دشمن ہو۔جس سے وہ نفرت کرتی ہو اس عورت کی  سوچ کیا ہوگی۔کیا وہ اس بچے سے ویسے ہی پیار کرے گی جیسے سہاگ کی نشانی کو۔یہاں معاملہ ویسا گھمبیر تو نہ تھا ۔بس ذرا ٹائمنگ آؤٹ تھی۔شادی کے فریم ورک میں تو قاتل اور آدم خور کی اولاد بھی جائز ہی تصور ہوگی۔ دکھ کا فیصلہ ہی سہی بچہ پیدا کرنا اب کوئی مناسب فیصلہ نہ تھا۔ بدنامی اور بات لیک ہونے کے ڈر سے اس کی سوچ نے ایک اور عجیب موڑ پکڑا کہ اس کام کے لیے وہ ساوتری کی مدد سے ہندوستان چلی جائے گی۔یہ کام وہ نومی کے کاروباری ٹرپ کے دوران کرے گی۔
ہندوستان وہ کیسے جائے یہ ذرا مشکل مرحلہ ہے۔اسے معلوم تھا کہ اس کے محلے کے دو لڑکے ظہیر اور مرتضی جو دو مختلف سیاسی اور مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھتے تھے دو تین دفعہ دوبئی سے ہندوستان گئے تھے۔وہ جویریہ کے ذریعے مرتضیٰ کے اس ٹرپ کا پتہ چلا لے گی۔وہ اس کا قریبی عزیز تھا۔جویریہ جس کا تعلق ایک گجراتی بزنس خاندان سے تھا وہ ان کی باتیں بہت دل چسپ انداز سے کرتی تھی۔ہندوستان سے جب وہ براستہ دوبئی واپس آتے تو گھر والوں کے لیے کافی شاپنگ کرکے آتے تھے۔شاپنگ بیگ کبھی دہلی کے تو  کبھی ممبئی یا کسی اور شہر کے اسٹور کے ہوتے تھے۔ان میں سے کچھ اشیا جب محلے میں فروخت ہوتیں تو اس کا کچھ چرچا بھی ہوتا تھا۔جویریہ کہتی’’ یار یہ اللہ میاں اپن کو بھی چھوکرے بناتے تو کیسا اچھا ہوتا۔ سالے مزے سے سیکس کرتے ہیں اور تھینک یو کہہ کر گھر چلے آتے ہیں نہ بچے کا لفڑا،نہ بھائی لوگ کی غیرت کا  جھنجٹ۔بس ماں کو بولا کہ  پارٹی کے کام سے یا بزنس ٹرپ پر دوبئی جارہا ہوں ، ٹکٹ لیا اور چل پڑے‘‘۔ظہیر کا تعلق سیکٹر سے تھا ۔اس کے بارے میں فرقان سے پوچھنے میں خطرہ تھا کہ کہیں وہ یہ بات اپنے ماموں سے شئیر نہ کرلے۔لہذا وہ خالہ سے کہے گی کہ وہ اپنے طور پر ظہیر بھائی کی بہن سے معلوم کرلیں جو ان کی پڑوسن تھی۔ بیوہ ہونے پر اور ظہیر کی مفروری میں اس کی خالہ نے بہت مدد کی تھی۔ ہوسکتا وہ بھی سفر کے اس طریقہ کار کو ساوتری کی مدد سے اپنا سکے ۔ملازمت اسے ڈونی جلد ہی دے دے گا۔
اپنی سوچوں میں وہ گم تھی کہ ڈونی وہاں آگیا اور وہ باتیں کرنے لگے۔اس نے نعمان  کو اپنی گفتگو اور اپنے ہندوستان جانے کے پلان کا بتایا تو وہ کچھ سوچوں میں پڑگیا۔ اسے یہ تو معلوم تھا کہ ہندوستان میں طبی سہولتیں بہت عمدہ ہیں مگر اس کا خیال تھا کہ اپنے اسقاط کے بارے میں پاکستان میں اپنے والدین کی مدد لے تو زیادہ بہتر ہے۔ اس کا ہندوستان جانے کا ارادہ خطرناک ہے۔وہ ایک اجنبی ملک میں اپنا سب سے بڑا راز کیسے نبھاپائے گی۔ ساوتری لاکھ ایک اچھی معاون سہی مگر وہ اب بھی اس کے ساتھ ایک ایسے بندھن میں جڑی ہے جس کے بارے میں اس کے نظریات تا حال اس پر غیر واضح ہیں۔اس کا پاسپورٹ اس بات کی گواہی دے گا کہ وہ اسقاط حمل کے لیے پاکستان نہیں بلکہ کہیں اور گئی تھی۔ اس انکشاف سے نعمان کے تعلق میں پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ وہ اسے کسی طور بھی بے وقوف نہ سمجھے۔اس کی بھلائی اسی میں ہے کہ وہ جو کچھ بھی کرے وہ اتنا خفیہ اور پر اپر ہو کہ کسی بھی مرحلے پر نعمان کو کوئی شک اس کے بارے میں پیدا نہ ہو۔بچے کے بارے میں اس کا مشورہ تھا کہ وہ نعمان کو اس بارے میں ضرور اعتماد میں لے ۔
وہ اسے لنچ پر لے گیا وہاں بھی کئیریر کے حوالے سے اس نے بہت باتیں کیں۔اس کی رفاقت میں رومینہ کو ایک تحفظ کا احساس ہوا۔واپسی پر وہ اس کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک بیچ پر واک کرتی رہی۔باقی تین دن بھی اس کے کم و بیش اسی نوعیت کے تھے۔ بس اس ایک شام جب وہ اسے ڈنر پر لے گیا اس نے وہاں اس سے پوچھا کہ کیا وہ اس سے پیار کرتی ہے؟
یہ  ذرا مشکل مرحلہ تھا ۔ وہ اسے کسی طور اپنے سے دور نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ پرندے بے برگ درختوں میں گھونسلے نہیں بناتے۔ یہ ایک بہت Loaded سوال ہے۔ نہ کہتی ہے تو یہ یاری تڑخ کرکے ٹوٹ جائے گی ۔ سوال کی ٹائمنگ بہت اعلی ہے۔وہ اچھی طرح اسے سائز اپ کرچکا ہے کہ وہ اس پر کتنی بری طرح سے Dependent ہے ۔
وہ اگر اسے ہاں کہتی ہے تو پھر سیکس کے معاملات درپیش ہوں گے اور نہ کہتی ہے تو وہ ایک ایسا مرد ہے جو دوبئی جیسی جگہ میں اس کے رازوں کے ساتھ کسی لڑکی کی ہمہ وقت پھیلی ہوئی بانہوں میں چلا جائے گا ۔اس نے دیکھ لیا تھا کہ دوبئی میں عورت مرد کی دوستی اگر راضی بہ رضا ہو تو ورائیٹی اور سہولت کے حساب سے بہت آسانی سے دستیاب ہے ایتھوپیا، ایران، لبنان ، فلپائین، بھارت بنگلہ دیش،تیونس، مصر ،کہاں   کی لڑکی روزی کمانے یہاں نہیں آئی۔اسے ایک گھر میں رہنے کا مفت آسرا  ، ایک محفوظ جوان بدن کا ساتھ سواۓ شادی اور بچے کے پوری پیکج ڈیل ہے ، اور بچت درہم میں۔جو کچھ نیا مرد کرے گا وہ اپنے وطن میں ہوچکا ہے یا اب ہونے کو بے تاب ہے۔ مال و منال کی ، یہ ملبوسات، کاسمیٹکس ، ایک سے بڑھ کر ایک کار۔ پرفیوم پرس اور روز مرہ سیل کے ہنگاموں کی بہتات یہاں مقیم ہر عورت میں خود کو چاہے جانے ،اپنی سجاوٹ و آرائش کو پسند کیے جانے کی ایک ایسی بہتات پیدا کرتی ہے جو خودکش بمبار کی وہ جیکٹ ہے جس کا  ریموٹ باہر موٹر سائیکل یا دو کھڑکی میں کھڑے مرد کے پاس ہے ۔ریموٹ دبے گا۔ جیکٹ کی جیب میں رکھے فون کی گھنٹی بجے گی اور شہزادی صاحبہ ختم شوئے( شہزادی صاحبہ کا کام تمام ہوگیا)۔
مینو نے کچھ دیر توقف کیا اور سر جھکا کر کہا وہ ابھی تک اس مقام پر نہیں پہنچی مگر وہ یقیناًاس کی رفاقت میں خود کو بہت محفوظ تصور کرتی ہے۔یہ سوال چونکہ اس نے عین اس وقت پوچھا تھا جب وہ اسے اس کے گھر سے ذرا دور گاڑی سے اتار کر ساتھ کھڑا تھا۔ مینو کے جواب پر اس نے اسے گلے لگایا اور اس سے پہلے کہ وہ سنبھل پاتی اس کے ہونٹ مینو کے  ہونٹوں کو چوم رہے تھے۔رات بھر مینو ایک عجیب خفت اور سرشاری کے عالم میں اپنی نیند میں مسکراتی رہی۔
چوتھے دن البتہ نعمان آگیا وہ اسے لینے ائیر پورٹ پر بھی گئی۔اس کی مرضی نہ تھی کہ وہ اسی جگہ قیام کرے جہاں رومینہ ٹھہری تھی مگر پھر رومینہ کے ضد کرنے پر وہ مان گیا۔اگلی صبح وہ اسے بینک میں اکاؤنٹ  کھولنے لے گیا۔اتفاق کی بات تھی کہ وہ گئے بھی اسی بینک کی طرف جہاں رومینہ کا اکاؤنٹ تھا مگر اس سے پہلے کہ رومینہ اندر جاتی وہ اسے باہر ہی روک کر بینک کا جائزہ لینے گیا اور جلد ہی باہر آگیا۔ رومینہ کو یقین ہوگیا کہ اس کی نظر شاید وہاں اپنی سابقہ بیوی ساوتری سکسینہ پر پڑگئی تھی ۔اس نے بہانا کیا کہ اس کا منیجر کچھ مشکوک سا آدمی ہے۔وہ وہاں سے شیخ زید بن روڈ پر ایک اور بینک آگئے اور وہاں تین ہزار ڈالر جمع کراکے اس نے رومینہ کے نام سے ایک اکاؤنٹ کھول لیا۔رومینہ نے اس سے کہا بھی کہ کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ اکاؤنٹ مشترکہ ناموں سے کھولا جائے۔یہ اس کی چالاکی تھی۔ آپ سے رشتہ دار یا واقف لوگ جب ادھار مانگتے ہیں تو چھوٹی رقم سے شروع کرتے ہیں۔بر وقت ادائیگی کرتے رہتے ہیں۔ ایک پیٹرن سا بن جاتا ہے۔ ماریو پوزو کے گاڈ فادر والے ڈون کارلیونے کا کہنا تھا “I don’t trust words, I even question actions but i never doubt patterns ”
(میں لفظوں پر اعتماد نہیں کرتا ،میں حرکات پر بھی سوال کرلیتا ہوں مگر بار بار دہرائے جانے والے طرز عمل پر کبھی شک نہیں کرتا )۔مینو نے اس کو دھوکہ دینے کے لیے پیٹرن بنایا۔اس کی اس ضد پر مینو کا ہاتھ پیار سے تھام کر کہا جو میرا ہے وہ سب کچھ تمہارا اور تمہارے بچے کا ہے۔باہر نکل کر بھی مینو نے کہا مجھے آپ کی دولت میں کوئی دل چسپی نہیں۔پیسہ تو بوبی کے پاس بہت تھا۔ میں تو تمہاری پرسنالٹی،لائف اسٹائل ، تمہاری ذوق اور گفتگو کی دیوانی ہوں۔

ڈان کارلیونے کا قول

جس پر نومی نے سمجھایا کہ کہ وہ کسی وجہ سے اپنا نام اکاؤنٹ میں نہیں ڈالنا چاہتا۔رومینہ نے جب زیادہ کریدا تو وہ کہنے لگا کہ آفتاب کے ساتھ دوبئی والے رئیل اسٹیٹ کے کاروبار میں اب کافی نقصانات ہورہے ہیں۔لوگ اب یہاں کے پارٹنرز کو ادائیگی کیے بغیر بھاگ رہے ہیں ۔ممکن ہے یہاں رقم کی وصولیابی کا معاملہ ہو تو حکومت اس اکاؤنٹ میں اس کی رقم فریز کردے۔ اس وجہ سے نئی مشکلات کھڑی ہوجائیں گی ۔اسے اب وہ اپنی نئی اونر پارٹنرکے روپ میں یہاں کوئی نئی کمپنی بنا لے  ،جو پراپرٹی اونے پونے داموں فروخت کے لیے مارکیٹ میں آرہی ہے وہ خریدنے کا کہے۔چند دنوں میں وہ اپنے کاروباری ٹرپ سے واپس آکر اسے اس معاملے میں مزید ہدایات دے گا۔
رومینہ کو البتہ اس نے ان تین دنوں میں پیار بھی بہت کیا۔۔مینو کو اس کے والہانہ پن پر بہت حیرت بھی ہوئی مگر خود اس کے اپنے بدن کا یہ عالم تھا کہ اس کے اندر کی جو عورت تھائی لینڈ بالخصوص ہواہن کے اس سیر افزا مقام پر سنٹرا گرانڈبیچ ری سورٹ , میں پی گئی وہ سفید شراب میں ڈوب کر جواں ہوئی تھی۔اس رات جب وصل کی اپنی لذتیں تھیں اور اس کی بے باکی اور سپردگی بھی عروج پر تھی ۔ اس رات اس کے اندر کی عورت اچانک شمپئین کی بوتل کی  جھاگ کی طرح امڈ پڑی تھی۔ وہ اب کچھ Dis-orient ہوکر اس کی دوماہ کی بے اعتنائی کی وجہ سے ایک عجیب سے کوما میں چلی گئی تھی ۔ اسے لگا کہ سو فیصد حلال ہونے کے باوجود اس کا بدن ایسا زردہ ،پلاؤ بھنا ہوا گوشت کھیر یا فیرنی ہے  جو نیچے سے لگ گئی ہو ۔تہہ میں جل جانے سے بے لطفی اس کے پورے وجود میں پھیل گئی ہو ۔ یہ بدن کوشش کی وجہ  سے اب لذت سے دوبارہ جڑ نہیں پارہا۔ اس کا شہوت کا مدر بورڈ Ventilation Outlets میں جرم و دھوکہ دہی کی رکاوٹوں کی وجہ سے ذائقوں کی مطلوبہ heat dissipation حرارت کی ترسیل نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوگیا ہے۔۔ کئی دفعہ تو اس کے والہانہ پن پر مینو کو حیرت بھی ہوئی کہ کیا وہ بدل گیا ہے اور اس کا اس  سے جان چھڑانے کا فیصلہ کسی قسم کی جلد بازی کا نتیجہ تو نہیں جو اس کی سابقہ بے اعتنائی کی وجہ سے اس نے کیا ہے۔یہ خیال اس نے اپنے ذہن کے ایک گوشے میں یہ سوچ کر سمیٹ کر رکھ دیا کہ وہ اس بارے میں ڈونی سے مشورہ کرے گی۔
جب نعمان نے اس کی لمحات وصل میں عدم شرکت کی دبے دبے الفاظ میں شکایت کی تو مینونے اس کا الزام اپنی حالت حمل کو دیا اور اسے بتایا کہ وہ بچے کے  بارے میں غیر مطمئن ہے ۔شکایت کرتے ہوئے مینو نے کہا نومی آپ نے تو مجھے ہواہن میں گھونگٹ اٹھانے سے پہلے ہی پھونک دیا تھا۔۔۔
ہمارے جیسی لڑکیاں ٹیسٹ میچ کی کھلاڑی ہوتی ہیں۔وہ آپ جیسے ٹی ۔ٹوئینٹی کے دھواں دھار بیٹسمن بالرز کے ساتھ بستر میں نہیں چل سکتیں۔ہمیں تو ماؤں اور خالاؤں نے یہ سکھایا ہوتا ہے کہ ہم تو دیویاں ہیں تو   گھر اور بستردونوں ہمارے مندر ہوں گے جہاں مرد چڑھاوے لٹا لٹا کر ہمیں پوجے گا ۔آپ تو چلتی گاڑی سے ہینڈ گرنیڈ پھینک کر فرار ہونے والے مرد ہو ۔نومی مجھے ایسا لگتا ہے کہ  اندر کوئی وجو د تو ہے مگر بہت نیم جاں اور بد دل سا ہے۔ وہ اپنے باپ جیسا بھڑکیلا ، جوشیلا اور دلدار نہیں۔نومی کو یہ بیانیہ بہت اچھا لگا تو چومنے لگا اسی دوران رومینہ نے پوچھا کہ وہ اگر اجازت دے توپاکستان جاکر اپنی امی کو اعتماد میں لے کرابارشن کرالے۔اب جب کہ وہ نئی کاروباری ذمہ داریاں سنبھالنے والی ہے بچے کو پالنا پوسنا کوئی آسان کام نہ ہوگا۔ کاروبار ذرا جم جائے تو بچے کا کیا ہے پھر ہوجائے گا۔یوں بھی وہ اپنی اندرونی کیفیت کی وجہ سے بچے کی صحت کے حوالے سے بہت پریشان ہے۔” I don’t feel the joy of first motherhood and i get lot of bad vibes, what if the baby is abnormal.I was then not ready for the child.My fears are for bad conception.”(مجھے پہلی دفعہ ماں بننے کی خوشی نہیں محسوس ہورہی۔مجھے اس حوالے سے بہت برے خیالات آتے ہیں۔ بچہ اگر ابنارمل ہوا تو بہت مشکل ہوگی۔میں ویسے بھی اس بچے کی آمد پر ذہنی طور پر تیار نہ تھی۔)
اس نے اس بارے میں اپنی خرابیء صحت کے حوالے سے شکوک اور دیگر تفصیلات بتائیں اور اس خدشے کا اظہار کیا کہ اس کی امی کے  بقول یہ یا تو مس کیریج کی علامت ہے یا بچے کی نش و نما میں رکاوٹ کی تو وہ خود بھی سوچ میں پڑگیا اور یہ کہہ کر رضامندی ظاہر کی کہ وہ اگر اس بارے میں غیر مطمئن ہے تو یہ اس کا فیصلہ ہے۔اسے اس پر کوئی اعتراض نہیں۔
رومینہ نے جب اس سے پوچھا کہ وہ کاروبار میں رقم کے نقصانات کا اکثر ذکر کرتا ہے تو دوبئی میں جائیداد خریدنے کے لیے رقم کہاں سے آئے گی تو وہ کہنے لگا کہ اس کے پاس کچھ قیمتی خاندانی جیولری ہے جس کی این ٹیک ویلیو بھی بہت ہے۔اس کے کچھ نوادرات وہ د لندن لے جاکر  فروخت کردے گا اور رقم اس کے اکاؤنٹ میں جمع کرادے گا۔یوں یہاں پریشانی کے عالم میں انتہائی کم دام پر فروخت ہونے والی پراپرٹی کو خریدنا آئندہ مہنگے داموں فروخت کرنا آسان ہوگا۔پراپرٹی اور اسٹاک کا ایک سائیکل ہوتا ہے جب وہ نیچے جارہی ہو تو سمجھ دار بزنس مین اسے خریدتے ہیں اور قیمتیں چڑھ رہی ہوں تو اسے فروخت کردیتے ہیں۔

چار دن وہ اس کے پاس قیام کرکے تھائی لینڈ کے لیے روانہ ہوگیا۔مینو نے ضد کی کہ وہ اسے بھی ساتھ لے جائے مگر اس نے یہ کہہ کر ٹال دیا کہ وہ بچے وغیرہ سے فارغ ہوجائے تو وہ یہاں آن کر واپس اسے ماریشش لے جائے گا۔ سیکنڈ ہنی مون فرسٹ چائلڈ سیکنڈ ٹائم تب تک وہ بھی اس کے ساتھ ٹی ٹوئینٹی کی نیٹ پریکٹس کرلے۔فی الحال وہ صرف دو باتوں پر توجہ دے ایک تو پاکستان میں سیف ابارشن پر دوسرے اس کی ہدایات کے بموجب پراپرٹی خریدنے پر اور فروخت کرکے اس سے منافع کما نے پر۔

ماریشس

اس کی روانگی کے ایک دن بعد ساوتری نے اسے اور گوپال کو ایک ڈنر پر مدعو کیا۔وہ اسے بینک سے جاتے ہوئے پک کرلے گی،بچوں کو وہ اپنے کزن کے گھر ڈراپ کردے گی۔راستے میں باتیں کرلیں گے۔گوپال ریستورانٹ خود ہی آئے گا۔راستے میں مینو نے اسے نعمان کی آمد و رفت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔گوپال کو وہاں آتے آتے آدھا گھنٹہ لگا تو مینو نے بتایا کہ وہ اپنے ابارشن کے لیے ہندوستان جانا چاہتی ہے۔ساوتری نے اسے بتایا کہ لکھنؤ میں یہ کام ہوسکتا ہے اس کی وہاں دو تین لیڈی ڈاکٹرز دوست ہیں۔مسئلہ صرف ویزہ کا ہوگا اس میں بھی گوپال مدد کرلے گا۔وہ یہ سوچ لے  کہ ویزہ کے بارے میں وہ نعمان کو کیا اسٹوری دے گی کہ وہ وہاں کیوں گئی تھی۔کس کے پاس قیام تھا۔
گوپال آگیا تو ساوتری نے اس کا مسئلہ بیان کیا۔وہ ایک ذہین مرد تھا اور بے حدخوش مذاق بھی، اس نے رومینہ کو کہا کہ اس کی شکل ان کی ایک اداکارہ رانی مکرجی سے بہت ملتی ہے۔بس وہ اس سے ذرا دراز قد ہے۔یہ یقیناًایک ایسی تعریف تھی جس سے کسی لڑکی کا بھی خوش ہونا لازم تھا۔ رومینہ نے نوٹ کیا کہ وہ   گفتگو کرتے وقت بہت کم آپ کی جانب دیکھتا تھا ۔ اس کے برعکس جب آپ اس سے بات کررہے ہوں تو اس کی آنکھیں آپ کے چہر ے پر مرکوز رہتی تھیں۔یہ خلائی مخلوق کی خاص نشانی ہے وہ آپ کی بے تحاشا تعریف کرکے اپ کو توصیف کے سرکے میں گلا دیتے ہیں دوسرے مہارت سے جھوٹ بولنے کی وجہ سے اور اصل بات چھپانے کے چکر میں نگاہ نہیں ملاتے جب کہ آپ کی باڈی لینگیوج سے وہ سچ جھوٹ چھان رہے ہوتے ہیں اس لیے آپ کو تاکتے رہتے ہیں . گوپال نے بھی جب ویزہ کا مسئلہ بیان کیا تو رومینہ نے اسے بتایا کہ’’ ان کے محلے کے دو لڑکے یہاں دوبئی آتے ہیں۔اپنا پاسپورٹ یہاں چھوڑ کر یہاں بھارتی سفارت خانے سے ایک سفری اجازت نامہ لیتے ہیں اور بھارت میں مہینہ دو مہینہ قیام کرکے واپس آجاتے ہیں۔ ان کے پاسپورٹ پر بھارت آمد و رفت کا ریکارڈ نہیں رہتا‘‘ ۔

رانی مکرجی

گوپال نے اس سے صرف دو سوال پوچھے کہ ا ’’ن لڑکوں کا نام کیا ہے اور وہ کراچی کے کس علاقے میں رہتے ہیں؟‘‘رومینہ نے بتایا کہ’’ ان کے نام مرتضیٰ اور ظہیر ہیں۔ ایک کسی لسانی جماعت سے تعلق رکھتا تو دوسرا کسی مذہبی تنظیم کا سرگرم کارکن ہے۔ دونوں ہی پاپوش نگر میں رہتے ہیں‘‘۔ اسے اس بات پر حیرت ہوئی کہ گوپال نے اس سے ان لڑکوں کے بارے میں اس قدر تفصیل سے کیوں پوچھا مگر اپنے اس شبے کو اس نے یہ سوچ کر ٹال دیا کہ ممکن ہے ان کے سفارت خانے میں ان کا ریکارڈ ہو جس کی وجہ سے ان کا کیس بطور مثال بنا کر ویزہ کا حصول آسان ہوجائے۔
گوپال کہنے لگا کہ’’ وہ اپنے سفارت خانے کے ویزہ سیکشن میں بات کرے گا۔ یہ سہولت پاکستانیوں کی حد تک ممکن نہیں۔ مصر اور اردن میں یہ سہولت البتہ اسرائیلی سفارت خانہ ضرور ان لوگوں کو فراہم کرتا ہے جن ممالک کے سفارتی تعلقات اسرائیل سے نہیں۔ کئی پاکستانی زائرین اس سہولت کا فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ وہ کسی اسائنمینٹ پر ان دونوں ممالک میں گیا تھا۔واپسی پر اس نے یہ تجویز اپنی حکومت کو پیش کی تھی مگر اسے سختی سے رد کردیا گیا تھا۔ اس طرح کا اگر کوئی بندوبست یہاں دوبئی میں ممکن ہوا تووہ کوشش کرکے اسے بھی ویزہ لے دے گا‘‘۔
رومینہ کھانے کے دوران یہ سوچتی رہی کہ ساوتری نے اسے، اس تمام تعارف اور تعلق کے بارے میں کیا کچھ بتایا ہے جو اس مثلث میں تھا جو ساوتری زاہد اور اس کے درمیان پھیلی تھی۔ یہ ڈنر کوئی دو گھنٹے جاری رہا۔اس دوران کوئی ایسی بات نہ ہوئی جس سے اس بات کا اشارہ ملتا ہو کہ ان تینوں کے تعلق کے بارے میں اسے کوئی اضافی معلومات تھیں۔اسے گمان گزرا کہ شاید ان دونوں کے تعلق کی جسمانی شدت اور بچ بچا کر ملنے میں وقت کی قلت اس بات کی اجازت ہی نہ دیتی ہو کہ وہ غیر متعلقہ موضوعات پر بات کرتے ہوں ۔ساوتری ویسے بھی بہت سنجیدہ اور رکھ رکھاؤ والے رویے کی حامل تھی۔ممکن ہے وہ کوئی ایسی بات کرتی ہی نہ ہو۔
واپسی پر اس نے اپنی میل چیک کی تو گونگ لی والے ای میل ایڈریس پر بوبی اور ڈونی کی ای میل ملی ۔ بوبی کی شادی اب کوئی دن کی بات تھی۔اس کے والدین نے تانیا کے والدین کو ہاں کردی ہے اب کچھ دن بعد ہی اس کی تاریخ وغیرہ کی تفصیلات طے ہوجائیں گی۔ وہ اب بھی اگر نعمان سے طلاق لے تو وہ اس سے شادی کرسکتا ہے ۔وہ جانتا ہے کہ اس نے نعمان سے شادی کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے؟ کیا وہ اس کی شادی میں شرکت کے لیے پاکستان آئے گی ۔اسے یہ سوال کچھ عجیب سا لگا ۔اس رشتے میں اس کی کوئی منظوری نہیں مگر دکھ کی بات یہ ہے کہ مینو کی امی نے بھی اپنے بھائی کو اس کی تانیا سے شادی میں جلدی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ڈونی نے کہا کہ چار دن تیرہ گھنٹے کا ہجر اس پر گراں گزرا ہے دکھ کی بات ہے کہ مینو نے اسے اس دوران کوئی ٹیکسٹ میسج تک نہیں کیا۔ کیا وہ اس کے پیار کی اس عجلت اور شدت پر ہراساں و افسردہ ہے۔

۔ کیا وہی اب اس کا اگلا رفیق سفر ہو مگر مذہب اور اس کے والدین اس بارے میں کیسے ردعمل کا اظہار کریں گے۔ کیا یہ تعلق میاں بیوی والا ہوگا یا گوپال ساوتری والا۔ انہیں سوچوں میں گم اس نے ایک مس کال ڈونی کو کردی۔ اس کا خیال تھا کہ وہ سوگیا ہوگا۔ شاید ایسا ہی تھا کہ کیوں کہ پورے دو گھنٹے بعد اس کا فون جب آیا تو فون سائلنٹ پر کرکے مینو سو چکی تھی۔
نومی کے چلے جانے کے بعد اسے ایک عجیب سی تنہائی کا احساس ہوا۔ یہ زندگی ہرگز وہ نہ تھی جس کے خواب اس نے جواں ہوتے ہی دیکھنا شروع کردیے تھے ۔نومی اس کا میاں تھا مگر اس سے وہ تقریباً متنفر ہوچکی تھی ۔بوبی اس سے ٹوٹ کر اب کسی اور کے دامن سے وابستہ ہونے والا تھا۔ اس ٹوٹ پھوٹ کا جائزہ لیتے وقت اپنے اندر ہی اندر وہ خود کو کبھی مجرم گردانتی تو کبھی بالکل ہی معاف کردیتی تھی ۔ ڈونی ایک اور مرد تھا ۔جو ایک غیر محسوس طریقے سے اس کے قریب آتا چلا جارہا تھا۔اپنے احساس تنہائی سے الجھتی اپنے ذہن میں خود ہی اٹھائے ہوئے سوالات کا جواب ڈھونڈتی وہ تین دن تک    ڈونی کے ساتھ رہی۔یہ وقت زیادہ تر اس کے ال مراقبات روڈ پر ریف مال کے قریب کی بلڈنگ والے دفتر یا اس کے ولا والے دفتر میں گزرا۔
ڈونی کا اس کے ہندوستان جانے کے بارے میں اب بھی وہی مشورہ تھا کہ وہ اس خیال سے باز رہے تو بہتر ہوگا۔رومینہ نے اس  سے جب دریافت کیا کہ’’ کیا وہ سب کچھ کسی معلومات کی بنیاد پر کہہ رہا ہے یا دنیا کے بارے میں اس کا جو وسیع تجربہ ہے اس کی روشنی میں وہ اسے روک رہا ہے‘‘ تو وہ کہنے لگا کہ’’ وہ وہاں اپنی میڈیکل کی ضرورت کے حساب سے جارہی ہے۔ کیا یہ کام وہ کراچی میں نہیں کرسکتی۔ایک اجنبی ملک میں جہاں اسے کوئی ٹھیک سے جانتا بھی نہیں۔ وہ وہاں کیوں جانا چاہتی ہے۔ یہ بات اس کی سمجھ میں  نہیں آرہی ہے۔اس کا پاسپورٹ آج ویزہ کی تبدیلی کے لیے جمع کرانا ہے۔اس تبدیلی کی وجہ سے اس کی دوبئی آمد و رفت آسان ہوجائے گی۔وزٹ ویزہ پر آنے جانے کے لیے معیاد کی قید ہوتی ہے‘‘۔
اس کی بڑی تمنا تھی کہ خالہ زیبا یا کم از کم اس کی امی ہی اس کے پاس کچھ دنوں کے لیے آجائیں مگر جب فون پر اس نے خالہ سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بتانے لگیں کہ یہاں بوبی کی شادی کی تیاریاں شروع ہوگئی ہیں۔اس کی نانی کی طبیعت بہت نرم گرم رہنے لگی انہیں خوف ہے کہ اگر وہ چل بسیں تو یہ شادی چہلم کے بعد تک ٹل جائے گی۔ بہتر تو یہ ہوگا کہ وہ خود بھی ایک ڈیڑھ ماہ کے لیے پاکستان آجائے اور چپ چاپ اپنے بچے والے معاملے سے بھی فارغ ہوجائے۔ انہوں نے اپنی ایک ڈاکٹر دوست سے اس بارے میں بات کرلی ہے۔ بس اسے اپنی امی کو اعتماد میں لینا ہوگا کیوں کہ اس نے ان سے اس بارے میں بہت سرسری طور پر بات کی ہے مگر اسے کوئی خاطر خواہ جواب ان کی جانب سے موصول نہیں ہوا
۔ایک دن وہ شام کو ڈونی کے ساتھ دفتر ہی سے اس کی موٹر بائیک پر بیٹھ کر ابو ظہبی چلی گئی وہاں کھانے کے بعد جب وہ کورنش پر بیٹھے سمندر پر تیرتی کشتیوں کو دیکھ رہے تھے ڈونی نے اسے بانہوں میں سمیٹ کر اظہار محبت کیا تو وہ پریشان ہوگئی۔اس سے پوچھ بیٹھی کہ ’’ اس تعلق کو وہ کہاں تک لے جانا چاہتا ہے؟دراصل وہ خود اب شادی اور عشق دونوں ہی سے بہت نالاں ہے‘‘۔ڈونی کہنے لگا کہ’’ کیا کافی کا ایک گرم گھونٹ پینے کی وجہ سے زبان جل جائے تو وہ کیا ہمیشہ کے لیے کافی پینا چھوڑ دے گی؟‘‘
۔دلیل تو بہت وزنی تھی مگر مینو نے پھر بھی پوچھ لیا کہ’’ وہ کیا اس سے پیار کرتا ہے؟ ‘‘’’پیار ایک مشکل لفظ ہے ہم دونوں کے لیے لہذا بہتر ہوگا ہم کچھ عرصے تک ایک دوسرے کو اچھے لگتے رہیں۔ساتھ رہیں، ملتے رہیں۔فی الحال اس کا ارادہ صرف اتنا ہے کہ وہ اسے ملازمت کے حصول میں مدد کرے۔وہ بچے کے بوجھ سے فارغ ہوجائے۔اس بے ایمان اور دھوکے باز شوہر سے طلاق لینے سے پہلے اپنی رقم وصول کرلے‘‘۔ مینو یہ سب سن کر اس کی بانہوں میں سمٹ گئی مگر ذرا دیر بعد اس طرف لوگ آگئے تو وہ علیحدہ ہوکر بیٹھ گئی۔وہاں بیٹھ کر انہوں نے کچھ دیر اور گفتگو کی۔
جب وہ واپس آرہے تھے مینو نے ڈونی کا موازنہ بہت خاموشی سے نومی سے کیا۔وہ یقیناًایک بہت مختلف مرد تھا۔سب سے پہلی بات تو یہ تھی کہ اس کے ہاں کوئی ضد نہ تھی اور بہت مہذب تھا۔نومی کے ہاں اگر اس کی قربت میں تسلط تھا تو ڈونی کے ہاں ایک سلیقہ مند احتیاط تھی۔ یہ احتیاط اس کی گفتگو میں الفاظ کے چناؤ میں بھی بہت واضح طور پر دکھائی دیتی تھی ۔اس کا مشاہد ہ بھی غضب کا تھا اور ایسی ہی اس کی یادادشت تھی۔اس کی شخصیت کے گرد ایک حصار ہر وقت موجود رہتا تھا۔جس کو توڑ کر اندر داخل ہونا تقریباً ناممکن تھا۔وہ سوچنے لگی کہ کیا یہ مینو کی اپنی شخصیت تھی جس نے اس پر اپنا اثر ڈالا یا اس کے قریب آنے کا فیصلہ اس کا اپنا تھا۔یہ ایک دل چسپ سوال تھا جو اس نے اس ابوظہبی سے دوبئی واپسی کے سفر میں اس سے پوچھ لیا۔وہ کہنے لگا کہ’’ وہ خود بھی بہت پرکشش ہے مگر اس کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے میں اس نے بھی اپنے آپ کو پیار اور لگاوٹ کے اس بہاؤ میں بہنے دیا‘‘۔’’کیا اس کی شخصیت کسی حصار میں مقید ہے؟‘‘ تو وہ کہنے لگا کہ ’’ اسے یہ خیال شاید اس کی ماضی کی ملازمت جوبرطانیہ کی خفیہ ایجنسی ایم آئی۔ فائی کے حوالے سے اس کی ذہن میں آیا ہے۔ہمارے پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگ بہت محتاط رویوں کے مالک ہوتے ہیں،کم سخن اور کم آمیز۔کیا وہ اس کے اس طرز عمل سے خود کو ہراساں محسوس کرتی ہے؟ ‘‘تو مینو نے جواب دیا کہ’’ نہیں اس کا محتاط رویہ اور اس کا فراہم کردہ احساس تحفظ اسے بہت عزیز ہے‘‘۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مینو کی مرضی تھی کہ وہ اسے واپسی میں اسی کے گھر پر اتار دے مگر وہ نہ ماناوہاں سے وہ سیدھے اس کے ولا پر آگئے۔وہاں وہ خود تو وہسکی پیتا رہا اور اسے اس نے گرما گرم کافی لاکر دی۔ ٹیریس پر بیٹھ کر  جب وہ سمند پر بہنے والی کشتیوں کو دیکھ رہے تھے مینو کو اس نے بہت آہستگی سے سمیٹ کر اپنی گود میں بٹھالیا اور بہت دیر تک اسے چومتا رہا۔
مینو کی مدافعت جانے کہاں چلی گئی تھی یا شاید اسے  بھی یہ سب   بہت اچھا لگ رہا تھا۔

  • merkit.pk
  • julia rana solicitors london
  • julia rana solicitors

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply