نبض سب کچھ بتا دیتی ہے

نبض عجیب شے ہے ،یہ چپ نہیں رہتی ،بلکہ سب کچھ کہہ دیتی ہے ۔نبض کے ذریعے نباض جسم کو پوشیدہ بیماریوں کے اسباب وعلامات ،ان کے خراب اثرات اور ان سے نجات کے لیے علاج جان لیتے ہیں ۔نبض پر نباض کی انگلیاں رکھنے کی دیر ہوتی ہے ،وہ انسانی وجود میں پلنے والے مرض کی داستان سنا دیتی ہے ۔سائنس نے امراض کی تشخیص کے لیے جتنی بھی ایجادات کی ہیں ،مثلاً بیش قیمت مشینیں اور آلات ،ان سب کی ساخت نبض کی اساس پر ہے ۔آج کل ہم معالج کی ہدایت پر مختلف امراض کی تشخیص کے لیے بہت سے ٹیسٹ کرواتے ہیں ۔پھر معالج کو ان کی رپورٹ پڑھ کر پتاچلتا ہے کہ مریض فلاں مرض میں مبتلا ہے ۔اس کے بعد وہ علاج اور ادویہ تجویز کرتے ہیں ۔پہلے زمانے میں نبض ہی ذریعہ تشخیص تھی اور امراض کے جان لینے کا انحصار اسی پر کیا جاتا تھا ۔بڑے پائے کے نباض آج بھی تاریخ میں زندہ ہیں اور ہم ان کی علمیت اور مہارت کے بارے میں پڑھ کر حیران ہوتے ہیں ۔ڈاکٹر جو صدر بین آلہ(STETHOSCOPE) استعمال کرتے ہیں ،وہ بھی نبض ہی کی بنیاد پر بنایا گیا ہے۔صدر بین آلہ بھی انسانی دل کی دھڑکنوں کو معالج کے کانوں تک پہنچا تا ہے ،جس طرح نبض سے دھڑکنوں کا پتا چلتا ہے ۔دھڑکن کی آہنگ اور زیر وبم سے معالج مرض کی تہ تک پہنچ جاتا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بھیرہ کے ایک معروف حکیم نورالدین اپنے زمانے کے ایک حاذق طبیب تھے ،وہ اس دور کے شاہی طبیب تھے ۔بادشاہوں ،راجوں اور مہاراجوں کا علاج کرنا ان کی ذمے داریوں میں شامل تھا،تاہم وہ حرم شاہی کی پردہ دار خواتین کی نبض اس طرح دیکھا کرتے تھے کہ ان کی کلائی دھاگے کے ایک سرے سے بند ھی ہوتی تھی اور اس کا دوسرا سرا حکیم نور الدین کے ہاتھ میں ہوتا تھا اور وہ اپنی حکمت اور مشاقی سے مریضہ کی نبض کی کہانی بیان کردیا کرتے تھے ۔حکیم نور الدین کی شہرت کابل کے بادشاہ تک بھی جا پہنچی ۔کابل کے بادشاہ نے اس حاذق طبیب کا امتحان لینے کا فیصلہ کیا اور انھیں بلوا کر شاہی مہمان خانے میں ٹھیرا یا۔ایک دو روز بعد حکیم صاحب کو مطلع کیا گیا کہ حرم شاہی کی ایک پردے دار خاتون صاحبِ فراش ہیں ،ان کی نبض دیکھ کر آپ کو مرض کی تشخیص کرنی ہے ۔پردے دار خاتون چوں کہ سامنے نہیں آسکتی تھیں ،لہٰذا دھاگے کی مدد سے ان کی نبض دیکھنی تھی ۔حکیم نور الدین کے لیے یہ تجربہ نیا نہیں تھا ،اس لیے انھوں نے فوراًحامی بھر لی ۔بادشاہ نے اپنے وزرا اور دربار یوں کے ساتھ مل کر جو منصوبہ بنایا تھا ،اس کے مطابق دھاگے کا ایک سرا خاتون کی کلائی کے بجائے ایک بلی کی ٹانگ سے باندھ دیا اور دوسرا سرا حکیم نور الدین کو تھمادیا گیا۔انھوں نے دھاگے کا سرا پکڑ کر چند لمحے غور کیا۔پھر بادشاہ کی طرف دیکھا اور مسکراکر عرض کیا:”جناب عالی! یہ دھاگا خاتون کی کلائی سے نہیں ،بلکہ بلی کی ٹانگ سے بند ھا ہوا ہے اور جہاں تک بلی کا تعلق ہے ،وہ تندرست وتوانا ہے ۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply