خدیجہ صدیقی حملہ کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے خدیجہ صدیقی ملزم کو جانتی تھی وہ کلاس فیلو بھی تھا، اس کے باوجود ملزم کو پانچ دن کے بعد نامزد کیا گیا، خدیجہ کی گردن کے اگلےحصے پر کوئی زخم نہیں تھا، وہ معاملے پر بول سکتی تھی۔تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی قاتلانہ حملہ کیس کی سماعت کی ، خدیجہ صدیقی پر قاتلانہ حملے کے ملزم شاہ حسین بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔چیف جسٹس آصف سعید نے استفسار کیا کیا ملزم شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے، جس پر سرکاری وکیل نے بتایا کہ شاہ حسین کمرہ عدالت میں موجود ہے۔دوران سماعت وکیل خدیجہ صدیقی نے دلائل میں کہا ہائی کورٹ نے مقدمہ کےمکمل شواہد کو نہیں دیکھا، خدیجہ صدیقی کی بہن بھی بطور گواہ پیش ہوئی، جس پر چیف جسٹس نے کہا دیکھنا چاہتے ہیں ہائی کورٹ کا نتیجہ شواہد کے مطابق ہے۔خدیجہ صدیقی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ خدیجہ صدیقی ملزم کی کلاس فیلو تھی، ملزم شاہ حسین نے خدیجہ پرخنجر کے 23 وار کیے،خدیجہ کی گردن پربھی 2 وار کیے، ڈاکٹرز کے مطابق جب خدیجہ کواسپتال لایاگیاخون بہہ رہاتھا۔چیف جسٹس کھوسہ نے ریمارکس میں کہا خدیجہ صدیقی ملزم کو جانتی تھی وہ کلاس فیلو بھی تھے، اس کےباوجود ملزم کو 5 دن کے بعد نامزد کیا گیا، جس پر وکیل خدیجہ صدیقی نے بتایا حملے کے وقت خدیجہ صدیقی حواس میں نہیں تھی،خدیجہ نے ڈاکٹر کو بھی اجنبی قراردیا تھا، شاہ حسین نےارادے کے ساتھ صرف خدیجہ پرخنجر سے حملے کیے، شاہ حسین نے کار کے ڈرائیور پر حملہ نہیں کیا۔ملزم کو تاخیر سے مقدمے میں نامزد کیوں کیا گیا، خدیجہ کی بہن نے بھی ملزم کی نشاندہی میں تاخیر کی، چیف جسٹس کے ریمارکسجسٹس آصف کھوسہ نے مزید کہا خدیجہ کی بہن حملے کے وقت حواس میں تھی، ملزم کو تاخیر سے مقدمےمیں نامزدکیوں کیاگیا، خدیجہ کی بہن نے بھی ملزم کی نشاندہی میں تاخیر کی۔چیف جسٹس نے استفسار کیا خدیجہ کو لگے ہوئے زخم کتنے گہرے ہیں تو وکیل خدیجہ نے بتایا 12زخم 2 سینٹی میٹرز کے تھے، جس پر جسٹس آصف کھوسہ نے کہا خدیجہ کی گردن کے اگلے حصے پرکوئی زخم نہیں تھا، خدیجہ معاملے پر بول سکتی تھی۔وکیل نے مزید بتایا کہ خدیجہ حملےکے بعد حواس میں نہیں تھی ، ڈاکٹرز کے مطابق خدیجہ کی حالت خطرے میں تھی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے یہ بات طے ہے اسپتال میں خدیجہ بات کررہی تھی، ڈاکٹرز خدیجہ سے سوال کررہے تھےتو سرجن نے انہیں باہرنکال دیا، خدیجہ نے ڈاکٹرز کو بتایا کہ حملہ آورلڑکا ہے۔
خدیجہ کے وکیل کا کہنا تھا کہ خدیجہ کی حالت کے پیش نظر تفتیشی افسر بیان ریکارڈ نہیں کرسکا، جس پر چیف جسٹس نے کہا خدیجہ صدیقی نے پہلے دن ملزم کانام نہیں بتایا، خدیجہ نے ملزم کا نام 5 دن بعد بتایا۔یاد رہے مئی 2016 میں قانون کی طالبہ خدیجہ صدیقی پر شاہ حسین نے خنجر کے 23 وار کیے تھے، جس سے وہ شدید زخمی ہوگئیں تھیں۔جس کے بعد سابق چیف جسٹس کے حکم پر جوڈیشل مجسٹریٹ مبشرحسین نے ایک ماہ میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے مجرم کو سات سال قید کی سزا سنائی تھی۔بعد ازاں ملزم شاہ حسین نے مجسٹریٹ کورٹ سے سنائی جانے والی سزا کے خلاف سیشن کورٹ میں اپیل دائر کی تھی، شاہ حسین کی درخواست پرسیشن کورٹ نے مجسٹریٹ کورٹ کی جانب سے دی گئی 7 سال کی سزا کم کرکے 5 سال کردی تھی، جبکہ خدیجہ صدیقی کیس کے ملزم شاہ حسین کو لاہور ہائی کورٹ نے رہا کرنے کا حکم دیا تھا، جس پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ازخود نوٹس لیا تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں