سانحات, انٹلیکچوئل لیول اور قومی ردعمل— بلال شوکت آزاد

جب ایک معاملہ, سنگین اور پیچیدہ کیس انڈر انویسٹیگیشن اور اس پر بنی جے آئی ٹی انڈر پراسس ہے تو اس کا واضح اور صاف صاف مطلب یہی ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے قوم کے مطالبے “انصاف دو” کو پورا کرنے میں شدید دلچسپی رکھتے ہیں۔

جب آپ کی خواہش کا احترام کیا جارہا ہے تو کونسی چیز آپ کو اس کے باوجود صبر سے بیٹھنے نہیں دے رہی اور آپ کی اچانک دانشوریاں اور دانشگردیاں نکل نکل دیوار کالی کررہی ہیں۔

کسی ایک مقام پر تو ٹھہریں کہ پمبھیری بن کر اڑتے رہنا ہے ریں ریں کرکے؟

حکومت, ادارے, جے آئی ٹی اور سی ٹی ڈی سبھی نے بشمول قوم یہ بات تسلیم کرلی کہ مرنے والے دیگر تین افراد علاوعہ ذیشان (ذیشان کو بھی بینفیٹ آف ڈاؤٹ مل سکتا اگر ہم اس کی داڑھی, کردار اور موجود فیکٹس کا کیمپریژن بند کرکے مکمل رپورٹ ملنے تک انتظار کریں) بے گناہ اور کلیئر تھے, ان کے مرنے کا کوئی جواز نہیں تھا, ظلم عظیم ہوا اور سبھی متعلقہ چینل ذمہ دار ہیں اس کے۔

بیشک یہ عوام کے شور و غوغے اور پریشر نے کروایا لیکن اب جب یہ ہورہا ہے جو عوام چاہتی ہے تو کیا اب بھی چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا دانشمندی اور اہم ہے؟

ہلکی سی جھلک مل گئی کہ عوام طاقتور ہے, ذمہ دران کے بڑے بے عزت ہوئے اور ان کی پوزیشنز چھین لی گئیں۔آپ کے “پینڈو” وزیر اعلی کو رپورٹ اور رپورٹ دینے والے مطمئن نہ کرسکے اور اس کے باوجود ادھوری رپورٹ پر ایکشنز لے لیئے گئے اور باقی ذمہ داران جو کہ اس واردات میں بطور ملزم نامزد ہیں کو سزا اور مظلومین سے انصاف کی یقین دہانی کی خاطر اس ادھوری رپورٹ کو غیر جانبداری سے مکمل کرنے کا وقت اور موقع دیا گیا ہے۔

ذیشان کی بات کریں تو متعلقہ اداروں کے پاس صرف یہی جواز کافی نہیں کہ اس کی کالعدم جماعت کے دہشتگرد کے ساتھ سیلفی اور گاڑی لنکڈ ملی بلکہ اب قوم بال کی کھال اتارنے اور اتروانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو ادارے بھی اس کھیل کو انجام دینے کے متمنی ہوگئے ہیں۔

باقی جو لوگ یہ بچگانہ دلیل لے کر گھوم رہے کہ چار مرنے والوں میں بس ذیشان کی داڑھی تھی سو وہ دہشتگرد ٹھہرا بلکل بھونڈی دلیل ہے۔

میں اس وقت اس کو کوئی عنوان نہیں دیتا کہ ذیشان دہشتگرد تھا یا نہیں, یا وہ دہشتگرد سے دوستی اور صحبت میں رہنے کی سزا پا گیا بغیر کوئی جرم کیئے یہ تو ساری کہانی رپورٹ کی تکمیل پر معلوم ہوگی پر میرا اچانک دانشوروں اور دانشگردوں سے سوال ہے کہ کیا خوارج جن کے خلاف کبھی بہت سرگرمی سے مصروف رہے ہو وہ باریش نہیں تھے, نمازی پرہیزی نہیں تھے, باوضو اور بظاہر متقی نہیں تھے؟ یقیناً تھے۔

تو پھر آج یہ پیمانہ بدل کیسے گیا کہ داڑھی اور نماز روزے کو آپ بے گناہی اور نظریات کی شفافیت کا ثبوت اور دلیل بناکر عوام کو کنفیوز کررہے ہیں؟

میں پھر بتادوں کہ تین لوگ بے گناہ مرے اور چوتھا پرائم سسپیکٹ ذیشان میری نظر میں اس وقت بلائنڈ کیس ہے, جب تک متعلقہ اداروں کی حتمی رپورٹ نہیں آتی لہذا تب تک نہ میں اس کو دہشتگرد کہہ کر اور نہ ہی بے قصور کہہ کر کوئی رائے دوں گا۔عوام کو ایک اور من حیث القوم نفسیاتی بیماری لاحق ہوچکی ہے کہ ہر بات کو عیاں ہونے سے قبل جھوٹ کی سند دیکر رد کردینا۔

جب آپ کے پاس کوئی اخلاقی, سائنسی, قانونی اور شرعی پیرا میٹرز نہیں اپنی بات کو سچ ثابت کرنے اور دوسرے کی بات کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیئے تو کس طرح آپ جھوٹ جھوٹ کی گردان کرسکتے ہیں؟

آپ کے پاس معلومات کا مآخذ کیا ہے؟

الیکٹرونک, پرنٹ اور سوشل میڈیا؟

جہاں تک مجھے یاد ہے پچھلے ہفتے تک سبھی اچانک دانشوروں اور دانشگردوں کا یہی استدلال تھا کہ ہر طرح کا موجودہ پاکستانی میڈیا جھوٹ کا کاروبار کررہا ہے اور یہ کہ موجودہ حکومت سبھی میڈیا چینلز کی ناپسندیدہ ہے اور یہ ٹکراؤ اور تصادم کے خواہاں ہیں تو ایک سانحے کے بعد یہ الیکٹرونک, پرنٹ اور سوشل میڈیا سچا کیسے ہوگیا آپ سب کے نزدیک؟

اس کے بعد وہ سوالات ہیں جو ماہر فرانزک اور ماہر جاسوسیات بن کر اچانک دانشور اور دانشگرد اٹھا رہے کہ فلاں کام کیوں ہوا؟, فلاں کیوں نہیں ہوا؟, جائے واردات پر یہ کیا تھا؟, وہ کیوں ہے؟

میرا ان کو مخلصانہ مشورہ ہے کہ اگر تمہارا انٹلیکچوئل لیول اور ذہانت کا درجہ اتنا بہتر ہے تو ادھر وقت ضائع مت کرو بلکہ متعلقہ اداروں کے ذہنی استعداد کے امتحانوں میں شامل ہوکر کامیاب ہوں اور ان اداروں میں جاکر اسی محنت, لگن اور ذہانت سے خدمات انجام دیں۔

اس سے ہوگا یہ کہ نوجوان پڑھے لکھے افراد ایک خوبصورت اضافہ ہوگا ان اداروں میں اور دوم آپ کے دکھ اور تکلیف کی وجہ ختم ہوگی کہ آپ جب ان اداروں میں ہوں گے تو شاید ایسی نوبت نہ آئے جو ہم دیکھ چکے ا ب تک۔

اب قصہ مختصر یہ کہ ساری بحث کا حاصل یہی ہے کہ جب ایک پراسس چل چکا تو اس کو چلنے دیں اور صبر اور انتظار کا مظاہرہ کریں تاکہ متعلقہ ادارے بغیر بیرونی مداخلت اور پریشر کے یکسو ہوکر تحقیقاتی رپورٹ مرتب کرسکیں جو قوم کو مطمئن کرسکے ورنہ اس طرح اگر ہر بندہ جج بن کر وکیل بن کر اپنی عدالت سجا کر جرح پہ جرح کرتا رہے گا اور پیشگی جھوٹ جھوٹ کی گردان کرتا رہے گا تو وہ ممکنہ انصاف اور قانون کی بالا دستی ایک خواب بن کر رہ جائیں گے جس کی آپ کو ہمیں مجھے تلاش اور خواہش ہے۔

جس کا کام اسی کو ساجھے, لہذا یوں میڈیا ٹرائل بند کریں اور ظلم و دکھ بیان کرتے کرتے پٹڑی سے مت اتریں کہ بعد میں اپنا لکھا مٹانا پڑے اور خجالت و شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ذرا نہیں پورا سوچئے۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply