پنجاب فوڈ اتھارٹی نے بہت سے اچھے کام کیے۔کئی جعلی شربت بند کروادئیے۔جعلی دودھ بنانے والے پکڑ میں آۓ۔کاربونیٹیڈ مشروب کی جعلی بوتلیں وفیکٹریاں بند کروائ۔بہت سے ہوٹل ڈھابے سیل ہوۓ۔لوگوں کو صاف ستھری صحت مند غذا میسر آنے لگی۔ڈھابوں چاۓ خانوں کا ماحول بدلا۔صفائی اب چاۓ خانوں ڈھابوں اور خوراک کی ریھڑیوں کی اولین ترجیح یا مجبوری ہے۔کھانا بنانے اور بیچنے والے اب بہتر اور صاف ستھرے لباس اور ہاتھ پاؤں کے ساتھ نظر آتے ہیں۔
جس کام کی تعریف کرنا بنتی ہو اس کی تعریف نہ کرنا بخل میں شمار ہوگا مگر کیا واقعی پنجاب فوڈ اتھارٹی کو سارے پنجاب کے عوام کا خیال ہے یا یہ صرف ایلیٹ اور اپر مڈل کلاس کے لوگوں اور بچوں کیلئے ہی کیا گیا انتظام ہے؟
آئیے ہم مل کے جائزہ لیتے ہیں کہ لوئر مڈل کلاس اور غریب غرباء کے بچوں کے کھانے پینے کی اشیاء کا اس وقت مارکیٹ میں کیا حال ہے۔
ایلیٹ کلاس کے بچے ببل گم یا چیونگم کھاتے ہیں اس کی قیمت کم از کم ستر روپے ہے۔(lays )چپس امیر کے بچے کیلئے پچاس سے سو روپے کی۔گولی ٹافی پانچ سے دس روپے کی۔چاکلیٹ تیس سے دو ڈھائی سو کی۔آئس کریم بھی امیر کے بچے کی ایک وکھری ہی شے ہوتی ہے۔مجھ کو تو ان کے نام بھی نہیں آتے۔
بچوں کے پیمپر ڈائپر وغیرہ سے لے کر کپڑے جوتے فیڈر اور دودھ تک امیر کا علیحدہ اور غریب کا علیحدہ۔محکمہ فوڈ اتھارٹی کے محترم افسران آپ کی سب کوششیں و کاوشیں آپ کے سب ایکشن واقدام بس امیر کی حفاظت کیلئے ہی ہیں۔غریب کا بچہ ان چیزوں کو خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتا چھونا خریدنا اور استعمال کرنا تو ایک نا ممکن سی بات ہے۔
غریب کے بچے کو گھر سے ملتے ہیں پانچ روپے دس روپے وہ بھی روزانہ نہیں۔ان سے وہ کیا خریدتا ہے کیا کھاتا ہے کبھی اس پر غور ضرور کرنا اگر وقت اجازت دے تو۔میرے یہ الفاظ بے اثر بھی ہیں بے وقعت بھی مجھے ادراک ہے۔ہوسکتا ہے میرے جیسے ہی لوگ میرا اور میری تحریر کا مذاق اڑائیں۔مگر میں لکھوں گا ضرور۔محترم فوڈ اتھارٹی والو ہوسکے تو کبھی گاؤں دیہات کا چکر بھی ضرور لگانا۔شہری آبادی کے پوش اور اپر مڈل کلاس کے علاقے چھوڑ کے کبھی غریب آبادیوں اور کالونیوں کو بھی کھنگال کے دیکھنا۔کسی پسماندہ دیہات کے سکول کے پاس بکنے والی آلوچنے کی چاٹ چپس سموسے پکوڑے اور پاپڑ کی کوالٹی بھی دیکھ لینا۔ہاجمولہ کے نام پر ملنے والہ کالا نمک اور چینی،املی کے نام پر بکنے والی ٹاٹری اور کالا گڑ،چورن کے نام پر سرخ مرچ نمک اور ٹاٹری ،چاکلیٹ کے نام پر بکنے والی چینی اور سٹارچ کی ٹیکسٹائل کلر ملی رنگ برنگی گولیاں،تیز مینتھول والی ٹھنڈی میٹھی گولی،ٹیکسٹائل کلر سے مزین نمکو پاپڑ اور ایسا بہت کچھ جو آپ لوگوں کی پہنچ میں ہوتے ہوۓ بھی آپ کی پہنچ سے کوسوں دور۔
یہ سب چیزیں کوئی مریخ سے نہیں اترتی بلکہ لاہور کراچی راولپنڈی فیصل آباد جیسے شہروں میں بنائی اور سرعام بیچی جاتی ہیں۔
اب تو چینی بھرے رنگ برنگے سٹرا جو کہ شاید چائنا سے آتے ہیں۔سینکڑوں اقسام کی گجک مرونڈا ریوڑی اور ٹانگر جوکہ صرف غریب آبادیوں گاؤں دیہات کی گلیوں اور سکولوں میں بکتی ہیں۔انکو یہ سب بنانے بیچنے کا لائسنس آپ ہی کی طرف سے دیا گیا ہے۔ہوسکتا ہے آپ کو جو نمونہ لائسنس لینے کو چیک کروایا گیا ہو وہ کچھ معیاری بھی ہو مگر مذکورہ بالا اشیاء اس وقت مارکیٹ میں میسر ہیں انتہائ ناقص کوالٹی اور ناقص ترین پیکنگ میں دستیاب بھی ہیں انکی خریدوفروخت بھی ہورہی ہے بچے کھا بھی رہے ہیں اور بیمار بھی ہو رہے ہیں۔
ہم کسی سانحے حادثے پر تو سینہ کوبی کرتے ہیں کسی بچے کے ساتھ ذیادتی ہوجانے پر ساری قوم دکھ کا اظہار بھی کرتی ہے ریلیاں بھی نکلتی ہیں احتجاج بھی ہوتا ہے۔کیونکہ یہ کسی ایک انسان نما درندے کا ذاتی اور انفرادی فعل ہوتا ہے مگر یہ ہم جو دیدہ دانستہ اپنے بچوں کو زہر دے رہے ہیں ناقص پاپڑ اور زہریلی اشیاء کے استعمال سے سینکڑوں بچے بیمار ہوکے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے باوجود تندرست نہیں ہوپاتے۔ہر سال ہزاروں بچوں کی اموات مختلف بیماریوں کے باعث ہوتی ہیں جن کی بنیادی وجہ نامناسب اور ناقص خوراک بنتی ہے۔ ان تاجروں اور ان کے ڈسٹری بیوٹرز کو کوئی الزام نہیں دیتا۔سالانہ اربوں روپیہ یہ ناقص پاپڑ گولی ٹافی بیچ کے اکٹھا کرنے کیا مجرم نہیں جو اپنی ہی قوم کے مستقبل کو ان کھٹی میٹھی ٹیکسٹائل کلر ملی چیزوں سے بیماریوں کے حوالے کرتے ہیں ان کے خلاف ایکشن کب ہوگا؟ہوگا بھی یا نہیں ہوگا؟
والدین کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ بچوں کو صرف دیکھا دیکھی دیا جانے والا جیب خرچ بند کریں یا اگر ان کو کوئی پانچ سات دس روپے روز دینے ہیں تو کوشس کرکے انکو اس چیز کا عادی بھی بنایا جاۓ کہ اچھی اور معیاری چیز ہی کھائیں۔ہمارا غیر ذمہ دار رویہ اور پیسہ اکٹھا کرنے کی ہوس ہمارے ہی بچوں کیلئے ایک خوفناک قاتل بنا ہوا ہے مگر ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ ہیں۔
صحت مند نسل کیلئے صحت مند خوراک ضروری ہے پنجاب فوڈ اتھارٹی سے التماس ہے کہ جناب آپ مہنگائی تو کم نہیں کرسکتے کہ وطن عزیز میں ناجائز منافع خور منہ زور بھی ہیں اور بے لگام بھی مگر آپ اس زہر کو بننے اور بکنے سے تو روک سکتے ہیں۔بچے غریب کے بھی اتنے ہی معصوم ہوتے ہیں جتنے کسی صنعتکار یا افسر کے جتنے کسی وزیر یا مشیر کے۔ہمارے بچوں کو بچانے میں ہماری مدد کریں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں