گھٹیا افسانہ نمبر 17۔۔۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

“یہ بھی بس ایک خیال ہے کہ خوراک لباس رہائش ریاست کے ذمہ ہوتی تو ہم مَن چاہی عیاشی کرتے جس کے بعد اپنے ہی کیے عمل کی وضاحتیں نہ دینی پڑتیں”. فرخندہ کو اپنا سوشل ڈیموکریٹک خیال ابھی یاد آنا تھا.
“اِس کے علاوہ دوسرا کیا آپشن ہے تمہارے پاس؟ ٹیکس دے رہے ہو. جگہ جگہ پہ. لیکن بچوں کی تعلیم پہ بھی خرچ کر رہے ہو. بات بات پہ ٹیکس دیتے ہو مگر علاج کے پیسے بھی خود لگاتے ہو. کھانستے ہو تو ٹیکس دیتے ہو مگر سیکورٹی کے لیے کیمرے اور آیت الکرسیوں کا انتظام بھی تو خود کر رہے ہو. انہی پیسوں سے تم مجھے ماہانہ تین مرتبہ ملنے آ سکتے ہو اور بھی انتہائی پرسکون اور آرام دہ طریقے سے” فرخندہ شروع ہو گئی ہے. پھر میسج کیا ہے دوسرا کہ “خیر چھوڑو یہ ہمارا موضوع نہیں ہے. دراصل انسان ایک دوسرے سے پَک جاتا ہے. آوازار ہو جاتا ہے. ایک دوسرے سے تھک جاتا ہے. تمہاری بھی تو بیوی ہے. تم کیوں میرے پاس آنے کا تردد کرتے ہو حالانکہ تمہاری بیوی کے ساتھ تمہارے پاس رہائش خوراک اور لباس کی سہولیات میسر ہیں. انسان نئے انسانوں سے ملنا چاہتا ہے. نئے تعلقات بنانا چاہتا ہے”
“تم نئے لوگوں سے ملتی ہو. میں نے کبھی اعتراض کیا. میں تو تمہیں کہتا ہوں کہ تم لوگوں سے ملو. اپنا سرکل وسیع کرو”
“تو پھر دکھی کیوں ہو؟”
“تم اِس بار کسی سے ملی نہیں ہو بلکہ سیکس کیا ہے”
“میں تمہیں دکھی کرکے دکھی ہو رہی ہوں”
“میں ایسا دکھی قطعی نہیں کہ تم ترس کھاؤ. تم میرے ساتھ ماضی میں گزارے لمحوں کا لحاظ کر رہی ہو”
“یار میں اپنی محبت کے انجام پر دکھی ہوں. تمھاری وجہ سے نہیں”
“تو ایسے کہو ناں”
” یہ تو کبھی بھی نہ سوچا تھا. لگتا تھا سب ایسے ہی رہے گا ہنستا مسکراتا. لڑتا جھگڑتا لیکن محبت اور طلب سے بھرپور…”. میں خود کو ریت میں دھنسا ہوا محسوس کر رہا ہوں. لگتا ہے جیسے میرا جسم مفلوج ہو رہا ہے. سامنے وال کلاک پہ سوئیاں آپس میں ٹکرا رہی ہیں. بارش رک چکی ہے. مجھے سونا چاہیے. کہیں دور سے آواز آتی محسوس ہو رہی ہے. شاید آذان کی آواز ہے. ارے اگلی صبح ہو گئی ہے. میں نے آنکھیں موند لی ہیں. موبائل چارجنگ پہ لگانا چاہیے. مگر جسم درد کی وجہ سے ہل بھی نہیں رہا. جسم سے شراب کی سرانڈ آ رہی ہے. میں نے کپڑے اتارنے شروع کر دئیے ہیں. معدہ جلتا ہوا محسوس ہو رہا ہے. بستر پہ پڑے پڑے سارے کپڑے اتار کر اٹھنے کی کوشش کی تو کامیاب ہو گیا. سامنے شیشہ ہے. اپنا جسم دیکھ کر ٹھٹک گیا ہوں. میرے جسم میں کسی چیز کی کمی محسوس ہو رہی ہے. مجھے یاد آیا چودھریوں سے میرا مکمل پنگا چَل رہا ہے. شاید وہ رات دیوار پھلانگ کر آئے اور میرا عضو تناسل کاٹ کر لے گئے. شاید ایسا ہی ہوا ہو گا. میں نے فٹافٹ بلب جلانا چاہا تو پاؤں اپنے ہی لمبے جوتوں سے جا ٹکرایا ہوں. میں اوندھے منہ فرش پہ گرا پڑا ہوں. آگے چوکی تھی جو سیدھا میرے ٹانگوں کے بیچ فِٹ ہو چکی ہے. اب مجھے لائٹ آن کرنے کی ضرورت نہیں رہی کیونکہ درد نے میری تسلی کروا دی ہے کہ چودھری رات مجھ پہ حملہ آور نہیں ہوئے. مجھے صبح اٹھ کر یاد نہیں کہ کیسے کب بستر پہ آیا اور نیند میں چلا گیا. دماغ پہ شدید بوجھ ہے. جسم درد سے ٹوٹ رہا ہے. میں فوراً موبائل کی طرف لپکا ہوں. اُس سے فرخندہ کے صرف ایک میسج کے سوا کچھ بھی نہیں ہے. وہ یونیورسٹی پہنچ چکی ہے بس یہی معلوم ہوا. میں نے صبح بخیر کا میسج کرکے اٹھنے کی تیاری کر لی ہے. باس کی کوئی کال نہیں ہے لہذا میں جلدی میں نہیں ہوں. ناشتہ کرکے تقریباً ایک بجے فیکٹری کے پلانٹ پہ پہنچا ہوں جہاں باس نے تین بجے میٹنگ پہ بلایا ہے. میں نے میسج کیا ہے کہ
“فرخندہ جیسی گرل فرینڈ ہاتھ سے نکل رہی ہو تو پتہ ہے لوگ کیا کر لیتے ہیں. خودکشی کر لیتے ہیں. رگیں کاٹ لیتے ہیں. میں نے کچھ بھی نہیں کیا”
“کیوں کر لیتے ہیں خودکشی” فرخندہ نے پوچھا ہے
“وہ بھی میری طرح بےبس ہوتے ہیں”. میرے لیے یہ میسج لکھنا چودھریوں سے بدلہ لیے بغیر صلح نامے پہ دستخط کرنے کے مترادف ہیں. موت پڑ رہی ہے یہ سات الفاظ لکھتے ہوئے. میں نے بندے پہ فائرنگ کر دی، میں نے اپنی مل بیچ دی، زمینیں بیچ دیں، کبھی دستخط کرتے ہوئے ہاتھ نہیں جھجھکے، مگر آپ فرخندہ کو یہ کہتے ہوئے کہ میں بےبس ہوں مجھے موت نے آ گھیرا ہے. میں نے اُس کو دنیا گھومانے کے خواب دیکھے تھے، مگر آج وہ کسی دوسرے مرد کے ساتھ رات گزار کر آئی ہے کیونکہ میرے پاس اُس کو ڈیٹ کرنے کے پیسے نہیں ہیں.
“یہ تو خیر تو چولیں مار رہے ہو”. فرخندہ کا دو گھنٹے بعد میسج آیا ہے. شاید کلاس ورک میں مصروف تھی. میں نے بھی پوچھنا غیر ضروری جانا ہے.
“ایسے ہی ہے فرخندہ ایسے ہی ہے. بےبسی کا ادراک قاتلانہ ہوتا ہے. میں بےقصور ہی تو ہوں. کاش تمہیں سہولیات دے سکتا لیکن اب تمہیں ہاتھ سے نکلتا ہوا دیکھ رہا ہوں”
“اب تم کیوں وضاحتیں دے رہے ہو”
“تاکہ کنفیوژن میں رہوں. تمہاری بےوفائی پہ کُڑھتا رہوں. نظمیں لکھتا رہوں. شراب پیتا رہوں”. میٹنگ شروع ہو رہی ہے. باس نے مجھے ہی آغاز میں مخاطب کیا ہے. مجھے بھول گیا کہ میری محبوبہ کسی دوسرے کے ساتھ سیکس کرتی رہی ہے. میں باس کو اپنا مجوزہ سیٹ اپ دکھانا شروع کر دیا ہے. سوال در سوال کے جواب در جواب جاری و ساری ہیں. آہستہ آہستہ تمام ڈائریکٹر بھی بحث میں شریک ہو رہے ہیں. خیر میٹنگ وقت سے تھوڑا دیر بعد ختم چکی ہے. باس نے مجھے اپنی کار میں بٹھا لیا ہے. تم اچھے خاصے سیانے، سمجھدار اور ہوشیار ہو. پھر کیوں مار کھا گئے. باس کا تبصرہ یقینی ہے. میں نے بتایا ہے کہ میرے پاس فنانس کی کمی تھی. خیر میں خاموشی سے باس کی نصیحتیں سن رہا ہوں. میں سمجھتا ہوں کہ یہ بھی میری جاب کا حصہ ہے. باس بتا رہا ہے کہ وہ کیسے کیسے تھوڑے سے سرمائے کے ساتھ ایسا اوپر آ رہا ہے. میں سن رہا ہوں. نصیر پالشی کی کال پہ کال آ رہی ہے. دسویں کال باس نے دیکھ کر کہا ہے کہ
“ملک کس کی کال آ رہی ہے”
“فرنیچر والے کی کال ہے”
“وہ کیوں اتنی مسلسل کالز کر رہا ہے”
“میں نے پیسے دینے ہیں تو وہ کالز کر رہا ہے”
“کتنے پیسے ہیں”
“سات ہزار”
“دو منہ پہ مارو. کیوں کر رہے ہو اگنور. دس دس کالز کا مقصد معلوم ہے؟”
“میرے پاس نہیں ہیں”
“تو کیوں بنوایا تھا فرنیچر جب پیسے نہیں تھے. پھر کہتے ہیں کہ فنانس کی کمی ہے اور مندی چَل رہی ہے. ہمیں بھی تو کوئی کال کرے”. میں خاموش بیٹھا ہوں. کل ہی تو مجھے کہہ رہا تھا کہ اُس کی بہن نے اُس پہ جائیداد ہڑپ کرنے کا کیس کر رکھا ہے. مجھے علم ہے کہ یہ میری جاب کا حصہ ہے. میں خاموشی سے لیکچر سن رہا ہوں اور آئندہ احتیاط کرنے کی یقین دہانی کروا رہا ہوں. اپنی کار میں آکر موبائل دیکھا تو فرخندہ کا میسج آیا ہوا ہے. جس میں میری نظموں لکھنے کی بات پہ قہقہہ لگایا گیا تھا. میں نے میسج کیا ہے کہ
” اور پتہ میں کیا سوچ رہا. میں ضد میں تجھ سے انتقام لوں گا. میں جب امیر ہو جاؤں گا. تو لڑکی کو ڈیٹ کر کے تجھے گندی ویڈیو بھیجوں گا”
“ہاں ضرور بھیجنا. واہ یہ چیز. ایسے ہی کرنا. نکلو اِس ٹرانس میں سے”. مجھے معلوم ہے وہ یہ میسج کیوں کر رہی ہے. جب وہ خود میری دیبا کے ساتھ ڈیٹ کے بارے جاننے کے بعد دکھ میں رہ چکی ہے تو وہ میرے دکھ کی وجہ سے پریشان ہو کر مجھ پہ ترس کھا رہی ہے. ایسا ہونا تو نہیں چاہیے تھا. میں مرد ہوں. میرا کام ترس کروانا نہیں ہے. میرے ساتھ بہت ہو رہی ہے. میں فیکٹری سے انعام کے پاس پہنچ چکا ہوں. شراب والا بلیکیا آیا بیٹھا ہے. گذشتہ اور موجودہ بل نو ہزار بن رہا ہے. میں نے پینتالیس سو دیا تو وہ منہ بنا کر چلا گیا ہے. فرخندہ کو میسج لکھا ہے کہ
“شراب کی ایک بوتل دبوچ رکھی ہے
تجھے بھلانے کی ترکیب سوچ رکھی ہے”
آگے فرخندہ نے فوراً رپلائی کیا ہے کہ “کیا ضرورت ہے بھلانے کی؟”. میں فوری رپلائی دیکھ کر حیران رہ گیا. وہ آن لائن ہے. پتہ نہیں کتنی دیر سے ہے. مجھے تو خاصی دیر ہو گئی اُس نے کوئی میسج نہیں کیا ہے. بھئی اب وہ کسی دوسرے کے ساتھ گپ شپ میں لگی ہو گی. تیرا سکوپ دن بہ دن کم ہو رہا ہے. وہ ایک بار بتا بھی چکی ہے کہ اب میں مزید دلچسپ نہیں رہا. مجھے یاد آیا دادا جی کہا کرتے تھے کہ “ملک زادوں پہ جب وقت آتا ہے تو وہ اپنی عورتوں کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہونے دیتے اور سختیاں بُھوگ جاتے ہیں”. مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ مجھے فرخندہ کو اپنی مالی ابتری بارے نہیں بتانا چاہیے تھا.
“حسب حال دکھی شعر پڑھ کر کچھ تو مڈل کلاس پُنا کرنے دو. تم نے بےوفائی کی ہے آخر”
“ہاہاہا ہاں یہ تو بنتا ہے”. مجھے شدید غصہ آ رہا ہے.
“کتیا. کتے کی بچے. گھٹیا عورت کچھ شرم کر. اپنے کام دیکھو. بچے کے سیکس کرنے کے ناتجربہ کارانہ جنسیت پہ مذاق کر رہی ہو آگے سے”
“ہاں تو اور کیا. بڑی مزے کی سٹوری ہے، فون پہ سناؤ گی”
“میں بہت اداس ہوں فرخندہ”
“میں لیب اسسٹنٹ ہوں. ایڈہاک بیس پہ ہو‌ں. کل کلاں مستقل نہ ہوئی تو کیا ہو گا. شام کو ملٹی نیشنل فارما میں کوالٹی کنٹرول کی جاب کر رہی ہوں. تمہارا لیا ہوا قرض اتار رہی ہوں. میں اتنا قربان کر رہی ہوں اِس محبت پہ. ہاں جب تمہارے پاس تھے تم بھی خرچ کرتے تھے. کبھی میرے چار آنے نہیں لگے تھے. لیکن اب میری کشتی بھی ڈوبنے لگی ہے. میں بھی اس ناکام عشق پہ اداس ہوں”. میں نے خاموشی اختیار کر لی ہے. تین گلاس معدے میں انڈیل چکا ہوں. ابھی کل پی گئی تین بوتلوں کا خمار باقی ہے. رات کے کھانے کے بعد صوفے پہ لیٹے لیٹے فرخندہ کو میسج کیا کہ
” میں تمہیں چاہتا ہوں. ایک بےغیرت عاشق کی طرح”
” اس میں بے غیرتی والی کیا بات ہے. میں بھی تمھیں چاہتی ہوں. کیا میں بے غیرت ہوں؟”
” معروف معنوں میں بےحیا بےشرم گرم گھٹیا عیاش عورت”
“معروف معنوں میں گرم عورت صرف مردوں کے بستر گرم کرنے کے ہی قابل ہوتی ہے. بے غیرتی اور غیرت والی باتوں میں وقت ضائع کیے بغیر. مجھے مرد پسند ہیں کہ وہ گرم عورت سے پیار کرتے ہیں. اخلاقیات میں پڑے بغیر. یہ جو اخلاقیات ہیں ناں ملک صاحب، یہ اِس دور کی عورتوں کی ایجاد ہیں جنہوں نے اپنی کمزوریوں کے نتائج سے بچنے کے لیے مردوں کے ذہن میں یہ ڈالا کہ ایک عورت بس ایک مرد کی ہی ملکیت ہوتی ہے. وہ عورت اُس مرد کی ذمہ داری ہوتی ہے. وہ مرد اس عورت کی گرمی کا سیکورٹی گارڈ ہوتا ہے. بھائی کی شکل میں. باپ کی شکل میں. اور شوہر کی شکل میں”
“ہوں تو میں بھی رومی کے قبیلے کا جنہیں صحیح اور غلط کی باتیں سمجھ نہیں آتیں”
“میری جان سیکس ہی وہ واحدیت ہے جہاں طبیعیات اور سماجیات کے قوانین غیر مؤثر ہو جاتے ہیں”
“مجھے تم سے محبت ہے”
“میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں”
“ہم کسی کے سامنے ایسے ننگے کیسے ہوں گے، شاید کبھی نہیں”
“شاید. معلوم نہیں. زندگی کے بارے میں پشین گوئی کرنا ناممکن ہے”
“مشکل ہے مگر ناممکن نہیں”
“لیکن مجھے علم تھا کہ تم آج کل کسی نے کسی کے ساتھ سیکس کرو گی”
“تم مجھے جانتے ہو”
“لیکن میں پھر بھی دکھی ہوں، درد ہے”
” شاید مجھے تم کو بتانا نہیں چاہیے تھا لیکن مجھے تم سے چھپانا بھی منظور نہیں تھا کہ تمھیں دھوکہ دینا مجھے گوارا نہیں. میں یہ تو نہیں کہوں گی کہ اس سے ملنا کوئی معنی نہیں رکھتا لیکن وہ ایک لہر ہے. میں نے خود پر زندگی کا ایک دروازہ کھولا ہے. اسے چانس دیا ہے. ضروری نہیں کہ وہ مجھے سنبھال لے. مجھے سنبھالنا آسان نہیں. وہ جنسی طور پر میرے موافق نہیں.. یہ وقتی کشش ہے. وہ ایک لہر ہے اور تم ایک دریا ہو”. فرخندہ کا میسج میرے رگ و پے میں اتر گیا ہے. میں پھر سے دوراہے پہ کھڑا ہوں. وہ مجھے دبوچنے کا کہہ رہی ہے لیکن خود چل کر میرے سینے سے لگنے کو بھی تیار نہیں ہے. چودھریوں نے اُس کو سکھایا ہو گا. وہ یقیناً مجھے اب اِس طرح شکست زدہ کرنا چاہتے ہیں. چودھری لوگوں کو بڑھانے کے بہت ماہر ہیں. فرخندہ کو بھی سمجھنا چاہیے. میرے پیر بندھے ہوئے نہیں تھے تو اُس پہ کسی کا سایا تک پڑنے دیتا تھا. میرے پیر بندھ گئے ہیں اُسے بھی کم از کم اپنا سایا میری طرف دو قدم بڑھا کر عطا کرنے میں کیا مضائقہ ہے. میں برباد ہو گیا ہوں لیکن ملک تو ہوں ناں. میری بھی کوئی نفسیات ہیں. میری کچھ نہ کچھ جڑیں ابھی تک جاگیرداری میں باقی ہوں گی. اُس کو تباہ ہوتے ایک جاگیردار کی میت کو یوں چھوڑ کر نہیں جانا چاہیے. لینن چونکہ وہ بڑے شہر میں ہے. وہاں ایسی نفسیات کا پنپنا ناممکن ہے. وہاں قربانی نہیں دی جاتی. وہاں گنتی کی جاتی ہے. لیکن وہ قربانی کیوں نہیں دیتی. وہ قربانیاں دیتی تو ہے. اُس کے پاس بھی تو کچھ نہیں

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply