ٹریگر ہونے کے لیے غیرت شرط ہے۔۔۔۔۔مبشر اکرام

انسان ہوں یا قومیں اگر آپ انکا مطالعہ کریں تو جہاں جہاں انہوں نے سنجیدگی کے ساتھ اپنی سمت کا تعین کیا ان مقامات پر آپکو ٹریگر Trigger ملیں گے۔ مثال کے طور پر کوئی طالبعلم فیل ہو گیا۔ اسکو گھر سے ڈانٹ پڑی یا خود اسکو شرمندگی ہوئی تو اس دن سے اس نے محنت شروع کردی۔ کسی لڑکے کو غربت کی وجہ سے رشتے سے انکار ہوا تو اس نے محنت شروع کی اور اس نے پیسہ کما لیا۔ کسی شخص کو ہارٹ اٹیک ہوا تو اس نے اپنا خیال رکھنا شروع کیا اور اس نے فٹنس کی مثال قائم کردی۔ کسی لڑکی کو کسی نے بدصورتی کا طعنہ دیا تو اس نے جذباتی ہوکر کسی اور طرح خود کو منوا کر دکھایا۔ ان سب مثالوں میں ایک چیز آپکو مشترک ملے گی اس غیرت کہتے ہیں۔ انسان یا قوم جب غیرت میں آتی ہے تو وہ ضرور اس دن اپنی سمت کا دوبارہ سے تعین کرتے ہیں۔

پاکستان میں پولیس اور ایجنسیوں کی، کی  گئی یہ پہلی زیادتی نہیں ہے۔ زمین پر قبضہ کرنے کے لیے جعلی پولیس مقابلہ کروانا، کسی کیس کی قانونی کاروائی رکوانے کے لیے مدعی کو اٹھوا کر مروا دینا۔ میڈل کے لیے یا افسران کی شاباشی کے لیے روڈ سے کسی کو پکڑ کر مروا دینا اور پھر دہشت گرد  قرار  دینا ہمارے یہاں معمول کی بات ہے۔ جب سے پاکستان بنا ہے یہ کچھ یہاں ہوتا چلا آرہا ہے۔ لیکن بس ویڈیو کبھی سامنے نہیں آئی کیونکہ زیادہ تر پولیس مقابلے ویرانوں میں ہوتے ہیں اور انکا کوئی عینی شاید یا تو ہوتا نہیں یا پھر وہ انجام جانتا ہوتا ہے۔ قدرت نے ان بچوں کی تصاویر کو وائرل کراکر ایک ٹریگر کا انتظام کیا ہے۔ پاکستانی جو یہاں رہنا چاہتے ہیں یا اپنے بچوں کو یہاں رکھنا چاہتے ہیں ان میں اگر غیرت پائی جاتی ہو تو یہ واقعی  درست سمت کا تعین کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ نقیب اور خلیل کی فیملی جیسے کیس سوشل میڈیا پر لڑے جارہے ہیں۔ اگر صرف مین سٹریم میڈیا ہوتا تو یقین کیجئے کہ ایک فون کال پر قوم کے وسیع تر مفاد میں کوریج روک دی جاتی اور فائل کسی اور فائل کے نیچے دب جاتی۔ سانحہ ماڈل ٹائون، نقیب اللہ کیس، محمد عامر کا کیس( تفصیل کے لیے سکرول کریں) ان سب واقعات میں پولیس کا کردار انتہائی گھنائونا رہا۔ یہ مجھے اور آپکو سوچنا ہے کہ ہم لوگوں نے بنا کسی وجہ کے یونہی کسی راشی اورکرپٹ وردی والے کی گولی کا شکار ہونا ہے یا پھر اس سسٹم کو درست کرنے کے لیے آواز اٹھانی ہے۔

مجھے یہ یقین ہے کہ عوام کی عدالت سے بڑی عدالت اس روئے زمین پر کوئی نہیں ہے۔ عوام کے ہزار لوگ بھی ڈٹ کر اس اشو پر کھڑے ہو جائیں، سوشل میڈیا پر لکھیں اور کمپین چلائیں تو ممکن ہی نہیں کہ حکومت آج سے ہی پولیس ریفارمز کا آغاز نہ کرے۔ لیکن کوئی بولے تو سہی۔ ہم لوگ دو دن غمزدہ رہتے ہیں اسکے بعد بھر دنیا کی بھول بھلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ اگر ہم لوگوں میں غیرت ہو، ہمارا ٹریگر سسٹم کام کرتا ہو، اپنا ذلیل ہونا ہمیں محسوس ہوتا ہو، ماڈل ٹائون، نقیب ، اور ساہیوال کی تصاویر میں ہمیں اپنے بچے نظر آتے ہوں، ظلم سہ کر اپنے کمزور اور بے بس ہونے پر ہماری آنکھیں شرم سے جھکتی ہوں، ان بچوں کی تصاویر دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آتے ہوں، دل میں ایک چنے کے برابر بھی انسانیت کا درد باقی ہو، غیرت کے نام پر تھوڑا سا بھی غصہ آتا ہو تو اس ٹریگر کو اب ٹریگر ہی رہنے دیجئے گا۔ اسکو وقت کے ساتھ ٹھنڈا مت ہونے دیجئے گا۔ قدرت نے آپ کی سوشل میڈیا لائف کے لیے ایک سمت کا تعین کیا ہے اس سمت کو کھونے مت دیجئے گا۔ جیسا کیسا بھی لکھنا آتا ہے لکھتے رہیے۔ نہیں لکھنا آتا تو کسی کا لکھا ہوا شئر کیجئے۔ کوئی جاننے والا پولیس، حکومت یا عدلیہ یا کسی ایجنسی میں ہے تو اسکو شرم دلاتے رہیے۔ قومیں تو ایک رات میں انقلاب لے آتی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پورا پاکستان مل کر ایک ادارہ نہ درست کرسکے۔ آپ کے پاس روڈ پاور ہے، آپ کے پاس ووٹ کی طاقت ہے، آپ کے پاس شعور ہے۔ آپ اشرف المخلوقات ہیں جو نہ ظلم کرتا ہے نہ کسی کو کرنے دیتا ہے۔
ہاں یہ سب کرنے کے لیے غیرت انسانی کی ضرورت ہے، جن میں موجود ہو اچھا ہے، جن میں نہیں انکی کبھی نہ کبھی ضرور جاگے گی لیکن تب تک کہیں دیر نہ ہو چکی ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

روشنی کے لیے درکار ہیں گلیوں کو دیے
اور دیے وہ جنہیں خوں سے بھی نکھارا جائے
خوف ہے خامشی اور خوف کا رد آوازیں
اب جو چپ ہیں انہیں قاتل ہی پکارا جائے!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply