• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • سائنس
  • /
  • اشتعال انگیز تقاریر: علامہ خادم حسین رضوی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیئے گئے

اشتعال انگیز تقاریر: علامہ خادم حسین رضوی جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیئے گئے

انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے قومی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر اور احتجاجی مظاہروں میں سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کیس میں تحریک لبیک پاکستان کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری سمیت 4 ملزمان کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔لاہور میں انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے ایڈمن جج شیخ سجاد نے قومی اداروں کے خلاف اشتعال انگیز تقاریر اور احتجاجی مظاہروں میں سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ کیس پر سماعت کی۔پولیس کی جانب سے علامہ خادم حسین رضوی، پیرافضل قادری، علامہ اعجاز اشرفی اور علامہ فاروق الحسن کو سینٹرل جیل کوٹ لکھپت اور سینٹرل جیل گوجرانوالہ سے لاکر انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزموں کو تھانہ سول لائن لاہور میں پولیس کی مدعیت میں درج مقدمے میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ملزمان پر مسیحی خاتون آسیہ بی بی کی سپریم کورٹ سے بریت کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، عوام الناس کو اکسانے اور قومی اداروں کے خلاف تقاریر کرنے کے الزامات عائد کئے گئے تھے۔خادم حسین رضوی کو وہیل چیئر پر عدالت میں پیش کیا گیا۔ علامہ خادم حسین رضوی کی پیشی کے وقت انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے اطراف میں سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے تھے اور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے اضافی نفری تعینات کی گئی تھی۔ایس پی سول لائنز خود بھی موقع پر موجود رہے اور تمام سکیورٹی انتظامات کی خود نگرانی کرتے رہے۔ ملزمان کی جانب سے وکیل مرتضی علی پیر زادہ، طاہر منہاس اور ناصر منہاس عدالت میں پیش ہوئے۔ملزموں کی پیشی کے موقع پر تحریک لبیک کے کارکنوں کی بڑی تعداد انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے باہر موجود تھی جنہوں نے اپنے رہنماوں کے حق میں نعرے بازی کی۔ عدالت نےخادم حسین رضوی، پیر افضل قادری، علامہ اعجاز اشرفی اور علامہ فاروق الحسن کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوا دیا۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply