محافظ بنے قاتل۔۔۔۔صالح عبداللہ جتوئی

جس ملک میں عدل و انصاف کی بجاۓ ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں تو وہاں کے محافظ بھی لٹیرے بن جاتے ہیں.
پاکستان میں کافی عرصہ سے پولیس گردی کا راج ہے اور جھوٹے انکاؤنٹر کر کے غریبوں کی نسلیں تباہ کر دی جاتی ہیں اور چوروں ڈاکوؤں اور ظالموں کو خوش کرنے کے لیے معصوموں کو ابدی نیند سلا دیا جاتا ہے اس ملک میں کئی ماؤں کے لخت جگر بہنوں کے بھائی معصوم بچوں کے والدین پولیس کی دہشتگردی کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہے.
ساہیوال میں جو  اندوہناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں سی ٹی ڈی پولیس نے چار لوگوں کو سرعام شہید کر دیا جس میں 40 سالہ عورت اور 13 سالہ بچی بھی شامل ہے اور ان پہ دہشت گردی کا الزام لگایا ہے اس واقعہ میں دو معصوم بچیاں اور ایک لڑکا معجزانہ طور بچ گئے ہیں اور انہوں نے پولیس کی غنڈہ گردی کو بے نقاب کیا ہے کہ ان کے والد منتیں کرتے رہے لیکن انہوں نے پھر بھی گولیوں سے چھلنی کر ڈالا.
بوریوالہ شادی پہ جانے والی اس فیملی سے ایک پستول تک برآمد نہیں ہوا تو یہ کیسے دہشتگرد ہیں جنہوں نے بغیر اسلحہ کے فائرنگ کر دی؟
کیا یہ ہیں ہمارے محافظ؟
آج جن معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین کو بے دردی سے شہید کیا گیا ان پہ کیا بیت رہی ہو گی جن کو پل بھر میں یتیم کر دیا گیا ان سے ان کی دنیا چھین لی گئی اب کیا گمان کرتے ہو کہ وہ آپ سے محبت کریں گے کیا وہ آپ پہ اعتبار کریں گے؟؟ ہرگز نہیں کیونکہ محافظ ایسے نہیں ہوتے کہ جو اپنوں کو ہی نقصان پہنچائیں.
افسوس کی بات ہے بچے بھی کہہ رہے ہوں گے اس دہشتگردی کے پیچھے وردی ہے آج ان ظالموں نے اس وردی پہ دھبہ لگا دیا ہے کیونکہ یہ حفاظت کے لئے نہیں بلکہ معصوم شہریوں کا فیک انکاؤنٹر کرنے پہ مامور ہو گئے ہیں. اگر جعلی مقابلوں کے سرغنہ راؤ انوار جس نے نقیب اللہ محسود کو شہید کیا اور مزید 400 سے زائد جعلی مقابلے کیے کو کیفر کردار تک نہ پہنچایا تو اس طرح کے واقعات ہوتے رہیں گے اور معصوم بچے یتیم ہوتے رہیں گے اور غریبوں کے گھر اجڑتے رہیں گے.

ماڈل ٹاؤن والا واقعہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے اس میں بھی ملوث حکومتی ارکان اور پولیس افسران کو قرار واقعی سزا نہیں دی گئی اور اس پاداش میں کئی واقعات رونما ہوۓ لیکن کسی نے بھی اس پہ کوئی ایکشن نہیں لیا. اگر پولیس گردی ایسے ہی چلتی رہی اور ظالم دندناتے رہے تو اس ملک میں کبھی بھی امن نہیں آۓ گا کیونکہ جن کے سامنے ان کے ہی محافظ جب بلاوجہ ان کے باپ کو قتل کرتے ہیں تو وہ بڑے ہو کر پولیس آفیسر نہیں بلکہ دہشتگرد بن جاتے ہیں کیونکہ انصاف تو ہوتا نہیں تو انہوں نے اپنے باپ کا بدلہ خود لینا ہوتا ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ہم حکومت وقت سے ملتمس ہیں کہ ان ظالموں کو کیفر کردار تک پہنچائیں اور ذمہ داروں کو سرعام پھانسی کے پھندوں پہ لٹکائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی سفاک پولیس آفیسر ایسی سفاکیت کرنے کی جرات بھی نہ کر سکے بلکہ ایک محافظ بن کے اس ملک کا نام روشن کرے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply