سفر عشق – علی زیدی – قسط 3

صبحِ انور (صادق پھر ہم سے چھوٹ گیا) 11 بجے ہماری آنکھ کھلی۔ ویسے تو 11 بجے کو صبح بھی نہیں کہا جا سکتا، صادق یا انور تو دور کی بات۔ مگر 9 سال کراچی میں رہ کر یہی ہماری شناخت کا حصہ بن چکا تھا۔

ہم نیند کے شوقین زیادہ نہیں لیکن

کچھ خواب نہ دیکھیں تو گزارہ نہیں ہوتا

گہری نیند کے بعد اگرچہ ہماری تھکاوٹ کافی حد تک دور ہو گئی تھی مگر سر میں درد اب بھی باقی تھا۔ ہاتھ منہ دھو کر ہم بالکل تر و تازہ ہو گئے۔ یخ پانی کے چھینٹے منہ پر لگا نے سے ایسا لگا جیسے دل و دماغ کے اسکرین پر ریفریش کا بٹن(ایف 5) دبا دیا ہو۔ کپڑے بدل کر ہم کمرے سے نکلےاور نیچے  چلےگئے۔ وہاں ایک کمرے میں، جس کا دروازہ کھلا ہوا تھا،  بابا جی گرم قالینچہ پربیٹھے ریڈیو سن رہے تھے۔ ہم نے سلام کیا اور باہر کی طرف جا نے لگے۔ بابا جی نے آواز دیتے ہوے پوچھا ” بچہ، ناشتہ کے لیے جا رہے ہو؟” ہم نے ہاں میں سر ہلایا تو  وہ کہنےلگے، “یہ سامنے والا جو بڑا ریسٹورینٹ ہے، اس میں نہیں جاؤ، مہنگا ہے، اس سے نیچے ایک چھوٹا چائے کا ہوٹل ہے، ادھر کھاؤ”۔ ہم نے اظہار تشکر کیا اور باہر آ گئے۔

باہر آتے ہی ہم ششدر رہ گئے۔ پچھلی رات، گہری تاریکی کی وجہ سے تو ہم نہیں دیکھ پائے تھے مگر اب کیا دیکھتے ہیں کہ چاروں اطراف بڑے بڑے پہاڑ تھے۔ اور تمام کے تمام بے حد سر سبز۔ پہارڑوں پر دراز قد درخت تن کر کھڑے تھے جو اس سے پہلے ہم نے صرف فلموں میں دیکھےتھے۔ ہم کبھی گلی کے کونے میں رک کر سامنے والے پہاڑ کو تکتے تو کبھی مرکزی سڑک کے بغل میں رک کر دائیں طرف نظر آنے والے برفانی پہاڑوں کو گھور کر لطف اندوز ہوتے ۔ مگر آنکھوں کی بھوک کو کون مٹا سکتا ہے؟

وادی کاغان میں صرف ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد ہم نے یہ جان لیا کہ یہاں کے لوگوں میں اور کوئٹہ وال میں تین باتیں مشترک ہیں۔

ایک تو یہ کہ یہاں کے لوگ مقدار کے حوالے سےکھانا زیادہ کھاتے ہیں، یعنی ایک روٹی کھانا ان کے لیے معمول سی بات ہے ۔

دوسری بات یہ کی یہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ بہت اونچا بولتے ہیں۔ ان کی گفتگو سن کر کسی اجنبی کو ایسا محسوس ہوگاجیسے یہ لوگ لڑائی جھگڑا کر رہے ہیں۔

اور تیسری بات یہ کہ یہاں کے لوگ بھی “معدنی پانی” کی قدر نہیں کرتے۔ صاف، شفاف اور زلال پانی مسلسل سڑک پر بہہ رہا ہوتا ہے۔ کسی کو کوئی فکر نہیں ہوتی۔ کون ان پیارے لوگوں کو سمجھائے کہ کچھ علاقوں میں، مثلا کراچی میں، نہانے کے لیے بھی پانی خریدا جاتا ہے۔ وہ بھی اتنا غلیظ کہ غسل کرتے وقت اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ ہم  اپنا بدن صاف کر رہے ہیں یا گندہ؟

پوچھنے پر ہمیں ایک اور بات معلوم ہوئی  کہ یہاں بجلی بہت مہنگی ہےاس لیے لوگ جنریٹر ہی استمال کرتے ہیں۔ وہ بھی صرف رات کو چند گھنٹوں کے لیے، ہم وجوہات کی تہہ تک نہیں پہنچ پائے۔

ہمارا وادی کاغان میں، پہلا دن ارد گرد چکر لگانے میں ہی گزر گیا۔ کمرےکی چھت پر بیٹھ کر سارا دن، ہم دلکش نظاروں سے فیض اٹھاتے رہے۔ حد نگاہ تک سر بلند سبز پوش پہاڑ، شفاف آبشاریں، دلفریب وادیاں،خنک ہوائیں، اور ابر آلود آسمان ۔

،فطرت، خدا کی طرح خوشنما اور دلکش ہے۔ داغ دہلوی کا یہ نعرہ ہم سینے پہ چسپا کرنا چاہتے ہیں کہ

خدا کریم ہے یوں ، تو مگر ہے اتنا رشک

کہ میرے عشق سے پہلے تجھے جمال دیا

رات کو بابا جی اور ان کا جوان ملازم ہمارے کمرے میں آئے۔ ہم نے بابا جی سے کہا کہ ہم اس جانب پہلی بار چکر لگانے آئے ہیں اس لیے کچھ رہنمائی کیجئے کہ ہم اگلے دن کہاں کا رخ کریں؟

CIMG4803

(وسط میں بابا جی اور بائیں جانب ان کا بیٹا)

بابا جی نے کہا “کل صبح جلدی اٹھو اور جھیل سیف الملوک جاؤ۔ جاندار جگہ ہے، اور پرسوں بابو سر ٹاپ”۔ ہم فوراَ ڈائری نکال کر لکھنے لگے۔

بات آگے بڑھی اور ہمیں پتا چلا کہ کم گو نوجوان لڑکا، یہاں کا ملازم نہیں بلکہ بابا جی کا بیٹا ہے۔ کچھ گفتگو کے بعد بابا جی چلے گئےتو ہم نے نوجوان کا انٹرویو لینا شروع کر دیا۔ عموماَ ہوتا یہ ہے کہ لوگ ہی ہم سے بات شروع کرتے ہیں کیونکہ ہم تھوڑے سے شرمیلےاور خاموش طبیعت کے مالک ہیں (اپنی نظر میں)۔ مگر اس لڑکے کو دیکھ کر ہم میں ہمت بڑھ گئی کیونکہ وہ ہم سے بھی گیا گزرا تھا۔

غیر کو یا رب وہ کیونکر منع گستاخی کرے

گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے

ہم مسلسل سوال پہ سوال کیے جا رہے تھے اور وہ بیچارہ جواب دےرہا تھا۔ پوچھنے پر پتا چلا کہ وہ تعطیلات گزارنے ابو کے پاس آیا ہے۔ پڑھائی کرتا ہے اور چھٹیوں میں یہاں آکر باپ کا ہاتھ بٹاتا ہے۔ یہ سب جان کر ہم ایک دم اپنی اصلیت اتر آئے اورہمیشہ کی طرح انہیں بھی نصیحت کرنے لگ گئے کہ وہ اپنی پڑھائی پر دھیان دے۔  ایسی نصحیت کرنے سے سامنے والے پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ وہ شخص یہ تصور کرتا ہے کہ جناب عالی، یعنی ہم، بہت پڑھے لکھے شخص ہوں گے ۔ تبھی تو ایسا مشورہ دے رہے ہیں۔  پھر پوچھنے پر پتا چلا کہ بابا جی کا مستقل گھر چلاس میں ہے۔ وادی کاغان میں تو رزق حلال کے لیے آتے ہیں۔ نوجوان نے بتایا کہ بابا جی نے سالانہ 4 لاکھ  میں یہ جگہ کرایہ پر لے رکھی ہے جسے وہ سیاحوں کو کرایہ پر دے کر رزق کماتے ہیں۔ کچھ دیر نوجوان سے باتیں کیں۔پھر وہ بھی چلا گیا اور ہم بھی مشتاقِ دیدارِ صبحِ صادق جلدی سوگئے۔

صبح ۔ اس بار خدائے بزرگ کے کرم سے صبح کوہم تھوڑا جلدی اٹھے۔ جی ہاں۔ جلدی سے مراد 10 بجے۔صادق اس بار بھی ہاتھ سے چھوٹا۔ بھئی اب ہماری عادت یہی ہے۔ فارسی میں محاورہ ہے کہ

“خوئی کہ بہ شیر در آید، بہ مرگ بر آید”

(جو عادت شیرخواری سے ہو، وہ موت آنے پر ہی ختم ہوگی)

ناشتہ کے بعد ہم نے اپنے بستے میں صرف کیمپنگ کا سامان رکھا اور روانہ ہوئے۔ بابا جی نے کہا تھا اوپر کی جانب 5 منٹ پیدل چل کر سیدھے ہاتھ پرگاڑیاں ملیں گی جو جھیل کی طرف جاتی ہیں۔ اور گاڑیوں کی نشانی یہی ہے کہ وہ جیپیں ہوں گی،عام گاڑیاں نہیں۔ ساتھ ہی بابا جی نے یہ بھی تاکید کی کہ کرایہ 200 سے زیادہ نہیں دینا۔  5 منٹ پیدل چل کر ہم وہاں پہنچے تو ایک لال رنگ کی جیپ ہمیں نظر آئی۔ ہم نزدیک گئےتو اندر تین جوان حضرات کو بیٹھے پایا۔ سلام کے بعد ہم نے ڈرائیورکی سیٹ پر بیٹھے شخص سے جھیل سیف الملوک تک کا کرایہ  پوچھا تو وہ کہنے لگا، “بھائی جان، ہم تم کو پہلے سے بتاوے، آجکل “گراک” کم آتا ہے، اس لیے اگر ہم صرف تم کو لیجاوے گا تو ہمارے لیے مہنگا پڑے گا”

ہم نے تسلی دی کہ ہم صبر کرنے کو تیار ہیں تا کہ دوسرے مسافر بھی جمع ہوں، شاید کوئی مل جائے۔ احمد فراز نے کہا تھا کہ

جو بھی بچھڑے وہ کب ملے ہیں فراز

پھر بھی تو انتظار کر ۔ ۔ ۔  شاید ۔ ۔ ۔

ہم تقریبا آدھے گھنٹے تک انتظار کرتے رہے مگر کسی کا نام و نشان بھی نظرنہیں آیا۔ اسی دوران ہم نے دیکھا کہ ڈرائیور کے بغل میں بیٹھا ایک نوجوان بار بار اس سے کچھ کہہ رہا تھا مگر ڈرائیور ہاتھ کو جھٹکے دے کر منع کر رہا تھا۔ ان کی زبان تو ہمیں سمجھ نہیں آئی مگر اتنا ضرور پتا چلا کہ گفتگو میں برخوردار،  اس ڈرائیور کو “ملنگی” کے خطاب سے نواز رہے تھے۔ملنگی صاحب نے بلآخر ہماری طرف دیکھ کر کہا، “بھائی جان، صبر کا کوئی فائدہ نہیں۔ ایسا کرو، ہمارا دوست بھی اوپر جانا چاہتا ہے، تھوڑا پیسہ تم زیادہ دو۔ ہم جاوے گا۔”

ہم نے کہا کتنا؟ ملنگی صاحب نے انگلی شہادت بلند کر کے کہا ہزار۔

ہم نے اعتراض کیا کہ یہ بہت زیادہ ہے۔ پھر ہم نے کہا کوئی بات نہیں ہم انتظار کو ترجیح دینگے ۔ ہم نے گفتگو کو برقرار رکھنے کہ لیے یہ بھی بتایا کہ ہم اسٹوڈنٹ ہیں حالانکہ اس بات کا ہمیں بخوبی اندازہ تھا کہ ہماری شکل اور جسامت کسی بھی زاویہ سے اسٹوڈنٹ سے مشابہت نہیں رکھتی۔

ملنگی نے پھر وہی بات دہراتے ہوے کہا”ہم ادھر 5 سال سے کام کر رہا ہے، ہمیں پتا ہے یہ سیزن میں گراک نہیں ہے۔ لوگ نہیں آتے، چلو ایسا کرو تم 600 دے دو کم سے کم ہمارے پیٹرول کا پیسہ تو وصول ہووے”

تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ہم نے کہا ٹھیک ہے چلو۔ یہ سنتے ہی ملنگی نے جیپ کی ابتدائی چیخیں نکالیں، جیپ میں سے دھواں نکلنے لگا اور ہم روانہ ہو گئے۔

راستہ کافی خستہ اور بوسیدہ تھا۔ جیپ میں بیٹھے سارے لوگ ایسے جھول رہے تھے جیسے کسی بھجن گانے میں مگن ہوں۔ جیپ چلانے کے دوران جب ملنگی کا ہاتھ سٹیرنگ پر تھا تو ہم نے  دیکھا کہ ملنگی نے سیدھے ہاتھ پر S.A کھدوا رکھاتھا۔ ٹھیک ہے۔ ہم مانتے ہیں۔ ہم بھی اپنے زمانے میں ساوتھ افریکا (جنوبی افریقہ) کرکٹ ٹیم کے دلدادہ تھے مگر ایسی محبت کی گرماہٹ ہم  پہلی بار دیکھ رہے تھے۔

مگرپھر فوراَ ہمارا دھیان خطرناک راستے کی طرف ہونے لگا۔ ایک طرف پہاڑ تو دوسری جانب عمیق کھائی موت کے منہ کی مانند دھن کھولے ہمیں ڈرا رہی تھی۔ ہمیں جلد یہ اندازہ ہوگیا کہ ایسے خطرناک راستے پر جیپ ہی چل سکتی ہے، اور کوئی گاڑی نہیں۔ بس یہی خطرناک راستہ سبب بنا کہ ہم فورا  خدائے بزرگ و برتر کی یاد میں کچھ صوفیانہ لمحے گزاریں ۔ ورنہ ہم سوائے “پی آئی آے” کے جہاز میں، کہیں اور خدا کو مجبوراَ یاد نہیں کرتے۔ بل آخر ایک آدھ گھنٹے اونچائی کی طرف مسافت طے کرنے کے بعد ہم منزل مقصود پرپہنچ ہی گئے۔ جب ملنگی صاحب کو کرایہ دیا اور رخصت چاہی تو وہ کہنے لگا “اگر تم ایک گھنٹہ میں آوے گا تو ہم تم کو واپس پہنچاوے گا، ہم ادھری ہے” ۔ ہم نے شکریہ کے دو بول ادا کئے اور جھیل کی طرف قدم زن ہوئے۔

جھیل سیف الملوک۔

جیسا سنا تھا ویسا ہی پایا۔ حسین، خوبصورت اور دلکش ۔ جھیل کا پانی بے حد رنگین لگ رہا تھا۔ سبز اور آبی رنگ کے ملاپ سےجھیل میں جو دلکشی نظر آرہی تھی وہ آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی تھی۔ جھیل کے اطراف میں بڑے بڑے پہاڑ، جھیل کی حفاظت کے ساتھ ساتھ اس کی خوبصورتی میں اضافہ کا باعث بنے ہوئے تھے۔ جھیل کے ایک طرف کافی ساری دکانیں تھیں جو چائے، سموسہ اور دیگر اشیا خورد و نوش کا سامان فروخت کرتی تھیں۔ مگر وہاں ہمیں  دکانداروں کے علاوہ کوئی سیاح نظر نہیں آیا۔ بس کچھ خانوادے جھیل کے بغل میں گھوم رہے تھے۔ بہ ہر حال،  یہ منظر دیکھنے کے بعد ہمیں احساس ہوا کہ جھیل کافی سنسان ہےاور بہت کم لوگ جھیل کو دیکھنے کے لیے آئے ہیں۔ جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ واقعی ہم “آف سیزن” آئے ہیں۔

اس کے علاوہ یہاں آکر ہمیں یہ بھی معلوم ہوا  کہ جھیل اتنی بلندی پر واقع ہے کہ یہاں کسی موبایل نیٹورک کا سگنل نہیں پہنچتا۔ سوائے warid (وارد) کے۔ لہٰذا وہ حضرات جوہماری طرح مجبوراَ اپنے محبوب کے بغیر جھیل کی سیر کو آتے ہیں اور آتے ہی  اپنے محبوب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ” جانو ۔ ۔ ۔ جھیل کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہمیں آپ کی بہت یاد آرہی ہے” ، تو ان عاشقوں کو ہمارا مشورہ ہے کہ یہاں آتے وقت وارد  کی سم ضرور ساتھ لائیں۔ حالانکہ یہ طے ہے کہ تب بھی دوسری جانب سے  ہمیشہ  کی طرح “چل جھوٹے” کا کھٹا میٹھا جواب ملنے کی توقع ہے ۔

ہم نے کچھ دیر جھیل کی سیر کی جس کے بعد ایک دکاندار سے پوچھا کہ کیا آس پاس کوئی کیمپنگ کی جگہ ہے؟ دکاندار نے نیچے، جھیل کے بغل میں کھڑے،  پولیس افسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئےان سےرجوع کرنے کو کہا ۔ ہم پولیس بھائی کی طرف بڑھنے لگے ۔ ساتھ ہی ہم نے اپنے آپ کو ذہنی طور پر تیار بھی کرلیا۔ کیونکہ ہمیں بہ بخوبی اندازہ تھا کہ وطن عزیز میں، شاید ہی کوئی پولیس آفیسر سیدھے منہ بات کرنے پر آمادہ ہو۔ پولیس کی شان میں شرافت سے بات کرنا انکی عزت پر  داغ لگانے جیسا ہے۔ ہم پولیس بھائی کے پاس پہنچ گئے، سلام عرض کیا۔ مصافحہ کی غرض سے ہاتھ بڑھا یا اور کیمپنگ کے بارے میں پوچھا۔ پولیس بھائی ہاتھ ملا کرفوراَ پوچھنے لگا “کہاں کے رہنے والے ہو دوست؟” ہم نے کہا بلوچستان۔ پھر ہاتھ چھوڑے بغیر پوچھا”بلوچستان میں کہاں؟” ہم نے دھیمی آواز میں کہا کوئٹہ۔ پولیس بھائی نے ہاتھ چھوڑ کر  میری طرف دیکھا اور پوچھا “علمدار روڈ؟” ہم نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ بہت خوش ہوئے اور کہا “بہت مظلوم ہو آپ لوگ !”۔ ہم نے کچھ نہیں کہا۔ پھر وہ بڑی خوش اخلاقی سے کہنے لگا”میرے عزیز بھائی، آپ آف سیزن میں آئے ہو اس لئے شام کے 5 بجے تک جہاں کیمپنگ کرنا چاہتے ہو کر لو، مگر اس کے بعد ہم اجازت نہیں دے سکتے۔ کیونکہ صرف ایک شخص کو اتنی بڑی جگہ میں ہم رات بھر تحفظ نہیں دے سکتے۔ ایسا نہ ہو خدا نخواستہ کچھ ہو جائے۔ ہم اپنے مہمان کو بہت عزیز رکھتے ہیں” یہ سن کر ہم نے بڑی گرمجوشی سے پولیس بھائی کا شکریہ ادا کیا اور رخصت چاہی۔ پولیس کے بارے میں ہمارا ایمان بدل گیا۔ ہم بھی کیا رشوت خور ہیں۔ برادری کی تعریف کیا سنی، ہم بس پگھل گئے۔

وہ ناز سے زمین پر رکھتے نہ تھے قدم

تعریف کر کے اور بھی ہم نے اڑھا دیا

جھیل کے پاس سے گزر نے لگے تو ہم نے دیکھا کہ جھیل بہت شفاف اور عمیق لگ رہی تھی۔ ایک  نوجوان جوڑے کو کشتی میں سوار ہو کر جھیل کے اندر جا تے دیکھا۔ جھیل بہت ہی بزرگ اور وسیع تھی۔ اس کے اطراف چہل قدمی کرنے میں ہی ہمیں آدھا گھنٹہ لگ گیا۔ اس دوران ایک گھڑ سوار کئی بار ہمارے پاس آیا اور ہمیں بیٹھنے پر اکسانے لگا لیکن ہم نے منع کردیا۔

جھیل کے اطراف میں سارے سنگلاخ پہاڑ تھے۔ جھیل پار کرنے کے بعد ہم نے دیکھا کہ ہماری بائیں طرف جو خشک پہاڑ ہے، وہاں سے ایک باریک سی نہر بہہ رہی ہے۔ ہم نے نہر کے ساتھ ساتھ اوپر کا راستہ اختیار کیا اور پہاڑ چڑھنے لگے ۔ جب ہم کافی اوپر پہنچے توارادہ کر لیا کہ ہمیں اب یہی مقیم ہوجانا چاہیے۔ کندھوں پر بستہ، جو اب کافی بھاری لگ رہا تھا، ہم نے اتار دیا اور ٹینٹ نکال کرنصب کرنے لگے۔ عجیب موسم تھا۔ جب ہم ٹینٹ لگا رہے تھے تو دھوپ اتنی تھی کہ ہم غسل آفتابی لے رہے تھے۔ سورج کی تیز کرنوں نے ہمیں اپنا جیکٹ اتارنے پر مجبور کر دیا تھا۔ پندرہ منٹ کی کاوش کے بعد ہم نے ٹینٹ لگا لیا تو اچانک ہوا تیز ہو گئی اور بادل تیزی سے آسمان میں دوڑنے لگے۔ ابھی ہم اس تغیر کو دیکھ ہی رہے تھے کہ اچانک بارش کی بوندیں برسنے لگیں۔ اول تو ہلکے اور چھوٹے چھوٹے قطرے، اور پھر بوندوں کی تیزی میں اضافہ کے ساتھ، بوندیں وزنی ہوتی چلی گئیں۔ ہم جلدی سے ٹینٹ کے اندر  گھس گئے لیکن پھر یہ سوچ کر کہ کیا ہم بارش سے بھاگنے کے لیے اتنی دور آئے ہیں؟ ہم نے اپنی جیکٹ پہنی  اور دوبارہ باہر نکل آئے اور پتھر پر بیٹھ کر بارش میں بھیگنے کا مزہ لینے لگے۔

CIMG4750

لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں

شوخی بارش سے مہ فوارہ سیماب تھا

نجانے کیوں بارش ہمیشہ ہمیں غمگین اور افسردہ کردیتی ہے۔ ہمیں بارش پسند ہے مگر بارش دیکھ کر ہم دلگیر ہوجاتے ہیں۔ ہم دور نظر آنے والے پہاڑ کو تکتے رہے۔ اور اپنے بارے میں نجانے کیا کیا سوچتے رہے۔ ہم، زندگی، وہ، پڑھائی، وہ دوسری والی،رضا، معاش، موت، شوق، والدین، پیسہ، حسرت،خارش، دوری، خاموشی ، تنگدستی، خودکشی، عابد، خوشی، بیماری، توقعات، تنہائی، زخم، اور پھر دوبارہ وہ۔ آدھے گھنٹے تک بارش ہوتی رہی اور ہم سوچتے رہے۔ ہمارے لیے سب سے مشکل کام اپنے آپ کو سوچنے سےروکنا ہے۔ خیر، کچھ دیر بارش برسانے کے بعد بادل تیزی سے غائب ہونے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے دوبارہ تیز دھوپ نکل آئی۔

دو پہر کی دھوپ میں میرے بلانے کے لیے

وہ تیرا کھوٹے پہ ننگے پاوں آنا یاد ہے ۔ ۔ ۔

پانی کی شر رشر ر کی صدائیں اور کبھی کبھار پرندوں کے چہکنے کی آوازیں ہمیں تسکین فراہم کر رہی تھیں۔ قدرت میں موجود موسیقی سارے دھنوں سے زیادہ دلکش ہے۔ ہم کئی گھنٹوں تک اس کھلی فضا سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے۔ نہر کا پانی پی کر ایسا لگا جیسے ہم فریج کےفریزر والے حصے میں رکھا پانی پی رہے ہیں۔ ہر گھونٹ کے بعد ایک “آہ” کی آواز، حلق سے نکالنا، ہمارے وظایف میں شامل ہوگیا تھا۔

CIMG4791

ہم وہاں ٹھیک 5 بجے تک ایک ایک لمحے کو چکھتے، سونگھتے ، سنتے، دیکھتے اور محسوس کرتے رہے۔پھر5 بجتے ہی ہم نے سامان جمع کر کے اپنے بیگ میں ڈالا اور نیچے کی طرف اترنےلگے۔

جھیل میں اب صبح سے زیادہ ہجوم نظر آنے لگاتھا۔ ہمیں دور سے کئی گروہ نظر آئے۔ ہم نزدیک گئے تواندازہ ہواکہ یہ کسی دانشگاہ کے شاگرد تھے جو ایک ساتھ سیر کو نکلے تھے۔ ہم ان کےنزدیک سے گزنے لگے تو ان میں ہمیں کچھ جانے پہچانے چہرے بھی نظر آئے جنہوں نے ہمیں دیکھ کر بے ساختہ اپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔ ہم نے فوراََ اپنا ناک صاف کیا۔ جی بلکل، اس گروپ میں کچھ ہزارہ لڑکیاں بھی تھیں جن میں سے ایک کو ہم نے پروگرام The future Begins Here میں کاؤنسلر کے طور پر دیکھا تھا۔

بعدِ مدت کے ملے تو شرم مجھ سے کس لیے

تم نئے کچھ ہو گئے یا میں نرالا ہو گیا ۔ ۔ ۔

جب ہم ان کے پاس سے گزرنے لگے تو وہ چہ میگویئوں میں مصروف تھیں۔ اس دور افتادہ علاقے میں اپنی برادری کے لوگوں کو دیکھ کر عجیب سی خوشی محسوس ہوتی ہے ۔ خاص کر اگر ان کا تعلق صنف نازک سے ہو ۔ خیر،ہم  بھی اپنی نظریں زمین میں گاڑھ کر آگے بڑھتے رہے کیونکہ بقول نفس ِخوب کے “ہماری بھی ماں اور بہنیں ہیں”۔

آخر کار ہم دوبارہ اسی  جگہ پہنچے جہاں ملنگی صاحب نے ہمیں چھوڑا تھا۔ ہم آس پاس دیکھتے رہے، مگر ہمیں کوئی بھی جیپ دکھائی نہیں دی۔ تھوڑی دیر سوچنے کے بعد ہم نے ارادہ کیا کہ ہم پیدل ہی نیچے کا رخ کرینگے۔ دل کو تسلی دیتے ہوے ہم نے سوچا”یہ بھی ایک مہم جوئی کا حصہ ہوگ””۔ ہم نیچے اتر ہی رہے تھے کہ ہمارا سامنا دو ایسی پاگل شخصیات سے ہوا جو پیدل  جھیل سے  وادی کاغان تک جا رہی تھیں۔ پاگل اس لیے کہ اس لمبے اور خطرناک رستے پر اترنا ہمیں پاگلپن ہی لگا۔ حالانکہ یہ تعریف ہم اپنی ذات تک محدود رکھنا چاہتے تھے مگر ہائے رے ہماری قسمت۔

دانشِ بخت ہے بے دانشیِ شوق حسرت

لوگ دیوانہ نہ سمجھیں تیرے دیوانے کے

سلام دعا کے بعد پتا چلا کہ یہ حضرات انہی شاگردوں کے گروہ کا حصہ ہیں جن کے بارے میں  ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں۔ جب ہم نے یہ جاننا چاہا کہ وہ جیپ کے بجائے پیدل کیوں جا رہے تھے تو ان میں سے ایک، جس کا نام فیضان تھا اور جو بڑی بے تکلفی سے باتیں کر رہا تھا بولا “یار اتنی دور آئے ہیں، جیپ میں آنا اور پھر جیپ میں ہی جانا، کیا فائدہ؟ کچھ ان حسین وادیوں کو بھی غور سے دیکھنا چاہیے۔”

ہم نے سوچا یہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے پاگل پن کو سمجھ سکتے ہیں۔ مگر جب گفتگو میں ان کو پتا چلا کہ ہم اکیلے ہی اتنی دور آئے ہیں تو انہوں نے بھی ہم پر “بے ذو” ”ہونے کا الزام لگادیا۔ مگر ہم تو تب تک ان باتوں کے عادی ہو چکے تھے۔

راستہ کیونکہ لمبا تھا اس لیے فیضان اور عاکف سے بہت ساری باتیں کیں۔ ملک کے حالات کے بارے میں ، سیاست کے بارے میں، محافظوں کے بارے میں، اور ان کی سیاست میں دخل اندازی کے بارے میں۔ اور جب بات  ہزارہ برادری کی آئی تو عاکف پوچھنے لگا “یار علی بھای، آپ بتائیں، بلوچستان کے مسئلے کا حل کیا ہے؟” ہم نے ایک لمبی آہ بھری۔  اور اس کی طرف دیکھے بغیر بڑی بھرم سے کہا “دیکھو بھائی،  بات بہت سیدھی ہے، جو گرہ ہاتھ سے کھل سکتا ہے، اسے دندان سے کھولنے کی کیا ضرورت ہے”۔  کافی دیر سوچنے کے بعد عاکف نے کہا “یار بات اتنی بھی سیدھی نہیں ہے”۔ ہم سب کچھ دیر خاموش رہے اور پھر ہم نے پڑھائی کے بارے میں باتیں کی، نوکری کے بارے میں، ملک چھوڑ کر بھاگنے کے بارے میں اور پھر ہر نوجوان لڑکے کا پسندیدہ موضوع، لڑکیوں کے بارے میں باتیں کیں۔ پھر بات جب شاعری کی چھڑی تو ہم بہت خوش ہوئے اور کلاسک استادوں کے بارے میں باتیں کرنا شروع کیا۔ مگر جلد ہی ہمیں اس بات کا احساس ہوا کہ دونوں حضرات کو اردو کے استادوں سے خاص دلچسپی نہیں، بلکہ دونوں، زمانہ جدید کے شاعروں کے دلدادہ ہیں۔ فیضان نے حبیب جالب کی کچھ نظمیں سنائیں تو ہم نے بھی احمد فراز کے زخموں کو کھریدنا شروع کیا۔ عاکف اور فیضان واہ واہ کرتے رہے۔ اور جب فیضان نے پوچھا کہ کیا ہم بھی غزل یا نظم لکھتے ہیں تو ہم نے فورا کہا “یار کچھ سال تو ہم حسن، ناز اور ادا کے بارے میں لکھتے تھے، مگر جن حالات سے گزرے ہیں، اب قلم سے خون کے علاوہ کوئی اور بات نکلتی ہی نہیں ۔”

عاکف نے پوچھا کیوں علی بھائی کیا ہوا؟

ہم نے موضوع بدلتے ہوے کہا ” یار قلم سے یاد آیا کہ یہ راستہ کتنا لمبا ہے۔ ختم ہی نہیں ہو رہا”

عاکف نے بے ساختہ کہا “یار سچ میں، میرے پاؤں میں تو درد اٹھ رہا ہے”

ہم مسلسل نیچے کی طرف اتر رہے تھے مگر راستہ تھا کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تاریک رستہ اب زیادہ تاریک لگ رہا تھا۔ راستے میں کئی بار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں بھی آئیں۔ بلآخر بہت دور ہمیں کچھ چراغ نظر آنے لگے۔ جس سے ہمیں اندازہ ہو گیا کہ منزل تک پہنچنے میں شاید اب کچھ ہی گھنٹے باقی ہیں۔

اسی دوران ہمیں گھر سے فون آیا۔ پہاڑ کی تہہ تک پہنچنے کی وجہ سے اب موبائل میں سگنل آرہا تھا۔ ہم نے اٹھایا تو پدر بزرگوار کی سریلی آواز آنے لگی۔ کچھ ہمارے سفر کے بارے میں پوچھتے رہے تو کچھ حالات کے بارے میں۔ امی تو بس اس فکر میں تھی کہ کیا ہم پیٹ بھر کر کھانا کھاتے بھی ہیں یا نہیں۔  آخر میں ابو کہنے لگے “علی جان، تم کچھ سامان ساتھ لینا بھول گئے ہو “۔ ہم نے وضاحت چاہی تو کہنے لگے ” داڑھی منڈوانے کی مشین اور کنگھی”

یہ سنتے ہی ہم آگ بگولا ہو گئے اور کہنے لگے “ابو یہ کیا مذاق ہے؟ آپ کو پتا ہے کہ ہمارے سر پر بال ہی نہیں رہے تو کنگھی کس کام کی؟” 

راستہ اب بہت طویل لگ رہا تھا۔ ہم مسلسل کچھ گھنٹوں تک چل کر تھک گئے تھے۔ پاوں خود بخود رستے ناپ رہے تھے۔ بڑی مشقت کے بعد ہم بلآخر رات کے 9 بجےناران پہنچ گئے۔ ہم تینوں کی حالت ایسی تھی جیسے ہمیں زد و کوب کر کے بلوچستان کے کسی جیل سے رہا کیا گیا ہو۔ خستہ اور زندگی سے بیزار۔ تھکن کے مارے ہم اب بالکل خاموش ہو گئے تھے۔

حسرت پہ اس مسافر بے کس کی رویئے

جو رہ گیا ہو بیٹھ کے منزل کے سامنے

وادی میں پہنچ کر ہم تینوں نے ہمارے گیسٹ ہاوس کے سامنے والے مہنگے ہوٹل میں چائے  پی، جس کا پیسہ، ہمارے اسرار کے باوجود، فیضان نے ادا کیا۔ ہم نے بے شمار دعاؤں اور شکرگزاری کے ساتھ الودا ع کہا اور گیسٹ ہاوس پہنچ گئے۔

پہنچتے ہی بابا جی کا بیٹا آیا۔ وہ سارا دن ہماری غیر موجودگی کی وجہ سے بہت پریشان ہوگیا تھا۔ ہمیں لگا جیسے یہ ہمیں  سالوں سے جانتے ہیں اس لیے ہماری خیریت کے لیے پریشان ہیں۔ خیر، چھوٹے شہر کے لوگ، دل کے بہت بڑے ہوتے ہیں۔ مگر اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ بڑے شہر کے لوگ دل کے چھوٹے ہوتے ہیں۔  ہم نے بابا جی اور اس کے بیٹے کو سارا ماجرا سنایا۔ پھر ہم نے ہوٹل میں کھانا کھایا اور پھر کمرے میں آ کر، تھکن کے مارے جلد نیند سے ملاقات چاہی۔

(جاری ہے)

Advertisements
julia rana solicitors london

(تشکر زیاد از حسن رضا چنگیزی صاحب)

Facebook Comments

علی زیدی
علی زیدی تھرڈ ڈویژنر ہیں اور بد قسمتی سے اکاؤنٹنگ کے طالبعلم ہیں۔ افسانہ، غزل اور نظم بھی لکھتے رہتے ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: Kafandooz@