شہر کی ایک مشہور پبلک یونی ورسٹی کے ایام وابستگی سے منسلک سچے واقعات سے جڑی ایک جھوٹی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ
رومینہ کی امی نے سجھایا ،آفتاب کے پاس پیسہ ہے۔ وہ لوزر شگفتہ بھی اب اس سے دور ہوگئی ہے۔ وہ کوشش کرے کہ نعمان اسے دوبئی کے دورے میں شامل نہ کرے۔ رومینہ نے انہیں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے نعمان کو اعتماد میں لینا ہوگا جو جویریہ اور سارہ اور دیگر افراد کی موجودگی میں تو ممکن نہ ہوگا ۔ اس کے لیے ہوم ورک یہیں سے کرنا ہوگا۔ اسے یقین ہے کہ نعمان اس کی بات پر مکمل دھیان دے گا۔ بس اس کے ساتھ ایک آدھ دفعہ اکیلے ڈنر وغیرہ پر جانا ہوگا۔
اس کی امی رومینہ کی اس تجویز سے پریشان تو ہوئیں اور اس کے نعمان کے ساتھ تنہاباہر جانے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا مگر جب رومینہ نے انہیں اس کے فیملی فرینڈ اور ایک باوقار شخص ہونے کا یقین دلادیا تو وہ اپنی بہن کے مستقبل کا سوچ کر اس کی تجویز سے متفق ہوگئیں بس ایک تو انہوں نے اس بارے میں اس کے ابو کو کچھ نہ بتانے اور رومینہ کو احتیاط کرنے کا کہا کیوں کہ ابھی بوبی والی بات بہت تازہ تھی۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بھائی کے گھرانے کو اس حوالے سے زبان کھولنے کا کوئی موقع ان کی کسی بداحتیاطی کی وجہ سے مل پائے۔
پانچویں قسط
رومینہ کے لیے دوبئی جانے تک کے انتظار کا عرصہ بظاہر دو وجوہات اور ایک خفیہ ایجنڈے کی بنیاد پر بہت لطف انگیز تھا۔ایک تو پہلی دفعہ جہاز میں بیٹھنے سے دوسری وجہ ایک نیا ملک دیکھنے کاشوق پورا ہونے کی اور نجی خفیہ ایجنڈا یوں پورا ہونے کی کہ اس کی امی کی جانب سے نعمان کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی اجازت ۔ اپنی پہلی محبت اورنگ زیب عرف بوبی گونگ لی والے سے منگنی ٹوٹنے کے بعد وہ Bounce-Back پر تھی ٹینس کی اس گیند کی طرح جسے کسی نادان غصیلے لڑکے نے زور سے زمین پر دے مارا ہو اور وہ اسے اپنی اہمیت منوانے کے لیے کہ ہر عمل کا برابر کا رد عمل ہوتاہے زمین سے اوپر ہوکر اپنی رفعت کا احساس دلانے پر تلی ہوئی ہو۔
اس نے سوچا کہ اگر بوبی اس کے لیے ایک نچلے لیول کی جسمانی آسودگی اور سماجی بندھن کو نبھانے کا پاسپورٹ تھا تو ایسی ہر خواہش بلندلیول پر پوری کرنے کے لیے نومی ایک ملٹی پل ویزا،ایک اقامہ ، ایک گرین کارڈ ہے ۔مطالعے نے اسے جو ذہنی پختگی عطا کی تھی وہ بوبی کی حرکات پر خاندان میں بحث اور اس کی امی کی جانب سے یہ اشارہ کہ مردوں کی اس طرح کی بے راہ روی کو ایک بڑے مْقصد کے حصول کی خاطر کی باآسانی نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔اس نے ان سب باتوں کی ایک سموتھی(smoothie) بنائی اور
ماہی میرا شربت ورگا،
او ماہی تینوں غٹ غٹ پیواں
کہہ کر حلق سے انڈیل لیا اس خیالی مشروب کے پیٹ میں جاتے ہی اس نے خود کو بہت سے انجانے بندھنوں سے آزادمحسوس کرلیا۔

اس دوران رومینہ نے دو کام کیئے اور ایک دو خواب بھی دیکھ ڈالے۔ایک تو اس نے اس عرصے میں اپنی نصابی کتب کو اچھی طرح سے پڑھ ڈالا تاکہ اپنا امتحان دے کر وہ بی اے کی ڈگری حاصل کرلے۔ دوسرے اس نے عمدہ خوراک اور یوگا اور TRX Exercises (رسیوں کے ذریعے سے ورزش کا جدید طریقہ )۔یہ رسیوں سے محتلف انداز میں لٹک کر ورزش کرنے کا سسٹم جویریہ کے گھر میں لگا تھا۔ اس کے بھائی بھابھی سبھی کوورزش کا بہت شوق تھا۔ اپنے گھر میں انہوں نے ایک پورا جم بنایا ہوا تھا۔ ورزش کی مدد سے اس نے اپنے بدن کو اپنی سابقہ حالت پر لوٹا دیا۔ وہی نشیب و فراز لوٹ آئے ، جلد بھی گھر میں رہنے کی وجہ سے تر و تازہ ہوگئی اور رنگت میں ایک دل فریب اجلا پن آگیا۔

ان دنوں اس نے خواب جو دیکھے، ان میں سے ایک خواب اسے اب بھی بہت اچھا لگتا ہے۔ اس رات وہ دلہن بنی اورنگ زیب کی بارات کا انتظار کررہی تھی۔گہرے شراب کی سرخ رنگت والے شادی کے جوڑے میں جس کی چولی اس نے ضد کرکے بیک لیس رکھی تھی۔اسے اپنے کمرے میں نعمان کا میسج ملا کہ وہ ہال میں موجود ہے اگر وہ رضامند ہو اورنگ زیب کی جگہ دولہا بننے پر رضامند ہے۔ اس نے جب اپنی امی سے پوچھ کر اجازت دی تو وہ اسے بیاہ کرلے گیا۔اپنے اس خواب کی عجلت اور بے راہ روی پر ہنسی بھی بہت آئی۔اس نے اپنی امی کو جب یہ خواب سنایا تو وہ جواب میں ایک آہ بھر کے کہنے لگیں” بس کم بخت کی عمر تم سے بارہ تیرہ برس زیادہ ہے۔ ورنہ اس سے اچھا داماد انہیں کہاں ملے گا”۔ دوسرا خواب ان دونوں کی قربت کا خواب تھا۔ بات اس سے آگے اس لیے بڑھ نہیں پارہی تھی کہ وہ ضد کررہی تھی وہ اس کے سامنے سیاہ رنگ کا اسٹیریپ شفون لمبا گاؤن جو سائیڈ پر سے کھلا تھا اور اس کی تندرست ٹانگوں کے جلوے دکھا رہا تھا ، وہ پہن کربانہیں ہوا میں لہراتے ہوئے ، تھرکتے ہوئے کہہ رہی تھی
” دیکھو خفا نہ ہونا
،نہ مانگوں چاندی سونا
، بوائے آئی جسٹ وانٹ ٹو بی یور لور گرل ”
نعمان نے اس سے صرف ” آئی لو یو” کہہ کر اسے اپنا بنالیا۔ اسے جاگنے پر اپنی اس جسارت پر بہت تعجب ہوا مگر اس نے دل مسوس کر یہ بات بھی یاد کی کہ اتنا کچھ کہنے کے بعد بھی نعمان نے اسے کبھی ” آئی لو یو” نہیں کہا۔اسے بخوبی علم تھا کہ عورتوں کو خود تو اس اعتراف میں بہت دقت ہوتی ہے مگر ان کے کان ہمہ وقت اس ایک منترہ کو سننے کے لیے بے تاب رہتے ہیں۔


نعمان پچھلے ایک ہفتے سے دوبئی گیا ہوا تھا۔ آج صبح اسے آنا تھا۔جس دن وہ لوٹا اسی شام اسے نعمان کی دعوت ملی کہ وہ اس کے ابو اور بہن کو کھانے پر لے جانا چاہتا ہے۔رومینہ نے اسے بتایا کہ بہتر ہوگا کہ وہ آج کی شام کی دعوت پر اس کے ساتھ تنہا جانا چاہتی ہے اس کی امی کی جانب سے اس بات کی صرف آج کے لیے اجازت مل گئی ہے۔کچھ ضروری گفتگو ان کے دورے کے حوالے سے بھی کرنی ہے وہ اپنے ابو، خالہ اور اپنے کاغذات بھی لے آئے گی تاکہ دوبئی کے ویزہ وغیرہ کے مراحل بھی طے ہوجائیں۔
نعمان کی ضد تھی کہ وہ جینز اور کوئی ٹی شرٹ پہنے اور عبایا پہننے سے بھی گریز کرے۔ وہ اسے آج ایک موڈرن سے کلب لے جائے گا۔ ریستوراں میں جانا اس لیے مناسب نہیں کہ اسے تو رومینہ کے ساتھ دیکھے جانے کا کوئی خوف نہیں مگر اسے رومینہ کو کسی کے دیکھے جانے کی فکر ہے۔ وہاں عبایا بلاوجہ ہی توجہ کا مرکز بن جائے گا۔رومینہ نے کہا زیادہ رومیو بننے کی ضرورت نہیں۔ وہ جینز اور ٹی شرٹ پہن لے گی مگر بغیر عبایا اسے امی باہر جانے کی اجازت نہ دیں گی، کلب پہنچ کر وہ عبایا اتار کر گاڑی میں رکھ دے گی۔البتہ وہ اس کی جیپ میں بس اسٹاپ سے سوارہوگی۔شام کو لڑکے محلے میں کرکٹ کھیلتے ہیں۔ وہ ان کے سامنے اس کے ساتھ جیپ میں بیٹھ کر اکیلی نہیں جائے گی۔ ورنہ یہ اردو میڈیم لڑکے اس کا گلی میں جینا دوبھر کردیں گے ۔باقی باتوں کی احتیاط بھی اس پر لازم ہوگی۔
جب وہ اس کے ساتھ بیٹھی تو ایک پیکٹ ڈیش بورڈ پر رکھا تھا۔ جب رومینہ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے تو اس نے کہا وہاں ایک اسٹور پر سیل تھی ۔اس کے لیے یہ اس نے کا یہ کپ کیک پیٹرنڈ ہالٹر خرید لیا۔ وہ اپنی ٹی شرٹ اتار کر پہن لے۔رومینہ اگر دنیا داری کے امور سے واقف ہوتی تو وہ یہ ہالٹر وہاں کلب پہنچ کر ان کے لیڈیز پاؤڈر رومز میں جاکر تبدیل کرلیتی مگر یونیورسٹی کے باتھ روم میں جب وہ جاتیں تو گروپ کی صورت میں جاتی تھیں وہاں اس طرح وہ ایک دوسرے کی نگرانی کرتیں۔
رومینہ نے پہلے تو پس و پیش کی مگر جب اس نے ضد کی تو اس نے ساتھ ہی تجویز پیش کی کہ وہ جیپ کی پچھلی سیٹ پر روڈ کی طرف پشت کرکے اپنی ٹی شرٹ سے بدل لے۔رومینہ نے پہلے تو بڑی بے اعتباری سے اس ہالٹر کو دیکھا اس کی گردن کے پیچھے باندھنے والی ڈوریوں کامطلب یہ تھا کہ اس کے شانے اور بازو عریاں رہیں گے۔وہ پیکٹ لے کر جیپ کی پچھلی سیٹ پر چلی تو گئی مگر اسے بے چارگی سے دیکھتی رہی اور پھر ڈرتے ہوئے پوچھا ” نومی از دز مسٹ؟ ” جس کا جواب اس گھاگ مرد نے یہ دیا کہ اگر وہ اس کی معمولی فرمائش کا بھی احترام نہیں کرتی تو آگے کیا ہوگا؟ بہتر ہے وہ فیصلہ کرلے کہ اس میں کس کو کس کی بات ماننی ہے۔” My girl is all mine or she is not my girl at all. Decide now are you my girl or not?” (میری محبوبہ یا تو میری ہے یا وہ میری محبوبہ نہیں۔وہ فیصلہ کرلے کہ وہ اس کی ہے یا نہیں۔)۔
اس کے جواب میں کچھ روہانسی ہو کر رومینہ نے صرف اتنا کہا کہ وہ پیچھے مڑ کر نہ دیکھے۔ جس وقت وہ اپنی ٹی شرٹ ہالٹر سے تبدیل کررہی تھی ،نومی نے پیچھے دیکھنے والے شیشے سے دیکھا کہ اس کے دائیں شانے کے پیچھے جہاں اس کی سیاہ چمکیلی برا اسٹریپ کا رنگ ہک ایک طرح سے کھب گیا تھا وہاں ایک برتھ مارک تھا۔ وہ جب واپس آن کر اس کے ساتھ بیٹھی تو اس نے بہت آہستگی سے اس کا لاکٹ کھینچ کر باہر نکال دیا ۔ وہ چپ چاپ اپنی عریانی سے پریشان رہی اس لباس کا کپڑا بھی کچھ باریک تھا۔

اس کی پریشانی اور سراسیمگی بھانپ کر نومی نے کہا” ہندوؤں میں یہ عقیدہ عام ہے کہ اگر آپ اپنا برتھ مارک خود نہیں دیکھ سکتے تو آپ خوش نصیب ہیں اور آپ کا میاں بھی ایک مالدار آدمی ہوگا”۔رومینہ اس کی یہ بات سن کر شرما گئی اور اسے پہلی دفعہ یہ احساس ہوا کہ نومی نے اس کی ساری ننگی کمر ریئر ویو مرر میں دیکھ لی ہے۔اس نے بہت آہستہ سے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ “نومی آپ نے یہ اچھا نہیں کیا۔میرے ساتھ یہ سب کچھ پہلے کبھی نہیں ہوا”۔ جس پر اس نے وہی بات دہرائی کہ Decide now are you my girl or not?” ” جس پر رومینہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوگئی۔ خود اس کو اپنی خاموشی کچھ دیر بعد گراں گزرنے لگی تو اس نے کہا مجھ پرتو ہروقت جناب کی دھمکی کی یہ تلوار لٹکتی رہتی ہے کہ Decide now are you my girl or not?” ” مگر خود جناب نے ایک دفعہ بھی یہ نہیں کہا کہ آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں۔اس نے شوخی سے اتراتے ہوئے کہا کہ ” اگر یہ میں اپنے انداز سے کہوں گا تو اس پر آپ کا اعتراض یہ ہوگا کہ “نومی آپ نے یہ اچھا نہیں کیا۔میرے ساتھ یہ سب کچھ پہلے کبھی نہیں ہوا اگر آج آپ مجھ سے یہ وعدہ کریں کہ You are my girl” ” تو میں بھی وہ سب کچھ اپنے انداز سے کہوں گا جس کو سننے کے لیے آپ بے تاب ہیں۔ ”
آپ کا وہ انداز کیا ہوگا میں پوچھ سکتی ہوں؟ رومینہ نے اصرار کیا
” میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ وہ آپ کو پسند آئے گا۔ اگر وہ پسند نہ آئے تو نہ آئندہ میں اسے دہراؤں گا نہ آپ اس کا مطالبہ مجھ سے کریں گی۔جس پر رومینہ نے کہا” ام م ذرا رک جاؤ مجھ سے اپنی یہ عریانی برداشت نہیں ہورہی، میرے شانے بالکل ننگے ہوگئے ہیں ” جس پر نعمان نے اسے انگریزی میں ایک ایسا جملہ کہا جو بڑا کثیرالمعنی سمجھا جاتا ہے کہ ” At least for night I will suggest you to let your hair down”( آپ آج کی رات اپنی شرم کو بالائے طاق رکھ دیں) یہ کہتے ہوئے اٹھا اس کی سیٹ کے پیچھے آیا اور اس کی پونی ٹیل کھول کر اس کے بال اس کے شانوں کو تھام کر پھیلا دیے۔کچھ بال تو اس کے کندھوں سے نیچے اتر کر اس کے سینے کی باہر امڈتی ہوئی گولائیوں کو ڈھانپ گئے اور کچھ بالوں نے اس کی کمر کے اوپری حصے کو ایک خوبصورت ہوا میں لہراتی چادر کی مانند چھپالیا۔اب رومینہ کو بہت حد تک ایک سکون مل گیا تھا۔
کھانے کے دوران اس نے نعمان کو پوچھا کہ اسے فرقان بھائی کے خود کو زاہد ماموں کہنے پر کیوں اعتراض تھا تو وہ کہنے لگے پہلے ان کا نام زاہد تھا۔ ایک رات وہ کسی پارٹ میں اپنی بیوی کلپنا کے ساتھ گئے تھے۔دوبئی میں ایسی پارٹیاں بہت عام ہیں۔وہاں انہیں ایک ہندو Tarrot Card Reader” مل گئی جس نے ان کے پتے پڑھے۔اس نے کہا کہ وہ اپنا نام زاہد سے بدل لیں یہ نام انہیں موافق نہیں۔ ان کا نام انگریزی کے حرف “N” سے شروع ہوگا تو ان کی خوش بختی میں چار چاند لگ جائیں گے۔ ا س نام کی وجہ انہیں ایک حادثہ بھی پیش آئے گا۔ان کی شادی میں مذہب اور وطن کی وجہ سے بہت مشکلات ہیں۔اس کا چلنا محال دکھائی دیتا ہے۔انہیں بچوں کا بہت شوق ہے اور ان کی بیوی بچے پیدا کرنے سے قاصر ہے۔میں نے اس بات کو مذاق میں ٹال دیا۔”۔
” پھر حادثہ پیش آیا؟” رومینہ نے پوچھا
“نہ صرف حادثہ پیش آیا ۔سارے گھاؤ تو بھر گئے۔ایک گھاؤ سر کا اور ایک ران کے پاس اپنی نشانی چھوڑ گیا۔دل کا گھاؤ بھی موجود ہے۔ وہ آگئی ہے تو شاید اب یہ بھر جائے۔اس بات کو دس سال سے اوپر ہوتے ہیں۔”نعمان نے کہا۔
“اسے اپنی بیوی کو چھوڑنے کا افسوس ہے؟ بچے کیوں نہیں ہوئے۔ یو ور ینگ دین!”
رومینہ نے سوچا آج کی ملاقات کے بعد ان کا تعلق اب یقیناًفروغ پائے گا لہذا بہتر ہے اس ماحول کا لابھ(فائدہ) اٹھا کر وہ اس کے بارے میں جتنا کچھ جان سکتی ہے وہ جان لے۔اسے اس بات کا بخوبی ادراک تھا کہ وہ ایسا مرد نہیں جسے اپنے بارے میں کچھ بتانے میں بہت لطف آتا ہو۔
” I am still very young. You would know it soon” اس نے قدرے شوخی سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ رومینہ اس کی بات سن کر جھینپ گئی مگر اپنی خفت مٹانے کے لیے پوچھنے لگی کہ “اسے اپنی بیوی کو چھوڑنے کا افسوس ہے؟ بچے کیوں نہیں ہوئے؟”
“بچے۔۔ کلپنا کی Fallopian tubes ( عورت کے رحم میں وہ دو چھوٹی سی نالیاں جن سے اس بیضہ بچہ دانی کا سفر کرتا ہے )میں مسئلہ تھا۔ خود ہی ڈاکٹر سے پوچھ کر آئی تھی ۔ویسے بھی وہ مجھے زیادہ پسند نہیں تھی۔ عام شکل و صورت کی موٹی سی، قد کی چھوٹی معمولی تعلیم یافتہ کلرک نما لڑکی۔جسے نہ تو دنیا کا کچھ علم تھا،نہ اس میں کوئی اسٹائل تھا۔ ہندوستان کے علاقے کیرالہ میں واقع کوچین کے کسی چھوٹے سے قصبے اٹھ کر اپنے ملباری رشتہ داروں کی مدد سے دوبئی آگئی تھی۔زندگی میں نہ تو کبھی ساڑھی باندھی تھی نہ کوئی کتاب اپنی درسی کتابوں کے علاوہ پڑھی تھی۔میں نے اسے جوانی کی بھول جانا اور جب اسی کے والدین نے ضد کی تو اسے چھوڑ بھی دیا”۔ اس نے ایک بے لطفی سے انکشاف کیا۔
” کلپنا کے بعد آپ کی جوانی سے کوئی بھول نہیں ہوئی؟
“نہیں۔ اطہر نفیس نے کہا ہے کہ ع
ہزار اس نے یہ چاہا کہ میں بکھر جاؤں
سو میں نے صبر کیا، صبر بھی قیامت کا”
اس لمحے رومینہ نے سوچا کہ یہ شاید اب اس حوالے سے اس کے مزید سوالات کا جواب نہیں دے گا اور وہ اپنے تجسس پر قائم رہی تو شاید بدمزگی ہوجائے گی۔
کھانے سے فارغ ہوکر وہ ایک ایسے حصے میں چلے گئے جو نسبتاً کچھ غیر مصروف تھا۔سیڑھیوں سے اترتے ہوئے اس نے مڑ کر دیکھا توکلب بہت خوب صورت تھا ۔ ساحل سمندر پر واقع اس کلب کے باہر لوگ چھوٹی چھوٹی کشتیاں چلارہے تھے ۔ نومی نے اسے بتایا کہ اس کھیل کو کایاکنگ کہتے ہیں۔وہاں کا ماحول دیکھ کر وہ اپنے خیالات میں گم اس کی موجودگی سے بے نیاز سوچ رہی تھی کہ جس جگہ وہ پلی بڑھی ہے۔ جس ماحول سے وہ آشنا ہے، وہ سب کچھ اس دنیا سے کتنا مختلف ،بے لطف اور کٹھن ہے۔نومی کی وجہ سے وہ کس نئی دنیا سے بتدریج آشنا ہوتی جارہی ہے۔اس دنیا میں کس قدر دل کشی ہے ۔کیا ہوا اگر وہ ایک دو ہر دفعہ ایسے مطالبات کرتا ہے جو اس کے لیے بہت غیر معمولی اور ناقابل عمل ہوتے ہیں۔

اسے یہ خیال بھی آیا آج اس کی ضد بہت ہی بے جا تھی۔وہ یہ لباس کیوں لایا تھا۔ کیا وہ اس کا بدن دیکھنا چاہتا تھا۔کیا وہ اسے آہستہ آہستہ جسمانی قربتوں سے آشنا کررہا ہے ؟ اپنے اس اندیشے کو اس نے خود کو یہ باور کرا کے بھی ایک طرف ڈال دیا کہ اس کے چھونے میں کوئی حرص اورجنسی ترغیب نہ تھی۔ بس جیسے کسی نے کسی پھول کو چھوا ہو ۔ لہذا کچھ دیر بعد وہ بھی اپنے لباس سے مطلق تفکرات سے بے نیاز ہوگئی ۔ اس نے دیکھ کر سوچا وہاں ہال میں جو دیگر خواتین بیٹھی تھیں ان کے ملبوسات بھی کچھ خاص شرمیلے نہ تھے۔یہ کونسا کراچی ہے جس سے وہ ناآشنا ہے ۔ ”
اس نے نومی کو چھیڑا کہ وہاں ہال میں بیٹھی کئی خواتین اسے دیکھ رہی ہیں۔
” تو آپ کہہ دیں نا کہ ” “You are my girl
Ok baba! I am your girl ” اب کہہ بھی دو نا”
“ایسے نہیں، بہت پیار سے بہت اطمینان سے اپنے انداز میں کانوں میں کہوں گا پہلے چاند کو دیکھو۔ پھر آنکھیں بند کرو۔ اپنا چہرہ میرے قریب لاؤ”۔ رومینہ نے اس کی بانہوں میں سمٹ جانے کے بعد یہ سب کچھ کیا تو اسے کچھ گرم سانسیں اپنی گردن اور کان کے پاس محسوس ہوئیں اور جب اس نے سرور کی ایک کیفیت اپنے اندر برپا ہوتی محسوس کی تو دو گرم ہونٹ اس کے لبوں میں پیوست ہوچکے تھے۔جانے یہ لب اسے کتنی دیر تک چومتے رہے۔ اس کی مدافعت اور دور ہٹنے کی ہر طلب ختم ہوچکی تھی بس اس نے اتنا سنا کہ وہ انگریزی میں اس سے کہہ رہا تھا
“Call me my hubby, my man” رومینہ نے اس کی بات سن کر خود کو بمشکل اس کی بانہوں سے چھڑایا اور کھڑی ہوکر کہنے لگی ” Now lets go Nomi”
نعمان نے اس کا ہاتھ پکڑ کرپانچ منٹ اور بیٹھنے کی درخواست کی تو وہ بیٹھ گئی جس پر اس نے پوچھا ” Do i fit to your idea of a man?!”
” Of course by all means, except for the age”.رومینہ نے اسے غور سے دیکھتے ہوئے جواب دیا ۔وہ جواب میں کہنے لگا مرد کی عمر ایک حوالہ تو ضرور ہوتی ہے پر شادی میں رکاوٹ نہیں سمجھی جاتی۔ اب زمانہ بدل رہا ہے ۔وہ چاہے اس کی بنے نہ بنے یہ اس کی مرضی ہے۔اس نے بوبی کو بھی دیکھ لیا وہ تو اس کا کزن بھی ہے اور ہم عمر بھی۔ کیا اس نے جارج کلونی اور امل علم الدین کو نہیں دیکھا دونوں کی عمر میں کتنا بڑا تضاد ہے۔۔ عورت کے لیے وہ مرد اچھا ہوتا ہے جو Treats her wellاس حوالے سے اسے نومی سے کبھی کوئی شکایت نہیں ہوگی۔وہ اسے ویسے ہی چاہے گا جیسا اب چاہتا ہے۔وہ ایک control freak نہیں۔وہ مالی طور پر آسودہ ہے۔گھر کا سودا سلف خریدنے میں،بچوں کو اسکول یا ڈاکٹر کے پاس لے جانے میں رومانس تو بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور اخراجات آگے بڑھ بڑھ کر منہ چڑاتے ہیں۔

شادی ایک ایسا رومانٹک ناول ہے جس میں ہیرو پہلے ہی باب میں فوت ہوجاتا ہے۔ ذہین عورت وہ ہوتی ہے جو پہلے تو ایک مالدار مرد سے شادی کرے اور اس کے بعد اس کی دولت کا جی بھر کے مزہ اٹھائے۔یہ بات سن کر اسے بہت زور کی ہنسی آئی اور اپنی خالہ زیبا بیگم کی یہ بات بھی اسے یاد آئی کہ بچہ پیدا ہوجائے تو مرد سپرم ڈونر سے ہاؤس مین ٹیننس آفیسر بن جاتا ہے۔
چلنے سے پہلے ایک آخری سوال “آپ نے مجھ سے یہ ضد کیوں کی میں آپ کو My hubby , my man کہوں ؟”جس کے جواب میں اس نے رومینہ کو ایک دفعہ اور گلے لگایا اور چوما اور کہنے لگا” جب آپ کسی کے مالک بن جاتے ہیں تو اسے کسی بھی نام سے پکارنے کا حق آپ کا ہوتا ہے “۔رومینہ نے سر جھکا کر صرف اتنا کہا” مائی نومی، مائی مین از دز اینف(enough)؟”
اس کی امی آج کی ملاقات کا احوال سننے کے لیے بے تاب تھیں انہوں نے عماد کو بھیج کر خالہ زیبا کو بھی بلالیا تھا۔ رومینہ نے کلب کے ڈنر اور آفتاب کے بارے میں ہونے والی بات چیت کا مکمل احوال دونوں خواتین کو سنایا۔
آفتاب کی زندگی سے شگفتہ رخصت ہوچکی تھی۔یوں میدان بھی خالی تھا۔ خالہ زیبانے جب آفتاب کے کاروبار کے بارے میں پوچھا تو رومینہ کہنے لگی وہ اور نومی تو کنسٹرکشن کے کاروبار میں یہاں اور پاکستان میں پارٹنر ہیں لیکن آفتاب کا شاید کا گل سینٹر اور یونی ٹاور اور میریٹ روڈ پر اسمگل شدہ سامان کا کام بھی ہے ۔۔ اس کے لیے کھیپ لگانے والے انہی کی کمیونٹی کے لڑکے ہیں۔ خود یا تو دوبئی میں کام کرتے ہیں یا پاکستان میں۔
دوبئی میں ان کے شب و روز بہت پر لطف تھے۔ہوائی جہاز کے سفر سے لے کر دوبئی ایرپورٹ اور جمیرہ بیچ پر اس کا ولا سب ہی انہیں متاثر کرتے رہے۔ وہاں کی تعمیرات ، شاپنگ مال اور ڈیزرٹ سفاری سے لے کر عمدہ ہوٹلوں میں ڈنر کیا کسر تھی جو نومی اور آفتاب نے ان کی مہمانداری میں چھوڑی تھی۔ اس کے ابو تو کرکٹ میچوں میں گم رہے مگر ایک رات جب یہ دونوں خواتین اور آفتاب اور نومی وہاں بیچ پر واک کررہے تھے۔نومی نے رومینہ کو کہا کہ وہ خالہ زیبا کے ساتھ واک کرے ۔ وہ پیچھے چل رہے ہیں۔خالہ زیبانے ان سب کے سامنے ناشتے پر بتایا تھا کہ بوبی پھر بنکاک کامران اور راشد کے ساتھ گیا ہے۔شاید دس دن بعدچین بھی جائے۔جو ماسی ان کے ہاں آتی تھی وہی اس کی بھابھی تہمینہ کے گھر بھی جاتی تھی اسی کی زبانی کل اسے اپنی امی سے بات کرتے ہوئے یہ علم ہوا ہے۔
نومی اور آفتاب کے اور رومینہ کے درمیان فاصلہ کم تھا مگر اس کی خالہ کسی ہندوستانی خاتون سے جو پڑوس میں رہتی تھی واک کے دوران مصروف گفتگو ہوگئی۔ رومینہ اس ساحل کی بے تکلف زندگی کاخاموشی کا لطف اٹھانا چاہتی تھی۔
رومینہ نے بہت ہلکے سے سنا کہ نومی آفتاب کو کہہ رہا تھا ” منی مم پچیس اور بنکاک کا دو بندوں کا بندوبست۔آفتاب کا کہنا تھا کہ کہ پچاس کی اذان آئے گی تو پچیس کی بات ہوگی۔تیس پر ڈن کریں گے دو بندے کوور (Cover) ہوجائیں گے”۔
اگلے دن اس کے ابو اور نعمان تو میچ دیکھنے شارجہ گئے تھے۔ یہ دونوں خواتین ابن بطوطہ مال کے جلوے لوٹ کر آئیں تھیں ،آفتاب اپنے کسی پراجیکٹ سے واپس لوٹا تھا۔اسی کے فون پر رومینہ کی امی کی کال آئی۔وہ خالہ زیبا سے بات کرنا چاہتی تھیں۔ رومینہ نے دیکھا کہ خالہ زیبا کا رنگ ان کی بات سن کر اڑ گیا ابتدا میں تو ان کے تاثرات سن کر وہ یہ سمجھی کہ شاید نانی اماں چل بسیں مگر جب انہوں نے ٹائم وغیرہ کا پوچھا تو رومینہ کی امی کے ذریعے ان سب کو علم ہوا کہ ” کامران بھائی ، بوبی کا وہاں کسی نائٹ کلب میں جھگڑا ہوا۔ کسی لیڈی بوائے کو کامران نے چھری ماردی ہے اور وہ خود تو بھاگ گیا مگر وہ لوگ بوبی کو تین گھنٹے ہوئے اٹھا کر لے گئے ہیں۔کچھ لوگ کہہ رہے تھے کہ یہ وہاں کے انڈر ورلڈ کے لوگ ہیں ۔یہ ہجڑا مواء کسی لڑکی کا بھائی ہے جو چھوٹا راجن (راجندرسدا شیو نکھلے کی گینگ کا ممبر ہے) بعد جب اس کے ابو اور نومی واپس آگئے تو اس کے ابو نے شکر کیا کہ ان کا بوبی سے رشتہ توڑنے کا فیصلہ بروقت اور آج درست ثابت ہوا۔اس کی امی سے نعمان کی بات کرائی گئی اور کچھ دیر بعد ہی اس کے ماموں بھی اس کی امی کے گھر آگئے۔ثوبیہ ممانی کا تو برا حال تھا وہ بھی ان کے ساتھ تھیں۔ان کو ڈر تھا کہ کہیں وہ لوگ بوبی کو مار ہی نہ دیں۔



ماموں خرم اورنومی بات کرتے رہے۔نومی کا کہنا تھا کہ ” اورنگ زیب کو کوئی جسمانی گزند نہ پہنچے اس کے لیے وہ اپنے کسی تھائی دوست سے بات کرے گا اس کے تعلقات چھوٹا راجن کے دست راست منگیا پوار سے ہیں ۔اصل میں اس کام میں تو اپنے آفتاب بھائی بیسٹ چوائس تھے مگر ان کی سالے پھیلو خان پٹھان سے دوستی کی وجہ سے معاملہ اب ان کے بس کا نہیں ۔ پھیلو خان اور منگیا پوارایک دوسرے کی جان کے دشمن ہیں”۔
ان سب کو یہ علم نہ تھا کہ بختیار احمد خان عرف پھیلو خان کو اس کے دست راست منگیا پوار نے چھوٹا راجن کے اشارے پر دھوکا دہی سے بنکاک میں مروادیا تھا۔دوبئی اور بنکاک کے ٹائم میں تین گھنٹے کا فرق ہے وہ لوگ ہم سے آگے ہیں۔تھائی لوگ شاید سوگئے ہوں یہی بات ہوسکتی ہے۔ جب خرم ماموں نے کہا کہ ” وہ خود وہاں جانے اور دوبئی آنے کے لیے تیار ہیں تو نومی نے آفتاب کے مشورے سے انہیں کہا کہ ” اگر وہ یہاں آئیں گے تو ان کرمنل گینگز کے لوگ یہاں کاروبار میں ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں۔اس سے ہمارے لیے یہاں دھندہ کرنا مشکل ہوجائے گا۔اگر وہ بنکاک جانا چاہتے ہیں انہیں اس پر کوئی اعتراض نہیں مگر وہ جان لیں کہ اس سے اورنگ زیب کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔انہیں بھنک مل گئی تو ممکن ہے وہ ان کو بھی اغوا کرلیں۔ یہ کوئی معمولی لوگ نہیں، بنکاک کی انڈر ورلڈ کا معاملہ ہے”۔
اگلے دن یہ خواتین تو گھر پر ہی رومینہ کے ابو کے ساتھ رہیں۔آفتاب کو پراجیکٹ پر کام تھا وہ وہاں چلا گیا اور نومی بھی کچھ دیر کے لیے کسی اماراتی دوست کے ساتھ کہیں نکل گیا۔کوئی چار بجے اورنگ زیب کی اطلاع ان کی حراست میں تصویر کے ساتھ نومی کے فون پر ای میل کے ذریعے موصول ہوئی۔ اس کے دوست نے کہا کہ ” اس نے اس بات کا تو بندوبست کرلیا ہے کہ بوبی کو اب مزید جسمانی تشدد کا نشانہ نہ بنایا جائے مگر اس کی رہائی کے لیے وہ پچاس لاکھ روپے مانگ رہے ہیں۔ طوبیٰ نے یہ سب بات اپنے بھائی خرم کو بتائی۔وہ تصویر البتہ اس نے نہیں بھیجی جس میں اورنگ زیب بری حالت میں دکھائی دے رہا تھا۔ اس کے ہاتھ پر پٹی بندھی ہوئی تھی، اوپر کے ہونٹ پر بھی ٹانکے لگے تھے اور ایک آنکھ بھی بری طرح سوجھی ہوئی تھی۔ اورنگ زیب کی رہائی کے بدلے، اتنی بڑی رقم کی ادائیگی کا سن کر زیبا اور رومینہ کے ابو کے تو ہاتھ پاؤں پھول گئے۔خرم ماموں نے جب رقم میں تخفیف کا مطالبہ کیا تو بات بہت رد و کد کے بعد پینتیس لاکھ روپے تک پہنچی مگر اس رعایت کو حاصل کرنے میں بھی کل چار گھنٹے لگ گئے۔تھائی دوست کی شرط تھی کہ ” رقم فوری طور پر آفتاب کو دی جائے گی جو دوبئی سے اس کو بنکاک میں اس کے حوالہ کرے گا۔اورنگ زیب کو وہ نعمان کے حوالے اس شرط پر کریں گے کہ وہ اب دوبارہ بنکاک کا رخ نہیں کرے گا۔ اس کے لیے نعمان کو بنکاک آنا ہوگا”۔نعمان کو بنکاک جانے میں پس و پیش تھی۔وہ یہاں کچھ ضروری کاروباری معا ملات نمٹانا چاہتا تھا۔
رقم کے لیے طے ہوا کہ کسی پرانی انوائس کے بدلے میں بوبی کے ابو اسے سودے کی ادائیگی کے طور پر ادا کریں گے۔نعمان نے سفری اخراجات کے لیے رقم لینے سے انکار کردیا کیوں کہ وہ ان کا فیملی فرینڈ تھا۔ اس نے البتہ یہ شرط رکھی کہ رومینہ اس کے ساتھ جائے گی۔ جس کی مکمل حفاظت کا ذمہ اس کا ہوگا۔اس لیے کہ ان سے مل کر بوبی کو اطمینان دلانے کو کوئی تو ہو۔
اس کی امی کو رومینہ کے ساتھ اس پیچیدہ صورت حال میں بھیجے جانے پر شدید اعتراض تھا مگر جب خرم ماموں اور زیبا نے انہیں رو رو کر اور نعمان کے اعلیٰ کردار کی ضمانت دی تو وہ پسیج گئیں۔بھائی کے اکلوتے بیٹے کی جان کی حفاظت کا مسئلہ تھا۔خالہ نے بھی انہیں باور کرایا کہ ” نعمان اور آفتاب نے یہاں ان کے ساتھ ایسا عمدہ اور شریفانہ برتاؤ رکھا ہے کہ کیا کوئی سگا بھائی اپنی بہنوں کے ساتھ رکھے گا۔وہ رومینہ کے بارے میں انہیں یقین دلاتی ہیں کہ وہ نعمان سے اس کی حفاظت اور حرمت کی مکمل گارنٹی کے ساتھ ہی اسے اس کے ساتھ بھیجیں گی”۔

جاری ہے
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں