تعلیم یافتہ۔۔۔۔محمد اقبال دیوانؔ/قسط4

شہر کی ایک مشہور پبلک یونی ورسٹی کے ایام وابستگی سے منسلک سچے واقعات سے جڑی ایک جھوٹی کہانی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ
اتوار کے دن اس کی بیماری کو چوتھا روز لگ چکا تھا۔اس عرصے میں اسے نعمان کے کئی پیغامات ملے۔جن میں ڈاکٹر کی تبدیلی سے لے کر اس کے بخار کے حوالے سے اپنی فکر کے کئی حوالے تھے۔ دو ڈھائی بجے اس کے گھر جویریہ بھی آگئی۔جس نے اسے بتایا کہ چار بجے کے قریب فرقان بھائی،تابش بھائی اور نعمان کے بھی اس کی مزاج پرسی کے لیے کچھ دیر بعد آنے کے امکانات ہیں۔
مہمانداری کے تکلفات سے نمٹنے کے لیے اس کی امی نے اپنی چھوٹی بہن اور رومینہ کی دوستوں جیسی خالہ  زیبا  کو بلالیا جو اپنی بوڑھی والدہ جن کو گھٹنوں میں شدید درد کی وجہ سے دوسری منزل پر واقع اس فلیٹ کی سیڑھیاں اترنے چڑھنے میں خاصی دقت ہوتی تھی ۔
ان کے ساتھ ایک گلی چھوڑ کر ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔انہیں طلاق ہوچکی تھی ۔ ان کی شادی بھی ان کے بڑے ماموں اور بوبی کے ابو کی جلد بازی سے الیکٹرانک  مارکیٹ کے ایک چالیس سالہ امپورٹر سے ہوئی تھی جس نے ان سے جھوٹ بولا تھا کہ اس کی پہلی بیوی سے پنجاب کے شہر جہلم میں دو سال پہلے طلاق ہوچکی تھی۔
نیا آغاز
۔۔۔۔۔
اس کی خالہ کا شمار بلاشبہ بآسانی حسین عورتوں میں کیا جاسکتا تھا۔شادی کے تین ماہ بعد اس کی بیوی بھی پہنچ گئی۔ساتھ تین عدد بچے بھی تھے۔اس پر بڑا کھٹراک(کراچی کی زبان میں ہنگامہ) ہوا۔ یوں بھی وہ بزنس مین عرق انساء امراض قلب و گردہ اور جانے کن کن بیماریوں میں مبتلا تھا ۔ اس کی خالہ کے بموجب اس کی سپرم کاؤنٹ بھی بہت کم تھی اس لیے اس میں بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی معدوم ہوچکی تھی۔خالہ  زیبا  کو اپنے بھائی کی اس نادانی کی وجہ سے اپنی شادی خراب ہونے کا غصہ بھی  بہت تھا اور قلق بھی۔وہ اپنے میاں کو اکثر طعنہ دیتی تھی کہ ” اسے لگتا ہے اس کی شادی سول ہسپتال سے ہوگئی ہے”۔جس کی وجہ سے دونوں میں اکثر جھگڑا ہوجاتا تھا۔
نعمان کے آنے سے پہلے ہی سر مجاہد اور تابش بھائی آگئے۔ ان دونوں کا گھر حیدری مارکیٹ کے پاس ہی تھا۔وہ کچھ دیر بیٹھ کر ادھر اُدھر کی باتیں کرکے چلے گئے تو آدھے گھنٹے بعد ہی فرقان بھائی،شگفتہ ، آفتاب اور نعمان آگئے۔ نعمان اس کے لیے پھولوں کا گلدستہ اور ای ایل جیمز کی مشہور بیسٹ سیلر کتاب” ففٹی شیڈز آف گرے “لایا تھا۔رومینہ نے اس کتاب کے ریوو ز انٹر نیٹ پر  پڑھے تھے۔ وہ بتارہا تھا کہ یہ کتاب چار کروڑ کی تعداد میں دنیا کی 37 زبانوں میں چھپ چکی ہے۔رومینہ کو لگا کہ اس کتاب کو لانے میں اس کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے کیوں کہ اس کی کہانی ایک ذہین اور حسین نوجوان لڑکی Anastasia Steele اور ایک بے حد مالدار بزنس مینChristian Grey. کے ایک ایسے رومانس کے گرد گھومتی ہے۔جس میں جنس کے حوالے سے اپنی محبوبہ کو ایک باقاعدہ باہمی معاہدے کی روشنی میں اس کی رضاو رغبت سے جسمانی آزار پہنچانے کی وہ باتیں قلمبند کی گئیں جن سے پاکستانی جوڑوں کی ایک بڑی اکثریت تا حال نا آشنا ہے۔رومینہ اس کتاب کے تحفے سے کچھ پریشان تو ضرور ہوئی مگر اس نے شکر ادا کیا کہ کم از کم اس کے گھر میں انگریزی ادب کا مطالعہ کوئی نہیں کرتا ورنہ بلاوجہ کی مصیبت کھڑی ہوجاتی۔

fifty shades of grey

ففٹی شیڈز آف گرے کی مصنفہ،ای ایل جمیز

نعمان اس کے ابو اور امی دونوں کو بہت اچھا لگا۔ آفتاب نے البتہ اس کی خالہ زیبا  کو جی بھر کے دیکھا ۔ رومینہ کو لگا اس حرکت کا شگفتہ نے کچھ برا بھی مانا۔ اسی نے وہاں سے جلدی واپس جانے کی دو دفعہ سے زیادہ ضد بھی کی ۔نعمان کے بارے میں اس کا اندازہ درست ثابت ہوا۔ان کے چلے جانے کے بعد جب اس گروپ کے بارے میں گھر میں تذکرہ ہوا ۔اہل خانہ کے شگفتہ کے بارے میں تبصرے خاصے محتاط سے تھے۔اس کی امی کا خیال تھا کہ وہ ایک مالدار آدمی کی رکھیل یا شاید بیوی ہے۔ اس کا خاندانی پس منظر یقیناً ذرا ناگفتہ بہ ہے۔ اس میں سوائے گلیمر کے کچھ اور خوبی نہیں۔ نعمان البتہ ایک جہاں دیدہ سلجھا ہوا اور رکھ رکھاؤ والا مرد ہے۔اس کے ابو سے تو ایسے گفتگو کر ر ہا تھا۔ جیسے دونوں ایک دوسرے کو مدتوں سے جانتے ہوں۔رومینہ نے نوٹ کیا کہ ان کی زیادہ تر گفتگو کرکٹ، ہندوستانی موسیقی اور کاروباری معاملات کے متعلق تھی۔ ان سے یا اس کی امی سے گفتگو کرتے ہوئے اس نے ایک دفعہ بھی رومینہ کی جانب نظر نہ ڈالی۔ اس کی یہ احتیاط رومینہ کو بھلی لگی۔
اس نے دعوت دی کہ رومینہ اور اس کے ابو شارجہ میں جو عنقریب پاکستان اور نیوزی لینڈ کی کرکٹ سیریز ہونے والی ہے وہ اسے دیکھنے دوبئی اس کے مہمان بن کر آئیں۔ اس کے ایک دوست کا ایسے میچوں میں اپنا مہمانوں کا کارپوریٹ بکس ہوتا ہے۔ کرکٹ میچوں کے دوران وہ بھی اکثر وہیں ہوتا ہے۔ اس کا جمیرہ بیچ پر اپنا ولا ہے۔ وہ وہاں قیام کریں۔ اس کا اور آفتاب بھائی کا وہاں کنسٹرکشن کا بڑاکام ہے۔آج کل وہاں اس حوالے سے بڑی بوم آئی ہوئی ہے۔ رومینہ کو ڈر تھا کہ  کہیں وہ انہیں ٹکٹ کی پیش کش بھی نہ کردے ۔ا یسا ہوا تو س کے والدین بلاوجہ الرٹ ہوجائیں گے۔
ان کے جانے کے بعد جب اس کے ماموں بھی ان کے گھر آگئے۔رومینہ نے نعمان کی احتیاط پسندی اور اپنے گھرانے میں مقبولیت کے اعتراف کے طور پر اسے پیغام بھیجا کہ ” Thank You for being so proper and endearing to all.”( آپ کا شکریہ کہ  آپ کا رویہ بے حد معقول اور سب کے  لیے  پسندیدہ تھا۔) جس کے جواب میں اس نے مشہور امریکی گلوکارہ سلینا گومیز کے گیت کے بول لکھ کر بھیج دیے
I love  you like a love song, baby
And I keep hittin’ repeat-peat-peat-peat-peat-peat

selena gomez
dubai cricket club
دوبئی شارجہ کی کرکٹ

ایک تو وہ پہلے ہی اس کی کتاب کے انتخاب سے ہراساں تھی۔ اس پر یہ بول پڑھ کر تو وہ گھبرا سی گئی اور بخار ہونے کے باوجود چادر اوڑھ کر لیٹ گئی البتہ اس نے اپنے آئی پوڈ پر یہ گانا کئی دفعہ سنا۔ اس کی ترنگ اور بیٹ نے اسے بہت مزہ دیا۔تھوڑی دیر بعد اس کی خالہ اس کے کمرے میں آگئیں اور اس سے وہی روداد ایک بار پھر سنانے کی فرمائش کی جو اورنگ زیب کی باتوں اور فون پر دیکھی گئی تصاویر کو دیکھ کر اس نے اپنی امی کو سنائی تھی۔رومینہ نے پہلے تو سوچا کہ وہ اسے دہرادے مگر اس نے یہ سوچ کر ایسا کرنے سے احتراز کیا کہ اس سے سلینا گومیز کے گیت کا مزہ کرکراہوجاتا۔ اب جو کچھ سنا اور دیکھا اسے تبدیل تو نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اس نے خالہ کو صرف اتنا کہا کہ ” بات وہی ہے جو اس نے امی کو ان کے سوالات کے جواب میں بتائی تھی۔ وہ اگر اس کی مزید تصدیق چاہتی ہیں تو اورنگ زیب سے پوچھ لیں”۔ اورنگ زیب کی طلبی ہوئی مگر وہ در پیش خطرے کو بھانپ گیا تھا لہذا اس نے وہ تصاویر اپنے ابو اور دونوں پھوپھیوں کے سامنے لعن طعن سے بچنے سے پہلے ہی اپنے فون سے غائب کردی تھیں۔
اس کے ابو نے خاندان میں پیش آنے والی ٹوٹ پھوٹ سے بچنے کے لیے ایک تو ان دونوں بہنوں کو یہ سمجھایا کہ ” مرد تو باہر جاکر ایسی حرکتیں کرتے ہی ہیں۔وہ بہت آزاد معاشرے ہیں۔ یہاں پر بھی صورت حال کچھ مختلف نہیں۔ وہ چونکہ دنیا تجارت سے جڑے ایک کاروباری مرد ہیں لہذا انہیں دولت کی آوک جاوک کی وجہ اس بات کا بخوبی اندازہ ہے کہ یہاں بھی خواتین کے ساتھ ان لڑکوں کے کس طرح کے سمبندھ ہیں۔ وہ اب اورنگ زیب کے چین جانے پر پابندی لگا دیں گے۔ نہ ہوگا بانس نہ بجے گی بانسری۔گونگ لی اب خود ہی وہاں کوئی دوسرا مرد ڈھونڈ لے گی” ۔
رومینہ کی امی نے البتہ انہیں جتلایا کہ ” اس کی انہی  حرکتوں کے انکشاف کی وجہ سے ان کی پھول سی بچی کو روگ لگ گیا ہے اور اس نے بستر پکڑلیا ہے” ۔انہیں اس بات کا کوئی علم نہیں تھا کہ نعمان ان کی شہزادی کو کس طرح کی کتاب بستر علالت میں پڑھنے کو دے گیا تھا ۔ اس پھول سی بچی نے اس کے پیغام کے جواب میں سلینا گومیز کا کون سا گیت بار بار چادر اوڑھ کر اپنے آئی پوڈ پر سنا تھا۔ بڑے بھائی نے جب یہ اصرار کیا کہ ” خاندان کا لڑکا ہے۔ اس کی ایک غلطی کی وجہ سے کوئی انتہا پسند رویہ اختیار کرنے سے بہن بھائی کے رویے میں کشیدگی آجائے گی۔ اچھے رشتے ملتے کہاں ہیں؟! ” جس پر طوبیٰ خالہ نے ایک چھوٹی سی تقریر جھاڑ دی کہ ” بھائی جان کوئی دیکھ بھال کر تو گندگی منہ  میں نہیں ڈالتا۔اب وہ زمانے گئے کہ لڑکی ایک دفعہ ماں باپ کا گھر چھوڑتی تھی تھی شوہر کے گھر سے مر کر ہی نکلتی تھی۔اب تو لڑکیاں بھلے سے پانچ سال کورٹ شپ کریں لڑکے کی یا سسرال والوں کے ساتھ ذرا سی ان بن پر ہی چوتھے مہینے خلع مانگ لیتی ہیں اور کم بخت اللہ ماریاں عدت بھی نہیں کرتیں۔رومینہ اورنگ زیب سے زیادہ پڑھی لکھی ، سمجھ دار اور دیدہ زیب لڑکی ہے۔ رہ گئی بات رشتوں کی تو وہ تو آسمان میں بنتے ہیں۔ اس کے نصیب میں جو بھی ہوگا وہ مل ہی جائے گا۔ شادی کے بعد کوئی بدمزگی ہو اس سے بہتر ہے کہ وہ اپنے کاروبار کے پھیلاؤ کو نہ روکیں۔ بوبی کو چین جانے دیں۔گونگ لی کو وہ پہلی بیوی بناتا ہے یا دوسری وہ اس کا فیصلہ ہوگا۔ آپ نے میری شادی کے معاملے میں بھی کوئی احتیاط نہ کی تھی۔آپ پرانے خیالات کے آدمی ہیں۔آپ کو عورتوں کے جذبات اور مجبوریوں کا کچھ پتہ نہیں۔ آپ نے سوچ رکھا ہے کہ ایک دفعہ شادی ہوجائے پھر ہر چیز خو بخود ٹھیک ہوجائے گی۔ ” ۔
رومینہ کی خالہ اور امی تو اس  بے تکے فضیحتے میں ایک طرف تھیں تو ان کے بھائی جان اور اس کے ماموں دوسری طرف۔بوبی البتہ سر نیہوڑائے ہوئے بھیگی بلی بنا بیٹھا تھا۔ جب اس کے ابو نے پوچھا کہ” یہ بوبی کون ہے؟” تو رومینہ کی امی نے اسی کا فقرہ ایک زہریلے طنز کے ساتھ یہ کہتے ہوئے دہرادیا کہ ” اپنے اس لخت جگر سے پوچھیں میری مینو کو اس نے کہا تھا اورنگ زیب کو گونگ لی بوبی کہتی ہے۔ان چینیوں کے لیے اور نگ زیب ایک مشکل نام ہے۔ ” اس کے ابو نے اسے کس کر ایک چانٹا رسید کیا اور غصے سے پوچھا ” حرامزادے سچ بتا وہ تیری گونگ لی ،پھونگ لی .سالی وہ تیری پرانی مونگ پھلی ،تجھے بوبی کہتی ہے ؟! ” تو اس نے اثبات میں سر ہلادیا ۔غصے سے تلملاتے ابو ممکن تھا کہ   اسے ایک آدھ دھول اور جماتے چھوٹی بہن یہ کہہ کر بیچ بچاؤ کرنے آگئی کہ ” ہے ہے بھائی جان جوان اولاد ہے بے چارے پر ہاتھ تو نہ اٹھائیں۔مرد تو باہر جاکر ایسی حرکتیں کرتے ہی ہیں۔” مار دھاڑ کی آوازیں سن کر سبرینا اس کا بھائی عماد اور رومینہ کے ابو بھی کمرے میں آگئے اور چادر اوڑھے رومینہ بھی آگئی۔
چھوٹے دونوں بچوں کو تو اوپر بھیج دیا گیا مگر اس کے ابو کی موجودگی کی وجہ سے اس کے ماموں نے رومینہ سے پوچھ لیا کہ ” اس نے اسے واقعی گونگ لی کے ساتھ والی تصویریں دکھائی تھیں؟” تو رومینہ نے کہا ” بڑے معتبر بن کر سامنے بیٹھے ہیں پوچھ لیں کہ انہوں نے بنکاک کی شام کی انگلش میں کیا وولگر (Vulgar) باتیں اترا اترا کر کی تھیں اور وہ نائیٹی کے کلوز اپ والی تصویر تو میں آپ کو اپنے آئی فون پر دکھاتی ہوں اگر انہوں نے ڈی لیٹ کردی ہے تو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ میں نے ان کی عزّت  رکھنے کے لیے اپنی امی کو بھی یہ سب کچھ نہیں بتایا تھا۔ اس لیے کہ یہ موصوف جب مزے لے لے کر اپنی بنکاک اور چین کی واردتیں سنا رہے تھے میں نے چپ چاپ تینوں تصویریں اپنے فون پر ایم ایم ایس  کردی تھیں اور بعد میں میسج سینٹ کو ڈی لیٹ بھی کردیا تھا تاکہ ان بھائی صاحب کو کچھ پتہ نہ چلے” ۔یہ پہلا موقع  تھا کہ اس نے بوبی کو بھائی صاحب کہا تھا۔ ایک خالصتاً مشرقی لڑکی ہونے کے ناطے وہ اس کا نام کبھی بھی نہیں لیتی تھی۔ اس کا فون اوپر سے منگواکر جب وہ تصویریں دیکھی گئیں تو اس کے ابو نے انگریزی میں کہا ” Khurram Bhai from our side the party is over.”۔جس پر ا ن کی چھوٹی بہن زیبا نے کہا ” ہمیں خبر نہ تھی کہ ہمارے گھر کو گھر کے چراغ سے ہی آگ لگ جائے گی” ۔
سب چلے گئے تو رومینہ نے سونے کے لیے جب اپنی نائٹی تلاش کی تو نہ ملی۔وہ یہ سوچ کر کہ ممکن ہے رات میں اس کا بخار تیز ہوجائے اور اس کے ابو امی کو اوپر آنا پڑے وہ اپنا پاجامہ سوٹ پہن کر ہی سونے کی کوشش کرنے لگی۔نعمان کے کئی پیغامات ٹیکسٹ کی صورت میں اس کے فون پر موجود تھے جو اس نے ایک ایک کرکے کئی دفعہ پڑھے۔ آخر کار اسے فیض احمد فیض کا   ایک شعر  بطور جواب بھیج دیا کہ ع
رفیقِ راہ تھی منزل، ہر تلاش کے بعد
چھٹا جو ساتھ تو راہ کی تلاش بھی نہ رہی
ملول تھا دلِ آئینہ، ہر خراش کے بعد
جو پاش پاش ہوا تو خراش بھی نہ رہی۔
ایک اور پیغام اس کا جواب آنے سے پہلے ہی اس نے ایک اضافی جملے کے ساتھ یہ بھی بھیجا جو دراصل اس کے بوبی سے رشتے کے خاتمے کا اس کے ابو کے الفاظ میں اعلان تھا کہ ” from our side the party is over.” نعمان جسے وہاں سے واپس آجانے کے بعد ہونے والی کاروائی کا کوئی علم نہ تھا وہ اس دوسرے پیغام کا رخ اپنی جانب موڑ بیٹھا اور سلینا گومیز کے گیت کے جو بول اسے لکھ کر بھیجے تھے، اس جملے سے جوڑ کر پریشان ہوگیا اور اسے معافی کے ساتھ صرف اتنا لکھا کہ میں نے تو آپ کو صرف ایک مشہور گیت کے بول بھیجے تھے۔
رومینہ نے اس پیغام کا کوئی جواب نہ دیا البتہ رات کے پچھلے پہر نہ جانے اس کا دل کیوں چاہا کہ وہ جاکر اپنی امی کے پاس سوجائے۔وہ نیچے گئی تو اس کے امی ابو کمرے میں موجود نہ تھے وہ انہیں تلاش کرتی کرتی پچھلے ورانڈے کی طرف خاموشی سے بڑھی تو اس نے ہلکی روشنی میں دیکھا  کہ اس کی امی اس کی نائٹی پہنے ایک بڑے سے پرانے بیڈنما صوفے پر اس کے  ابو کے سینے پر سر رکھے سسکیاں لے رہی ہیں اور اس کے ابو انہیں تھپتھپاتے ہوئے آہستہ آہستہ کہہ رہے ہیں ” Baby

وہ بہت خاموشی سے اپنے کمرے میں لوٹ آئی۔ اسے لگا کہ بخار تیز ہوچکا ہے اس نے گھبراکر نعمان کو وہی میسج بھیج دیا۔۔۔” Oh hide me Nomi Darling …….and I love you like a love song, baby
And I keep hittin’ repeat-peat-peat-peat-peat-peat
اس کا خیال تھا کہ رات کے دو بجے ہیں وہ سوگیا ہوگا مگر دو منٹ بعد ہی اسے بھی ایک پیغام موصول ہوا جس میں درج تھا کہ 147Love is not blind; it simply enables one to see things others fail to see(پیار اندھا نہیں ہوتا۔ پیار تو وہ آپ کو سب کچھ دیکھنا سکھاتا ہے جو دوسرے دیکھنے سے قاصر ہوتے ہیں)
رومینہ کو اس کا یہ جواب بہت ہی اطمینان بخش لگا ۔
اس کا بخار بہت تیز ہوچکا تھا ۔ آج کی اس دھینگا مشتی میں اس کی بہن پانی کی ٹھنڈی بوتل بھی کمرے میں رکھنا بھول گئی تھی۔ اس نے سیڑھیوں پر آکر اپنی امی  کو پانی کی آواز لگائی تو جواب آیا رکو میں اوپر پانی لاتی ہوں۔ان کا جواب سن کر رومینہ مسکرادی۔وہ آئیں تو ہاتھ میں پانی کی  بوتل تھی۔ وہ اسے لے کر نیچے آگئیں اور عماد کو ابو کے پاس بھیج کر خود اس کے بستر پر رومینہ کو لے کر لیٹ گئیں انہوں نے شام کے واقعے پر صرف اتنا کہا کہ وہ یہ تصویریں نہ دکھاتی تو اچھا تھا۔ ایک تو اس کی وجہ سے بھائی جان بالکل ہی ٹوٹ گئے۔کچھ تیزی اس گرم مزاج زیبا بیگم نے پہلے ہی دکھادی تھی آخری کیل اس کے ابو نے یہ اعلان کرکے کہ” Khurram Bhai from our side the party is over.”۔ ٹھونک دی۔
ثوبیہ بھابھی کو اب اپنی بھانجی بوبی کے ساتھ منسوب کرنے میں آسانی ہوجائے گی۔میں نے سوچا تھا کہ مینو تو ایک خوش حال اور دیکھے بھالے گھرانے میں جائے گی۔ بوبی کی بڑی بہن تو خیر سے اپنے گھر کی ہے۔ ان کے گھر پر تیرا راج ہوتا۔ ” مرد تو باہر جاکر ایسی حرکتیں کرتے ہی ہیں۔وہ بہت آزاد معاشرے ہیں۔دنیا میں کونسا مرد ہے۔ بندروں کا ہو، مرغیوں کا ہو کہ بلیوں کا مرد ہو جو ایک مادہ سے لگ کر گزارا کرے”۔
رومینہ کو اپنی امی کی یہ وضاحت کچھ بہت پسند تو نہ آئی مگر وہ اس خیال سے چپ رہی کہ انہیں بوبی کا رشتہ ختم ہونے سے زیادہ اپنے بھائی اور گھرانے کے سامنے شرمندگی کا احساس ندامت روند رہا ہے۔اب جانے ان کے تعلقات کب نارمل ہوں۔
رومینہ پورے ڈیڑھ ماہ بستر سے لگی رہی۔اس دوران اس کے سمیسٹرز کے امتحانات بھی ہوگئے ،جن میں وہ اپنی صحت کی خرابی کی وجہ سے شرکت سے محروم رہی۔اس کا اسے ملال تو بہت تھا مگر اب نعمان کی وجہ سے اس کا دل نصابی تعلیم سے تقریباً اٹھ چکا تھا۔ اس نے اسے اس دوران بہت سی کتابیں لا کر دیں۔ان میں کچھ تو اس کی فرمائش پر وہ لایا تھا۔جاپانی ادیب ہاروکی مراکامی اسے اچھا لگتا تھا اس کی دو تین کتابیں وہ اپنی مرضی سے لایا۔اسی طرح ہندوستانی ادیبہ جھمپا لہری کی Unaccustomed Earth, The Namesake, and Interpreter of Maladies. بھی وہی اپنی پسند سے لایا۔اسے جھمپا لہری کا طرز تحریر بہت اچھا لگا بالخصوص اس کی Interpreter of Maladies. اسے بہت ہی اچھی لگی۔وہ کرداروں کی روح میں اتر کر لکھتی ہے۔اس کی کہانیوں میں لرزاں ایک خاموش سی اداسی شاید ان دنوں اس کے موڈ کے بہت قریب تھی اس لیے بھی جھمپا لہری اسے کچھ زیادہ ہی اچھی لگی۔

جھمپا لہری
ہاروکی مراکامی

جس دن رومینہ نے غسل صحت کیا وہ شام کو ان کے گھر آگیا۔اس کی مرضی تو تھی کہ سب گھر والے باہر کسی ریستورانٹ میں کھانا کھاتے مگر پھر فیصلہ یہ ہوا کہ اس کی بہن سبرینا، اس کا بھائی عماد اور ان کی خالہ اور ابو ساتھ جائیں گے ۔امی اپنی والدہ کی تیمارداری کے لیے خالہ زیبا کی جگہ آج شام ان کی غیر موجودگی میں ڈیوٹی دیں گی۔ راستے میں آفتاب بھائی کا فون آیا تو وہ انہیں بھی دعوت دے بیٹھا۔اس نے کہا سب گھر ہی کے لوگ ہیں۔رومینہ بیماری کے بعد بہت نقاہت محسوس کر رہی تھی۔کھانا ایک بڑے سے ہوٹل کا چائنیز تھا۔ دوران طعام رومینہ کو لگا کہ اس کی خالہ کو آفتاب کچھ زیادہ ہی اچھا لگا ہے۔ دونوں نے بہت احتیاط سے رومینہ کے ابو سے بچ بچا کر ایک دوسرے کو اپنا سیل فون نمبر بھی دے دیا۔
خالہ نے شگفتہ کے بارے میں دو تین چبھتے ہوئے سوالات بھی کیے۔جس کا جواب اس نے بہت رکھ رکھاؤ سے دیا ۔ وہ ایک عرصے تک ان کے ہاں کام بھی کرتی تھی۔اس میں دل چسپی بھی لیتی تھی مگر اس کے ساتھ Excess Baggage( ہوائی جہاز کے سفر میں اضافی سامان) بہت تھا۔تین بہنیں دو چھوٹے بھائی ماں، باپ۔ وہ ایک لڑکی کی وجہ سے پوری فیملی گود لینے کے حق میں نہ تھا۔ وہ ایک ایسی بیوی کا متلاشی ہے جو آؤٹ گوئنگ ہو، سمارٹ ہو اور اس کے کاروبار میں اس کی معاونت بھی   کرسکے۔
اسی آؤ ٹنگ میں نعمان نے آج سے ٹھیک ایک ماہ دس دن بعد شارجہ میں شروع ہونے والی پاکستان نیوزی لینڈ سیریز کی دعوت بھی دے ڈالی اس کے لیے وہ اپنے پاس پورٹ وغیرہ بنا لیں۔ ہماری باجی زیبا ،رومینہ بے بی تو لازماً چلیں گی۔صولت بھائی(رومینہ کے ابو) تو میرے خاص مہمان ہوں گے۔زیبا کو اس کا باجی کہنا تو اچھا نہ لگا مگر رومینہ نے سمجھایا کہ نعمان انکل کو مذاق کی زیادہ ہی عادت ہے۔
واپسی پر ان کے ہاں عجیب سا پر لطف کہرام اس سفر کی دعوت پر مچ گیا۔زیبا بیگم اور رومینہ تو کبھی ہوائی جہاز میں بھی نہیں بیٹھی تھیں ۔ رومینہ کی امی کو اس کے ساتھ جانے پر اعتراض تھا۔ یونی ورسٹی ان دنوں کھلی ہوئی تھی۔ وہ چاہتی تھیں کہ رومینہ، تابش بھائی کی مدد سے اپنے سمیسٹرز والے معاملے کو ٹھیک کرلے اور اپنی پڑھائی پھر سے شروع کردے۔
بوبی سے رشتہ ختم ہوجانے کے باعث وہ اب اس کی طرف سے زیادہ ہی پریشاں تھیں۔ وہ چار ماہ بعد پورے بائیس برس کی ہونے والی تھی۔ان کے نزدیک لڑکیاں منڈی کی سبزی ہوتی ہیں ۔صبح کو بھاؤ بہت تیز ہوتے ہیں۔ شام کو کوئی پوچھتا بھی نہیں۔ ان کے حساب سے منڈی کی یہ شام لڑکی کو پچیسواں برس لگنے کے بعدشروع ہوجاتی تھی ۔ خالہ زیباکو ہی دیکھ لو کیا کمی تھی اس میں، خوبصورت، تعلیم یافتہ،گھرانہ اچھا، اولاد اور دیگر رشتہ داروں کی ذمہ داریوں کے حوالے سے Excess Baggage کوئی نہیں۔ عمر بھی مشکل سے تینتیس برس تھی مگر اس کی طلاق کے بعد دو تین عام سے رشتے آئے اور پھر ایک چپ سی لگ گئی۔ رومینہ کے ابو ان کے خیالات سے متفق نہ تھے۔ ان کی ضد تھی کہ ایک تو بچیوں نے جہاز کا سفر بھی نہیں کیا۔ دوبئی بہت عمدہ جگہ ہے ایک ڈیڑھ ہفتے یونی ورسٹی سے غائب رہنے سے کوئی آسمان نہیں ٹوٹ پڑے گا تابش بھائی کا اسے امتحان دلانے والا آپشن تو اپنی جگہ موجود ہیں۔
اس بحث و تمحیص کا یہ نتیجہ نکلا کہ رومینہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے سمیسٹرز والے معاملات تابش بھائی کی مدد سے ٹھیک کرلے گی۔ ڈاکٹر صاحب کا مشورہ تھا کہ کم از کم پندرہ بیس دن اور رومینہ یونیورسٹی نہ جائے۔ وہاں نہ پانی کا انتظام ہے ، نہ ٹوائلیٹس کا،کھانا پینا بھی وہاں کچھ ایسا معیاری نہیں۔ٹائفائڈ کے بخار کے دوبارہ لوٹ آنے کے امکانات دو سے چار ہفتے تک بہت قوی ہوتے ہیں ۔
بہتر ہوگا کہ رومینہ چونکہ ایک جذباتی صدمے کے نتیجے میں اپنی کمزور قوت مدافعت کے باعث اس بیماری کا شکار ہوئی تھی ، حالانکہ اس دن چاٹ اور جوس کا استعمال تو اس کے دوسرے ساتھیوں نے بھی کیا تھا وہ تبدیلی آب و ہوا کے لیے کہیں باہر چلی جائے۔غالباً اس کی امی نے ڈاکٹر کی تجویز پر ہی اسے اس گروپ کے ساتھ جانے کی اجازت دی۔
رومینہ جس دن اپنے امتحان میں بیماری کی عدم شرکت کی وجہ سے خصوصی امتحان کی اجازت لینے تابش بھائی کے ہمراہ شعبہء امتحانات پہنچی۔ تابش بھائی کا برا حال تھا، بے ساکھی کے سہارے چل رہے تھے، چہرہ بھی کچھ سوجا ہوا تھا۔درد سے ہلکے ہلکے کراہ بھی رہے تھے۔جویریہ کے پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ دو دن پہلے ان کا ایک گروپ سے جھگڑا ہوگیا تھا۔ اسی میں یہ چوٹیں لگی ہیں۔ کنٹرولر صاحب نے صرف ایک شرط سامنے رکھی کہ اگر شعبہ ء انگریزی کے سربراہ اجازت دے دیں کہ رومینہ کے لیے وہ امتحان لینے پر پر رضامند ہیں تو پھر شعبہء امتحانات کو مروجہ طریقہ کار کی روشنی میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
شعبے کے سربراہ پروفیسر اویسی، مذہبی رجحانات کے آدمی تھے۔کیٹس اور لارڈ بائرن کی شاعری میں بھی اسلامی تصوف کی کھوجتے رہتے تھے۔ اس حوالے سے ان کی توجیہات اس قدر درو افتادہ
ہوتی تھیں کہ برطانیہ کی جامعات ان کے خیالات اگر سن لیتیں تو پاکستان میں انگریزی شعرا کیٹس اور لارڈ بائرن کی شاعری پڑھانے پر مستقل پابندی کا مطالعہ اپنی حکومت سے ضرور مطالبہ کرتیں۔سر مجاہد جن کی ان سے بالکل نہیں بنتی تھی اس لیے کہ وہ تابش بھائی کے گروپ کے آدمی تھے ان کی اس کھوج پر ان کا کھلے عام یہ کہہ کر مذاق اڑاتے تھے کہ “بڈھا ، بے راہ رو پروفیسر سالا عطر کی دکان پر نہاری خریدنے پہنچ جاتا ہے”۔
تابش بھائی کی پارٹی کے حوالے سے انہیں پوزیشن کا پتہ تھا۔جب رومینہ ان کے ساتھ ان کے دفتر میں پہنچی تو انہوں  نے پہلے تو رومینہ کو یہ کہہ کر شرمندہ کرنے کی کوشش کی کہ ” اسے بھی اپنا جائز مدعا بیان کرنے کے لیے سیاسی سہاروں کی ضرورت ہے؟”۔ ان کے اس اعتراض کو سن کر تابش بھائی نے کہا کہ” یہ ہماری سیاسی رفیقہ ہیں، ہمارے سیاسی قائدین کے نظریہء مساوات اور علم دوست پروگراموں کی مکمل تائید کرتی ہیں” ۔ رومینہ کو لگا کہ اب سیاسی تقاریر اور کھوکھلے پروپیگنڈے کا دونوں طرف سے وہ بھر پور اور بے معنی آغاز ہوگا کہ اللہ کی پناہ۔ اس کا اندازہ بالکل درست نکلا۔ سر اویسی کا اگلا سوال یہ تھا کہ” کیا رومینہ ان کی پارٹی کی باقاعدہ رکن ہے؟ “تابش بھائی ان کے اس سوال پر سیخ پا ہوگئے۔ انہیں پتہ تھا کہ یونیورسٹی میں سیاسی تقسیم بہت واضح اور منتقمانہ تھی۔ ہر طرف کے کارکنان اور ہمدردان کا باقاعدہ حساب رکھاجاتا تھا۔ سیاسی بدلے امتحانات کی پوزیشن اور دیگر ملازمتوں میں کھل کر لیے جاتے تھے۔داخلے میرٹ پر نہ ہونے اور سستی اعلی تعلیم ہونے کی وجہ سے ہر طرح کا طالب علم یونی ورسٹی میں گھس جاتا تھا۔ ورنہ پرائیوٹ جامعات بھی تو تھیں۔ مجال ہے وہاں کوئی اپنی تعلیم کے علاوہ کسی اور حوالے سے اپنے اثر و رسوخ کا مظاہرہ کرپائے۔
تابش بھائی نے بہت آہستگی سے پروفیسر اویسی کو جواب دیا کہ” باقاعدہ اور القاعدہ آپ کی اچھرہ والی جماعت میں ہوتا ہے۔ ہماری تحریک اس طرح کے امتیازات اور تفرقوں سے پاک ہے۔ ہمارے ہاں ایک عام کارکن اور بڑے سے بڑے وزیر کی رائے کی برابر اہمیت ہے۔تنظیم سے وابستہ لوگوں میں کوئی بھی کہہ نہیں سکتا کہ کون باقاعدہ کارکن ہے اور کون بے قاعدہ۔ہم میں کسی کو اگر ہمارے قائدین عہدہ دینا چاہیں تو انہیں بھی آخر وقت تک پتہ نہیں ہوتا کہ ہمارے بڑوں کی نظر میں کون بڑا ہے۔آپ کو کیا پتہ کل کو یہ آپ کی ہونہار شاگرد اور ہماری باجی رومینہ، صوبے کی وزیر تعلیم بنی ہوئی ہوں اور آپ ان کے دفتر کے باہر بیٹھے ہوں۔ہمارے ایک ساتھی رات کو کسی ٹھیلے پر اپنے سالے کے ساتھ برگر فروخت کررہے تھے ۔جب انہیں پارٹی کی جانب سے وزیر زراعت بنانے کا فیصلہ کیا گیا۔ انہیں صبح کو حلف لینا پڑگیا۔حیدرآباد میں ہمارے رشید بھیا گنے کے ٹھیلے کی مشین پر جوس نکال رہے تھے جب انہیں ڈپٹی میئر بنادیا گیا۔وہ بے چارے تو اردو اخبار بھی الٹا پڑھتے تھے”۔

اس دوران تابش کی بے ساکھی گر پڑی اور وہ اسے اٹھانے کے لیے جھکنے لگا اور درد سے ایک زور دار آہ نکلی تو سر اویسی نے کہا” اگر وہ ایک اجازت دے تو وہ اپنا فیصلہ سنانے سے پہلے ایک چھوٹا سا مذاق کرلیں؟”۔ جب اجازت ملی تو سر اویسی نے پوچھا کہ ” اس کی یہ چوٹیں اور پلاسٹر میں بھی اظہار رائے کی آزادی کے سلسلے کی کڑی ہیں یا روٹین کی کُٹ ہے؟ “تابش بھائی نے جھینپ کر ادھر ادھر دیکھا اور آہستہ سے کہا “سر پارٹی کے اندرونی معاملات کو باہر ڈس کس کرنے کی ہمیں اجازت نہیں۔ سر اویسی نے کہا کہ اچھا یہ تو بتادے کہ وہ وزیر جیل خانہ جات کب بن رہا ہے ۔؟”
“کیوں آپ نے سر مجاہد کو اندر کرانا ہے؟ “تابش نے بھی برابر کی چوٹ کی  فیصلہ یہ ہوا کہ رومینہ چونکہ سمیسٹر شروع ہونے کے پورے ڈیڑھ ماہ بعد اس قابل ہوگی کہ وہ اپنی نئی کلاسز اٹینڈ کرسکے لہذا اپنا یہ امتحان وہ ان دنوں دے جب اس سمیسٹر کا خاتمہ ہو۔جب وہ اس وقت جاری سمیسٹر کی کلاسیں اٹینڈ کرنے آئے گی تو معاملہ صرف سابقہ غیر حاضری کا ہوگا ۔ یہ ڈی پارٹمنٹ کا اپنا معا ملہ ہے یوں وہ بہت ساری غیر ضروری اور پیچیدہ کاروائی سے بچ جائے گی۔
رومینہ اور تابش بھائی کو ان کی یہ تجویز بے حد معقول لگی مگر تابش بھائی نے اٹھتے اٹھتے ایک جملہ پروفیسر اویسی پر کس دیا کہ “سر ۔۔آپ اس دیمک لگی پارٹی کو چھوڑیں۔کیٹس اور لارڈ بائرن کی بجائے ہمارے منشور میں روحانیت اور تصوف کے حوالے دیکھیں۔ باجی رومینہ وزیر تعلیم لگیں گی تو آپ کو فوراً ہی ڈین آف   آرٹس فیکلٹی لگوادیں گی۔ یوں رومینہ کا ایک بہت بڑا مسئلہ باآسانی حل ہوگیا۔ سر اویسی نے البتہ ان دونوں کو جتادیا کہ ” وہ یہ سب اہتمام ان کی پارٹی کے ڈر سے نہیں کررہے بلکہ یہ رعایت محض اس لیے دے رہے ہیں کہ ایک تو رومینہ خود بہت اچھی طالب علم ہے دوسرے اس کا (یعنی تابش کا) اپنا اخلاق بھی پارٹی میں جامعہ کے حوالے سے اتنی اہم پوزیشن کے باوجود پروفیسر صاحبان سے بہت مودبانہ اور سب کے لیے قابل تقلید ہے۔ رومینہ نے آج کی ملاقات میں یہ سبق سیکھا کہ ایک تو اگر کوئی آپ کی مدد کرنا چاہے تو بہت سے راستے کھلے ہوتے ہیں دوسرا یہ کہ آپ کا سیاسی اور نظریاتی اختلاف چاہے جو بھی ہو۔انسانی تعلقات اور روادادری کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔
واپس آن کر اس نے تمام روداد اپنی امی کو سنادی اور ساتھ ہی اپنا یہ فیصلہ بھی سنادیا کہ وہ اب مزید اس سمیسٹرز کے بعد آگے نہیں پڑھے گی بلکہ سر مجاہد کی تجویز کی روشنی میں وہ سی ایس ایس کے امتحان میں بیٹھے گی۔یہ یونی ورسٹی میں اس کا دوسرا سال ہے وہ چاہے تو اس سمیسٹر کے بعد اسے بی۔اے کی سادہ ڈگری مل سکتی ہے۔ اس کی امی کا فی الحال بس اتنا مشورہ تھا کہ وہ اپنے دونوں سمیسٹرز کا امتحان دوبئی سے واپس آن کر دینے کی تیاری کرے۔وہ جب وہاں سے واپس آئے گی تو اس کے پاس پورا ایک ماہ تیاری کے لیے ہوگا لہذا نہ وہ دوبئی جانے سے پہلے وقت ضائع کرے نہ وہاں سے واپس آن کر اپنی توجہ کسی اور جانب مبذول کرے۔دوبئی میں اگر خالہ زیباور آفتاب ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیں تو نعمان کے تعاون سے اس میں ان کی معاونت کرے۔آفتاب کے پاس پیسہ ہے اور وہ لوزر شگفتہ بھی اب اس سے دور ہوگئی ہے۔ وہ کوشش کرے کہ نعمان اسے دوبئی کے دورے میں شامل نہ کرے۔ رومینہ نے انہیں سرگوشی کرتے ہوئے کہا کہ اس کے لیے نعمان کو اعتماد میں لینا ہوگا جو جویریہ اور سارہ اور دیگر افراد کی موجودگی میں تو ممکن نہ ہوگا ۔ اس کے لیے ہوم ورک یہیں سے کرنا ہوگا۔ اسے یقین ہے کہ نعمان اس کی بات پر مکمل دھیان دے گا۔ بس اس کے ساتھ ایک آدھ دفعہ اکیلے ڈنر وغیرہ پر جانا ہوگا۔

اس کی امی رومینہ کی اس تجویز سے پریشان تو ہوئیں اور اس کے نعمان کے ساتھ کے تنہاباہر جانے کے بارے میں اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا مگر جب رومینہ نے انہیں اس کے فیملی فرینڈ اور ایک باوقار شخص ہونے کا یقین دلادیا تو وہ اپنی بہن کے مستقبل کا سوچ کر اس کی تجویز سے متفق ہوگئیں بس ایک تو انہوں نے اس بارے میں اس کے ابو کو کچھ نہ بتانے اور رومینہ  کو احتیاط کرنے کا کہا کیوں کہ ابھی بوبی والی بات بہت تازہ تھی۔وہ نہیں چاہتی تھیں کہ ان کے بھائی کے گھرانے کو اس حوالے سے زبان کھولنے کا کوئی موقع ان کی کسی بداحتیاطی کی وجہ سے مل پائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

  • julia rana solicitors london
  • julia rana solicitors
  • merkit.pk

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply