اِسکی ‘ کی سالگرہ۔۔۔۔ڈاکٹرستیہ پال آنند

گم صم، چپ چاپ، سہما سہما سا، وہ اس پجاری کی طرح کھڑا تھا جس کا خدا مر گیا ہو اور اسے پوجا کرنے، ماتھا رگڑنے کے لیے کسی نئے مندر کی چوکھٹ کی تلاش ہو۔ اس کی آنکھیں جذبات سے عاری تھیں، چہرہ سپاٹ اور کاغذ ساسپید، بے حرف، کورا …لیکن اس کے خشک ہونٹوں کے کناروں پر ایک سوکھی، مریل سی مسکان تھی، جو اس کے جذبے سے خالی چہرے کو اور بھی اجنبی بنا رہی تھی۔
میں نے اس کو خود سے لگ بھگ پانچ گز کی دوری پر کالے،گورے، چینی، کوریائی ٹورسٹوں کی قطار میں کھڑا دیکھا تو پہلے تو میں اسے پہچان نہ پایا۔ چہرہ کچھ جانا پہچانا سا لگا، یعنی کسی ایسے شخص کا جسے پہلے ایک دو بار ہی دیکھا ہو۔ پھر جب اس نے میری طرف نظریں اٹھائیں، اور زیرِ لب کہا، ’’یا اللہ! پروفیسر صاحب، آپ ہیں کیا۔۔۔؟”
تو میں اسے پہچان گیا۔
وہ محمد دین تھا جو آرلنگٹن میں میرے کچھ پاکستانی واقفکاروں کے گھر میں رہنے آ گیا تھا۔ دیگر کئی نووارد تارکین وطن کی طرح وہ بھی غیر قانونی طور پر رہائش پذیر تھا۔ کسی بحری مال بردار جہاز کے عملے میں صفائی کرنے والے کے طور پر کام کرتے ہوئے وہ بالٹی مور کی بندرگاہ پر ایک دن کی ’’شور لیِو‘‘ لے کر اترا تھا اور سیدھا ٹرین پکڑ کر واشنگٹن آ گیا تھا۔ اس کا یوں غائب ہو جانا کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ستّر اور اسّی کی دہائی میں ایسے سینکڑوں نوجوان جنہیں انگریزی بولنابھی نہیں آتا تھا، امریکا پہنچے تھے اور جہازوں سے اترتے ہی اپنی جیب میں رکھے ہوئے کسی پتے پر پہنچنے کے لیے دو نزدیکی شہروں واشنگٹن یا نیو یارک میں سے کسی ایک کا رخ کرتے تھے۔ محمد دین بھی ٹرین پکڑ کر امریکا کے دارلخلافہ میں پہنچا تھا اور مضافاتی علاقے آرلنگٹن میں ایک ہی بیڈ روم میں رہائش پذیر چھہ دیگر پاکستانی نوجوانوں کے ساتھ ایسے مل جل گیا تھا جیسے برسوں سے ہی وہاں رہ رہا ہو۔ کام تو یہی تھے، جو بغیر کسی حجّت کے مل جاتے تھے، کاریں دھونا، لوگوں کے لان میں مشین سے گھاس کاٹنا، ریستورانوں میں پلیٹیں دھونا یا باورچی کا کام کرنا، لیکن اپنے ملک میں بیکار رہنے کے مقابلے میں یہ آمدنی بھی کافی تھی۔ اور’’حوالہ‘‘ کے ذریعے واپس گھر رقم بھیجنا بھی بے حد آسان تھا۔میری اطلاح کے مطابق چار برس پہلے جب آخری بار میں نے اسے دیکھا تھا تو وہ ’’سیون الیون‘‘ پر کام کر رہا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ انگریزی بولنا سیکھ گیا ہے اور اس کی فی گھنٹہ تنخواہ بھی زیادہ ہو گئی ہے۔
مجھے جب بھی کسی کے ساتھ پنجابی بولنے کی ’طلب‘ ہوتی (وہی طلب جو تمباکو نوش کو یا پان چبانے والے کو ہوتی ہے) تو میں ان بیحد ملنسار پاکستانی دوستوں کے گھر چلا جاتا۔ کچھ لوگ رات کی ڈیوٹیاں کرتے تھے اور دن کے وقت گھر پر ہی ہوتے تھے۔ ان کی لیے یہ ایک بڑی نعمت تھی کہ امریکا میں انگریزوں کو انگریزی پڑھانے والا ایک پروفیسر ان کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا ہے، تاش کھیلتا ہے، بیئر پیتا ہے اور امیگریشن کے معاملات میں فارم بھرنے یا تصدیق کروانے میں ان کی مدد کرتا ہے۔
واشنگٹن ڈی سی امریکا کا دارلخلافہ تو ہے ہی، لیکن اس کی شناخت اس لیے بھی ہے کہ ہر ہفتے اور اتوار کو امریکا جیسے بڑے رقبے کے ملک کے ہر کونے سے آئے ہوئے سیّاح یہاں آ کر ’مال‘ پر بکھر جاتے ہیں، جو پوٹامِک دریا کے شمالی کنارے سے لے کر سینیٹ ہال کیپیٹل ہِل تک پھیلا ہوا ہے۔ اسی مال کے عین وسط میں اور دونوں کناروں پر بنی ہوئی ان درجنوں یادگاروں کی عمارات اور امریکی تاریخ کے عظیم فرزندوں کے بُت اور مینار ہیں جو واشنگٹن میں آنے والے ہر سیّاح کے دیکھنے اور یادگاری تصویریں لینے کے مراکز ہیں۔ ان میں ابراہام لِنکن کا وہ اونچا بُت بھی ہے جس میں لنکن کو کرسی پر بیٹھے ہوئے دکھایا گیا ہے اورجارج واشنگٹن میموریل کا وہ مینار بھی ہے جس پر چڑھنے کے لیے ٹورسٹوں کا جمگھٹا لگا رہتا ہے اور قطار کے پیچھے کھڑے ہوئے شخص کی باری مشکل سے ایک گھنٹے کے بعد آتی ہے۔ محمد دین اسی قطار میں کھڑا تھا اور میں قطار کے باہر کھڑا پتنگ بازی میں مصروف لوگوں کے رنگ برنگے اور مختلف شکلوں والے پتنگوں کی دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا ۔
چار سالوں کے بعد محمد دین کو یوں صم بکم کھڑے دیکھ کر مجھ سے نہ رہا گیا۔ میںآگے بڑھ کر اس کے پاس جا کھڑا ہوا لیکن اس طرح کہ قطار میں کھڑے ہوئے دیگر لوگوں کو یہ شک نہ ہو کہ میں اپنی جان پہچان کے ایک شخص کو دیکھ کر نا مناسب طور پر قطار میں گھسنے کی کوشش کر رہا ہوں۔
تب اس نے دوسری بار اردو میں کہا۔ ’’الحمداللہ… آپ پروفیسر صاحب یہاں
میں نے پنجابی میں اس سے بات کرتے ہوئے پوچھا، ’’کیا حال چال ہے، میرے دوست، تمہارے پیچھے والے جہلم کے گھر میں؟”
‘اس کے ہونٹوں کی خشک مسکراہٹ زیادہ خشک ہو گئی۔ اس نے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیری، پہلے کچھ نہ بولا، پھر کہا، ’’”پتہ نہیں، چھہ ماہ سے کوئی خط نہیں آیا”۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ جیسے تھک سا گیا۔اس نے میری طرح ہی اوپر اڑتے ہوئے پتنگوں کو دیکھا۔ ان آبی پرندوں کی طرف بھی جو ہر طرف ہوا میں اور گھاس پر بکھرے ہوئے تھے اور ٹورسٹوں کے پھینکے ہوئے آدھے کھائے چاکلیٹ، برگر، مکی کے بھنے ہوئے دانے وغیرہ اچک رہے تھے۔ پھر جب اس نے میری طرف نظریں گھمائیں تو وہ پہلے سے بھی زیادہ بے جان تھیں۔
میں نے ایک لمحہ توقف کے بعد پوچھا، ’’یہ کیا شکل بنا رکھی ہے محمد دین تم نے؟”
وہ پھر بھی کچھ نہ بولا۔ ادھر دیکھتا رہا جدھر پتنگ اور غبارے بیچنے والوں کے اسٹال تھے۔ ایک دو منٹ اپنی بڑھی ہوئی شیو پر ہاتھ پھیرتے ہوئے یونہی دیکھتا رہا، پھر پوچھا، ’’آپ انڈیا گئے تھے؟”
’’ہاں!‘‘ میں نے کہا، ’’ان چار برسوں میں دو بار جا چکا ہوں۔ یہاں یونیورسٹی کی نوکری ابھی چھوڑی نہیں ہے۔ پاکستان میں اپنے پرانے گاؤں جانے کے لیے پاکستانی سفار خانے میں ویزا لینے گیا تھا لیکن ویزا نہیں ملا ، اس لیے انڈیا جا کر ہی لوٹ آیا۔ میرا گاؤں، تم جانتے ہو، ضلع چکوال میں ہے جو پہلے جہلم کی ایک تحصیل تھا۔ اور جہلم کون سا میرے گاؤں سے دور ہے۔ بس یوں سمجھو کہ لاری سے دو گھنٹوں کا سفر ہے۔ بچپن میں کئی بار جہلم گیا تھا، وہاں میرا ننھیال تھا، اور وہی تمہارا محلہ، پیرا غیب….میرا تو سارا شہر دیکھا ہوا ہے۔”
محمد دین جب پہلی بار مجھے ملا تھا تو مجھے بہت خوشی ہوئی تھی کہ وہ اسی شہر کا رہنے والا ہے جس میں ہر برس گرمی کی چھٹیوں میں میرا جانا ایک معمول بن گیا تھا۔ پھر جب مجھے پتہ چلا کہ وہ کمال بھٹّی کا چھوٹا بھائی ہے ، تو مجھے اور بھی خوشی ہوئی تھی۔ کمال اور میں ایک ہی عمر کے تھے اور جب بھی میں جہلم جاتا ،ہم لوگ اکٹھے کھیلتے۔ محمد دین شاید ایک یا دو برس کا تھا جب وطن کی تقسیم ہوئی ،تب کمال اور میں سولہ برس کے تھے۔ اس لحاظ سے وہ کمال کے چھہ بھائی بہنوں میں سب سے چھوٹا تھا۔
میں نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور پھر پیار سے پوچھا، ’’محمد دین، کیا بات ہے؟ اداس کیوں ہو؟”

سامنے نیشنل ایئر پورٹ سے اڑتے ہوئے ہوائی جہاذوں کی ہر بیس سیکنڈکے بعد اڑانوں کی طرف ٹکٹکی لگائے ہوئے محمد دین چپ چاپ کھڑا رہا۔جب سامنے کی قطار آگے کی طرف کھسکنے لگی اور ہمارے وہاں جم کر کھڑے رہنے کا کوئی جواز نہ رہا تو پیچھے کھڑے لوگ آپس میں ہماری طرف اشارے کر کے کھسر پسر کرنے لگے۔ میں نے کھینچ کر اسے کچھ قدم آگے کر دیا لیکن خود لائن سے باہر ہی کھڑا رہا۔
“وہ چلی گئی۔‘‘ اس نے یکا یک کہا۔
’’کون….؟‘‘ اور یہ کہہ کر مجھے افسوس ہوا۔ اصل میں مجھے علم تھا کہ چار برس پہلے آرلنگٹن کے ایک اپارٹمنٹ کمپلیکس میں اس نے دوسرے دوستوں سے الگ اپنا اپارٹمنٹ لے لیا تھا جہاں ایک گوری خاتون اس کے ساتھ رہنے لگی تھی۔ مجھے اس کا نام بھی یاد تھا۔ ڈیبرا، ہاں یہی اس کا نام تھا۔ اپنے غلط سوال کو سنوارتے ہوئے میں نے دوبارہ پوچھا، ’’کون؟ ڈیبرا؟”
’’ہاں،‘‘ وہ بولا ۔ ’’وہ پچھلے مہینے اپنے پرانے بوائے فرینڈ کے ساتھ رہنے کے لیے واپس چلی گئی‘‘
زخم کا دہانہ ذرا ذرا سا کھل گیا تھا۔ سرجیکل نشتر میرے ہاتھ میں تھا۔ ایک سرجن کی طرح پھرتی او تیزی سے اس کا استعمال میرے بس کی بات نہیں تھی۔ میں گندے، درد بھرے مواد کو زخم کے منہ سے دھیرے دھیرے چیر کر صاف کرنا چاہتا تھا۔ یونیورسٹی میں پروفیسر ہونے کے علاوہ میں اسٹوڈنٹ ایڈوائزر کے فرائض بھی سر انجام دیتا تھا، اور یہ کام مجھے بخوبی آتا تھا۔
’’ڈیبی تو اچھی لڑکی تھی….‘‘ میں نے کہا، ’’اور تم سے پیار بھی بہت کرتی تھی … اور وہ ۔۔۔وہ…اس کا کیا ہوا؟‘‘ میں نے
اناڑیوں کی طرح میں نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کیا۔ میرا مطلب صاف تھا۔ جب آرلنگٹن میں اپنا مکان بیچ کر میں اور میری بیوی ریسٹن آنے کے لیے اپنا سامان ٹرک میں بھر چکے تھے تو میں اپنے پاکستانی دوستوں کو الوداع کہنے کے لیے سب کے گھر گیا تھا۔ جب محمد دین کے اپارٹمنٹ میں گیا تو مجھے ڈیبرا حاملہ دکھائی دی تھی۔ مجھے علم تھا کہ محمد دین پہلے سے ہی شادی شدہ تھا اور جہلم میں اس کی بیوی اور دو بچے اس کے والدین کے ساتھ رہتے تھے۔ سبھی اس کے واپس آنے کے انتظار میں تھے۔ ویسے ڈیبی سے محمد دین نے شادی نہیں کی تھی، لیکن لاکھوں دوسرے جوڑوں کی طرح وہ اکٹھے رہ رہے تھے۔ یوں بھی اسپتال میں بچے کی پیدائش پر برتھ سرٹیفکیٹ پر صرف ماں کے نام کا اندراج ہوتا ہے، باپ کا نہیں۔اور اگر بچے کو ساتھ لے کر کہیں امریکا سے باہر سفر کرنا ہو تو ماں کے پاسپورٹ پر بچے کا نام درج ہوتا ہے،باپ کے پاسپورٹ پر نہیں۔چار برس پہلے بھی ڈیبرا کو حاملہ دیکھ کر مجھے کچھ عجیب سا محسوس ہوا تھا، لیکن دونوں بازار میں چلتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے رہتے تھے اور یہی لگتا تھا کہ دونوں میں بے حد محبت ہے۔ ڈیبرا تو پڑھی لکھی لڑکی تھی اور امریکا کے قانون سے واقف تھی۔ اگر انہیں اکٹھا نہیں رہنا تھا تو اس نے ماں بننا کیوں منظور کیا، اس بات پر مجھے حیرانی ہوئی تھی۔ لیکن یہ سوچ کر کہ اگر اس پڑھی لکھی لڑکی کو ایک ان پڑھ مزدور کے ساتھ رہنے میں کوئی برائی نظر نہیں آئی تو مجھے کیا ضرورت تھی اس بکھیڑے میں پڑنے کی۔ میں چپ رہا تھا اور دل ہی دل میں ان کی خانگی زندگی کی کامیابی کی دعا کرتا رہا تھا۔
اس نے پھر میرے طرف خاموش اور ملتجی نگاہوں سے دیکھا۔میرے سوال کا جواب شاید اس کی زبان پر تھرتھرا رہا تھا، لیکن اس نے کچھ نہیں کہا۔ خاموشی اور گہری ہو گئی اور میں یہ سوچتا رہا کہ دن کی گود میں سلگتے ہوئے ٹھندے سانسوں کے گرم انگارے صرف آنسوؤں کی بوچھاڑ سے ہی بجھ سکتے ہیں، ایک دو آنسو نہیں، ایک پوری آبشار۔ اسے رونا چاہیے، اسے کھل کر رونا چاہیے
…لیکن وہ رویا نہیں، چپ چاپ کھڑا رہا۔
پھر وہ بولا۔ مجھے لگا جیسے کسی کوئیں کے اندر سے کوئی بھیگی ہوئی آواز آ رہی ہو۔ ’ “آج اسے تین برس کا ہونا چاہیے تھا…الیکسیؔ آج تین سال کا ہو گیا ہے۔ مجھے اس کو ساتھ لانا تھا، واشنگٹن میموریل کے مینار پر چڑھنے کے لیے۔ میرا وعدہ تھا اس سے ‘‘
الیکسیؔ نام ہے کیا اس کا؟‘‘ میں نے سرجیکل نشتر کو ذرا اور آگے بڑھایا۔
ہاں، کیسا نام ہے، پروفیسر صاحب؟”
‘‘ الیکسی! الیکزانڈر!! اردو میں ا سکندر ہو گا، ہے نا؟ میں اسے اسی نام سے پکارتا ہوں، اسکندر، یعنی اسکی’بہت پیارا نام ہے
“تو آج اس کا تیسرا برتھ ڈے ہے، تو ہم یہاں کھڑے کیا کر رہے ہیں؟ چلتے ہیں ، کہیں بیئر ویئر پیتے ہیں…یونیورسٹی میں آج میری کوئی کلاس نہیں ہے، میں تو یونہی دھوپ سینکنے کے لیے ادھر نکل آیا تھا۔
‘‘
’’نہیں، سر!‘‘ وہ ادب کے ساتھ بولا، جیسے میرا سٹوڈنٹ ہو۔ ’’نہیں سر، آج تو مجھے یہیں کھڑے رہنا ہے۔ شاید وہ ماں سے ضد کرے کہ ابّا نے اسے واشنگٹن میموریل دکھانے کا وعدہ کیا تھا اور وہ اس کو ساتھ لے کر آ جائے۔ میرا ڈیبی سے کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا۔ ایک مہینے سے میں نے اسے نہیں دیکھا۔ اسکیؔ بیٹا اب تھوڑی تھوڑی پنجابی بھی بولنے لگ گیا تھا۔
’’پنجابی کی گالیاں؟‘‘ میں نے ہنستے ہنستے کہا، ’’تم تو ہر وقت ماں یا ہ ماں یاہ کرتے رہتے ہو!‘‘
’’
“لاحول ولا قوۃ! آپ بھی کیا بات لے بیٹھے۔ میں اسے کیا گالیاں سکھاؤں گا سر جی ؟ میں تو ان پڑھ جاہل ہوں ، وہ تو امریکی ہے۔ گالیاں نہیں، صاف اچھی انگریزی بولتا ہے۔ ۔۔۔اسے میں نے دھوکے میں نہیں رکھا۔ اسے اس کی بڑی ماں کے بارے میں بتایاجو پاکستان میں ہے۔ پھر اس کے بڑے بھائی بہنوں کے نام بتائے۔ پاکستان کے بارے میں بتایا۔ جہلم کے پیراغیب محلے کے بارے میں بتایا۔ ‘‘
’’پیرا غیب محلے کی کچی گلیوں، ان میں بہتی گندی نالیوں کے بارے میں بھی؟‘‘ میں نے ہنستے ہنستے ہوئے پوچھا۔
’’اب وہ گلیاں کچی کہاں رہیں صاحب جی؟ آپ تو انیس سو سینتالیس سے پہلے کی باتیں کرتے ہیں۔ ‘‘ وہ کچھ ناراض سا ہو گیا۔
’’
“میں کیا جانتا ہوں محمد دین! مجھے تو تمہارے امبیسی نے ویزا ہی نہیں دیا، ورنہ خود جا کر دیکھ آتا۔ ہمارے دونوں ملکوں کے تعلقات اچھے کم اور برے زیادہ ہیں۔ خدا جانے کب ٹھیک ہوں گے اور میں اپنی جنم بھومی کو جا کر سلام کر سکوں گا۔” ‘‘
“ہاں۔۔۔‘‘ وہ پنجابی میں بولا ’’ہُن تُسی ویکھو پروفیسر ساب، اسی پنجاہ سّٹھ لوک تاں اپنے علاقے دے ای آں، انڈیا دے وی تے پاکستان دے وی، اتھوں دے گوریاں نوں کی پتہ اے کہ کہیڑاکہیڑے ملکوں آیا اے۔..سارے سانوں پاکی کہندے نے جے کہ ایہی ناں ہُن مشہور ہو گیا اے۔یاد اے تساں نوں کہ سیون الیون دے منیجر نے اک وارتُساں نوں آکھیا سی کہ تساڈا چھوٹا بھرا اس دے سٹور وچ کم کردا اے۔ اُہ مینوں تساڈ ا نِکا بھرا سمجھدا رہیا۔۔۔۔
‘‘؟ وہ ہنسا۔ ’’کتھے میں تے کتھے تُسّی!‘‘
’’ارے محمد دین۔۔۔تم کیا میرے چھوٹے بھائی نہیں ہو؟ کمال کر دیا تم نے تو!‘‘
اس نے میری بات نظر انداز کر کے چاروں طرف نظر گھمائی۔ ’’شاید وہ دونوں ماں اور بیٹا آ ہی جائیں۔ میں صبح سات بجے سے کھڑا ہوں۔ جب یہ قطار گیٹ کے پاس پہنچ جاتی ہے، تو میں لوٹ کر پھر سب سے پیچھے آ کھڑا ہوتا ہوں…شاید بیٹا اسکی آ ہی جائے۔‘‘
بات کیسے چھیڑی جائے تا کہ وہ یہ صدمہ سہہ سکے۔ کہیں سے پکڑنے کے لیے کوئی تاگا نظر نہیں آ رہا تھا۔ اس لیے احمقوں کی طرح میں نے پھر وہی جملہ دہرا دیا۔ ’’تو آج اسکی کی سالگرہ ہے۔ یعنی وہ تین برس کا ہو گیا ہے آج۔ گویا اس نے چوتھے برس میں پاؤں رکھا ہے۔۔‘‘
ں میں نے کہا، ’’ہاں، تین سال کا ….سُنّت کے لیے نہیں مانتی تھی۔ کہتی تھی کہ یہ بڑا ہو گا تو اس کے ساتھ کوئی لڑکی بھی دوستی نہیں کر سکے گی۔ کہتی تھی کہ اس کا بیٹا کسی طرح بھی دوسرے گوروں سے مختلف نہ ہو…اس کا بیٹا!‘‘ اس نے تلخی سے کہا۔لیکن سنّت کی بات سے جیسے اسے کچھ یاد آ گیا۔ ’’ہاں، اسی کا بیٹا تو ہے۔ برتھ سرٹیفیکیٹ میں تو میرا نام بھی نہیں ہے۔ ‘‘ وہ دور افق پر دیکھنے لگا، جہاں جہازوں کی اڑانیں باقاعدگی سے آ جا رہی تھیں۔چند لمحے ناگوار سی خاموشی رہی۔
میں نے سوچا، اب وہ رو پڑے گا اور مجھے اتنے سار ے لوگوں کے بیچ میں اسے بہلانا پڑے گا، اس کے آنسو پونچھنے پڑیں گے، اسے چپ کروانا پڑے گا
لیکن وہ رویا نہیں، بولا، ’’
“آپ نے ایک بار اپنی ایک اردو نظم سنائی تھی جس کا مطلب کچھ یوں تھا کہ جب رات کے پاس سسکیوں کے سوائے اور کچھ بھی نہ ہو، اور دن کی گود میں صرف آہوں کے جلتے بجھتے ہوئے انگارے ہوں، تو کیسے جیا جا سکتا ہے۔۔۔۔”
…‘‘
’’جینا تو بہر حال پڑتا ہے، میرے چھوٹے بھائی،!‘‘ میں نے کہا، ’’ڈیبی کے لیے نہ سہی، اسکی کے لیے ہی سہی۔ کیا پتہ، بڑا ہو کر وہ کہے کہ وہ اپنے پاکستانی ابّا کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔”
وہ چونکا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے چوڑی ہو گئیں۔ ’’مجھے تو یہ خیال ہی نہیں آیا تھا، سر جی! “ہاں، جونہی وہ اٹھارہ برس کا ہو گا ۔ یعنی جونہی وہ بالغ ہوجائے گا، اسے یہ اختیار ہو گا کہ وہ چاہے تو امریکن شہریت رکھے یا پاکستانی شہری بن جائے۔ ..لیکن، سرجی، پروفیسر صاحب ، اس کے برتھ سرٹیفیکیٹ پر تو میرا نام بھی نہیں ہے اور میں بھی ابھی تک یہاں امریکا میں غیر قانونی طور پر رہ رہا ہوں۔ میرے پاس گرین کارڈ نہیں ہے، البتہ سوشل سیکیورٹی نمبر ضرور ہے، اور ، آپ کو یاد ہو گا، جب آپ دوسرے پاکستانی دوستوں کی انکم ٹیکس کی سالانہ سٹیٹمنٹ بھرنے میں ان کی مدد کرتے تھے، تو میری سٹیٹمنٹ بھی تو بھرتے تھے۔”
“کیا فرق پڑتا ہے…‘‘ میں نے کہا۔ ’’اسکی بیٹے کی اپنی مرضی ہو گی، وہ کس کے ساتھ رہے …لیکن ڈیبی اب کس کے ساتھ رہنے کو چلی گئی ہے؟ کون ہے وہ اس کا بوائے فرینڈ؟”
وہ گم صم کھڑا رہا، پھر بولا۔ ’’کہتی تھی، والٹر سے اسے پیار ہے، لیکن والٹر سیکس کر سکتا ہے، بچہ پیدا نہیں کر سکتا۔
پھر ایک لحظہ رک کر وہ ٹھیٹھ پنجابی میں بولا، ’’مرد تاں ضرور اے، پر فیر وی کھُسرے دا کُھسرا ای اے۔‘‘
تو….؟‘‘ میں نے نشتر کو پھوڑے میں پوری طرح اتار دیا۔
’’”ڈیبی کہتی تھی اسے بچہ ضرور چاہیے تھا۔ اب بچے کے لیے سڑک پر آنے جانے والے کسی مرد سے بھیک تو نہیں مانگی جا سکتی۔ اسے بچے کے باپ سے پیار ہونا چاہیے۔ کہتی تھی، بچہ ایسا ہو جو دو پیار کرنے والوں کی اولاد ہو، جیسے میری اور ڈیبی کی اولاد!”
اتنا کہتے ہی وہ سسکیاں بھرنے لگا۔پھر اس کی سسکیاں بند ہو گئیں اور وہ چپ چاپ کھڑا رونے لگا۔ آنسو اس کی آنکھوں سے اسکے شیو سے بڑھے ہوئے گالوں پر بہنے لگے۔ میں نے اسے رونے دیا کیوں کہ مجھے اس بات کا علم تھا کہ روح کی اس آگ کا علاج لہو کے آنسوؤں کی برسات سے بھی ممکن نہیں، لیکن کچھ دیر کے لیے ٹھنڈک تو پڑ سکتی ہے۔
آس پاس کے لوگ ہماری طرف دیکھنے لگے تو میں نے کہا، ’’ڈیبی کو اس کا بیٹا مل گیا، لیکن وہ یہ بیٹا اکیلی تو نہیں پیدا کر سکتی تھی! وہ تمہارا بھی بیٹا ہے۔ والٹر کے گھر میں پلے گا تو اس کی پرورش پرداخت بہتر ہو گی۔ اور پھر ڈیبی چال چلن کی بری نہیں تھی، یہ تو تم بھی جانتے ہو۔تمہارے اسکی کا بھلے چنگے گھر میں ، اچھے ماحول میں، بچپن گذرے گا۔وہ اچھے اسکولوں میں جائے گا…اور بڑا ہوتے ہی شاید تمہارے پاس آ جائے!”
یکا یک اس نے میرا ہاتھ پکڑا اورخود قطار سے باہر ہو گیا۔ ’’”یہ باتیں تو، پروفیسر صاحب جی، مجھے پتہ ہی نہیں تھیں۔ ان پڑھ! چوتھی جماعت تک اردو پڑھا ہوں… سوچ ہی نہیں سکتا تھا…اگر آج آپ نہ ملتے اور شام تک ڈیبی اسکی بیٹے کو لے کر یہاں نہ آتی تو شاید میں…شاید میں…پوٹامک دریا میں کود جاتا…..آیئے، پیرا غیب چلتے ہیں، گلیب روڈ پر انڈیا کباب ہاؤس میں۔ میں جب وہاں باورچی تھا تو سارے دوست گلیب روڈ کے اس علاقے کو پیرا غیب محلہ کہتے تھے۔ چلیئے، جا کر بیٹھیں گے۔ کباب کھائیں گے۔ بیئر پئیں گے، اور اس طرح اسکی بیٹے کی سالگرہ منائیں گے۔”
جب ہم انڈر گراؤنڈ میٹرو ریل کے ’لا فاں‘ اسٹیشن سے گلیب روڈ کے لیے گاڑی میں بیٹھے تو وہ بے حد خوش تھا

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply