دانشور کون؟ ۔۔۔ محمد اشتیاق

اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا پہ تجربہ کار دانشوروں اور صحافیوں کی ایک فوج موجود ہے۔ زیادہ چینل کھلنے سے فارغ سیاستدان، گھٹیا ایکٹر حتیٰ کہ بوتیک مالکان کی بادہ نوشی کے منتظم بھی صحافی بن کہ بیٹھ گئے ہیں کہ پرائم ٹائم کا پیٹ بھرنے کے لئے کافی سارے “فلر” چاہیے تھے۔ پھر ایک نیا ٹرینڈ چلا کہ ایک بغل بچہ بٹھا کہ صحافی، تجزیہ نگار، پورے ایک گھنٹے تک اپنا ہی پرو پیگنڈا چلانے لگے۔ اکیلا بیٹھا دانشور اپنے آپ کو  تقریبا عقل کل سمجھنے لگا۔ بغل بچے کا کام صرف پہلے سے تیار شدہ جوابات کے مطابق سوالات پڑھنا ہوتا تھا۔ ٹی وی کی پردہ سکرین نے یہ بھی دکھایا کہ ڈاکٹر شاہد مسعود 10، 15 منٹ تک باڈی لینگویچ ایکسپرٹ بن کے نواز شریف کے انگوٹھے پر بحث کرتے رہے۔ باڈی لینگویج پہ ایسی مہارت کے باوجود عوام کے بدلتے جذبات کو نہ سمجھ سکے اور آہستہ آہستہ غیر مقبولیت کا سفر طے کرتے گئے۔ 

اسی طرح کچھ دانشوروں نے باقاعدہ سیاسی جماعتوں کی غیر اعلانیہ ترجمانی شروع کردی۔ جس پروگرام میں وہ حاضر ہوں وہاں اس سیاسی جماعت کی طاقت ویسے ہی دوگنی ہو جاتی تھی۔ فوج اور ڈکٹیٹرشپ کی اشاروں کنایوں میں حمایت کا سلسلہ سیاسی معاملات میں بھی جاری تھا، ٹی وی چینلز نے  فوجی اور جنگی مسائل تو ایک طرف، فوجی جرنیلوں کو  سیاسی، قانونی، معاشی معاملات پہ تجزیہ نگار کے طور پہ بلانے کا آغاز کیا۔ یہ موضوع تو خیر ایک بڑی بحث کا متقاضی ہے۔  موضوع سخن یہ سیاسی، جماعتی دانشور کارکن ہیں جو مختلف مسائل کا، ترقی کا حل بلاوجہ ایک سیاسی پارٹی کا حکومت میں آنا بتاتے رہے۔ جب جب سابقہ حکومت کو کوئی مسئلہ درپیش ہوا یا اس کو ایک “غیرمرئی” طوفان کا سامنا کرنا پڑا یہ لوگ تلواریں نکال کر اس پہ چڑھ دوڑتے اور تان آ کہ ٹوٹتی کہ یہ حکومت صحیح کام نہیں کر رہی، تبدیلی آنی چاہیے۔ 

اگر کوئی ان کے سامنے بہتری کی طرف جاتے اعشاریے رکھتا تو وہ اس کا تقابل ترقی یافتہ ملکوں میں سے بھی ان کے ساتھ کرتے جو سب سے آگے ہوتے۔ کسی نہ کسی طرح یہ نتیجہ برآمد کیا جاتا کہ یہ حکومت کام صحیح نہیں کر رہی اور تبدیلی ضروری ہے۔ خدا جانے یہ اتفاقیہ تھا یا بطور خاص اس کا اہتمام کیا گیا کہ وزارت دفاع کے تحت چلنے والے ادارے کے ترجمان بھی تبدیلی کے خواہاں پائے گئے۔

اگر ان دانشوروں  کے سامنے فیورٹ پارٹی کی صوبائی حکومت کی کارکردگی پیش کی جاتی تھی تو اس کو ریجیکٹ اس لئے کر دیا جاتا کہ خان صاحب ذاتی حیثیت میں اس حکومت میں شامل نہیں۔ ارشاد بھٹی جیسے دانشور سیاستدانوں کی عمومی غلطیوں کو لے کہ جمہوریت کو رگیدتے ہوئے سفر پی ٹی آئی سے امیدوں پہ ختم کرتے۔ حسن نثار 1300 سال کی اسلامی ریاستوں کی غلطیوں اور مسلمانوں کی ناکامیوں سے سفر شروع کرتے، بیسیویں صدی کے چند انقلابیوں کی مثالیں دے کر نواز شریف اور ان کی جماعت کو نالائق ثابت کرتے ہوئے بغیر کسی پرفارمنس کے پی ٹی آئی کو امیدوں کا مرکز قرار دیتے۔ صفروں کی تعداد سے نا آشنا عامر متین اور راوف کلاسرا، روزانہ کرپشن کا ایک نیا کیس کھول کہ معیشت کو ڈوبتا ہوئے دیکھتے تھے، اس حقیقت کو نظرانداز کرتے ہوئے کہ ہماری معیشت “اڑتی” ہوئی کس زمانے میں بھی نہیں  پائی گئی۔ ہارون رشید، اپنی ذاتی ناراضگی کے باوجود عمران خان اور کسی بھی آرمی چیف کے درمیان کنفیوژن کا شکار رہے کہ ان میں سے “مولا جٹ” کا کردار کس نے نبھانا ہے۔ آیا عمران خان اس ملک کو بچائے گا یا باجوہ، راحیل  شریف، کیانی۔ شکر ہے کہ ان کو الیکشن 2018 میں یا اس کے بعد ان دونوں میں سے ایک کے انتخاب کا مشکل فیصلہ نہیں کرنا پڑا۔ ان کے علاوہ بھی لمبی لسٹ ہے جو ہر بہتری کی طرف جاتے قدم سے آنکھیں موڑ کہ ہر مسئلے کو نمایاں کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے۔ 

پاکستانی عوام ان دانشوروں کی طرف روشنی لینے کی خاطر دیکھتی تھی۔ یہ عمومی خیال پایا جاتا تھا کہ اوپر جتنے بھی نام آئے ان میں ایک آدھ کو چھوڑ کہ باقی سارے تجربہ کار لوگ ہیں اور ان کی عمر کا ایک بڑا حصہ صحافت کے دشت کی سیاحی (ہی) میں گزرا ہے۔ ان شخصیات کی ذہانت پہ بھروسہ کرنے کو دل کرتا ہے کہ انہوں نے حکومتوں، سیاستدانوں اور ان کی پالیسیوں کو بہت قریب سے دیکھا ہوا ہے۔ یقینا وہ بہتر تقابل کر رہے ہوں گے۔ ان کو نظر آرہا ہو گا کہ جس پارٹی کے وہ گن گا رہے ہیں ان میں ایسے لوگ ہیں جو ہمارے مسائل کو بہتر حل کر سکتے ہیں۔ 

میرا ذاتی خیال تھا اور ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت نے بہت سارے مسائل حل کیے یا ان میں بہتری لائی۔ دہشت گردی، بجلی، معیشت، مہنگائی، انفراسٹرکچر، ان سب میں حکومت نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس سے پہلے پی پی پی کی حکومت نے قانون سازی میں ایک آدھ بڑے کام کہ اور کسی مسئلے کو حل کرنے میں کوئی بڑی کوشش نہیں کی تھی۔

 صوبائی حکومتوں کا مقابلہ کیا جائے تو بھی پنجاب کی حکومت باقی تینوں صوبوں کی حکومتوں سے بہتر تھی۔ کے پی کے حکومت کاغذی منصوبوں کے علاوہ کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں کوئی اہم پیش رفت نہیں کر سکی۔ انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر تنقید کرنے کے باوجود شروع ہونے والا بی آر ٹی منصوبہ پنجاب کی تین میٹرو کے مشترکہ بجٹ سے بڑھ جانے کے باوجود ابھی تک مکمل نہیں ہو سکا۔ یہ تھی ان کی صوبائی کارکردگی۔ میرا ذاتی خیال تھا کہ اس طرح کی کارکردگی پہ حکومت ان کے حوالے نہیں کی جا سکتی۔ 

سونے پہ سہاگہ عمران خان کے نظریات اور خیالات، اگر ہم ان کو نظریات کہہ سکتے ہیں تو۔ میرے نزدیک ان کے منصوبے ٹرین کے دروازے میں کھڑے بندے کے ذہن میں آنے والے خیالوں جیسے ہیں جو چند لمحے کے لئے کسی چیز کو دیکھ کے ذہن میں آتے ہیں اور پھر ذہن کی سکرین سے ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتے ہیں۔ یہ تو تھی میرے جیسے چند لوگوں کی رائے جو مختلف پارٹیوں کا تقابل کر رہے تھے اور کسی جذباتی مہم جوئی کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔

لیکن معزز دانشوران کی رائے اس سے مختلف تھی۔ ان کی اس مخالفانہ رائے کی بنیاد کیا تھی؟ اس کا اظہار پچھلے چند دنوں میں اس پارٹی کے دو بڑے حامیوں نے اپنے انٹرویوز میں کیا ہے۔ اس پہ بحث نہیں کہ وہ وجوہات کیا ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا کسی کی اتنی سپورٹ کرتے ہوئے آپ نے گوارا ہی نہیں کیا کہ تھوڑی دیر سوچ لیں کہ جس کی ہم امید لگائے بیٹھیں ہیں وہ کرے گا کون اور ہو گا کیسے؟ کیا آپ کی دانشوری کا تقاضہ نہیں تھا کہ آپ باریک بینی سے جائزہ لیتے کہ دعوٰی جات میں سے ممکنات کی امید کتنی ہے؟ مستقبل بینی کو تو چھوڑیں جب آپ سامنے موجود لوگوں کی صلاحیتوں کا تجزیہ نہیں کر سکتے تو آپ دانشور کیسے؟ آپ کے دبنگ خیالات کی اہمیت کیا؟ 

اور اگر آج آپ اس پنچایت کے سر پنچ کی طرح بعد میں  کہہ دیں کہ “مینوں چھتر مارو، میری غلطی اے” تو اس سے اس نقصان کی تلافی کیسے ہوگی جو آپ نے پرائم ٹائم میں لوگوں کے درمیان اور لوگوں کے ذہنوں میں زہر گھولا ہے۔ لعنت ہو ایسی دانشوری پہ جو صرف “دانشوری” کے لئے جھاڑی گئی ہو۔ اگر اللہ نے آپ کو کوئی مقام دیا، عزت دی تو یہ ایک ذمہ داری ہے۔ اس کو روحانی تحفہ سمجھ کے اس کا حق ادا کرنا ہوتا ہے۔ اس کو ہتھیار کے طور پہ استعمال کرکے ملک کی نقصان کا موجب نہیں بننا چاہیے۔ 

میں بطور عمران مخالف یہ سوچتا ہوں کہ جیسے بھی حکومت میں آیا اس کو اپنی حکومت کا دور مکمل کرنا چاہیے اور اس کو وقت ملنا چاہیے۔ آپ نے تو ان کی تعریفیں کیں اور امیدیں لگائیں۔ اتنی جلدی آپ کی دانشوری کی پہنچ ختم ہوگئی۔ اگر جھوٹ بولا ہے تو اس پہ کچھ دیر تو قائم رہتے۔ آپ نے صرف تنقید نگار ہونے کے مزے لینے تھے تو ان کی الیکشن کمپین کیوں چلاتے رہے۔ اتنی جلدی تو عمران خان بھی یو ٹرن نہیں لیتا۔ 

Advertisements
julia rana solicitors london

اب کسی زود پشیمان کے چند لفظ اس نقصان کی تلافی نہیں کر سکتے جو آپ نے اپنے مصنوعی اور جھوٹے بے بنیاد، افسانوی تجزیوں کے ذریعے کر دیا ہے۔ آپ خود پہ لعنت بھیج کر اس گناہ سے بری الذمہ نہیں ہو سکتے۔ توبہ کریں کہ آپ نے اللہ کی طرف سے دئیے جانے والے مقام کا غلط استعمال کیا ہے۔ شاید توبہ قبول ہو جائے۔

Facebook Comments

محمد اشتیاق
Muhammad Ishtiaq is a passionate writer who has been associated with literature for many years. He writes for Mukaalma and other blogs/websites. He is a cricket addict and runs his own platform ( Club Info)where he writes about cricket news and updates, his website has the biggest database of Domestic Clubs, teams and players in Pakistan. His association with cricket is remarkable. By profession, he is a Software Engineer and has been working as Data Base Architect in a Private It company.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply