باپ کبھی نہیں مرتے۔۔۔۔روبینہ فیصل

میری پہلی ملاقات شبنم رومانی سے ان کے فوت ہونے کے بعد ہو ئی ،ڈریں مت!!میں روحوں سے ملاقات کی ماہر نہیں مگر مجھے کبھی کبھار زندوں میں،چلے جانے والوں کی شبیہ دکھتی ہے ۔ایسا ہی ہوا جب میں پہلی بار فیصل عظیم سے ملی تو جو گہرائی اورتدبر مجھے اس میں نظر آیا وہ متاع تو شائد اس کا تھا ہی نہیں ، اپنے اباکاعکس اٹھائے اٹھائے پھرتا تھا ۔ خودفیصل عظیم سے ملاقات تو پہلی ملاقات کے بہت سالوں بعد کہیں جا کر ہو ئی، بہت عرصہ تو مجھ سے شبنم رومانی ہی ملتے رہے جن کا اصلی نام مرزا احمد بیگ چغتائی ہے۔
وہ 30دسمبر 1928 کو شاہ جہاں پور ، یو پی میں پیدا ہو ئے اور 17 فروری2009 کواس جہاں سے چلے گئے تھے۔
میرا ایک کالم ہے ، مائیں کبھی نہیں مرتیں کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں میں زندہ رہتی ہیں ، یہی بات کچھ باپوں پر بھی سچ ثابت ہو تی ہے کہ وہ مر کر بھی اپنے بیٹوں میں اپنے پو رے پدرانہ ورثہ کے ساتھ زندہ رہتے ہیں ۔

Advertisements
julia rana solicitors london
شبنم رومانی
فیصل عظیم

2012 میں فیصل عظیم نے اپنا شعری مجموعہ” میری آنکھوں سے دیکھو ” اپنے ابو کے” دوسرا ہمالہ” کے ساتھ پیش کیا تو میں نے ہینڈ سم فیصل عظیم کو دیکھ کر بڑے روایتی انداز سے سوچا ، چلو جی سیاست اور شوبز کی طرح ادب میں بھی وراثت چلے گی ، جو شوبز میں راج کر سکتا تھا وہ بھی ابو کی وجہ سے شاعر بنیں گے ۔۔مگر جیسے جیسے فیصل عظیم کی شاعری پڑھتی گئی احساس ہوا کہ یہ جینز بھی کبھی کبھار ٹھیک ٹھاک ٹرانسفر ہو جاتی ہیں۔ چہرے پر چھائی سنجیدگی نے تھوڑی اور گواہی دے دی اور پھرایک اور حیرت کا سامنا ہوا جب پتہ چلا کہ اس کا حس مزاح ہر جائز اور فطری ادبی انسان کی طرح کمال عروج پر ہے، یہ دھوکہ بھی بالکل اپنے ابو جیسا ہی دیا ۔ جب تک میں شبنم رومانی کی تصویر اور سنجیدہ شاعری سے متعارف رہی ، انہیں ایک انتہائی سنجیدہ انسان ہی سمجھتی رہی پھر ان کا ایک شعر نظر سے گذرا :
ہنس رہا ہوں آجکل بیٹھا ہوا
کاغذوں کے اک بڑے انبار پر
۔ تو وہ ہنستے بھی تھے ۔۔ جاننے کی تمنا ہو ئی کہ وہ کس بات پر ہنستے تھے ۔۔ فیصل عظیم نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے ان کی کتاب کا نایاب اور واحد نسخہ مجھے اس تاکید کے ساتھ کہ ۔۔ روبی !! پڑھ کر جلد واپس کر دینا ۔۔ اور میں جانتی ہوں کہ جب تک کتاب میرے پاس رہے گی اس کا دل ہو لتا رہے گا۔
میری کم علمی تھی کہ میں جانتی ہی نہیں تھی کہ شبنم رومانی کے فکاہییہ کالم مشرق اخبار کراچی میں باقاعدگی سے چھپتے تھے ۔ طنزیہ مزاحیہ کالموں کی کتاب” ہائڈ پارک” کو پڑھ کر ایک اور ہی شبنم رومانی سے ملاقات ہوئی ۔ انشاء جی کے فکاہیۂ کالموں کے بعد اگر کسی تحریر نے میرے
ہو نٹوں پر ہنسی کے پھول کھلائے تو وہ شبنم رومانی کے کالم تھے ۔
ایک چھوٹی سی مثال حاضرِ خدمت ہے :
“شاعر اور ادیب بھی آدم ہی کی اولاد ہیں ، گیہوں تو وہ بھی کھاتے ہیں ۔ ان کا بھی لڑنے بھڑنے کو جی چاہتا ہے تو یاروں نے اس کی نکاسی کے لئے راہ نکالی، تنقیدی نشستوں کی طرح ڈالی ۔۔۔۔۔”
ایک اور جگہ” تخریبی نشستوں “میں لکھتے ہیں ۔۔”ایک شاعر صاحب جن کا پہلے کبھی ایسی مصیبت سے پالا نہیں پڑا تھا ، ایک تنقیدی جلسے میں دھر لئے گئے ۔ وہ اپنی مشاعروں کی آزمودہ غزل پاٹ دار ترنم سے جھوم جھوم کر سنا چکے تو ہمارے کان میں ڈونکے ۔۔ اماں یہ محفل ہے یا مقبرہ ؟ ہم نے جواب دیا حشر کا میدان بگڑ کر بولے کیا مطلب ،ہم نے کہا صبر کرو،ابھی معلوم ہوا جاتا ہے۔ پھر جو اس غزل پر لے دے
ہو ئی تو کبھی وہ ہمارا منہ دیکھتے ، کبھی بولنے والوں کا اور کبھی صدر محفل کا ۔ ایک پہلو جل اٹھتا تو دوسرا پہلو بدلتے۔ ایک صاحب نے کہا یہ “استفراغ شعری “ہے ۔ دوسرے بولے ; شاعر نے فکر کا جھٹکا کیا ہے جو قطعی غیر شرعی ہے ۔تیسرے نے اچھل کر کہا :یہ غزل نہیں غزل کی ماں ہے ۔کسی نے لقمہ دیا ماں نہیں دادی ۔۔ایک عروض دان نے اعتراض کیا :شاعر نے تیسرے شعر میں اونٹ کی ٹانگ سے بلی باندھ دی ہے ۔ ایک نوجوان انقلابی نے کھڑے ہو کر غصے کی حالت میں مٹھی ہوا میں لہرائی رجعت پسندی مردہ باد ۔ صدر جلسہ شریف آدمی تھے بار بار کہتے صاحبو اعتدال سے کام لو مگر معترضین کا کہنا تھا کہ شاعر نے غزل میں اعتدال سے کام نہیں لیا تو ہم رعایت کیوں کریں ۔اعتراضات کی اس بوچھاڑ میں ایک بزرگ جو شاعر کو گھیر گھار کر لائے تھے کھڑے ہو ئے پہلے انہوں نے غالب کا یہ مصرعہ پڑھا : سایہ شاخ گل افعی نظر آتا ہے مجھے اور یہ مصرعہ پڑھتے ہو ئے دائیں ہاتھ کو چونچ کی شکل میں اسطرح لہرایا جیسے سانپ پھن کاڑھ کر جھومتا ہے۔ پھر فرمایا میں نے غالب کو پڑھا ہے۔ وہ ایسے نہیں تھے مگر نقادوں نے انہیں ایسا بنا دیا ہے ۔یہ شاعر بھی ایسا نہیں ہے ۔ صبح سویرے اٹھ کر سو ڈنڈ سو بیٹھکیں نکالتا ہے۔ پانچ سیر دودھ اور بارہ انڈوں کا ناشتہ کرتا ہے ۔ بولنے کا شوق ہے تو ضرور بولو مگر پہلے اپنا وزن تولو پھر بولو یہ کہہ کر وہ بیٹھ گئے مجمع پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا ۔ شاعر صاحب پہلے ہی تنے بیٹھے تھے انہیں اپنا سب کچھ کھا یا پیا یاد آگیا تھا ۔ ایک صاحبزادے نے بولنے کی جو کوشش تو وہ بپھر کر معہ جوتوں کے میز پر چڑھ گئیاور کسی پنجابی فلم کے ہیرو کی طرح اپنی بانہیں پھیلا کر بلکہ پھلا کر اتنی زور سے ہا کیا کہ ایک لمحے کو تو ہماری پلکیں بھی جھپک گئیں ۔ پھر جو آنکھیں گھما گھما کے دیکھا تو آدم نہ آدم ذاد ۔ سب کرسیاں خالی تھیں ۔ ہم تھے اور وہ شاعرِ ہاو ہو۔بہت تلاش کیا تو میز کے نیچے سے جناب صدر برامد ہو ئے ۔ ۔۔۔.”
ستیہ پال آنند نے بجا کہا تھاکہ شبنم رومانی ایک امییجیسٹ شاعرہیں ۔
آخری لمحہ
یاد اب گریزاں ہے
چیختے علائم سے
زیست کی مشقت سے
آنسوؤں سے
حسرت سے
آفت و اذیت سے
جد و جہد کی لت سے
درد سر کی شدت سے
مجھ کو چکر آتا ہے
یہ میری کہانی ہے
میری زندگانی ہے
کوئی ایسی دلدوز شاعری بھی کرے اور طنز و مزاح بھی لکھے ۔۔۔۔۔ ہے نا کمال ؟
ان سے دوسری ملاقات ان کی شفیق اور حسین بیگم سے مل کر ہو ئی کیونکہ ان کے چہرے سے آج تک شبنم رومانی کی چھاپ کہیں گئی نہیں تھی ۔ تیسری ملاقات ان کی مثنوی سیر کراچی پڑھ کر ہو ئی ، بلکہ ان کے توسط سے میں نے سارا کراچی نہ صرف دیکھ لیا بلکہ محسوس کرلیا ۔
شبنم رومانی کی شاعری اور کالموں پر بہت بات ہو ئی ہو گی مگر میں ان کے اس خاندانی پن اور بے لوث خلوص کا ذکر کرنا ضروری سمجھتی ہوں جو لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہو گااور اس پر بات کرنا اس لئے ضروری ہے کہ نایاب چیزوں پر بات ہونی چاہیئے ۔
میں نے فیصل عظیم میں جو بردباری ، وقار اور وطن سے محبت کا اک جذبہ دیکھا ہے اس کا سہرا یقیناًشبنم رومانی اور ان کی بیگم کی ان جینز کو اور اس تر بیت کوجاتا ہے جوفیصل میں منتقل ہو ئیں ۔۔ ۔ حال ہی میں ایک دوست کی جس طرح اس نے خاموشی اور عزت سے مدد کی میں اس بات پر قائل ہو گئی کہ انسانیت پروری، بردباری اورتہذیب ، اگر یہ اصلی اور پکے رنگ ہوں تو کئی نسلوں تک چلتے ہیں ۔۔۔
جو لوگ کہتے ہیں زمانہ برا ہے تو میرا ایمان مضبوط ہوا ہے کہ خالص نسل آسانی سے اپنا آپ نہیں بھولتی ۔برا زمانہ بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ۔
۔ فیصل عظیم نے نہ صرف اپنے ابو کے ادبی ورثہ کو آگے بڑھا یا ہے بلکہ ان اخلاقی اقدار اور انسانی محبت کو بھی اسی طر ح تھامے رکھا ہے جو گذشتہ نسل کی ہی میراث تھا ۔۔ فیصل عظیم اس میراث کا بڑا سچا امین ہے ۔
اس لئے اب شبنم رومانی کے اس سوال کا جواب میرے پاس ہے :
میرے سنگِ تربت پر
درج ہو گی اے یارو !!
میری موت کی تاریخ
پر لکھے گا کون ا س پر
میری آخری ہچکی
میرا آخری لمحہ ؟
آپ کا آخری لمحہ رہتی دنیا تک کبھی نہیں آئے گا ۔۔ کیونکہ آپ کی حیات آب حیات پی کر آپ کی نسل میں ہمیشہ دوڑتی رہے گی ۔۔۔ آپ جاوداں رہیں گے ۔۔ پکے رنگ آسانی سے نہیں چھٹتے اورسچے باپ مر کر بھی نہیں مرتے ۔

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”باپ کبھی نہیں مرتے۔۔۔۔روبینہ فیصل

Leave a Reply to روبینہ فیصل Cancel reply