تعلیم یافتہ۔۔۔۔محمد اقبال دیوانؔ/قسط3

شہر کی ایک مشہور پبلک یونی ورسٹی کے ایام وابستگی سے منسلک سچے واقعات سے جڑی ایک جھوٹی کہانی

دوسری قسط سے پیوستہ
” اس نے بمشکل فالودے کے دو تین گھونٹ لیے اور جب اس کے وجود میں خوشبو اورلذت کی ٹھنڈک اندر اتری تو اس نے جھوٹی ہنسی ہنستے ہوئے آخری سوال کردیا کہ ” وہ پھر گونگ لی کو شادی کے حوالے سے کیا جواب دیتا ہے؟لالو کھیت کے بوڑھے مہاجر کسی کی جہالت اور بدتہذیبی کاانت ٹھہرانا ہو تو آہستہ سے کہتے ہیں’’ بھائی میاں لونڈا کہیں کھلا بندھا نہیں‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سماجی شعور اور برتاؤ پالتو جانور جتنا بھی نہیں۔
یونی ٹاور کا وہ دکاندار اورنگ زیب ،رومینہ کا وہ فرسٹ کزن لو جو سماجی طور پر کہیں کھلا بندھا نہ تھا سوال کے طنز اور اس سے مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات سے بے خبراترا کر کہنے لگا ” You my second wife. Rumi my first wife”
رومینہ نے بہت خفیف سے طنز سے کہا “اس حساب سے وہ گنتی دوبارہ کرنا سیکھ لے تو اچھا ہے۔ آؤ گھر چلیں۔ امی فکر کررہی ہوں گی۔شہر کے حالات بھی ٹھیک نہیں”۔اورنگ زیب کی ضد تھی کہ رومینہ کم از کم اپنا فالودہ تو پورا کھالے مگر تب تک وہ دروازے کی طرف بڑھ چکی تھی۔وہ پیچھے بل دے کر آگیا

تیسری قسط!
رات رومینہ سوئی تو بوبی کی لائی ہوئی نائٹی پہن کر۔ اسی کے لائے ہوئے آئی۔ پوڈ پر ایک پرانی فلم پے ئنگ گیسٹ کا گانا

ع چاند پھر نکلا۔۔۔

یہ رات کہتی ہے کہ وہ دن گئے تیرے

یہ جانتا ہے دل کہ  تم نہیں میرے

بار بار سنتی رہی مگر اسکی اورنگ زیب سے پیدا شدہ تازہ ترین نفرت کو اگر جہاں میں کوئی اماں ملی تو صرف نعمان کے خیالات میں۔

آئی پوڈ

کئی دفعہ اس نے تمنا کی کہ کاش اسے نعمان کا کوئی ایس۔ ایم۔ ایس آجائے اس کا فون تو انٹرنیشنل رومنگ پر ہوگا۔وہ اگر ذہین مرد ہے تو اس نے اپنے بھانجے فرقان بھائی سے ضرور لے لیا ہوگا۔ اسی لیے اس نے حفظ ماتقدم کے طور پر میسج کی ٹون کو سائلنٹ پر کرلیا تاکہ رات کے کسی پہر نعمان کا پیغام آئے تو اس کی بہن کو پتہ نہ چلے جو برابر کے بستر پر لیٹی تھی۔ اسے شگفتہ کی یہ بات بھی یاد آتی رہی کہ ” اسے نعمان کیسا لگتا ہے۔ وہ تو اسے بہت اچھی لگتی ہے؟رومینہ کو سارہ کی یہ بات بھی بہت تڑپاتی رہی کہ ” نعمان کو وہ ضرورت سے زیادہ اچھی لگی ہے۔اس کی آنکھوں میں رومینہ کے لیے ایک بھوک تھی۔ ایک پیار تھا جو اسے کم از کم معمول سے ذرا ہٹ کر لگا ” سارہ کا مشاہدہ کم از کم مردوں کے معاملے میں باقی دونوں سہیلیوں سے تیز تھا۔
اس نے یہ گیت سنتے ہوئے کئی دفعہ خود ہی بہت آہستہ سے بڑ بڑایا کہ” Oh Hide me Nomi” اس پر اس کی بہن سبرینا نے پوچھا بھی کہ ” آپا کیا ڈر لگ رہا ہے۔ یہ آپ کیا آہستہ آہستہ ہائڈ ہائڈ بول رہی ہیں؟” تو اسے ٹالنے کے لیے رومینہ نے کہا کہ ” آج اس نے مشہور یونانی فلاسفر سوفوکلیس کا ایک قول پڑھا تھا کہ Oh…..Hide nothing, for time, which sees all and hears all, exposes all.(وقت سے کچھ نہیں چھپ سکتا وہ سب سنتا ہے ،دیکھتا ہے اور جب اسے موقع ملتا ہے وہ اسے ظاہر کردیتا ہے)۔وہ یہ قول اپنے کسی ایسے میں استعمال کرنے کا سوچ رہی ہے۔جس کو سن کر سبرینا نے کہا” آپا آپ کے دماغ پر ہروقت لٹریچر سوار رہتا ہے” ۔رومینہ نے شکر کیا کہ اس کی بہن نے دو الفاظ میں اور نومی ٹھیک سے نہیں سنے تھے۔
رومینہ کو اورنگ زیب کے گونگ لی سے تعلقات پر بھی بہت تاؤ آیا کہ کم بخت نے جاکر کہیں منہ  کالا کیا تو وہ بھی بتیس سے پینتیس سال کی کسی چینی بڑھیا سے اور اب اسے دوسری بیوی تک بنانے کے وعدے وعید کرکے بیٹھ گیا تھا۔
اس نے مدھم سے نائٹ بلب کی روشنی میں نائٹی سے باہر چھلکتی ہوئی سینے کی مدور گولائیوں پر ایک بے لطف سی نظر ڈالی اور خود سے یہ سوال کیا کہ اس میں کیا برائی تھی کہ اس کی موجودگی میں بھی بوبی بھٹک کر تھائی لینڈ کی سیکس ورکرز اور اس چینی گونگ لی کے بستر میں کود گیا؟۔ نعمان جیسے مرد اسے دیکھتے ہی پہلی نظر میں لٹو ہوجاتے تھے۔اس کے علاوہ بھی وہ سر مجاہد سے لے کر اپنے کئی ہم جماعتوں کی نظروں میں اپنے لیے قربت کی تمناؤں کو مچلتا دیکھ چکی تھی۔اس نے سوچا کہ یہ بدن اور اس کا وجود بھلے سے کئی نگاہوں کا مرکز ہو مگر شاید بوبی نے( گونگ لی مجھے بوبی کہتی ہے ان کے لیے اورنگزیب ایک مشکل نام ہے) یہ سوچا ہو کہ جس گھر میں اچھی افطاری بنتی ہو وہاں ضروری نہیں سب مرد روزہ بھی رکھتے ہوں۔ بوبی سے بھی شاید اس کی جسمانی دوریوں کا روزہ نہ رکھا گیا ۔ ورنہ وہ یقیناً ایک بہترین افطاری ہے۔
رومینہ کا دل آج صبح یونی ورسٹی جانے کو نہیں کررہا تھا مگر ایک تو جویریہ اور سارہ کے اسے ٹیکسٹ میسج ملے کہ وہ گھر سے ساڑھے آٹھ بجے نکلنے والی ہیں بس اسٹاپ سے پہلے وہ گلی کے نکڑ پر ان کا انتظار کرے۔دوسرے اس نے سوچا کہ اس کا موڈ آف دیکھ کر امی سمجھ جائیں گی کہ رات کوئی بگاڑ ہوگیا ہے۔
وہ رات جب گھر میں اورنگ زیب سے پہلے داخل ہوئی تھی اس وقت بھی انہوں نے اسے بہت غور سے دیکھا تھا مگر وہ سیدھی اپنے ابو کے پاس چلی گئی جو ومبلڈن کا لیڈیزکوارٹر فائنل میچ دیکھنے میں مصروف تھے۔اس نے انہیں خوش کرنے کے لیے ماریا شراپوا کے شاٹ مارتے ہوئے چیخنے کی عادت کا بیان کیا تو انہیں خوشی ہوئی کہ ان کی صاحبزادی کی دنیا صرف کتابوں تک محدود نہیں۔رومینہ نے بڑی مشکل سے خود کو یونی ورسٹی کے لیے رضامند کیا مگر نکڑ تک پہنچتے پہنچتے اسے آٹھ چالیس ہوگئے تو یونی ورسٹی کی پوائنٹ کی بس جاچکی تھی لہذا یہ منی بس سے وہاں پہنچیں اورباہر کے گیٹ پر اتر گئیں۔
جیسے ہی یہ تینوں سہیلیاں گیٹ سے ذر اندرا آگے بڑھیں۔ نیلے رنگ کی ایک نئی نویلی پراڈو جیپ ان کے برابر آن کر رک گئی۔
سیاہ پورے آستین کی چسپاں سی ٹرٹل نیک ٹی شرٹ اور گرے ڈریس پینٹس میں ملبوس نعمان اسٹیئرنگ پر موجود تھا۔ گلے میں سلور پتلی سی موٹر سائیکل چین بھی پہنی ہوئی تھی ۔جب اس نے انہیں ان کے ڈی پارٹمینٹس تک لفٹ کی پیشکش کی تو تینوں لڑکیوں کو یہ فیصلہ کرنے میں ذرا تاخیر ہوئی کہ اگلی سیٹ پر کون بیٹھے۔اس مشکل کو بھی نعمان نے ہی پلک جھپکتے میں حل کردیا کہ جس کا ڈی پارٹمینٹ سب سے آخر میں آتا ہے وہ آگے بیٹھے۔جیپ میں بیٹھتے ہی جویریہ نے ایک عجیب بات کی کہ اس نے نعمان کو پوچھا کہ” وہ کیا اکثر یونی ورسٹی کے گیٹ کے باہر ہی منڈلاتا ہے؟” نعمان کے چہرے پر ناخوشگواری کو رومینہ نے نوٹ کیا مگر اس نے جواب میں جویریہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ “منڈلانے کا لفظ اس موقع  پر بہت بازاری اردو میڈیم ہے۔پیور اسٹریٹ لنگو۔Lingoالفاظ کا انتخاب ہمارے تعلیم یافتہ ہونے کی پہلی علامت ہے” ۔جویریہ اس کے اردو میڈیم والے لفظ پر کٹ کر رہ گئی۔سارہ شعبہء فارمیسی پر پہلے اتری۔ ساتھ ہی جو چند کیبنز مختلف اشیا کے بنے تھے وہاں ایک دکان پر جویریہ بھی کچھ نوٹس فوٹو کاپی کرانے اتر گئی۔

ماریا شیرا پوا
ٹرٹل نیک

بائیکر چین
بائیکر چین

اس کا انگلش ڈی پارٹمنٹ آنے سے پہلے نعمان نے ایک عجب سوال کیا کہ” کیا آج یونی ورسٹی میں اس کا کلاسز اٹینڈ کرنا لازم ہے؟”
” تو پھر میں کیا کروں گی؟ ” اس نے بھی ایک سوال کرڈالا
” لیٹ می ٹیک یو آوٹ فار اے ڈرائیو۔ یو لک Crest-fallen (بے حد افسردہ) ٹوڈے” ۔ نعمان نے اس کے چہرے پر اس پیشکش اور اس کی کیفیت کا درست ادراک سے پیدا ہونے والی بے چینی کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا۔

” مگر کہاں اور کتنی دیر کے لیے؟ ” رومینہ نے پوچھا
” جتنی دیر کے لیے آپ کہیں ،جہاں آپ کہیں، وہاں چلیں گے” ۔
” نو ہوٹل ، نو فلیٹ ، نو بنگلو، نو آفس اینڈ فار ٹو آورز اونلی” ۔ رومینہ نے اپنی شرائط ایک سانس میں سنا ڈالیں
وہ اسے گاڑی میں بٹھا کر سینڈز پٹ لے گیا۔سمندر شانت تھا اور ساحل پر کوئی بھیڑ بھی نہ تھی۔راستے میں وہ بہت چپ رہی۔

Sands_Pit_Beach,

رات کے اٹھے ہوئے طوفان اب بھی اس کے دل و دماغ میں مچل رہے تھے نعمان نے پوچھا کہ ” وہ بہت اداس ہے ۔بہت چپ چپ اور کھوئی کھوئی؟” ۔
رومینہ اسے بتانے لگی کہ ” وہ اس طرح کبھی کسی مرد کے ساتھ باہر نہیں گئی چہ جائیکہ اپنی سے بڑی عمر کے کسی مرد کے ساتھ۔ وہ کہنے لگا کہ وہ اس پر مکمل ٹرسٹ کرسکتی ہے۔وہ کبھی اسے چھوئے گا بھی نہیں۔نہ ہی وہ اس ملاقات کا یا بعد کی کسی ملاقات کا کوئی تذکرہ کہیں بھی ،کسی سے کرے گا۔وہ مناسب سمجھے گی تو وہ اس کے امی ابو سے مل کراسے اپنی کمپنی میں ملازمت بھی دے دے گا۔وہ اس سے مل کر یقیناًبہت خوش ہوں گے۔ اس کا سوسائٹی میں ایک اونچا مقام ہے۔”
” میں ابھی اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دے سکتی مگر ہاں میں ایک صاف ستھری دوستی کی ضرور خواہشمند ہوں۔ اگر وہ یہ بات نبھاسکے تو اچھا ہوگا” ۔ رومینہ نے اپنا مطمہ ء نظر اسے اس دوستی کے حوالے سے بتایا۔
” وہ اتنی پریشان اور اداس کیوں ہے کیا اس کی اپنے منگیتر سے ناچاقی ہوگئی ہے؟” ۔نعمان کے اس سوال پر  وہ لڑکھڑا سی گئی اور اٹھ کر جیپ کے دروازے کے پاس آن کر کھڑی ہوگئی۔ ان سے دو سو گز دور ایک فیملی کسی ہٹ کے پاس آکر اپنا سامان اتار رہی  تھی تو دو تین لڑکیاں اسے دور سے مگر گھور کر دیکھ رہی تھیں۔ان کی نگاہوں سے بچنے کے لیے وہ جیپ کے درازے کو کھول کر اس کی اوٹ میں کھڑی ہوگئی۔
” ناچاقی ہی سمجھیں۔ یہ مجھے بتائیں کہ کیا چین میں اور تھائی لینڈ میں عورتیں با آسانی دستیاب ہوتی ہیں ۔ان لوگوں کو بھی جو وہاں بزنس کی وجہ سے جاتے ہیں؟”
عورتیں پیسوں پر تو ہر جگہ باآسانی دستیاب ہیں۔انہیں دیکھو جن کو تم فیملی سمجھ رہی ہو وہ بھی ایسا ہی ایک گروپ ہے۔ دیکھو وہ بئیر کا پورا ڈبہ کار سے اتارا جارہا ہے اور ایک لڑکی تو منہ  سے بوتل بھی لگاچکی ہے۔ نعمان نے سوال کا جواب پھر کچھ گھما پھرا کر دیا۔
” رات میں بہت اداس تھی میرا دل چاہ رہا تھاتم مجھے میسج کرتے” ۔رومینہ نے کھڑکی سے اس گروپ کو دیکھتے ہوئے اسے کہا۔ وہ صحیح کہہ رہا تھا وہ لڑکی جو بوتل تھامے کھڑی تھی اس کی کمر میں پیچھے سے کسی لڑکے نے ہاتھ ڈال دیا تھا اور وہ ایک گھونٹ بوتل سے خود لے رہی تھی تو دوسرا وہ لڑکا۔
” ایک تو تم نے مجھے اپنا فون نمبر نہیں دیا ۔مجھے اچھا نہیں لگا کہ میں تمہارا نمبر فرقان سے مانگ کر اسے اس تعلق کے حوالے سے راز داں بناتا۔” رومینہ کو اس کی بات اچھی لگی اور اس کا فون نمبر لے کر رومینہ نے اسے مس کال دی۔
” میں اسے مینا کے نام سے محفوظ کرلیتا ہوں۔آپ کو تو سب ہی رومی کہتے ہوں گے۔تمہارے منگیتر کا نام کیا ہے؟” اس نے پوچھا۔
” گونگ لی اسے بوبی کہتی ہے۔میں اس کا نام نہیں لیتی۔میری امی کو البتہ مجھ پر بہت پیار یا غصہ آئے تو وہ مجھے مینو کہتی ہیں۔” رومینہ نے وضاحت کی۔
” یہ گونگ لی کون ہے ۔اس کی چائنیز گرل  فرینڈ؟۔”
” آپ کے ہوتے ہوئے بھی اسے کسی گرل فرینڈ کی ضرورت ہے آر یو شیور؟ ” نعمان نے اس کی دکھتی رگ اس بات سے چھیڑ دی۔
انہوں نے خود مجھے اس کی تصویریں دکھائیں۔ ” پریٹی اولڈ گرل۔تھرٹی فائی آئی بلیو۔”
” oh then he has mother-fixation.Some Oedipus complex.You better beware”( اوڈی پس کمپلیکس ۔مشہور ماہر نفسیات فرائڈ کی اصطلاح جس کی رو سے اپنی ماں سے جنسی رغبت رکھنا)(اس کا مطلب تو یہ ہے کہ اس کے جنسی خیالات اپنی والدہ سے جڑے ہیں۔یہ تمہارے لیے چیتاونی ہے)۔
ہاں مجھے بھی بہت فکر ہوئی۔
” تو آپ اس بارے میں کسی نتیجے پر پہنچ چکی ہیں؟” نعمان نے کمال شائستگی سے پوچھا۔
” ابھی تو نہیں مگر شاید کچھ دنوں بعد میں اپنی امی کو کچھ بتانے کی پوزیشن میں آجاؤں ۔ میں ابھی کچھ سوچ رہی ہوں۔”
اس حوالے سے اس نے رومینہ کو اور بھی باتیں بتائیں۔ تھائی لینڈ اور دیگر ممالک میں جانے کھیپ یوں کی زندگی کا اسے آفتاب بھائی کے ذریعے کافی کچھ پتہ تھا ۔ ان کی کمیونٹی کے کئی لڑکے اسی طرح کا کاروبار کرتے تھے۔اپنے بارے میں اس نے صرف اتنا بتایا کہ وہ آج سے نو برس پہلے جب وہ تئیس برس کا تھا اور پہلی دفعہ کاروبار کے لیے دوبئی گیا تھا تو اسے کوچین کی ساوتری کلپنا اچھی لگی تھی۔ دونوں نے شادی کرلی تھی مگر بچہ کوئی نہیں ہوا۔وہ پاکستان آنا نہیں چاہتی تھی۔اس کے والدین کو جب ایک مسلمان سے شادی کا پتہ چلا تو بہت ناراض ہوئے اور یوں یہ شادی دو سال کے اندر ہی ایک طلاق کی صورت میں ختم ہوگئی۔یہ تفصیلات تقریباً ویسی ہی تھیں جو اسے شگفتہ کی زبانی معلوم ہوئی تھیں۔ نام میں معمولی سا اضافہ تھا۔اسے لگا وہ ایک سچا انسان ہے ۔ اس کی عمر کا حساب وہی تھا جو اس نے پہلی دفعہ اسے دیکھ کر لگایا تھا یعنی بتیس برس۔
دوگھنٹے بعد رومینہ نے جب اسے واپس جانے کو کہا تو اس نے کسی تامل کے بغیر جیپ کا درازہ کھولا اور اسے چپ چاپ یونی ورسٹی لاکر اتاردیا۔ جب وہ سیمینار میں سر مجاہد سے باتیں کررہی تھی اسے نعمان کا پہلا میسج ملا ” Thanks for trusting me” جسے پڑھ کر اس کا خوش ہونا سر مجاہد نے بھی نوٹ کیا مگر رومینہ نے اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سر مجاہد آج بھی وہی پرانی ضد لیے بیٹھے تھے کہ وہ مقابلے کے امتحان کی تیاری کرے.انہیں یقین ہے وہ میرٹ لسٹ میں آئے گی۔ ٹاپ ٹین۔۔
” آپ نے کیوں نہیں دیا یہ امتحان ؟” رومینہ نے پوچھا۔
” دیا تھا دو دفعہ۔ تب کراچی کے لڑکے بمشکل منتخب ہوتے تھے۔اب اربن علاقوں کے برائٹ اسٹوڈنٹس یا تو ایم بی اے کرتے ہیں یا ڈاکٹر انجینئرز بن جاتے ہیں۔ ڈاکٹری تو انتہائی نامعقول پڑھائی ہے مردوں کے لیے۔ جب تک پیسہ کمانے کی پوزیشن میں آتے ہیں۔ بڑھاپا دامن تھام لیتا ہے۔ زندگی گھومنا پھرنا ۔اسٹیٹس اور کنیکشنز ہیں جو پاکستان جیسے ملک میں صرف سول سروس دیتی ہے” ۔ سر مجاہد نے اپنی محرومیوں کا کچا چٹھا کھول دیا۔
” مینو اگر مجھ سے سچ پوچھو میں تو اس ہائر ایجوکیشن کے ہی خلاف ہوں۔شاید آپ کو میری یہ بات عجیب لگے کہ دس از بیڈ ایجوکیشن۔ہماری پبلک سیکٹرز یونی ورسٹیاں ،لازمی اسکول ایجوکیشن کا خون چوس کر ایک مانسٹر(Monster)بن گئی ہیں۔یہ مافیاز ہیں۔یہ ان کے  ریسورسز کھینچ کر خود بھینس بن گئی ہیں۔کٹ کاپی پیسٹ قسم کے استاد۔بھلا بتاؤ نا شماریات، جغرافیہ، پولیٹکل   سائنس۔ شوشیالوجی کی ڈگری لے کر نکلنے والے طالب علموں کا کیا فائدہ ہے ۔ہرسال ان جامعات سے ہم ہزاروں کی تعداد میں باہر گریجوٹس انڈیل دیتے ہیں ۔
یہ نادان ریوڑ کی بھیڑیں خود کو ان ڈگریوں کی بنیاد پراعلیٰ تعلیم یافتہ اور عمدہ ملازمتوں کا حق دار سمجھتے ہیں۔میری د لیل کو سچ مان لیا جائے تو” دنیا میں جتنے بڑے آدمی ہوئے ہیں ان کی اکثریت اسکول ڈراپ آؤٹس کی تھی۔ لیونارڈو ڈا ونچی، شیکسپئر، رومی ،ملٹن، میر ،غالب داغ،فریدالدین عطار، عمر خیام،انہوں نے تو اسکول کا منہ  بھی نہ دیکھا تھا مگر ان کی تخلیقات پر لوگ پی ایچ ڈی کرتے ہیں” ۔
مگر یہ تو سر ہم ایک بہت اعلیٰ علم یافتہ اقلیت کی بات کررہے ہیں۔ پھر آپ اس بات کا برا نہ مانیں تو اس دلیل میں آپ کے لیے غور کرنے کو بہت کچھ ہے۔
رومینہ نے اپنی بات کی کاٹ کو اپنی مترنم ہنسی میں چھپاتے ہوئے انہیں چھیڑا۔
” یو آر سو ڈیم برائٹ۔مگر مجھے ڈر ہے علم و دانش کا یہ سارا مون سون اپنے کزن پر پاپوش نگر کے بنجر ریگستان میں برسے گا۔”
” جو اللہ کو منظور ہوگا وہ ہی ہوکر رہے گا سر آپ اور ہم کیا کرسکتے ہیں” ۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل آئی اس لیے کہ سارہ اور جویریہ سمینار کے باہر منڈلا رہی تھیں۔گھر آنے تک اس کی کل رات کی اداسی کے اثرات نعمان کے ساتھ بتائے گئے لمحات کی وجہ سے بہت حد تک معدوم ہوچکے تھے مگر پھر بھی اس کی امی نے کھانے کے بعد پوچھ لیا کہ وہ او ر نگ زیب کے ساتھ واپس لوٹ کر آئی تو اس کا منہ  کیوں اس قدر لٹکا ہوا تھا؟” کچھ نہیں امی مجھ سے وہ وہاں بنکاک کی نائٹ لائف کی ولگر باتیں کررہا تھا تو میں نے اسے بری طرح ڈانٹ دیا” ۔ رومینہ نے بہانا تراشا۔
” کیا کہہ رہا تھا میں بھی تو سنوں۔آگے کبھی بات نکلے تو ہمارے پاس بھی تو کہنے کو کچھ ہو؟”
” بس امی جانے دیں بوبی کی باتیں سن کر مجھے تو آگ لگ گئی تھی” ۔
” ارے لڑکی تو کس بوبی کی باتیں کررہی ہے؟”

“امی، اورنگ زیب کو گونگ لی بوبی کہتی ہے۔ان چینیوں کے لیے اورنگزیب ایک مشکل نام ہے ۔”
” اور یہ موئی گونگ لی کون ہے؟”
“امی یہ اس کی چینی گرل فرینڈ ہے۔اس کو یہ اپنی دوسری بیوی بنانا چاہتا ہے۔ مجھے تو ڈر ہے کہیں اس سے پہلے ہی اس نے شادی نہ کرلی ہو۔ چین کی شادی کا ہمیں کیا پتہ”
“اچھا تو بات اب اتنی بڑھ گئی۔ یہ موئے مرد ادھر اُدھر منہ  تو مارتے رہتے ہیں۔یہ کم بخت اتنا مادر پدر آزاد ہوجائے گا مجھے اندازہ نہیں تھا؟!”
رومینہ کو غیبت سے بہت چڑ تھی مگر اس نے سوچا کہ بات چل نکلی ہے تو وہ سب کچھ اپنی امی کو بتادے تاکہ اگر اسے اورنگ زیب کو چھوڑنا پڑے اور ا س کے تعلقات نعمان سے بڑھ جائیں تو اس کے پاس بھی ایک واضح جواز موجود ہو۔
اپنی امی سے گفتگو سے رومینہ کو ایک اطمینان یہ ہوگیا کہ کم از کم خاندان کی سطح پر اس کی طرف سے ایک کامیاب وکیل اسے اپنی والدہ کی صورت میں میسر ہے۔وہ یقیناًموقع پا کر اس کے ابّو سے اس بارے میں گفتگو کریں گی۔ یوں ان سب کے اورنگ زیب کے بارے میں خیالات میں ایک یکسوئی ہوگی۔تین دن اس حوالے سے ایک عجب سی خاموشی طاری رہی۔اسے بوبی کے تین چار دفعہ فون آئے اور سیل فون پر اس نے پیغامات تو لا تعداد بھیجے جس میں معافی سے لے کر ہر طرح کی وضاحت رومن اردو میں کی گئی تھی ۔رومینہ نے تو اس کا فون سنا ،نہ ہی اس کے کسی پیغام کا جواب دیا۔نعمان نے اسے ان دنوں میں فون تو کوئی نہیں کیا مگر اس کے پیغامات اسے بھی کئی ملے۔ یہ مجموعی طور پر  اس کی خیریت اور اس کی ذہنی کیفیت کے بارے میں معصوم سا استفسار تھے۔

اس نے نعمان کے ہر پیغام کا جواب اسی سلیقے اور محتاط انداز میں دیا جو اس طرح کے تعلقات کے آغاز میں کسی پڑھی لکھی مڈل کلاس لڑکی کو دینا چاہیے تھا۔ تیسرے دن البتہ اس نے ایک چھوٹی سی نادانی یہ کی کہ اپنے ایک پیغام میں اسے یہ کہہ دیا کہ اس نے کبھی نہیں پوچھا کہ اس رات جب وہ بوبی( اب وہ اورنگ زیب  کو  بوبی سے ناراض تھی رومینہ نے اس رات نعمان کے میسج کی خواہش کیوں کی تو وہ اگلی صبح بقول نعمان کے اسے بہت Crest-fallen لگی تھی؟
نعمان نے اسے ایک حوصلہ افزا اشارہ سمجھا۔ایک ایسی دراڑ جس میں پیار کے سورج کی پہلی کرن نے رومینہ کے وجود کے اندر جھانک لیا ہو اور چالاکی سے اس کے منصوبے کے عین مطابق اورنگ زیب کی برپا کردہ بے لطف تاریکی کو دور کرنے کا فیصلہ کرلیاہو۔
اس گرگ باراں دیدہ نے فوراً اس اشارے کو پینلٹی اسٹروک والے سوال میں تبدیل کرنے کی بجائے رومینہ کی انا کے پھریرے حسن کی جواں سال پہاڑیوں پر ایسے لہرادیے جیسے بھوٹان اور تبت کی بلند و بالا خانقاہوں میں یاتریوں کی دعاوؤں کی جھنڈیاں لہراتی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london
دعاوں کے پھریرے

یاتری

اسے  اپنے ریشمی  جال میں لپیٹنے کے لیے اسی کی ایک عادت کا اس پر اظہار کردیا ۔وہ یہ کہ چونکہ وہ اس سے بھی بہت کم سوال کرتی ہے ۔لہذا اس نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس دوستی میں کوئی ایسی بات نہیں کرے گا جو رومینہ کے اپنے وضع کردہ اصولوں کے برخلاف ہو۔ رومینہ کو اس کا یہ طرز عمل دل لبھانے والا اور بہت میچور لگا۔
رات کے کسی پہر البتہ اس نے رومینہ کو یہ جتادیا کہ ہر مرد کو اس بات کا ضرور تجسس ہوتا ہے کہ کسی خاتون نے اپنے لمحات اداسی اور تنہائی میں اسے کس پیرائے میں یاد کیا؟ اس پر رومینہ نے اسے جاپانی ادیب ہاروکی مراکامی کا یہ جملہ لکھ بھیجا کہ The things she most wanted to tell him would lose their meaning the moment she puts them into words.148( وہ بات جس کا اظہار وہ سب سے زیادہ ضروری سمجھتی ہے۔اس کو وہ اگر الفاظ کا جامہ پہنا دے تو وہ بات اپنے اصل معنی سے محروم ہوجائے گی۔)۔
نعمان کہاں باز رہنے والا تھا۔اس نے  بھی  جواب میں   مشہور امریکی ادیبہ گرچن روبن کا یہ جملہ لکھ بھیجا کہOne of the great joys of falling in love is the feeling that the most extraordinary person in the entire world has chosen you.(پیار میں اس سے بڑی مسرت کوئی اور ہو ہی نہیں سکتی کہ ایک انتہائی دل فریب شخصیت نے آپ کو اپنا محبوب تسلیم کرلیا ہے)۔
اس کے اس جواب سے رومینہ ایک برگ لرزاں کی طرح اپنی شاخ سے ٹوٹ کر لطف و بے یقینی کی فضاؤں میں اڑنے لگی۔ گو وہ بات جو اب تک ان کہی ہی رہ گئی تھی وہ صرف اتنی سی تھی کہ
اس رات جب وہ پریشاں تھی اس نے نعمان کو کس طرح یاد کیا تھا؟ اس نے رات کے آخری پیغام کے طور پر یہ لکھ بھیجا کہ اس رات وہ بہت ہراساں تھی۔بچپن کا ایک تعلق ٹوٹ رہا تھا لہذا اس نے اپنی پریشانی کے عالم میں خود سے کہا تھا۔۔۔Oh Hide me Nomi” نعمان کی جانب سے اسے جو آخری پیغام موصول ہوا وہ یہ تھا کہ ع
لہو بے کس کا ،مقتل کی زمیں پر
نہ خنجر پر، نہ ان کی آستیں پر
رومینہ جو انگریزی ادب کی طالبہ تھی اور اردو شاعری کا اچھا ذوق رکھتی تھی  اسے اس جواب میں بہت معنی آفرینی اور ایک بے کسی سے کسمساتا احتجاج اچھا لگا۔وہ یہ سوچتے سوچتے اپنا فون بند کرکے سوگئی کہ نومی کی اس Banter(عشاق کی نوک جھونک) اور بوبی کی بنکاک میں صبح اور شام کو مختلف قسم کی انگریزی بولنے والے چھچھورے مذاق میں کتنا واضح اور دل کو موہ لینے والا فرق تھا۔
صبح اٹھ کر اس نے جب یونی ورسٹی جانے سے پہلے اپنا سیل فون آن کیا تو جہاں اس پر جویریہ، فرقان بھائی اور سارہ کے پیغامات   موصول ہوئے تھے وہیں نعمان کا ایک پیغام یہ بھی تھا۔۔ “زندگی کا مطلب اپنے آپ کو تلاش کرنا نہیں بلکہ خود کو تخلیق کرنا ہے۔جارج برنارڈ شا” جس کا اس نے پوائنٹ کی بس میں بیٹھے بیٹھے مصطفےٰ زیدی کے اس شعر کی صورت میں اس اضافی جملے کے ساتھ دے دیا کہ Poetry usually takes the long way home148 (شاعری بسا اوقات دل میں گھر کرنے کے لیے کچھ وقت لیتی ہے) ع
تجھ سے تو دل کے پاس ملاقات ہوگئی
میں خود کو ڈھونڈنے کے لیے در بدر پھرا
جانے اسے یہ خیال کیوں دل میں آیا کہ رات بھر اس کے فراق میں تڑپنے والا نومی صبح نو بجے کے قریب سو رہا ہوگا۔اس کے باوجود اس نے اپنا فون کئی دفعہ پرس سے نکال کے اس امید کے ساتھ دیکھا کہ ممکن ہے صورت حال اس کے برعکس ہو۔اس کے فون پر پیغام کا معاملہ چپ تھا۔۔
کلاسوں اور لیکچر کے جھمیلے سے وہ فارغ ہوگئی تو فرقان بھائی نے اسے جویریہ سارہ اور تابش بھائی کو ٹریٹ دینے کا منصوبہ بنایا اور انہیں اپنی پرانی سوزوکی کار میں بٹھا کر گلستان جوہر کہیں چاٹ کھلانے لے گئے۔چاٹ کھانے کے دوران ہی رومینہ کو کچھ بدمزگی محسوس ہوئی مگر وہ اس کا اظہار کرنے سے اس لیے باز رہی کہ اس سے  ممکن ہے دوسروں کا مزہ بگڑ جائے۔اسی طرح کی بدمزگی اسے مالٹے کا جوس پیتے وقت بھی ہوئی۔اسے لگا کہ دکاندار کے ہاں صفائی  کا کوئی خاص اہتمام نہیں۔ ممکن ہے چاٹ کل کی بنی ہو اور رات میں اگر طویل دورانیے کے لیے بجلی گئی ہو اور یوں چاٹ میں خرابی پیدا ہوگئی ہو۔
گھر پہنچتے پہنچتے اسے  دو تین الٹیاں بھی آئیں  اور طبیعت میں بہت متلی کی سی کیفیت کے ساتھ اسے سر درد بھی بہت شدید ہونے لگا اور بخار بھی آگیا۔ شام گئے تک اس کا بخار بھی تیز ہوگیا۔امی اسے محلے کے ایک ڈاکٹر کے پاس لے گئیں۔ڈاکٹر نے اسے دو دن کی دوائی دی مگر اس سے کچھ افاقہ نہ ہوا تو اس نے ٹائیفائڈ فیور کا اندیشہ اس وقت ظاہر کیا جب رومینہ نے اسے بتایا کہ  اسے چاٹ کھانے کے دوران ہی شدید متلی ہوئی تھی۔ اس کے اسٹول اور بلڈ کے ویڈال ٹیسٹ سے ڈاکٹر کا ندیشہ درست ثابت ہوا۔شام کو پہلے اس کی چھوٹی خالہ دیکھنے آئیں تو اس کا امی نے بیماری کا اصل سبب گو ل کرکے اورنگ زیب والی ملاقات کو مورد الزام ٹھہرایا۔وہ کہہ رہی تھیں کہ ” لڑکی نے بات دل پر لے لی ہے اور بستر پکڑلیا ہے”۔خالہ کا اصرار تھا کہ ” ان کی بڑی بہن اور رومینہ کی امی ابھی یہ بات اس کے ابو کو نہ بتائیں۔ بات میکے میں ہی رہے تو بہتر ہے۔کل اتوار ہے وہ اورنگ زیب کے ابو اور اپنے بھائی کو لے کر آئیں گی اس وقت اس معاملے پر کھل کر بات کریں گے”۔
اتوار کے دن اس کی بیماری کو چوتھا روز لگ چکا تھا۔اس عرصے میں اسے نعمان کے کئی پیغامات ملے۔جن میں ڈاکٹر کی تبدیلی سے لے کر اس کے بخار کے حوالے سے اپنی فکر کے کئی حوالے تھے۔ دو ڈھائی بجے اس کے گھر جویریہ بھی آگئی۔جس نے اسے بتایا کہ چار بجے کے قریب فرقان بھائی،تابش بھائی اور نعمان کے بھی اس کی مزاج پرسی کے لیے کچھ دیر بعد آنے کے  امکانات ہیں۔
مہمانداری کے تکلفات سے نمٹنے کے لیے اس کی امی نے اپنی چھوٹی بہن اور رومینہ کی دوستوں جیسی خالہ طوبیٰ کو بلالیا جو اپنی بوڑھی والدہ جن کو گھٹنوں میں شدید درد کی وجہ سے دوسری منزل پر واقع اس فلیٹ کی سیڑھیاں اترنے چڑھنے میں خاصی دقت ہوتی تھی ۔
ان کے ساتھ ایک گلی چھوڑ کر ایک فلیٹ میں رہتی تھیں۔انہیں طلاق ہوچکی تھی ۔ ان کی شادی بھی ان کے بڑے ماموں اور بوبی کے ابو کی جلد بازی سے الیکڑانک مارکیٹ کے ایک چالیس سالہ امپورٹر سے ہوئی تھی جس نے ان سے جھوٹ بولا تھا کہ اس کی پہلی بیوی سے پنجاب کے شہر جہلم میں دو سال پہلے طلاق ہوچکی تھی۔

  • julia rana solicitors
  • merkit.pk
  • julia rana solicitors london

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply