شہر کی ایک مشہور پبلک یونی ورسٹی کے ایام وابستگی سے منسلک سچے واقعات سے جڑی ایک جھوٹی کہانی
گزشتہ سے پیوستہ احوال۔۔پہلی قسط کا آخری حصہ
اس نے جب اس غزل کے بہت سے اشعار سنائے تو ا ن میں دو اشعار ایسے تھے جو انہوں نے پہلے کبھی نہیں سنے تھے یعنی ع
یہ کون لوگ ہیں موجود تیری محفل میں
مجھے تو جل کے تجھے حسرتوں سے دیکھتے ہیں
تو سامنے ہے تو پھر کیوں یقیں نہیں آتا
یہ کیوں ہم بار بار آنکھ مل کے دیکھتے ہیں
رومینہ کو نہ صرف اس کے شعر پڑھنے کا انداز بہت من بھاؤنا لگا بلکہ اسے لگا کہ یہ دو اشعار وہ محض اسے مخاطب کرکے پڑھ رہا تھا۔ اس دوران اس کی نگاہیں بھی رومینہ پر ہی مرکوز رہیں۔
۔۔۔۔۔
جویریہ نے نعمان سے بہت ضد کی کہ وہ گھر کے اندر آئے اور چائے پی کر جائے مگر اس نے کسی اہم میٹنگ میں دیر ہونے کا بہانہ کیا اور چل پڑا۔ ان دوستوں میں بہت دیر تک اس کے حوالے سے باتیں ہوتی رہیں
تینوں ہم مکتب سہیلیوں میں نعمان کے حوالے سے خوب بحث ہوئی ۔جویریہ کا خیال تھا کہ وہ رومینہ پر عاشق ہوگیا ہے مگر سارہ کہنے لگی کہ” یہ کارپویٹ سیکٹر کے جو لوگ ہوتے ہیں وہ Breezy (ہوا کے جھونکوں جیسے )ہوتے ہیں ان میں کلاس اور لاتعلقی بھی بہت ہوتی ہے۔ہمارے خا ندان کے مردوں اور یونی ورسٹی کے لڑکوں اور ٹیچرز کی طرح دسمبر میں قبرستان کی رات کی طرح ہونق اور ویران طبع نہیں ہوتے”۔
جویریہ کا تعلق ایک گجراتی فیملی سے تھا اور ان کا ایلومونیم کے اور لوہے کے برتنوں کا اچھا خاصا کاروبار تھا۔رومینہ کو سارہ کی بات اس لحاظ سے جلدی سمجھ آگئی۔اس کے اپنے ابو ایسے نہ تھے۔ وہ دس بارہ دن میں شراب بھی پیتے تھے۔موسیقی کا بھی شوق تھا اور ملکی سیاست پر کرکٹ کے بارے میں بھی خاصی معلومات رکھتے تھے۔


جویریہ کے گھر سے رومینہ نے اس کے بھائی کے ذریعے اپنی امی کو یہ پیغام بھجوادیا کہ وہ یونی ورسٹی سے سیدھی جویریہ کے گھر آگئی ہے ۔سارہ بھی ساتھ ہے۔یہ کام وہ اپنے فون کے ذریعے بھی کرسکتی تھی مگر اس کی اس حرکت سے امی کو شک ہوتا کہ وہ یہ پیغام کہیں اور سے بھیج رہی ہے۔ جویریہ کی امی نے ان کے لیے فٹا فٹ پکوڑے بنالیے۔ چائے اور پکوڑوں کے کھانے کے دوران سارہ نے رومینہ کو جتایا کہ نعمان ماموں اس پر عاشق ہوگئے ہیں تو جویریہ کہنے لگی ” اڑے یہ اس بے چاری کا پرابلم ہے ۔وہ اپن کے آثار قدیمہ فزکس والے سر امانت بھی اپن لوگ کو بلاوجہ پریکٹیکل میں Reading Error بتا کر اس بے چاری کو اپنی بوڑھی آنکھوں سے کون آئس کریم کی طرح چاٹتے رہتے تھے۔ مگر یہ تو بتا میری بنّو( پرانی اردو میں دلہن کو کہتے ہیں)۔ تیرے کو یہ سالے بڑی عمر کے اپنے سے بڑے بڑے مرد کیوں پسند ہیں؟”
جس پر رومینہ کہنے لگی کہ” دیتی ہے مزہ جب ہو کہانی آدھی۔”
نو پلیز ایکسپلین مور آئی ایم ناٹ سیٹ اس فائڈ( نہیں مزید وضاحت کرو میں مطمئن نہیں) سارہ نے اصرار کیا۔
” یہ جو میچیور مرد ہوتے ہیں لٹل اور تھرٹی۔ان میں برساتی نالوں ندی جیسی طغیانی نہیں ہوتی۔ان میں وہی مزہ ہوتا ہے جو وسیم اکرم اور عمران خان کے آخری اوورز میں ہوتا ہے۔ ریورس سوئنگ والا۔یہ مرد بحرالکاہل جیسے ہوتے ہیں ۔ دنیا کا نقشہ دیکھو تو نیلے شانت پیسفیک اوشن نے کیسی کیسی کنٹریز کو گلے لگایا ہوا ہے،جاپان،فلپائن، انڈونیشیا، چلی،چین،امریکا، میکسکو فرانس اورآسٹریلیا۔” رومینہ نے اپنی انٹرنیٹ سے سمیٹی ہوئی جنرل نالج سے انہیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اس نے جویریہ کے بھائی کے ذریعے اپنے گھر کے کپڑے بھی منگوالیے تھے۔اس نے ضد کی کہ چلو یار بھائی میاں کی طرف چلیں ۔سالے اس سے پہلے کہ دوسری دکان پر چلے جائیں گے۔یہ بلاؤز آلٹر کرنے دے آئیں مجھے یہ بہت فٹ ہے۔سالی زپ بھی میری بہن سبرینا نے کمر پر بند کی تھی مجھ سے تو ہو ہی نہیں رہی تھی۔



سارہ نے مذاق کیا کہ اس میں قصور بلاؤز کا نہیں بے بی یو ہیو گون بگ ان رائٹ پلیسز(تم مناسب جگہوں میں ذرا پھیل گئی ہو) جس پر رومینہ شرما گئی۔
بھائی میاں ان کے مشترکہ درزی تھے۔ ان کی ایک دکان تو جویریہ والی گلی میں تھی تو دوسری دکان نیپئر روڈ پر تھی جہاں وہ صرف کٹنگ کرتے تھے۔طوائفوں میں وہ بہت مقبول درزی تھے۔انہیں ہندوستانی فلمیں دیکھ کر مجروں کے لیے نت نئے لباس سلوانے ہوتے تھے۔کبھی کبھار یہ بے تاب روحیں ان کی پاپوش نگر والی دکان پر بھی پہنچ جاتی تھیں۔اس وقت بھی وہاں دو بے حد حسین طوائفیں ضد کر رہی تھیں کہ” وہ ایک بلاؤز جو وہ اپنی جینز پر پہنے سب کے سامنے کھڑی تھی۔اسے بالکل کرینہ کپور کے تھری ایڈیٹس والے ذوبی ڈوبی والے گانے جیسا بنائیں۔ اس کی لمبائی کچھ زیادہ ہے۔پیٹ ٹھیک سے دکھائی نہیں دے رہا”۔ان تین لڑکیوں نے ساٹھ برس کے بھائی میاں کو اس کی فرمائش سے کچھ پریشاں دیکھا تو جویریہ کہنے لگی “پھر خالی برا پہن لے تو کام چل جائے گا”۔نارنجی رنگ کا یہ بلاؤز ان سب کو بھی بہت پسند تھا مگر اسے وہ اپنے میاں کے سامنے تو پہن سکتی تھیں وہ بھی خواب گاہ کے اندر۔باہر پہننے کا کم از کم وہ اس صدی کے دوران تو سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔ رومینہ کو لگا کہ اس طوائف زادی نے جویریہ کی بات سن لی ۔بھائی میاں نے تنگ آکر اپنے کاریگر کو کہا کہ ” اس کو یار پانچ انچ اور اندر ٹک کردے۔”

اب رومینہ کی باری تھی وہ کہہ رہی تھی کہ ” ماسٹر صاحب یہ بلاؤز آپ نے میرے لیے بنایا ہے یا کرینہ کپور کے لیے۔میرے میزرمینٹ سے پورے تین انچ لمبائی میں چھوٹا ہے۔” اس کا اعتراض سن کر بھائی میاں کہنے لگے ” وہ بلاؤز پہننا چاہتی ہے یا شامیانہ اوڑھنا چاہتی ہے۔ آپ پھر ساڑھی نہ پہنیں۔پیٹ دکھائی نہ دے تو ساڑھی زندہ لاش کا قیمتی کفن لگتی ہے۔ ”
ان کے اس جواب پر ایک طوائف نے کہا ” واہ ماسٹر صاحب کیا پوائنٹ مارا ہے۔” اس پر جویریہ چڑ گئی اور انہیں مخاطب کرکے کہنے لگی ” ایسے بلاؤز آپ کے ہاں تو چل سکتے ہیں ہمارے ہاں نہیں۔” وہ طوائف کہاں پیچھے رہنے والی تھی ۔ترنت جواب ٹھوک مارا کہ ’ہمارے ہاں تو بہت کچھ چلتا ہے۔ہم تو کپڑے یہ سوچ کر پہنتے ہیں کہ ان کو آخر میں اترنا بھی ہے۔ آپ لوگ تو کپڑے دوسروں کی ونڈو شاپنگ کی سہولت کے لیے پہنتے ہیں۔ دیکھیں گے سب بیرے، فقیر،رکشہ والے بھائی میاں سب مگر انجوائے مشکل سے ایک آدھ لوزر مرد ہی کرے گا” اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی،
وہ کاریگر کہنے لگا یہ ہوگیا ہے ۔ٹرائی کرلیں وہ جب یہ اندر سے پہن کر آئی تو کولہے اور ہاتھ ہوا میں ناچاتے ہوئے فلم تھری ایڈیٹس کا گیت جویریہ کو چڑانے کے لیے گانے لگی ” بھیگی بھیگی ساری میں یوں ٹھمکے لگاتی تو، جیسے فلموں میں ہوتا ہے، ہورہا ہے ہو بہو۔ ذوبی ڈوبی پرم پم کیوں ناچے پاگل سٹوپڈ مین” اسے یوں ناچتے دیکھ کر بھائی میاں کہنے لگے” کمینی نچوڑی، شریفوں کا محلہ ہے،اپنی نہیں تو ہماری عزت کا ہی کچھ خیال کرلے” ۔جس پر وہ اترا کر کہنے لگی۔” ماسٹر صاحب ہماری کلا(فن) دیکھنے شریف لوگ ہی آتے ہیں ۔جیل سے صولت مرزا اور خالد شہنشاہ کو نہیں لایا جاتا۔ پاگل اسٹوپڈ مین جب شریفوں کے کپڑے اترتے ہیں تو سب سے زیادہ مزہ بھی شریفوں کو ہی آتا ہے” ۔کپڑے تبدیل کرکے جب وہ باہر آئی توان لڑکیوں کے رد عمل کا انتظار کیے بغیر اس نے پانچ سو روپے کا نوٹ ماسٹر صاحب کو دیتے ہوئے باہر منتظر رکشہ میں بیٹھتے ہوئے کہا ۔” حساب بعد میں ہمارے آفس پر کرلیں گے” ۔
ان کے جانے کے بعد سارہ نے ماسٹر صاحب سے پوچھا کہ ” ان کا آفس بھی ہوتا ہے؟” ۔ اس بے چاری نے سوائے اپنی پرنسپل اور یونی ورسٹی کے دفاتر کے علاوہ کوئی اور آفس نہ دیکھا تھا تو ماسٹر صاحب بتانے لگے کہ ” آفس یہ رنڈیاں اپنے کوٹھے کو کہتی ہیں” ۔
رومینہ نے جب بلاؤز کی تنگی اور زپ کے مشکل سے بند ہونے کی شکایت کی توماسٹر صاحب جو ایک گرُگِ باراں دیدہ( مولانا رومیؒ کی اصطلاح میں وہ بھیڑیا جس نے برساتوں کے کئی موسم دیکھے ہوں) تھے۔ وہ کہنے لگے کہ اگر رومینہ اس بات کی اجازت دے تو اس کی شکایت پر اکبر اعظم کے نورتن عبدالرحیم خان خاناں کا ایک دوہا برج بھاشا( پرانی ہندی) میں سنا تھا۔ اس زمانے میں عورتوں کے کپڑے صرف عورتیں ہی سیتی تھیں۔ان کی بات سن کر جویریہ کہنے لگی کہ ماسٹر صاحب آج ویسے بھی ہمارا یوم شاعری ہے ۔آج ہر مرد ہم کو شعر سنارہا ہے اللہ خیر کرے۔ ماسٹر صاحب نے ایک دوہا پڑھا کہ ع
بار بار درجن جھگڑت، نار کھڑی ناراج ٹھاڑ
جوئی جوئی انگیا سیوت ہوئی سیوت کاڑھ
(درزن سے ناراض بی بی یہ جھگڑا کرتی ہے کہ میں جب بھی تم کو اپنی چولی کشادہ کرنے کے لیے دیتی ہوں تم اسے پہلے جیسی تنگ سی دیتی ہو)۔
ان کا یہ شعر سن کر تینوں لڑکیاں اپنی اپنی رنگت کے حساب سے شرم سے گلابی ہوگئیں۔ جس میں سب سے زیادہ گلابی پن رومینہ کا نمایاں تھا۔ماسٹر صاحب کہہ رہے تھے کہ” بی بی آپ نے بلاؤز پورے ایک مہینے بعد واپس کیا ہے۔اس دوران آپ نے اپنا حساب نہیں رکھا”۔ رومینہ کو اس بات پر مزا بھی آیا اور اسے یاد آیا کہ سارہ نے کچھ دیر پہلے ہی اس سے مذاق کیا کہ ” اس میں قصور بلاؤز کا نہیں بے بی یو ہیو گون بگ ان رائٹ پلیسز”۔وہ سوچنے لگی ۔ یوگا اور ورزش اپنی جگہ مگر کیا واقعی ایسا ہوا ہے۔ اب رومینہ نے دوسرا اعتراض کیا کہ ” اس کا گلا بھی کچھ زیادہ ہی کھلا ہے”۔ماسٹر صاحب جو آج کچھ زیادہ ہی شوخی کے موڈ میں تھے۔ کہنے لگے “جن کے دل بڑے ہوتے ہیں ان کے گلے بھی خود ہی بڑے ہوجاتے ہیں”۔اس دوران ان کی نظر اس کے گلے میں دو دل والے جھولتے پینڈینٹ پر تھی۔”بڑا دل میرا نہیں کسی اور کا ہے”۔ ا پنے پینڈنٹ سے کھیلتے ہوئے رومینہ نے وضاحت پیش کی۔
گھر واپس آن کر رومنیہ اپنے ابو کے پاس چلی گئی۔ جو ایک پیگ ہاتھ میں تھامے ٹی وی دیکھ رہے تھے۔انہوں نے آج کی نمائش کے حوالے سے رومینہ سے پوچھا تو اس نے اپنے اسٹال کی سیل سے نعمان کے ساتھ واپس آنے تک کی روداد سنا ڈالی بس اس میں وہ اشعار والی اور عبایا پہنتے وقت اس کے جملے کو سینسر کردی۔انہوں نے جب اسے احتیاط کرنے کو کہا تو رومینہ نے انہیں یہ کہہ کر مطمئن کردیا کہ وہ فرقان کے ماموں ہیں اور واپسی پر ان کا دوست آفتاب اور اس کی بیوی شگفتہ کا بھی بتادیا جس سے ماں با پ دونوں کو یک گونہ تسلی ہوگئی۔ رومینہ کو یہ پتہ نہ تھا کہ شگفتہ آفتاب کی بیوی نہ تھی بلکہ اس کی رکھیل تھی۔
نمائش کے دوسرے دن گہماگہمی کم تھی ۔اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ فائنل ائیر آرٹس کے لڑکوں نے کوئی کرکٹ میچ رکھ لیا تھا۔ وہ تینوں سہیلیاں بہت دیر تک نعمان کی باتیں کرتی رہیں۔ سارہ کو بھی وہ بہت اچھا لگا تھا مگر اس کا کوئی ارادہ اپنے سے بڑی عمر کے کسی مرد سے عشق لڑانے کا نہ تھا۔اس نے کئی دفعہ رومینہ کو جتایا کہ نعمان کو وہ ضرورت سے زیادہ اچھی لگی ہے۔اس کی آنکھوں میں رومنیہ کے لیے ایک بھوک تھی۔ ایک پیار تھا جو اسے کم از کم معمول سے ذرا ہٹ کر لگا۔
شگفتہ البتہ بارہ بجے کے بعد وہاں اسٹال پر آئی۔ اسے آفتاب وہاں نمائش پر یہ کہہ کر چھوڑگیا تھا کہ وہ گلستان جوہر میں اپنے کسی پراجیکٹ پر جارہا ہے۔ نعمان صاحب دو دن کے لیے دوبئی چلے گئے ہیں۔وہاں کی کوئی کمپنی یہاں کارپوریٹ فارمنگ کرنا چاہتی ہے۔اس کے لیے زمین بھی خریدنی ہے۔اور ان کے ساتھ مارکیٹنگ بھی کرنی ہے۔لڑکیوں کے سر سے یہ باتیں اوپر سے گزر گئیں۔سارہ نے اس سے پوچھ لیا کہ کیا وہ آفتاب کی بیوی ہے تو اس نے شرما کر کہا “Sort of” جویریہ نے اس پر دوسرا سوال داغ دیا کہ یہ “Sort of” کیا ہوتا ہے۔ وہ کہنے لگی کہ آفتاب کی بیوی اس کی فرسٹ کزن ہے اس لیے انہوں نے ہماری شادی کو پبلک نہیں کیا۔جب جویریہ اور سارہ کہیں ادھر اُدھر ہوئیں تو شگفتہ نے اس سے پوچھا کہ ” اسے نعمان کیسا لگتا ہے۔ وہ تو اسے بہت اچھی لگتی ہے؟” تو رومینہ نے کہا “وہ اچھے اور بڑے سلجھے ہوئے آدمی ہیں ۔وہ ان کے بارے میں کچھ جانتی نہیں ۔اس لیے اس نے کچھ ان کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔”
“ویل وہ بہت خوش حال ہے، سنگل ہے۔ شادی ہوئی تھی مگر بیوی کلکتہ کی انڈین تھی۔ وہ دوبئی میں رہتی تھی۔یہاں پاکستان آنا نہیں چاہتی تھی۔ انہوں نے لہذا اسے چھوڑدیا بچہ کوئی نہیں
۔پہلے ان کا نام زاہد تھا۔ ایک رات وہ کسی پارٹ میں اپنی بیوی کلپنا کے ساتھ گئے تھے۔دوبئی میں ایسی پارٹیاں بہت عام ہیں۔وہاں انہیں ایک ہندو Tarrot Card Reader” (مستقبل بینی کے لیے سولہویں صدی سے مروج تاش کے 78 پتے جن کو سامنے والا اپنی مرضی سے پھینٹتا ہے اور کچھ کارڈ ان میں سے اپنی مرضی سے علیحدہ کرلیتا ہے جس سے مستقبل کا احوال بتایا جاتا ہے) مل گئی ۔اس نے ان کے پتے پڑھے۔اس نے کہا کہ وہ اپنا نام زاہد سے بدل لیں یہ نام انہیں موافق نہیں۔ اس نام کی وجہ سے انہیں ایک حادثہ بھی پیش آئے گا۔ان کی شادی میں مذہب اور وطن کی وجہ سے بہت مشکلات ہیں۔اس کا چلنا محال دکھائی دیتا ہے۔انہیں بچوں کا بہت شوق ہے اور ان کی بیوی بچے پیدا کرنے سے قاصر ہے” شگفتہ نے ایک ہی سانس میں یہ سب کچھ اسے بتایا۔
جویریہ اور سارہ جب واپس آئیں ۔ اس نے نعمان کے بارے میں کچھ بات نہ کی۔ اپنے بارے میں وہ بتانے لگی کہ وہ پہلے ٹی وی ڈراموں میں بھی آتی تھی اور ان ہی لوگوں کے ہر پراجیکٹ کے اشتہارات میں وہ ماڈلنگ بھی کرتی ہے۔
رات کو اسے اورنگ زیب وہاں پاپوش نگرمیں ہی آئس کریم کھلانے لے گیا ۔ رومینہ کو ساتھ لے جانے کی یہ اجازت اس کی اپنی امی کی مداخلت پر ملی۔ وہ اس کے ساتھ ان کے گھر آئی تھیں۔ اس نے رومینہ کی بہن سبرینا کے ذریعے ا س کی امی سے رومینہ کو ساتھ لے جانے کی اجازت مانگی تو انہیں کچھ ہچکچاہٹ تھی۔اس پر اورنگ زیب کی امی نے کہا کہ ” تہمینہ اب بچوں کو ساتھ گھومنے دو ۔اس سے منگیتروں میں انڈر اسٹینڈنگ بڑھتی ہے”۔وہ نارتھ ناظم آباد کے لڑکیوں کے ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں۔وہ کہنے لگیں “اب پرانے زمانے کی احتیاط قصہء پارینہ ہوگئی ہے۔تمہارے ہمارے زمانے لد گئے جب دلہن آنے والی بارات میں کھڑکی کی اوٹ سے دولہا کا گھوڑا اور جناح کیپ دیکھ کر ہی آتش سیال کی طرح بہہ جاتی تھی۔ اب تو ہم اسکول میں ایسی باتیں سنتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ مجھے تو خوف ہے کہ اس شہر میں دس سال میں کنواریاں دوا کے لیے بھی نہیں ملیں گی۔”
آئس کریم کے پارلر میں اورنگ زیب نے شکایت کی کہ رومینہ کچھ کھوئی کھوئی سی ہے۔بات کچھ ٹھیک ہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ شگفتہ کو نعمان نے کہیں اس کا اعتماد Win-over کرنے تو نہیں بھیجا تھا۔ اس نے یہ کیوں پوچھا کہ ” اسے نعمان کیسا لگتا ہے؟” یہ ایک بڑا معنی خیز سوال تھا۔انہیں سوچوں میں گم رومینہ کو دیکھ کر اورنگ زیب نے کہا وہ تین دن بعد ملائشیا جارہا ہے۔ وہاں کمپیوٹرز کے پی۔ فور مدر بورڈز کا اسٹاک موجود ہے۔بیرونی دنیا اب پینٹئم فور مدر بورڈز سے انٹیل سیلی رون کی جانب تیزی سے بڑھ رہی تھی۔ جب کہ پاکستان اب بھی پینٹئم تھری کی ٹیکنالوجی گلے لگائے بیٹھا تھا۔ رومینہ نے اپنی سوچوں کو سمیٹنے کے لیے اس کا محبوب موضوع چھیڑدیا کہ ” ملائشیا کیسا ملک ہے؟” وہ بتانے لگا کہ ملائشیا ستر فیصد سُنی مسلمانوں کا ملک ہے ۔ان کی عورتیں ہماری عورتوں کی طرح سر پر حجاب پہنتی ہیں جنہیں وہ ٹوڈنگ کہتی ہیں۔کوئی عورت اگر ٹوڈنگ نہ پہنے تو اسے برا نہیں سمجھتے ۔ وہاں چینی بہت خوشحال ہیں۔یہ عیسائی اور بدھ مت کے ماننے والے ہیں۔سنگاپور وہاں سے چار گھنٹے کی مسافت پر ہے۔رومینہ نے اس کو آمادہء گفتگو رکھنے کے لیے پوچھا کہ وہ وہاں کون سی زبان بولتا ہے؟ وہ بتانے لگا انگلش اور کون سی؟ میری انگلش یونی ٹاور (کراچی میں کمپیوٹرز کے سامان کی ایک بڑی مارکیٹ)میں سب سے اچھی سمجھی جاتی ہے۔صرف سنگاپور میں اور کہیں کہیں ملائشیا میں لوگ ہم سے اچھی انگلش بولتے ہیں۔ چین، تھائی لینڈ، جاپان اور کوریا میں کوئی اچھی انگلش نہیں بولتا۔ وہ جاپان اور کوریا کبھی نہیں گیا۔ رومینہ نے اسے مصروف کلام رکھنے کے لیے کہا کہ وہ تھائی لینڈ اور چین میں کیا کرتا ہے۔
“تھائی لینڈ میں ہماری صبح کی انگلش ہماری شام کی انگلش سے بہت مختلف ہوتی ہے وہ روانی میں اپنے ایام سفر کی روداد بیان کرنے لگ گیا۔ صبح کو کاروباری لوگوں سے ہماری انگلش ایسی ہوتی ہے۔ فرض کرو ہم کہیں مال خرید رہے ہیں تو وہاں گودام پر مالک سے ہم کہیں گے۔”These machines no good. Lot of Money.” وہ جواب دے گا۔” Best price in Bangkok” ہم شرارت کرتے ہوئے اس کی قیمت کم کرنے کے لیے وہاں موجود دو تین لڑکیوں کی طرف اشارہ کرکے کہیں گے۔ “Ok. Your price I take with all girls” اس پر وہ جھینپ کر کہے گا۔” No . No girl. Girl work here.No sex”ہم جھوٹ موٹ بہانا کرکے جانے لگیں گے تو وہ کہے گا ” Ok . I cut price for you by 20%” ہم کہیں گے ” No 40% cut and one girl as gift” ہم اس کی بات سن کر کہیں گے ” اوکے نو گرل آل کیش بٹ کوئیک شپ مینٹ” جس پر وہ کہے گا “پے مینٹ ٹوڈے شپ مینٹ ٹومارو۔”اس
طرح ہماری ڈیل ہوجاتی ہے”۔
” اور شام کی انگلش ؟” رومینہ نے اس کی شاموں کا جائزہ لینے کے لیے پوچھا۔
شام کو ہم سب کسی نہ کسی نائٹ کلب میں چلے جاتے ہیں۔وہاں پیتے پلاتے اور ناچتے ہیں۔وہاں سے لڑکی لینی ہوتی ہے تو ہم اس سے پوچھتے ہیں ” How much Bhats for three girls?” وہ کہے گی
” for 0ther men 6000 bhat,For three girls. you daily customer only 5000 Bhats
جس پر ہم اس کے سینے کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں” No . Like lady boy”. وہ اپنی شرٹ اوپر کرکے اپنا سینہ دکھا کر کہے گی ” No real and hard..”۔وہ بتانے لگا کہ پچھلے ہفتے ہمارے ساتھی شعیب بھائی نشے میں اکیلے ہی کلب سے باہر نکل گئے۔کلب کے باہر انہیں ایک خوب صورت لڑکی ملی۔ پیسے بھی پوری رات کے سات سو بھات مانگے۔ ان کو بہت سستی لگی ۔وہ لے گئے کمرے پر جاکر پتہ چلا وہ تو لیڈی بوائے ہے.بہت پنچائیت ہوئی، دو دن جھگڑے کی وجہ سے شعیب بھائی کو تھانے میں رہنا پڑا۔ دس ہزار بھات کی چٹی ( کراچی کی زبان میں جرمانہ) پڑی۔ ورنہ سالے کو ڈی پورٹ کردیتے۔ دھندھے میں واندھا (رخنہ) آجاتا۔ ان کی پولیس بھی ہمارے جیسی ہے۔رومینہ اپنے منگیتر کے اس انکشاف پر ہل گئی مگر چونکہ اس سے ذہنی طور پر بہت بلند سطح پر تھی لہذا اس نے فیصلہ کیاکہ وہ اپنے رد عمل کا اظہار اس کی چین کی انگلش سن کر کرے گی۔
“اور میری سرکار چین میں کیا کرتے ہیں؟” اس نے مصنوعی شوخی سے پوچھا۔
“چین میں ہماری گونگ لی ہے۔ وہ بیجنگ میں رہتی ہے۔ ائیر پورٹ پر لینے آجاتی ہے۔ پورے دن کے دو سو ڈالر لیتی ہے۔ رہتی اور کھاتی پیتی بھی ہمارے ساتھ ہے۔ چین میں اکثر اکیلا جاتا ہوں۔ ان لوگوں کی پکھراٹ (بلاوجہ کے مطالبات) بہت ہے۔ گونگ لی کو کامران اور تجمل بھائی اچھے نہیں لگتے ۔ وہ منع کرتی ہے کہ ان کو ساتھ مت لایا کرو ۔ان سے شراب ہینڈل نہیں ہوتی۔ ہماری پولیس بہت سخت ہے۔بات بڑھی تو تمہارے داخلے پر بھی چین میں پابندی لگ جائے گی۔اس نے عین اسوقت اپنے موبائیل فون پر گونگ لی کی تصویر دکھائی جو اس کے گلے میں ہاتھ ڈال کر کسی شاہراہ پر کھڑی تھی”۔ یہ کاروباری علاقہ تھا۔ رومینہ نے مزید بات کریدنے کے لیے پوچھا اور ” تصویریں نہیں؟”
“ہیں تو سہی مگر تم ناراض ہوجاؤ گی”۔ اورنگ زیب نے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔

“نو۔نیور۔ میں تمہاری ہونے والی بیوی ہوں۔ یہ بات مجھے کہیں اور سے پتہ چلے تو مجھے بہت برا لگے گا”۔ رومینہ نے کمال چالاکی سے اسے تسلی دی۔ اس نے دو تصاویر اور دکھائیں جن میں ایک تو وہ اس کے ہوٹل کے کمرے میں اس کے گالوں کا بوسا لے رہی تھی۔ رومینہ نے تصویر دیکھ کر اندازہ کرلیا کہ ہوٹل کے کمرے کا بستر ایسا لگ رہا تھا دونوں سائڈ ز سے استعمال ہوا ہے۔ رات بھر کی جسمانی قربتوں کا منہ بولتا ثبوت ۔ صوفے پر ایک نائٹی بھی پڑی تھی۔ بے خیال اور اداس سی آسمانی رنگ کی نائٹی ۔جیسے اس کی مالکن نے اپنی قربتوں اور وصال کی آہوں ، سسکیوں اور بے ربط الفاظ کا سہارا لے کر اس کا بے دریغ استحصال کیا ہوا اور رات وارفتگی اور سپردگی کے لمحات میں اسے صوفے کی جانب اچھال دیا ہو جہاں وہ اب بھی منہ بسورتی ہوئی احتجاجاً پڑی تھی ۔ یسا لگتا تھا رات کی بھرپور وارداتوں کے بعد ناشتے کے فوراً بعد یہ تصویر کھینچی گئی ہے۔آئینے میں اس ویٹر کا عکس بھی کچھ دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا جواورنگ زیب کا آئی فون تھامے یہ تصویر بنارہا تھا۔ دوسری تصویر البتہ ایک فیکٹری کے احاطے میں کھینچی گئی تھی۔گونگ لی اس میں بھی اورنگ زیب کے گلے میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھی۔
رومینہ نے پوچھ لیا کہ ” اس کی عمر کتنی ہے؟”
“مجھے تو بائیس برس بتاتی ہے مگر ممکن ہے چھبیس کی ہو۔ان چینوں کی شکل اور عمر اور وہاں کے سیاسی حالات کا کچھ پتہ نہیں چلتا”۔اورنگ زیب نے وضاحت کی۔
رومینہ نے چٹکی سے جب اس کا آئی فون لے کر تصویر کو چہرے پر اور شانے پر رکھے ہوئے ہاتھ کو زوم کیا تو ہونٹوں کے کناروں کی لکیروں نے ہاتھ کی جلد نے اس کی عمر کی گواہی بتیس سے پینتیس سال کی دی۔اس نے اپنے اندازے کو تقویت بخشنے کے لیے یہ کام د دفعہ کیا۔رومینہ نے اس کاشک دور رکنے کے لیے کہا کہ تمہارا اندازہ غلط ہے یہ واقعی بائیس برس کی ہے۔ ۔”وہ اپنا دوپٹہ اوپر کرکے کہنے لگی گونگ لی کی شرٹ بھی چیک کی یا اندھیرے میں اودھم مچایا. ”،اس کی اس جسارت پر اورنگ زیب بوکھلاگیا اور ایک غلطی بات کی کاٹ ماند کرنے کے لیے اور کہی کہ گونگ لی مجھ سے کہتی ہے” Marry me Bobby”۔وہ مجھے بوبی کہتی ہے ان چینی لوگوں کے لیے اورنگزیب ایک مشکل نام ہے۔”ایک لمحے تو رومینہ کا دل چاہا کہ فالودے کا بھرا ہوا گلاس جو ویٹر ابھی ابھی وہاں رکھ کر گیا تھا۔اس کے منہ پر کھینچ کر دے مارے۔
اس نے اپنے غصے اور سلگتے ہوۓ کرب پر بمشکل اپنے ضبط کے Icy Hot بام کی ہلکی ہلکی ٹکور کی۔درد کی مسلسل ٹیسیں اس کے پورے وجود میں اٹھ رہیں تھیں۔جو کچھ اس نے سنا اور عکسی صورت میں دیکھا وہ کسی اکیس بائیس برس کی لڑکی کے لیے برداشت کرنا آسان نہ تھا۔ خاص طور پر اس لڑکی کے لیے جس نے اتنی ترغیبات ، ذہنی اور تعلیمی سطح کی غیر موزونیت کے باوجود اپنا قبلہ و کعبہء مقصودہ صرف اپنے منگیتر کو ہی سمجھا ہو۔بدن اور جذباتی آسودگی کے حوالے سے ہر ذائقہ اسی کی ذات کے سیف لاکر میں بچا بچا کر رکھا ہو۔وہ یہ سب انکشافات سن کر اندر ہی اندر ریزہ ریزہ ہوتی رہی مگر آج وہ اپنی پسند کے مرد وں کی طرح بحرالکاہل بنی رہی ۔ اس نے اپنے اندر کی دنیا کا نقشہ دیکھا تو اسے لگا کہ انکشافات کے اس تلاطم کے باوجود نیلے شانت پیسفیک اوشن نے کیسی کیسی کنٹریز کو گلے لگایا ہوا ہے،، تھائی لینڈ،چین،ملائشیا اور سنگاپور۔
بھلے سے اس لگاوٹ اور ضبط کی وجہ سے دنیا کا نقشہ الٹ پلٹ ہوگیا ہے۔” اس نے بمشکل فالودے کے دو تین گھونٹ لیے اور جب اس کے وجود میں خوشبو اورلذت کی ٹھنڈک اتری تو اس نے جھوٹی ہنسی ہنستے ہوئے آخری سوال کردیا کہ ” وہ پھر گونگ لی کو شادی کے حوالے سے کیا جواب دیتا ہے؟لالو کھیت کے بوڑھے مہاجر کسی کی جہالت اور بدتہذیبی کا معیار ٹھہرانا ہو تو آہستہ سے کہتے ہیں’’ بھائی میاں لونڈا کہیں کھلا بندھا نہیں‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا سماجی شعور اور برتاؤ پالتو جانور جتنا بھی نہیں۔یونی ٹاور کا وہ دکاندار اورنگ زیب ،رومینہ کا وہ فرسٹ کزن لو جو سماجی طور پر کہیں کھلا بندھا نہ تھا سوال کے طنز اور اس سے مرتب ہونے والے ممکنہ اثرات سے بے خبراترا کر کہنے لگا ” You my second wife. Rumi my first wife”
رومینہ نے بہت خفیف سے طنز سے کہا “اس حساب سے وہ گنتی دوبارہ کرنا سیکھ لے تو اچھا ہے۔ آؤ گھر چلیں۔ امی فکر کررہی ہوں گی۔شہر کے حالات بھی ٹھیک نہیں”۔اورنگ زیب کی ضد تھی کہ رومینہ کم از کم اپنا فالودہ تو پورا کھالے مگر تب تک وہ دروازے کی طرف بڑھ چکی تھی۔وہ پیچھے بل دے کر آگیا۔۔
جاری ہے
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں