شہادت حضرت جعفر الطیار (؏)۔۔۔۔سیدہ ماہم بتول

6 جمادی الاول ایک ایسے مرد مومن کی شہادت کا دن ہے جن کی شخصیت، عظمت و شان اتنی بلند ہے کہ آنحضرت ﷺ اور آئمہ معصومینؑ نے اس کا اظہار بہت سے موقعوں پر کیا ہے۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: “میں ایک رات جنت میں داخل ہوا جبکہ جعفر ملائکہ کے ساتھ پرواز کررہے تھے“۔ آپ ﷺ نے ایک دوسرے موقع پر فرمایا: “اے جعفرؑ! تم چہرے اور اخلاقیات کے لحاظ سے میری مانند ہو۔” (1)

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی جناب جعفرؑ سے محبت کا یہ حال تھا کہ عبداللہ بن جعفرؓ کہتے ہیں کہ: جب بھی اپنے چچا علی علیہ السلام سے کسی چیز کی درخواست کرنا چاہتا اور حضرت کو اپنے والد جعفرؑ کے حق کی قسم دلاتا تھا تو میری درخواست کو قبول کرلیتے تھے”۔

اسی طرح حضرت امام سجاد علیہ السلام نے شام میں یزید اور شامیوں کے سامنے جو خطبہ ارشاد فرمایا اس میں فرمایا:
 “أيُّهَا النّاسُ، اُعطينا سِتًّا، وفُضِّلنا بِسَبعٍ: اُعطينَا۔۔ وفُضِّلنا بِأَنَّ مِنَّا النَّبِيَّ المُختارَ مُحَمَّدًا صلّی الله عليه و آله وَ مِنَّا الصِّدِّیقُ وَ مِنَّا الطَّیَّارُ”
ترجمہ: اے لوگو! ہمیں چھ چیزیں عطا ہوئی ہیں اور ہمیں سات چیزوں کے ذریعے فضیلت دی گئی ہے، ہم اہل بیتؑ کو عطا ہوا ہے، اور ہم اہل بیتؑ کو فضیلت دی گئی اس ذریعہ سے کہ نبی مختار محمد صلی اللہ علیہ وآلہ ہم میں سے ہیں اور صدّیق (امیرالمومنینؑ) ہم میں سے ہیں، اور طیارؑ ہم میں سے ہیں”۔ (2)

حضرت امام سجادؑ نے جو دشمن کے سامنے حضرت جعفر طیارؑ کا ذکر کیا، اس سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ جناب جعفر طیارؑ کی عظمت و شان اتنی بلند ہے کہ معصومؑ کی لسان عصمت سے جو موتی نچھاور ہورہے ہیں، ان موتیوں میں جناب جعفر طیارؑ بھی شامل ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپؑ سے بہت محبت تھی۔ آنحضرت ﷺ کی آپؑ کی شان میں تعریفیں، آپؑ کے بلند مقام کی نشاندہی کرتی ہیں۔ آپؑ ایمان، ہجرت اور جہاد میں نمونہ عمل تھے۔

حضرت جعفرؑ ’’السابقون الاولون‘‘ میں شامل تھے۔ آپؑ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت سے بیس سال پہلے اور عام الفیل سے بیس سال بعد، مکہ میں پیدا ہوئے اور اس جاہلیت کے دور اور شرک و برائی کے زمانہ میں پاک و پاکیزہ اور شریفانہ زندگی گزاری۔ آپؑ نے جوانی میں ہی اپنا اسلام ظاہر کیا اور حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے بعد دوسرے مرد تھے جنہوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت اسلام پر لبیک کہی۔ لہذا آپؑ اپنے اسلام کو ظاہر کرنے میں اپنے بھائی حضرت علی علیہ السلام کے بعد دیگر سب مردوں سے پیشقدم ہیں۔ حضرت جعفر بن ابی طالب کی عظمت و فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ بعض آیات قرآنی ان کی شان میں نازل ہوئی ہیں۔

سورہ احزاب کی 23 ویں آیت  میں ارشاد رب متعال ہے:
 مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّـهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا
ترجمہ: ایمان والوں میں کچھ مرد ہیں جنہوں نے سچ کر دکھایا اسے جو انہوں نے اللہ سے عہد و پیمان کیا تھا تو ان میں کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنا وقت پورا کر لیا [اور شہید ہوئے] اور ان میں سے کچھ [شہادت کا] انتظار کر رہے ہیں اور انہوں نے اپنے عقیدے میں ذرا بھی تبدیلی نہیں کی۔ (3)

(تفسیر البرہان میں اس آیت کی تفسیر میں حضرت امام محمد باقرؑ سے حضرت امیرالمومنینؑ سے روایت نقل ہوئی جو یہ بتارہی ہے آیت کے اس حصہ “مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کرچکے ہیں سے مراد حضرات حمزہؑ، جعفرؑ اور عبیدہ ابن حارثؓ ہیں اور جو “بعض اپنے وقت کا انتظار کررہے ہیں اور ان لوگوں نے اپنی بات میں کوئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں۔)

ایک موقع پر جناب ابو طالبؑ نے حضور ﷺ کو نماز ادا کرتے دیکھا اور حضرت علی علیہ السلام کو حضور ﷺ کے دائیں جانب نماز پڑھتے دیکھا تو اپنے فرزند حضرت جعفرؑ سے فرمایا کہ جاؤ اپنے تایا زاد (حضور ﷺ) کے ساتھ نماز پڑھو اور ان کے بائیں جانب کھڑے ہوجاؤ۔ (4)

 جناب ابو طالبؑ کی اپنے فرزند جعفرؑ کو نماز پڑھنے کی تلقین اور حضور ﷺ کے بائیں جانب کھڑے ہونے کی ہدایت ان کے ایمان کو ظاہر کرتی ہے۔

کفار مکہ کے ہاتھ مسلمانوں کی اذیت و آزار میں شدت آئی تو رسول اکرم ﷺ نے مسلمانوں کو (سنہ5ھ) حبشہ کی جانب ہجرت کرنے کا حکم دیا (مروی ہے کہ یہ قافلہ 82 مردوں اور متعدد بچوں اور خواتین پر مشتمل تھا)۔ حضرت جعفر طیارؑ اس قافلے کے سربراہ مقرر ہوئے۔ بعد ازاں حبشہ پہنچنے کے بعد نجاشی کے دربار میں حاضری کے موقع پر حضور ﷺ اور اسلام کی شان اور قرآنی آیات بیان کی۔ جس پر نجاشی نے متاثر ہو کر مشرکین مکہ کی ان مہاجرین کو حبشہ سے بے دخل ہونے کی درخواست کو مسترد کیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے پورے امن و سلامتی کے ساتھ حبشہ میں قیام کیا۔ بعد ازاں (سنہ6 ہجری) کو حضور ﷺ نے غزوہ خیبر سے قبل حضرت عمرو بن امیہ ضمریؓ کو نجاشی کے پاس بھیجا کہ وہ ان مہاجرین کو اپنے وطن لوٹا دے، نجاشی نے حکم کی تعمیل کی اور ان مہاجرین کو ایک کشتی کے زریعے مدینہ روانہ کیا۔ (5)

رسول ﷺ حضرت جعفرؑ سے بے انتہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے غزوہ بدر سے ملنے والے مال غنیمت میں سے حضرت جعفرؑ کا حصہ الگ کرلیا تھا، حالانکہ حضرت جعفرؑ اس جنگ میں شریک نہیں تھے، اور حبشہ میں قیام پذیر تھے۔ رسول خدا ﷺ غزوہ خیبر میں یہودیوں کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے کے بعد خیبر سے مدینہ تشریف فرما ہوئے تو حضرت جعفرنے آپ ﷺ کا استقبال کیا، جو حبشہ سے واپس آچکے تھے، ان سے معانقہ کیا، ان کی دو آنکھوں کے درمیان پیشانی کا بوسہ لیا اور فرمایا: “خدا کی قسم! سمجھ میں نہیں آتا کہ مجھے فتح خیبر پر زیادہ خوش ہونا چاہئے یا جعفرؑ کی ملاقات پر؟“۔ (6)

فتح خیبر کے اور حضرت جعفرؑ کی حبشہ سے واپس کے بعد آپ ﷺ نے جمادی الاول 8؁ھ میں حضرت جعفرؑ کو سپاہ اسلام کے امیر اول کی حیثیت سے “موتہ” کی جانب روانہ کیا تا کہ مشرقی روم کی فوج کا مقابلہ کریں۔ (کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ زید بن حارثہؓ امیر اول تھے اور جعفرؑ امیر ثانی۔) (7)

جناب جعفر بن ابی طالبؑ نے جنگ میں شجاعت و بہادری کے وہ کمالات دکھائے کہ  دشمن کے تکبر و غرور کا تخت الٹ دیا۔ طبری لکھتے ہیں:
حضرت زید بن حارثہؓ کی شہادت کے بعد حضرت جعفرؑ فورا آگے بڑھے اور اپنے گھوڑے سے اتر ے  اور علم کو تھام کر پیادہ ہی لڑنا شروع کر دیا۔ آپ نے اس جنگ میں بہادری کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کیا اور بہت زیادہ زخمی ہوگئے۔ بخاری کی ایک روایت کے مطابق نوے زخم کھائے۔ دشمن سے لڑتے لڑتے پہلے آپ کا دایاں بازو کٹا تو آپ نے اسے اپنے بائیں ہاتھ سے تھام لیا اور جب دشمن نے آپ کے بائیں بازو پر وار کیا تو آپ نے کٹے ہوئے بازووں سے اسے سہار لیا اور آخری دم تک جان فشانی سے لڑتے رہے اور آپ کو ’’ذوالجناحین‘‘ (دو پروں والا) لقب ملا۔ عبد الله بن عمرؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اس جنگ میں شریک تھا ہم نے جعفر بن ابی طالب کو ڈھونڈ وہ شہداء میں تھے اور ان کے جسم پر تلواروں اور نیزوں سے لگے ہوئے نوے زخم تھے اور ایک زخم بھی پشت پر نہیں تھا (8)
ابوالفرج اصفہانی نے لکھا کہ: اولاد جناب ابو طالبؑ میں اسلام کے سب  سے  پہلے شہید جعفر بن ابی طالب تھے۔ (9)

شیخ صدوقؒ نے روایت کی ہے کہ:
“پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، جعفرؑ کی شہادت کی خبر سن کر بہت غمگین ہوئے اور آپؑ کے گھرانہ کے پاس تشریف لائے ۔ آپؑ کے بچوں کو گود میں لیا اور ان پر شفقت فرمائی اور فرمایا:
” خدا جناب جعفر کو دو کٹے ہوئے ہاتھوں کی بدلے میں دو پر عطا کریگا جس کے ذریعہ وہ جنت میں پرواز کرینگے، اسی لئے جناب جعفر ’’ذوالجناحین‘‘ سے مشہور ہیں۔ (10)

مروی ہے کہ اسماء بنت عمیسؓ، کعب بن مالکؓ اور حسان بن ثابتؓ نے جعفر بن ابی طالبؑ کے سوگ میں مرثیے کہے۔ مشہور نظریہ کے مطابق بوقت شہادت آپ کی عمر 41 سال تھی اور دسویں آدمی تھے جو اس جنگ میں شہید ہوئے۔ حضرت جعفر بن ابی طالبؑ اور دیگر شہدائے موتہ کا مدفن اردن کے شہر موتہ کے قریب مزار نامی مقام پر واقع ہے اور وہاں کے لوگ اس کے لئے عقیدت و احترام کے قائل ہیں۔ (11)

 نتیجہ:
جناب جعفر ابن ابی طالبؑ نے رسول خدا ﷺ کی اطاعت اپنی جان کی قربانی دیکر اپنے ایمان کا ثبوت دیا کیونکہ آپ نے اللہ کے رسول کی اطاعت کی اسی لئے معصومین علیہم السلام نے ان کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ حضرت جعفر طیارعلیہ السلام کے اتنے فضائل و کمالات کا مطالعہ کرنے سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت زین العابدین علیہ السلام نے بھی دشمن کے سامنے آپؑ کا تذکرہ کیا۔ جو شخصیت ایمان،ہجرت، جہاد میں اتنی شجاع ہو اور اتنے فضائل کی حامل ہو، اس کا نام ہی دشمن کے بدن پر لرزہ طاری کردیتا ہے، اس کی غاصبانہ حکومت کے ستونوں کو متزلزل کردیتا ہے، اس کی خام خیالی کا تاج گرا دیتا ہے، اس کے تکبر و غرور کا تخت الٹ دیتا ہے اور اس کے ناپاک عزائم کو ناکامی کے گڑھے میں جھونک دیتا ہے۔ خدا ہم سب کو اللہ اور اس کے پھیجے ہوئے اولیاء کی اطاعت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

 حوالہ جات:
(1) مجلسی: بحار الانوار، جلد22، صفحہ277۔
(2) مقتل خوارزمی، جلد2، صفحہ69۔
(3) سورہ الاحزاب، آیت23۔
(4) اسدالغابه، جلد1، صفحہ287۔
(5) بحارالانوار، جلد18، صفحہ415 // اعیان الشیعه، جلد4، صفحہ123 // ابن ہشام: السیرة النبویۃ، جلد1، صفحہ323۔
(6) الواقدی: المغازی، جلد1، صفحہ156 // ابن سعد: الطبقات الکبری، جلد4، صفحہ35 // مستدرک حاکم، رقم 4945۔
(7) الطوسي: الأمالي، صفحہ141 // ابن کثیر: البدایۃ والنہایۃ، جلد4، صفحہ275۔
(8) بخاری: رقم 4260 – 4261۔
(9) الاصفہانی: مقاتل الطالبیین، صفحہ3۔
(10) شیخ صدوق: من لا یحضره الفقیہ، جلد1، صفحہ177 // مغازی واقدی، جلد2، صفحہ766۔
(11) ابن‌ ہشام‌: السیرة النبویۃ جلد4، صفحہ27ـ 28 // ابن عبد البر: الإستیعاب، جلد1، صفحہ245۔

Advertisements
julia rana solicitors

التماس دعا

Facebook Comments

سیدہ ماہم بتول
Blogger/Researcher/Writer

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply