امی جی, امی جی کی جدلیات۔۔۔کامریڈ فاروق بلوچ

محکمہ شماریات نے سروے رپورٹ جاری کی ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق پنجاب میں 12 لاکھ شادی شدہ مرد بےروزگار ہیں. (میری ذاتی تفہیم میں یہ اعداد و شمار انتہائی کم بتائے گئے ہیں)

آخر اُن کے ایک دو بچے بھی ہوں گے، بیوی بھی ہو گی، ہو سکتا ہے گھر میں کسی دوسرے فرد یا کسی بزرگ والد والدہ کی ذمہ داری بھی ہو. ہو سکتا ہے وہ بےروزگار تعلیم یافتہ بھی ہو.

کیا وہ بےروزگار اور اُس کے ‘لواحقین’ سانپ کی نسل سے ہیں جو مٹی کھاتے ہیں؟ آخر وہ لوگ کپڑے بھی پہنتے ہوں گے. عین ممکن ہے کہ بچے اسکول جانے کی عمر کے ہوں. یقیناً وہ لوگ بیمار بھی ہوتے ہوں گے. میرا خیال ہے اُن کی زندگیوں میں بھی موت فوت غمی وغیرہ آتی ہو گی. میرا خیال ہے عید خوشی و شادی وغیرہ بھی مناتے ہوں گے. یہ بےروزگار کیسے گزارہ کر رہے ہوں گے؟

اگر ریاست بےروزگاروں کو روزگار کے مواقع فراہم کرنے سے قاصر ہے تو اُن سے ٹیکس کس مد میں لیتی ہے؟ جس دن ایک بےروزگار کسی سے ادھار مانگ کر صابن کی ایک چَکی، ماچس کی ایک ڈبیا اور دانت صاف کرنے کے لیے ٹوتھ پیسٹ لینے جاتا ہے کیا وہ ٹیکس سے استثنا پا لیتا ہے؟

بےروزگار شادی شدہ مردجب ہر جگہ سے ادھار لے چکا ہوتا ہے اور سر کے اوپر اخراجات کا بوجھ ہلکا نہ ہو رہا ہو تو پھر مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کرتا ہو گا؟

اِس اثناء میں اگر کہیں سے ‘امی جی امی جی امی جی’ والی لائیو سٹریمنگ پورن ویڈیو آ جائے تو نفرت اور شہوت کے علاوہ جو راستہ باقی بچتا ہے وہ “جدلیات” ہے.

گذشتہ برس اکتوبر میں فلپائن کے حوالے سے پڑھنے کا تفصیلی موقع ملا. وہاں کا ایک جزیرہ ہے جس کا نام سی-بُو ہے. وہاں شاشا نام کی ایک دس سالہ بچی رہتی ہے. خالہ نے شاشا کو بتایا کہ اب ہمارے پاس کھانے کے لیے کچھ نہیں بچا ہے. میں بار بار ملازمت سے نکالے جانے سے تنگ آ چکی ہوں. جگہ جگہ جنسی استحصال کروانے کے بعد بھی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑتا ہے. مجھے ایک مستقل حل مل رہا ہے. لیکن اُس کو شاشا کی بطور پارٹنر ضرورت تھی. یوں پینتیس سالہ خالہ اور دس سالہ شاشا دنیا میں خواتین کی آن لائن ہم جنس پرست پورن ویب سائٹ پر آ گئیں. جہاں اُن کو امیر گاہک ملتے ہیں جو پیسے دیکر live lesbian porn کا ‘لطف اٹھاتے’ ہیں. اُن امیر گاہکوں میں اکثریت خواتین کی ہوتی ہے.

ایک بات تو طے ہے کہ غربت اور ضرورت ہی ایسے آن لائن فحش کی پیداوار، خرید اور فروخت کا سبب ہے. جب ریاست اپنی بنیادی فرائض کی انجام دہی میں ناکام ہے اور اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے عبوری وقت کا تقاضا کرتا ہے تو ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے غربت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جرم پہ چھوٹ کیوں نہیں ملتی. ایک انسان کی زندگی میں غربت کو عبوری دور کیوں نہیں  سمجھا جاتا؟ آخر ریاست اپنے جرائم پہ پردہ کیوں ڈالتی ہے اور عوام کے ‘جرائم’ پہ جبر کیوں کرتی ہے جن کا سبب بھی خود ریاست ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors london

گذشتہ دو برس میں پاکستانی معیشت کی بدحالی بڑے بڑے ایمانداروں کی شلواریں گیلی کر چکی ہے، یہ تو کچھ بھی نہیں. جناب محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ و سلم نے انسانوں کو بتایا بھی تھا کہ غربت کفر کی طرف لے جاتی ہے. کفر تو بڑی چیز ہے، غربت ہی ایسے واقعات کی ماں ہے.

Facebook Comments

فاروق بلوچ
مارکسی کیمونسٹ، سوشلسٹ انقلاب کا داعی اور سیاسی کارکن. پیشہ کے اعتبار سے کاشتکار.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply