جنسی جرائم، وجوہات و تدارک۔۔۔۔ڈاکٹر مختیار ملغانی

بقراط پہلا شخص تھا جس نے انسان کے کردار پر اس کے جسمانی اعضاء کی صحت کے اثر کو تسلیم کیا، دلچسپ بات یہ ہے کہ بقراط کے اس نظریے پر صرف اس کے ہم عصر ہی ایمان لائے، اس کے بعد سے ہمیشہ موصوف کے فلسفۂ صحت و کردار کو شک کی نگاہ سے دیکھا گیا، جب تک کہ بیسویں صدی میں فرائیڈ نے اس تھیوری پر نفسیاتی نکتۂ نگاہ سے نظرِ ثانی کا بیڑا نہ اٹھایا۔
فرائیڈ کے نزدیک انسانی کردار کے پنپنے میں اعضاء کی صحت کا اثر ثانوی ہے، مگر ہے، مرکزی اہمیت جسم کے کچھ حصوں کی حساسیت کو ہے جو انسانی کردار کے بننے اور بگڑنے میں فیصلہ کن واقع ہوئی ہے، اور یہ جسم کے آٹھ سوراخ ہیں، جو اپنے اندر ایک مخصوص حساسیت لئے ہوئے ہیں، اور انسان کے کردار سازی کے عمل کو ایک مخصوص رنگ دیتے ہیں، یہ حساسیت جسدی اور نفسیاتی، دونوں پہلوؤں سے اہم ہے ، ان آٹھ سوراخوں میں سے ہر ایک کو ویکٹر (vector) کا نام دیا گیا، چاہیں تو اردو میں اس ویکٹر کو کردار کے کسی جزو کا “بنیاد بردار ” کہا جا سکتا ہے۔ وہ آٹھ سوراخ جو انسان کی نفسیاتی کردار سازی کا بار اٹھائے ہوئے ہیں ،یہ ہیں۔
1۔آنکھ( دونوں)
2۔ ناک
3۔ کان(دونوں)
4۔ منہ
5۔ جلد کے سوراخ (ان کی دو قسمیں ہیں، وہ جو پسینے کے اخراج کے ذمہ دار ہیں، اور دوسرے جو جلد کی چکناہٹ کو منظم رکھنے کا کردار سنبھالے ہوئے ہیں)۔
6۔ ناف (ناف کے سوراخ ہونے پر سوال اٹھانے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ انسان کی کردار سازی کا عمل پیدائش سے پہلے ہی، ماں کی کوکھ میں، شروع ہو جاتا ہے، اور اس دورِ زندگی میں ناف ایک حقیقی سوراخ کا درجہ رکھتا ہے، اس کے افعال سے ہر شخص واقف ہے)۔
7۔ سوراخِ بول و تولید، مردوں میں اس مقصد کیلئے بیرونی سوراخ ایک ہی ہے، مگر خواتین میں اس کو دوحصوں، پیشاب کی نالی اور عضوِ تولید میں تقسیم کیا گیا ہے، مگر مجموعی طور پر یہ ایک ہی ویکٹر (کردار بردار سوراخ ) ہے۔
8۔ سوراخِ مقعد۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان آٹھ سوراخوں کی صحت ، حساسیّت، پرورش، استعمال، ان کے جسمانی ، نفسیاتی و جمالیتی اطمینان و رضائیت وغیرہ ہی انسان کے کردار کے بننے یا بگڑنے میں بنیادی ستون کا درجہ رکھتے ہیں، اور ان سوراخوں کی جسمانی یا نفسیاتی حساسیت کے ساتھ چھیڑ خانی سے گنگا کے الٹا بہنے کے امکانات پروان چڑھتے رہتے ہیں جو کسی بھی سماجی و نفسیاتی دباؤ کے نتیجے میں سامنے آ سکتے ہیں ، قارئین کیلئے شاید کچھ حیرانگی کا باعث بنے کہ جنسیاتی نفسیات کا تعلق سوراخِ بول و تولید کی حساسیت سے نہیں، بلکہ سوراخِ مقعد سے ہے، اور یہی ہمارا آج کا موضوع ہے۔
بچپنے کی عمر میں ہی کردارِ مقعد بردار کے مالک بچوں کو پہچانا جا سکتا ہے، ایسے بچے پکارِ فطرت ، یعنی عملِ براز کے منتظر رہتے ہیں اور تقاضائے حاجت ان کیلئے صحیح معنوں میں نفسیاتی اطمینان و لطفِ جمالیات کا مظہر ہے، جائے حاجت پر تشریف رکھتے ہی بچے کے ذہن کے بند دریچے کھل جاتے ہیں، سوچ کا تنگ دامن اپنی وسعت کی بلندی کو چھونے لگتا ہے، طبعِ بوجھل کے ابوابِ الجھن گویا کہ خود اپنے قفل اکھاڑ اکھاڑ پھینکتے دکھائی دیتے ہیں، اور ایک خاص لطفِ شخصی حاصل کرتے ہوئے بچہ اس عمل کو طویل تر بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے، کہ یہی عملِ حاجت بچے کیلئے حقیقی لطف و خوشی کا باعث ہے، ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ مائیں بچوں کے رفعِ حاجت کو جلد از جلد پورا کرنے پر زور دیتی ہیں، اور بآوازِ بلند و سخت، جلدی کرو، کیا کر رہے ہو، اور کتنی دیر لگاؤ گے وغیرہ کی گردان کرتی دکھائی دیتی ہیں، ایسی مستقل کرختگی کے نتیجے میں بچہ تسلی بخش فراغت حاصل نہیں کر پاتا اور بغیر کسی طبعی و جسمانی وجوہات کے قبض میں مبتلا ہو جاتا ہے، اگر یہ قبض دائمی شکل اختیار کر لے تو رفعِ حاجت کا عمل ایک کربناک شکل اختیار کرلیتا ہے کہ اہم ترین ویکٹر، مقعد، کی حساسیت شدید متآثر ہونے لگتی ہے، اور بچے کو حصولِ لطف کیلئے اذیت و کرب سے گزرنا پڑتا ہے، وقت کے ساتھ بچے کی نفسیات میں لطف و کرب کے احساسات ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم قرار پاتے ہیں اور بچہ اس ، کیفیتِ لطف و کرب، کو اپنی ذات کا حصہ سمجھتے ہوئے اپنی زندگی کا سفر جاری رکھتا ہے، یہی وہ مقام ہے جہاں سے ، بالقوہ ، نفسیاتی طور پر ایک جنسی مجرم کی داغ بیل ڈلنا شروع ہو جاتی ہے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ دنیوی لطائف میں جنسیات کو اہم ترین مقام حاصل ہے، اس نفسیاتی قبض زدہ بچے کی تربیت و تعلیم میں اگر کمی رہی اور شعوری طور پر یہ بچہ اوسط درجے سے بلند نہ ہو پایا تو بلوغت کے بعد، عملِ جنسی کے دوران صرف لطف پر اکتفا نہ کرے گا، بلکہ کرب کی تلاش بھی جاری رکھے گا کہ اسے صرف، کیفیتِ لطف و کرب کا ملاپ ہی تسلی، اطمینان و مسرّت دے سکتا ہے، اگر بچہ تربیت و شعور کی اعلی منزلیں طے کر پائے گا تو تلاشِ کرب پر قابو پانے کے امکانات روشن رہیں گے، اگر خدانخواستہ بچپن و لڑکپن میں ایسا بچہ کسی جنسی زیادتی کا شکار ہوا، جس کے نتیجے میں حساسیتِ مقعد نفسیاتی طور پر بری طرح مجروح ہوتی ہے، تو مستقبل میں یہ فرد جنسی درندے کی صورت میں معاشرے سے اپنا انتقام لینے کی ٹھان سکتا ہے۔
جنسی مجرم بننے کی طرف یہ کسی بھی فرد کا پہلا قدم ہے، جو عموما بچپن میں ہی سرزد ہوتا ہے، اور یہ انسانی نفسیات سے نابلد والدین کے ہاتھوں طے پاتا ہے، بالخصوص اس میں ماں کا کردار سب سے اہم ہے۔
بلوغت و جوانی کی شروعات کے بعد ایسے افراد کیلئے ان کی ازدواجی زندگی کو اہم حیثیت حاصل ہے، اس دور میں اگر زوجہ انہیں اپنے حسن و مستی کے جال میں قابو کر پائے تو اکثریت ، جو بالقوہ درندگی کی طرف مائل ہوتے ہیں، معاشرے کے باعزت اور ذمہ دار شخص کی حیثیت سے ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں،
یہاں زوجہ کے جالِ حسن و مستی کی وضاحت ضروری ہے، جیسا کہ عرض کیا کہ، کیفیتِ لطف و کرب کا احساس ، ایسے افراد کی تشفئ طبع کیلئے ناگزیر ہے، تو عملِ زوجیت میں اگر زوجہ غیر معمولی فعالیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے، شوقِ ناتمام کے “باغِ جنوں” کی آبیاری و خوشی چینی میں اپنا جسمانی، روحانی اور بالخصوص صوتی حصہ ڈالے تو اس درندہ صفت گھوڑے کو لگام ڈالی جا سکتی ہے، لیکن اگر زوجہ پانی میں اشنان کرتی مطمئن بھینس کی طرح بس پڑی ہی رہے ، یعنی کہ فعلِ زوجیت میں اس کا حصہ صرف اس کے ہونے تک محدود ہو تو ایسی صورت میں یہ بے لگام گھوڑا بے قابو ہو جائے گا، کہ اس مقام کو دریافت کرنا، جہاں اس کے “شکار” کی فرطِ مسرّت سے ابھرتی سسکیاں اور حالتِ کرب میں اٹھتی آہ و فغاں ایک برابر ہو جائیں، اس کی زندگی کا اولین مقصد قرار پاتا ہے، ایسی صورت میں اگر ایسا فرد شعور و تعلیم سے کچھ لگاؤ رکھتا ہے، اور کچھ اخلاقی دیدہ دلیری بھی پائی جاتی ہے تو دوسری شادی کا تقاضا فطری ہے، اگر اخلاقی و سماجی لحاظ سے کچھ بزدل ہے، مگر فہم و فراست رکھتا ہے تو کسی بالغ خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات کی راہ پر گامزن ہونے کو ترجیح دے گا، (قدرے ڈھیلے کردار مگر جرآتمندانہ مزاج کی خواتین معاشرے کو کیسے کیسے جرائم سے بچائے ہوئے ہیں)، لیکن اگر اخلاقی زوال کے ساتھ ساتھ شعور و تربیت سے بھی عاری ہے تو نابالغ و کمزور بچے اس کے آسان ترین شکار ہوں گے،
یہ دوسرا زینہ ہے جس پر یہ ، بالقوہ، جنسی درندہ قدم رکھتا ہے، یہاں بھی عورت کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا، اگرچہ جوائنٹ فیملی سسٹم میں رہتے ہوئے عورت( بیوی) چاہے بھی تو ، رودادِ حسن و مستی ممکن نہیں۔
اس مقام پر پہنچنے کے باوجود بھی بہت کم افراد بچوں کے ساتھ جنسی فعل کی جسارت کر پاتے ہیں کیونکہ اپنے اندر اٹھتے طوفانوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ایسی خواہشات کا اظہار اور کہیں دیکھنے میں نہیں آتا، اس لیے خاموشی پر تکیہ کئے رکھتے ہیں، یہاں سب سے بھیانک اور خطرناک کردار فحش فلموں کا ہے، یعنی کہ فرد کے لاشعور میں اٹھتی غلاظت کو عملی شکل میں ظاہر ہونے کیلئے جو شیطانی جرآت درکار ہے، وہ اس شیطانی پردے پر دیکھ لینے سے ، نہ چاہتے ہوئے بھی، حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ مجرمانہ ذہن کا شخص یقین کر لیتا ہے کہ اس کے ذہن میں ابھرتی غیر فطری جنسیاتی خواہشات کوئی اساطیری یا افسانوی بات نہیں، بلکہ ایک حقیقت ہے اور اسے عملی جامہ پہنایا جا سکتا ہے، اس جلتی آگ پہ تیل کا کام منشیات، سماجی الجھنیں ، بے روزگاری اور دیگر ناخوشگوار عوامل کرتے ہیں اور پھر ایسے بھیانک حادثات دیکھنے میں آتے ہیں جو آئے روز ہمارے قلب و ذہن پر ہتھوڑے کی طرح برستے رہتے ہیں۔
اس مسئلے کے حل کیلئے ضروری ہے کہ تعلیم و تربیت کو ہر سطح تک ممکن بنایا جائے، اس میں اہم ترین کردار عورت کا ہے، چاہے وہ ماں کی صورت میں ہو یا بیوی کی صورت میں، شعور و اخلاقیات کے ساتھ ساتھ نفسیات و جنسی تعلیم کی اہمیت پر زور دیا جانا چاہیے۔
ایسے مجرموں کی سزاؤں کے حوالے سے عموماً سزائے موت کا مطالبہ دیکھنے میں آتا ہے، راقم الحروف کی نظر میں یہ سزا مطلوبہ نتائج نہ دے پائے گی، کیونکہ ایسے جرائم میں ملوّث افراد شعوری طور پر اس بلندی پر نہیں ہوتے کہ موت کا خوف انہیں ان کے عزائم سے روک پائے، موت کا خوف وہاں کارگر ہے، جہاں فرد کو احساس ہو کہ اس کے بعد اس کے بوڑھے ماں باپ اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچوں کا کیا بنے گا؟
ایسے مجرم کے نزدیک اس کی جنسی خواہشات زیادہ مقدم ہیں، صرف جنسی اعضاء کے چھِن جانے کا خوف ہی انہیں ایسے قبیح فعل سے باز رکھنے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ ” مقصدِ زندگی ” چھن جانے پر زندگی کا جاری رہنا موت سے بھی بدتر ہے ،اس لیے ضروری ہے کہ جنسی بدکاری ثابت ہونے پر مجرم کا آلۂ واردات جڑ سمیت کاٹ ڈالا جائے۔
اخلاقیات و شعور، نفسیات و جنسیات کی تعلیم ، فحش فلموں پر مکمل پابندی اور درج بالا سزا کے نافذ کرنے سے ایسے بھیانک جرائم پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply