عدالت اور نیب ۔۔۔۔۔۔شہزاد سلیم عباسی

بدقسمتی سے موجودہ حالات میں عدالتیں لوگوں کی جان و مال ، ہائی پروفائل کیسز اور بنیادی حقوق کے تحفظ میں بری طرح ناکا م ہوئی ہیں۔ میڈیا تشہیرات نے جوڈیشیل ایکٹوز م کوجس طرح شہرت وبلندی اور فین ازم کے عرق میں لپیٹ کر پیش کیا ہے اس سے ایک چیز تو واضح ہے کہ میڈیا بھی ان قومی و جمہوری ستونوں میں شامل ہو گیا ہے جس نے فریڈ م آف ایکسپریشن کے نام پر لوگوں کی ذہنی و فکری اور انفرادی و معاشرتی آزادی چھین کر رکھ لی ہے ۔ ہمار ے ہاں میڈیا کو بلیک میلنگ ، پگڑیاں اچھالنے ، لوگوں کی ذاتی تشہیر کرنے ، لوگوں کے ناجائز مفادات کے حصول اور ظالموں کا ساتھ دینے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری اور چیف جسٹس ثاقب نثارنے جس طریقے جوڈیشیل ایکٹیوزم کا سلسلہ بے ترتیب شروع کیا اس سے نہ صرف عدالتوں کے اصل معاملات اور فائلیں دب کر رہ گئیں بلکہ گورننس اور انتظامی معاملات میں خواہ مخواہ براہ راست دخل دے کر معاملات کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی اور املا لیکر سیاسی انتقام لینے والوں کا آلہ کار بننے کی راہ ہموار کی اور عوام کے قلوب اذہان میں بلاتفریق و بے لاگ احتساب کا تاثر ڈالنے کے بجائے یکطرفہ ڈھول پیٹنے ، اقربا پروری اورعدالت کے دوہرے معیار کے نظام کا تاثر دیاگیا۔چیف جسٹس ثاقب نثار عدالتوں میں پڑے 24 لاکھ کیسز کو حل کرنے کے بجائے ہسپتالوں کے دوروں ، دودھ کی کمپنیوں کے چکر لگانے اور ڈیم کے لیے چندہ برائے شہرت جمع کرنے جیسے کام کرکے قوم کا انتہائی قیمتی وقت ضائع کیا۔ اور اب جب کہ ریٹائر ہو رہے ہیں تو موصوف کہتے ہیں کہ میں انصاف نہ دے سکنے کے لیے شرمندہ ہوں۔

عدالت نے جس طرف سے جے آئی ٹیز اور سپریم جوڈیشنل کونسل کے ذریعے حق و سچ کا قلع قمع کیا وہاں نیب جیسے مشرف کی پیداوار ادارے کو ٹیون کر کے مخالفت کی آگ میں جھونک دیا ۔ جس طرح سے ایک صحافی کو جھوٹ بولنے کی پاداش میں ہتھ کڑیاں لگا تذلیل کی گئی وہاں قتل کے مجر م کو بے لگا م چھوڑ دیا گیا ۔ نیب کے پہلے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل سید امجد حسین نے جب چوہدری برادران سمیت دیگر لوگوں کو سزائے دلوانے کے لیے فائل تیا ر کی تو جنرل مشرف نے عمران خان سے کہا کہ جنرل امجد پاگل ہیں اورمیں ایسا نہیں چاہتا۔جنر ل مشرف کے دور سے لیکر آج تک نیب نے ہمیشہ سے لوگوں کے بنیادی حقوق سلب کرنے ، آزادی اظہار رائے چھیننے ، مخالفین کو سبق سیکھانے اور اپوزیشن کوڈرانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔ اب حکومت وقت اور اپوزیشن دونوں ہی نیب کے خلاف بیان بازی کر کے نیب کو مورد الزام ٹھہررہیں ہیں ۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ اپوزیشن کی چیخیں تو ٹھیک نکل رہی ہیں لیکن حکومت کی ٹیسیں کیوں اٹھ رہی ہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں چیف ایگزیکٹو اور عدالت عالیہ نے بوجوہ، نیب کو اتنا آزاد بنا دیا ہے کہ اب وہ عوام میں جگہ بنانے کے لیے کچھ زیادہ ہی سیانااور سمارٹ بننے کی کوشش کررہا ہے اور بہانے بہانے سے حکومت کے خلاف بھی کچھ کیسز کھولنے کی تیاریاں کررہا ہے ۔نیب جب نواز شریف کا احتساب کر رہاتھا تو نیب بڑا بہترین ادارہ تھا ار اب جب عمران خان، علیمہ خان اور دیگر ملزموں کی بات ہو رہی ہے تو عمران خان اینڈ کمپنی نیب کو آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیب پرتندو تیز تنقید اور گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے۔اپوزیشن کے مطابق نیب نے حکومت کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے ۔ جیسے کہ عمران خان پرہیلی کاپٹر کیس، علیم خان ای اوبی آئی کیس، مالم جبہ پرویز خٹک کیس، زلفی بخاری کااختیارات کا ناجائز استعمال، چوہدریوں کے لیے معافی نامے، جہانگیر ترین ، بابر اعوان، اعظم سواتی اور دیگر کے ملزمان ہونے کے باوجود آزادی، پشاور پراجیکٹ میٹرو، رنگ روڈ اور کے پی احتساب کے خاتمے کے باجود حکومت کے لیے بخشش کا معاملہ سمجھ سے بالا تر ہے۔جب کہ حکومت کے بقول نیب ایک جانبدار ادارہ ہے جو کہ اصل بڑی پرانی بوڑھی اور کرپٹ مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے حکومتی ہرکاروں پر الزامات اور ریفرنسز دائر کرنے کے دعوے کر کے حکومتی انتظامی معاملات میں دخل اندازی کررہا ہے جس سے خدانخواستہ نقص امن کا خطر ہ ہے اور معاشی ترقی و برق رفتاری میں خلل کا خطر ہ ہے ۔ اب نجانے سپریم کورٹ کس کے کہنے پر نیب کوصبح وشام ٹھیک کام کرنے کی دھمکیاں دے رہی ہے اور بے عزتی و بے حرمتی کر کے لوگوں کی پگڑیاں اچھالنے سے منع کررہی ہے ۔ حقیقاََ یہ تمام سٹیک ہولڈرز بشمول حکومتی، عدالتی و اپوزیشن سب کے سب عوام کو بے وقوف بنا کر اوقات یاد دلا رہے ہیں کہ جو کام ہم کررہے وہ انجوائے کرو اور رعایا بن کررہو۔
راقم کی رائے میں وقت آگیا ہے کہ اب عدالت اور نیب دونوں کا کڑا احتساب ہو اور ان دونوں مقد س اداروں کو پارلیمانی کمیشن بنا کر اس کے سامنے پیش کیا جائے اور پوچھا جائے کہ کب ،کس کیس کے فیصلے میں کوتاہی ہوئی اور کس کے ڈر اور خوف کی وجہ سے ناحق فیصلے سنائے گئے اور ان دونوں اداروں کو صحیح بنیادوں پر اپنے ڈومین میں کام کرنے پر استوار کیا جائے۔ یہ بہترین لمحات ہیں کہ ہنگامی بنیادوں پر عدلیہ کے ججز اور نیب کے خلاف انکوائریوں کا اوپن ٹرائل پارلیمانی کمیشن بنا کر شروع کیا جائے ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply