ہم دیکھتے کس سے ہیں؟۔۔۔۔وہاراامباکر

آپ نیند سے بیدار ہوئے ہیں۔ آنکھیں کھولی ہیں اور دنیا آپ کی نظروں کے سامنے، کمرے میں سورج کی آتی کرنیں، کمرے کی چیزیں، یہ رنگین دنیا دیکھنا کتنا آسان ہے۔ ٹھیک؟ نہیں۔ بالکل غلط۔ دیکھنا سب سے مشکل کام ہے۔ اتنا مشکل کہ دماغ کا ایک تہائی حصہ اس کام کے لئے مخصوص ہے۔ اور ہاں، آنکھ اس کے لئے عام طور پر استعمال ہوتی ہے لیکن دیکھا آنکھ سے نہیں جاتا اور اس کے لئے ضروری بھی نہیں۔ اس کیلئے ایک کہانی مائیکل مے کی۔

مائیک مے تین سال کے تھے جب ایک حادثے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہو گئے۔ نابینا افراد کیلئے کھیلوں کے مقابلوں میں شرکت کی وجہ سے شہرت پائی۔ مکمل نابینا شخص کی طرف سے سب سے تیزرفتار اسکینگ میں ان کا عالمی ریکارڈ ہے۔ مائیکل کی آںکھوں کا آپریشن اس سے تینتالیس سال بعد ہوا۔ وہ دن آیا جب ان کی آنکھیں واپس آئیں۔ ان کی آنکھوں کی پٹی کھلنی تھی۔ انہوں نے ایک بار پھر دنیا کو آنکھوں کی مدد سے دیکھنا تھا۔ اپنے دونوں بیٹوں کو پہلی بار۔ اس جذباتی منظر کو ریکارڈ کرنے کیلئے کیمرہ مین کمرے میں موجود تھا۔ پٹی کھلی، بیٹے ان کی طرف بڑھے لیکن وہ منظر اتنا جذباتی نہیں تھا۔ مائیکل کے چہرے پر ایک ہونق سے مسکراہٹ پھیلی تھی۔ وہ کچھ پریشانی سے بیٹوں کو گلے لگا رہے تھے۔ ان کا دماغ دیکھنا بھول چکا تھا۔ ان کی آنکھوں کے آگے بس روشنی کی گولے ناچ رہے تھے۔

مائیکل کی زندگی اگلے کئی ہفتوں تک مشکل رہی۔ پہلے دیوار کو چھو کر پتہ لگ جاتا تھا کہ اب کتنا فاصلہ رکھنا ہے کیونکہ دیوار سے متوازی چلا جا سکتا ہے۔ آنکھ دنیا کو اس طرح نہیں دیکھتی۔ کسی راہداری میں دیواریں متوازی نظر نہیں آتیں۔ مائیکل جو بآسانی یہ سب کچھ کر لیتے تھے، اب ان کے لئے دشواری تھی۔ آنکھ کے ساتھ دنیا میں نیویگیٹ کرنے کا طریقہ مختلف ہے۔ اگر چار ماہ تک نظر آئے تو دماغ بصارت کے سرکٹ منقطع کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم آنکھ سے نہیں، دماغ سے دیکھتے ہیں۔ (یہی وجہ ہے کہ خواب دیکھتے وقت، جب آنکھ بند ہوتی ہے، تو بھی اس منظر میں ہمیں ویسے ہی “نظر” آتا ہے جیسے بیداری کے عالم میں).

ہماری آنکھ کے ریٹینا کے درمیان کا ایک حصہ ہے جہاں پر فوٹو ریسپٹر نہیں۔ یہ ہمارا “اندھا سپاٹ” ہے۔ اگر رات کو آسمان دیکھ رہے ہیں تو جتنا بڑا مکمل چاند نظر آ رہا ہے، ہمارا بلائینڈ سپاٹ اس سے سترہ گنا بڑا ہے۔ ہم محسوس نہیں کر سکتے کیونکہ دماغ اس تفصیل کو خود سے بھر دیتا ہے۔ بصری دھوکوں اور ان سے فائدہ اٹھانے کا فن جادوگر اور شعبدہ باز سائنسدانوں سے پہلے سے جانتے تھے۔

اینٹون سنڈروم ایک بیماری ہے جس میں کسی کے آنکھ چلی جاتی ہے لیکن وہ شخص اس چیز کو ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔ ایسے ایک مریض سے ہونے والا ایک اصل مکالمہ،
“آپ کے بستر کے قریب کتنے لوگ کھڑے ہیں؟”
“چار” (دو لوگ کھڑے تھے)
“میں نے کتنی انگلیاں اوپر کی ہوئی ہیں؟”
“تین” (ہاتھ نیچے تھا)
“میں نے کس رنگ کی قمیض پہنی ہے؟”
“نیلی” (سفید رنگ کی قمیض پہنی تھی)

اس میں مریض جھوٹ نہیں بول رہا۔ اس کا دماغ مریض کو دنیا کی تصویر پیش ہی اس طرح کر رہا ہے۔ فرنیچر سے ٹکرانے، گرنے اور چیزیں توڑنے کے بعد مریض کو احساس ہوتا ہے کہ کچھ ہے جو کہ ٹھیک نہیں۔ جن لوگوں کی بینائی موتیے کی وجہ سے زیادہ عمر میں چلی جاتی ہے، ان میں سے دس فیصد کو کئی بار وہ مناظر نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں جو ان کے ارد گرد نہں ہوتے۔ (کئی لوگ اس کو چھپاتے ہیں کہ ان کو پاگل نہ قرار دے دیا جائے)۔ جن لوگوں کو تاریکی میں قیدِ تنہائی میں ڈال دیا جاتا ہے، چند روز میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔

اس کا ایک دلچسپ نتیجہ نکلتا ہے اور اس پر ڈیوائس بن کر منظور ہو چکی ہے۔ اگر ہم دماغ سے دیکھتے ہیں تو پھر کیا دماغ تک یہ انفارمیشن کسی اور طریقے سے پہنچائی جا سکتی ہے؟ کسی کے ماتھے پر اگر کیمرہ لگا دیا جائے اور اس سے آنے والا سگنل اگر زبان پر الیکٹروڈ کی مدد سے برقی صورت میں دیا جائے تو کیا دماغ دیکھنا سیکھ سکتا ہے؟ اس کا جواب ہے کہ ہاں، زبان سے دیکھا جا سکتا ہے۔ دماغ اس سگنل کو ویژئیول کورٹیکس کی طرف بھیج کر دنیا کی تصویر بنا دیتا سکتا ہے۔ انسان کا توازن برقرار رکھنے میں مدد کرنے والے کوکلئیر امپلانٹ اسی طریقے سے کام کرتے ہیں۔ اسی طرح کی ڈیوائس سے کمر پر سگنل دے کر نابینا افراد تربیت سے چند ہفتوں میں “دیکھنا” سیکھ گئے تھے۔ کیونکہ اگرچہ دماغ خود تو تاریکی میں ہے لیکن ہمارے لئے دنیا روشن وہیں سے ہوتی ہے۔

جب ہم دیکھتے ہیں تو ہر ایک پکسل کو نہیں بلکہ بس معنی اخذ کرتے ہیں اور دماغ اس کی مدد سے دنیا کو سمجھتا جاتا ہے۔ پڑھنے کی مہارت بھی ایسی ہے۔ اس کے لئے آپ نے تربیت لی ہے اور کئی برس لگا کر اس کو اتنا سیکھ گئے ہیں کہ اب سکرین پر بنی آڑی ترچھی لکیروں سے کسی کے خیال جان لیتے ہیں۔ یہ آپ کو ہنسا بھی دیتی ہیں اور رلا بھی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر نیچے بنائی ہوئی آڑی ترچھی لکیریں ہیں جو آپ کے لئے کوئی معنی نہیں رکتھی ہوں گی لیکن اگر آپ نے دماغ کو تربیت دی ہوتی یا پھر جو لوگ چینی زبان جانتے ہیں تو اس کو دیکھ کر شاید ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو جاتے۔

很抱歉让你失望,但我不知道任何中国人的笑话。我用谷歌翻译。我们可以笑一下

یا پھر دنیا کے سب سے مشکل اور گہرے سوالوں کا جواب صرف ان لکیروں کو دیکھ کر پا لیتے

ત્યાં કોઈ સરળ જવાબો નથી

مائیک مے پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Mike_May_(skier)

اینٹون سنڈروم پر
https://en.wikipedia.org/wi…/Anton%E2%80%93Babinski_syndrome

زبان سے دیکھنے والی ٹیکنالوجی کے آلے پر
https://en.wikipedia.org/wiki/Brainport

Advertisements
julia rana solicitors london

نوٹ:یہ  تحریر فیس بک گروپ”سائنس کی دنیا”سے لی گئی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply