• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات۔۔۔۔۔راؤ شاہد محمود

سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات۔۔۔۔۔راؤ شاہد محمود

آج کوٹ لکھپت جیل لاہور میں ملاقاتوں کا دن تھا۔ ایک دوست کے توسط سے میں نے بھی اپنا نام سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کیلئے بھجوا دیا۔ مقررہ وقت پر میں کوٹ لکھپت جیل لاہور پہنچ گیا ۔ مجھ سے آگے ایک لمبی گاڑیوں کی لائن اپنے اپنے قیدیوں سے ملاقات کیلئے موجود تھی۔ ایک پولیس والا میرے پاس آیا میرا نام لسٹ میں چیک کیااور بولا آپ گاڑی سائیڈ پر لگا لیں ابھی ٹائم لگے گا۔ دس منٹ انتظار کے بعد مجھے احساس ہوا کہ بہت دیر ہو رہی ہے ملاقات کا ٹائم شروع ہونے والا ہے میں نے اُسی پولیس والے کو کہا کہ بھائی میرا میاں صاحب سے ملاقات کا ٹائم ہے دیر ہو گئی تو ملاقات نہیں ہو سکے گی، آپ برائے مہربانی جلدی میری گاڑی چیک کر لیں۔ اور مجھے آگے جانے دیں۔ میاں صاحب کا نام سنتے ہی پولیس والے نے طنزاً کہا ( اچھا میاں صاحب نال ملنا جے فیر تے توانوں کوئی نئی روک سکدا تُسی گڈی اگے لے آؤ) ۔ تھوڑا سا انتظار کروانے کے بعد پہلی چیک پوسٹ ریلوے لائن کراس کی اور ڈیڑھ سے دو کلومیڑ دور دومزید چیک پوسٹیں کراس کرنے کے بعد تیسری چیک پوسٹ کے قریب گاڑی پارک کی اور اندر داخل ہو گیا۔ چوتھی چیک پوسٹ پر قومی شناختی کارڈ جمع کیا گیا اور ایک مضبوط لوہے کے دروازے سے گزار کر ایک کمرے میں بٹھا دیا گیا۔ اس کمرے میں داخل ہونے سے پہلے سخت تلاشی لی گئی اور میٹل ڈیٹکٹر مشین سے گزارا گیا۔ جس کمرے میں میاں صاحب سے ملاقات تھی وہ تقریبا 14*14 کا کمرہ تھا جس میں تقریبا 30 کرسیاں اور ایک میز رکھی ہوئی تھی۔ 5 منٹ انتظار کے بعد میاں صاحب کمرے میں داخل ہوئے ان کے پیچھے ایک 3 پھول والا پولیس افسر تھا۔ جو قدرے غیر سنجیدہ انداز میں کمرے میں داخل ہوا اور اونچی آواز میں بولنے لگا کہ کوئی میری کرسی پر نہ بیٹھے یہ مجھے سرکار نے دی ہے تواڈی نئیں ہے گی۔۔۔۔۔۔

میاں صاحب نے اُس کی طرف توجہ دیے بغیر فرداً  فرداً  سب سے ہاتھ ملایا۔ سیا ستدانوں کے علاوہ کچھ رپورٹرز اور بیوروچیف بھی ملاقات میں موجود تھے۔میرے قریب آئے تو میں نے ہاتھ ملا کر اپنا نام بتایا۔ میاں صاحب نے پوچھا آجکل آپ کس چینل میں ہیں؟۔۔میں نے جواب دیا سماء ٹی وی میں سینئر پروڈیوسر ہوں میاں صاحب بولے آپ غالبا ً پہلے جیو میں تھے میں نے اثبات میں سر بلایا۔ میاں صاحب سامنے رکھی ہوئی کرسی پر بیٹھ گئے۔ مشاہداللہ میاں صاحب کے سب سے قریب بیٹھے مجھے اور ڈاکٹر افنان کوبالکل اُن کے سامنے جگہ ملی۔ حسب عادت جیو کے رپورٹر امین حفیظ نے مذاق میں کوئی بات کی جس پر خواجہ آصف نے ناگوار شکل بنائی ،لیکن میاں صاحب مُسکراتے رہے۔ بیٹھنے کے بعد میاں صاحب نے سب کا باری باری نام پکار کر حال پوچھا ۔ احسن اقبال نے کہا میاں صاحب سردی بہت زیادہ ہے آپکی طبیعت کیسی ہے جواب میں میاں صاحب نے کہا ہاں سردی تو بہت ہے اور پچھلے دنوں کافی زیادہ تھی اور جیل میں سردی ویسے بھی کافی زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ کمرے بڑے اور چھتیں اونچی ہوتی ہیں۔ خواجہ آصف نے پوچھا میاں صاحب آپ کے کمرے میں ہیٹر نہیں ہے تو میاں صاحب کو بات سمجھ نہیں آئی، دوبارہ پوچھنے پر بولے ہاں ہیٹر تو ہے۔ احسن اقبال نے پوچھا ہیٹر بجلی کا ہے یا گیس کا ؟۔۔۔میاں صاحب بولے بجلی کا ہے۔ امین  حفیظ بولا لوڈ شیڈنگ بہت ہے وہ تو چلتا ہی نہیں ہو گا۔ خواجہ آصف نے جواب دیا جیل میں لود شیڈنگ نہیں ہوتی۔ اس پر میاں صاحب بولے ہاں لوڈ شیڈنگ تو نہیں ہوتی لیکن جتنی ہیٹ وہ پیدا کرتا ہے لگتا ہے میرے کمرے میں وولٹیج پورا نہیں آتا۔ اس پر پیچھے کھڑا ہوا انسپکٹر بولا (او ہیٹر وی  اسی دتا ہویا اے ورنہ تے اجازت نہیں ہے گی )۔ کچھ لوگوں نے ہنستے ہوئے اور کچھ نے قدرے بے بس سی شکل بناتے ہوئے انسپکٹر کی طرف دیکھا جو اپنی بات مکمل کرنے کے بعد داد وصول کرنے والی نظروں سے سب کی طرف دیکھ کر مُسکرا رہا تھا۔ میاں صاحب میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے کہ راؤ صاحب میں غلط نہیں تو ہماری آج سے 10 سال پہلے ملاقات ہوئی تھی اُس وقت آپ جیو میں تھے اور آپکا تعلق غالباً  بہاولپور سے ہے۔۔۔۔ میں نے کہا جی میاں صاحب آپ ٹھیک فرما رہے ہیں ۔ سب نے میاں صاحب کی یاداشت کی داد دی۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ 10 سال پہلے جب میری ملاقات ہوئی تھی تو میاں صاحب جنرل مشرف کے عتاب کا شکار تھے آج پتہ نہیں کس کس کا شکار ہیں ۔ میاں صاحب کمرے میں بیٹھی ہوئی واحد خاتون کی طرف متوجہ ہوئے ،بولے بی بی آپ کیسی ہیں؟۔۔ عظمی نے کہا کہ میں ٹھیک ہوں اور فلاں فلاں ورکرز باہر کھڑے ہیں اور انہوں نے آپکو سلام بھجوایا ہے۔ میاں صاحب بولے وہ اندر کیوں نہیں آئے ۔ میاں صاحب ایک بار پھر اُسی پولیس والے کی طرف متوجہ ہوئے اور بولے کیوں انسپکٹر صاحب لوگ کیوں اندر ملاقات کیلئے نہیں آسکتے؟۔ وہ بولا ملواواں گے جنا ساریاں نوں ملواواں گے اے چلے جاں تے دوسریاں دی واری آؤ  گی ۔ احسن اقبال نے اپنا کوئی پرانا قصہ سنانا شروع کیا کہ فلاں ٹائم پرپولیس ہمیں پکڑ کر جیل لے آئی، نصیر بٹھہ صاحب ہمیں ملنے جیل آئے اور سب کے نام نوٹ کرنے لگے وہ کہہ رہے تھے کہ ابھی 2 گھنٹے میں سب کی ضمانت ہو جائے گی۔ لیکن جب انہوں نے تمام نام نوٹ کر لیے تو پولیس نے اُن کو بھی ہمارے ساتھ ہی جیل میں بند کر دیا۔ میاں صاحب بولے آپ سب کو ڈرا رہے ہیں اس پر سب نے زور کا قہقہہ لگایا۔ خواجہ آصف بولے میاں صاحب آپکا خاموش احتجاج بہت کام کر رہا ہے اب عام عوام کو بھی پتہ لگنے لگا ہے کہ آپ کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے ۔ احسن اقبال بولے اب تو گاؤں دیہات کے لوگ بھی اصلیت سے واقف ہونے لگے ہیں میاں صاحب بولے کہ میرے ساتھ تو جو بھی ہو رہا ہے آپ دیکھیں کہ یہ ظالم لوگ شہباز شریف جیسے محنتی اور ایماندار انسان کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں ۔ پنجاب میں شہباز جیسا وزیراعلی نہ پہلے کوئی آیا نہ آئے گا۔ جس نے اتنے بڑے بڑے پروجیکٹس ریکارڈ مدت میں مکمل کیے۔ لاہور اسلام آباد اور ملتان کی میٹروز دنوں اور مہینوں میں مکمل کیں جبکہ دوسری طرف 6 سال ہو گئے ہیں پشاور کی میٹرو کو جو ان تینوں سے مہنگی ہو گئی ہے اور مکمل ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ پنجاب کی ترقی شہباز شریف کا کارنامہ ہے لیکن انہوں نے یہ اُس کا قصور بنا دیا ہے۔ بولے پاکستان میں اُلٹا حساب چل رہا ہے کام کرنے والوں کو سزا دی جارہی ہے اور نااہل لوگوں کو حکومتوں میں شامل کیا جا رہا ہے۔ احسن اقبال بولے میاں صاحب ہم شرمندہ ہیں کہ آپ کے ساتھ یہ ظلم ہو رہا ہے۔ لیکن آپ ڈٹے ہوئے ہیں ،یہ پیغام عوام تک مثبت شکل میں جا رہا ہے۔ جواب میں میاں صاحب نے مذاق میں کہا کہ کہن دا مطلب اے مینوں ایتھے ہی رہنا پئے گا۔ اس بات پر سب لوگ ہنسنے لگے۔ پولیس والے نے گلا صاف کرتے ہوئے دوبارہ سب کی طرف دیکھا جیسا   کہہ رہا ہو کہ ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

میں سب لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھ رہا تھا بظاہر میاں صاحب سے مذاق کر کے لوگ مُسکرا رہے تھے لیکن بے بسی اور بے چینی سب کے چہروں سے عیاں تھی بعض آنکھیں تو ایسی بھی تھیں جیسے   انہوں نے اپنے آنسو تھام رکھے ہوں ۔ میاں صاحب کا وزن دیکھنے میں پہلے کی نسبت کم لگ رہا تھا اور چہرے سے کمزوری کے آثار نمایاں تھے۔ مجھے دو مرتبہ ایسا لگا کہ جیسے میاں صاحب اب اونچا سننے لگے ہیں ۔ ایک انسپکٹر کی طرف سے 3 مرتبہ ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے انسان سے اس انداز میں بات کرنا جیسے ہر بات پر طنز کر رہا ہو بڑا معنی خیز تھا۔ جیسا کہ اُس کی ڈیوٹی ہو کہ تم نے میاں صاحب اور اُن کے ملاقاتیوں کا تمسخر اڑانا ہے لیکن پھر میں نے سوچا کہ لیڈر بننا اور وہ بھی پاکستان جیسے ملک میں کوئی آسان کام نہیں ۔ یہاں تو وزیراعظم تختہ دار تک پہنچ چکے ہیں یہ تو پھر جیل ہے۔ اپنے آفس کی طرف آتے ہوئے راستے میں میں سوچ رہا تھا کہ پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کا دعویٰ  کرنے والے گزشتہ چالیس سال سے خوش فہمی کا شکار ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ آج 2019 میں بھی پیپلز پارٹی ایک صوبے میں برسراقتدار ہے۔ تو ن لیگ کو تو زیرعتاب آئے ابھی صرف 20 سال ہی ہوئے ہیں ان کے پاس ایک صوبے تک محدود ہونے کیلئے ابھی 20 سال باقی ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”سابق وزیراعظم میاں نواز شریف سے جیل میں ملاقات۔۔۔۔۔راؤ شاہد محمود

  1. راؤ صاحب کمال لکھاہے آپ نے۔ ۔۔۔
    میاں صاحب کی یاد داشت کا بھی جواب نہیں۔
    آپکی آپ بیتی پڑھتے ہوئے محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم نے بھی ساتھ ملاقات کرلی میاں صاحب سے۔

Leave a Reply to وحید انور خان Cancel reply