• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • استنبول کی سلیمانیہ لائبریری۔۔۔۔۔سفر نامہ/سلمیٰ اعوان۔۔۔قسط 11

استنبول کی سلیمانیہ لائبریری۔۔۔۔۔سفر نامہ/سلمیٰ اعوان۔۔۔قسط 11

سچ تو یہ ہے کہ سلیمانیہ لائبریری میں جانا اور ایک ہزار سال سے زیادہ کے ترک اسلامی کلچر کے فکری و علمی خزانوں کے مخطوطوں اور مسودات کو دیکھنا گویا اپنے آپ کو اس علمی ماحول میں تھوڑی دیر کیلئے محسوس کرنا اور سانس لینا ہی خدا کی ہمارے اوپر ایک بڑی عنایت تھی۔
اس عظیم الشان ورثے کے سامنے جب میں کھڑی تھی ایک تلخ اور حقیقت پسندانہ سوچ بھی ذہنی دروازہ کھولتی اندر آئی تھی۔ قومیں جب عروج پر ہوتی ہیں تو پھر طب ہو، انجئنیرنگ ہو،ادب یا فنون لطیفہ ہر شاخ پھلتی پھولتی اور پھلوں پُھولوں سے لدتی اور نوازتی چلی جاتی ہے۔سلیمانیہ دور بھی ایسا ہی تھاجب دل اور دماغ نے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر مشرق و مغرب کی فکری رسائی حاصل کی۔
استنبول کی سلیمانیہ لائبریری کمپلیکس استبول کا ایک قیمتی اثاثہ ہے۔مسجد سے ایک تنگ اور لمبا سا راستہ مدرسے اور لائبریری تک جاتا ہے۔لائبریری الگ ہے اور قدیم علمی خزانے کو محفوظ رکھنے کا شعبہ الگ کردیا گیا ہے۔اِسے پہلا کتابی شفاخانہ کا نام دے لیں۔پہلے ہم اسی جانب گئیں۔ اندر جا کر معلوم ہوتا ہے کہ کِس درجہ شاندار انتظامات اِن مخطوطوں اور مسودوں کی حفاظت کے کیلئے کئیے گئے ہیں۔جن کے اندر نوّے فیصد(90%)ترک اسلامی دنیا اپنے ثقافتی خزانوں اور افکار کے موتیوں کی صورت عربی اور فارسی رسم الخط میں کاغذات پر بکھری ہوئی ہے۔
لائبریری کو جب سے یونیسکوunescoنے اپنے چارج میں لیا ہے اسے جدید  خطوط پر محفوظ اور استوار کیا جارہا ہے۔ سیما اور میرے لئیے کیا یہ کسی اعزاز سے کم تھا کہ ہم طب کی دنیا کی اُس عظیم ہستی بو علی سینا جسے مغرب Avicenna کہتی ہے کی طبی کتابیں اس کی اپنی تحریر میں لکھی دیکھتی تھیں۔کتاب الشفاء میرے سامنے شوکیس میں دھری تھی۔ جس کے بارے میں پتہ چلا تھا کہ اُسکے کچھ حصّوں کو پھپھوندی نے نقصان پہنچایا تھا۔بہت سے صفحات آپس میں جڑ گئے تھے۔اور وہ علیحدہ کرنے کی کوشش میں پھٹ رہے تھے۔ہر جدید حربہ استعمال میں لاکر انہیں محفوظ کرکے نئی صورت دی۔
سلیمان ذی شان کی مہر لگی کتنی بہت ساری اہم دستاویزات اور اولیا ء آفندی کا سیاحت نامہ ۔جذبائیت نے آنکھوں کو گیلا کردیا تھا۔


لائبریری کے ڈائریکڑ Nevzat Kaya ہماری خوش قسمتی سے اُس وقت موجود تھے۔انہوں نے فریم کیے ہوئے منصور بی محمد احمد کی انسانی اعضاء کی ڈراینگ دکھائی۔عثمانی دور کے عالم بشیر آغا کے نباتات سے بننے والی دوائیوں کے منی ایچر پنٹینگ اور ان کی عربی تحریر میں مسودہ بھی نظروں کے سامنے تھا۔تھوڑی سی اس کی تاریخ پر بھی انہوں نے روشنی ڈال دی۔
1918میں جب اندرونی ابتر حالات کی وجہ سے حکومت کی لائبریریوں پر وہ توجہ نہ رہی تو اِس سارے سرمائے کو ایک جگہ اکٹھا کیا گیا۔اس میں ترکی کے بہت سارے اضلاع خاص طور پر اناطولیہ نے بہت کردار ادا کیا۔یہ تہذیبی سرمایہ پتھروں پر کندہ کاری اور کاغذوں پر تحریری صورت میں سامنے آیا۔یہ بلقان سے ایشیا اور افریقہ مراکش سے ہندوستان ،ترکستان سے یمن تک کا نوّے فیصد(90%)فکری سرمایہ جہاں جہاں جس جس جگہ موجود تھااکٹھا کرکے اُسے یہاں محفوظ کیا گیا۔ملک بھر میں صاحب علم و دانش لوگوں نے اِس کارخیر میں حصّہ لیا۔
اسی طرح ہزار سال سے بھی زیادہ کا ترک اسلامی ثقافتی ورثہ 117022جسمیں 67350مسودات کی صورت اور 49663کتابوں کی شکل میں اِسے ہنگامی اور سائنسی بنیادوں پر منظم کیا گیا۔پہلا بُک ہوسپٹل بنایا گیا۔1950سے یہ سلسلہ شروع ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ اتنی ڈھیروں ڈھیر قیمتی اور نادر کتابیں دیکھنا ہمارے لئیے بڑی سعادت تھی۔وہاں خزانے تھے جنہیں ہم جیسے علم سے بے بہرہ لوگ سمجھنے سے قاصر تھے۔
ہم مختلف کمروں میں گئے۔جہاں ہم نے انہیں جدید شوکیسوں میں رکھے دیکھا۔پھٹے ہوئے کاغذات کی چرمی جلدیں کرنے، انہیں محفوظ کرنے، انہیں کیڑوں سے بچائے رکھنے کیلئے جدید طریقے استعمال ہورہے ہیں۔یہاں مائیکروفلم سروس ،جلدبندی اور پتھالوجی سروس ہوتی تھی۔ کام جدید بنیادوں پر ہورہا ہے۔پھٹے پرانے مسودات، اہم کاغذات اور دستاویزات ان کی بھی مرمت کہیں ان کی جلدیں ،کہیں چرمی اور کہیں عام کیڑوں سے بچانے کیلئے اُن کا علاج اور سپرے ۔پھر انہیں نمبر لگا کر ترتیب سے شوکیسوں میں رکھنا سبھی کچھ اس اثاثہ کو محفوظ رکھنے کیلئے کیا جارہا ہے۔
جب ہم ان کے کمرے میں بیٹھے قہو ہ پیتے تھے میں نے سوال کیا تھاکہ وہ کیا سمجھتے
ہیں ترک زبان کا رسم الخط تبدیل کرنے سے ترک قوم کی نئی نسل قدیم،عظیم،تہذیبی،ثقافتی اور روحانی ورثے سے محروم نہیں ہوگئی ۔یہ اثاثہ عربی رسم الخط کی صورت لئیے بند الماریوں،شوکیسوں میں کتابوں اور مخلوطوں کی صورت سجا ہوا ہے۔جن کے صفحات پر حکمت و دانائی کے موتی بکھرے ہوئے ہیں اورا نہیں چُننے والے نہیں۔ترک زبان کا رسم الخط تبدیل کرکے ترک قوم کو اس کے ماضی سے کاٹ کر نہیں پھینک دیا ہے۔
انہوں نے قہوے کا گھونٹ بھرا اور متانت سے کہا۔
کِسی حد تک آپ کی بات سے مجھے اتفاق ہے کہ ہمارے بچے اُس سب سے ناآشنا ہیں جو ہماری وراثت ہے کیونکہ میرے ذاتی تجربے کے مطابق جو کچھ بھی ہم ترجمہ
کرکے شائع کرتے ہیں اسمیں غلطیوں کے بہت سے امکان ہوتے ہیں۔چلئیے وسائل کی فراہمی تو کِسی نہ کِسی انداز میں ممکن ہے۔مگر مسئلہ وقت اور تیز رفتاری کا ہے۔دنیا بڑی سرعت سے آگے بڑھ رہی ہے۔


چند لمہوں کیلئے وہ رکے۔انہوں نے دھیرے سے شیشے کی چھوٹی سی گلاسی سے قہوے کاآخری گھونٹ بھرا اوراُسے ٹیبل پر رکھتے ہوئے گفتگو کو جوڑا۔
1928 میں”حرف انقلاب”کاآغاز ہوا۔اس وقت ترکی کی شرح خواندگی افسوسناک حد تک کم تھی صرف بارہ فیصد۔اتاترک جیسا وژن رکھنے والا لیڈر اِس امر سے آگاہ تھا کہ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر ڈالنے کیلئے قوم کا پڑھا لکھا ہونا کتنا ضروری ہے۔دراصل عثمانی ترکوں نے زبان کو مشکل بنا دیا تھا۔فارسی اور عربی کا ذخیرہ الفاظ شامل کرنے سے یہ عام آدمی کیلئے مشکل ہوگئی تھی۔رسم الخط بھی عربی میں تھا۔تاریخ بتاتی ہے کہ قدیم ترکی زبان کا اپنا رسم الخط کوئی نہیں تھا۔قسطنطنیہ ،ایشیائے کوچک اور ترکستان کے ترکوں نے مسلمان ہونے کے ناطے عربی رسم الخط کو اپنایا۔تب ان کے پیش نظر اسکے آسان یا مشکل ہونے کا مسئلہ نہ تھا۔
یہ کریڈٹ بہر حال اتاترک کو جاتا ہے کہ اس کے تیز ترین اقدامات نے ترک قوم کو قلیل عرصے میں 60% کی شرح پر پہنچا دیا تھا۔بہرحال یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اتاترک کے چاروں اہم رفقاء میں سے کسی حد تک سبھی مگر خصوصی طور پر عصمت انونو کے پیش نظر نئی ترک نسل کو اسلام کے دائرہ اثر سے باہر نکالنا بھی تھا۔اس کا اظہار انہوں نے اپنی بائیو گرافی میں کیا ہے ۔تاہم یہ بھی وقت کا تقاضا تھا کہ ہم اور ہماری زبان جدید رحجانات سے اپنا دامن بھرتی۔مغرب نے علم کو،ادب کو،گونا گوں تجربات سے مالا مال کررکھا ہے۔مشرق فکری طور پر انحطاط کی طرف مائل ہے۔فکر ی سوتے تو مغرب سے پھوٹ رہے ہیں۔


میں چاہتی تھی کہ اپنی ناقص عقل کے مطابق اس کا جواب دوں کہ یہ بھی تو دانائی نہیں کہ صدیوں پرانے اپنے اثاثے منجمند کردیں۔تاریخ میں جھانکا جائے تو معلوم ہوگا کہ
اب نئے خزینوں کے حصول کیلئے لاطینی رسم الخط کی طرف لپک پڑنے کی بجائے اپنی ہی چیزوں کو نئے رنگ دینے ،انہیں نئے سانچوں میں ڈھالنے اور بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہوئے اُسے مزید مالا مال بھی تو کیا جاسکتا تھا۔میں بہت سے ملکوں کے نام لینا چاہتی تھی جو ترقی یافتہ ہیں۔جن کی زبان مشکل ہے جیسے جاپان،چین اور اسرائیل۔ خیر اسرائیل نے تو کمال ہی کیا کہ جس نے اٹھارہ صدیوں سے نہ بولنے والے عبرانی جیسی مردہ زبان کو زندہ کرکے اپنے ماتھے پر سجا لیا۔
مگرمیں چپ رہی۔میں تیسری دنیا کے ایک شورش زدہ ملک کی باسی ایسے اہم فیصلوں کی گہرائی کیا جانوں۔

باب نمبر:۱۳ ترکوں کا محبوب و مقبول شاعر
یونس ایمرے Younus Emre
۱۔ ہماری نئی نسلیں اُن عظیم شاعروں،ادیبوں اور فنکاروں کے بارے میں کچھ نہیں جانتی ہیں جنہیں ہم ترجمہ نہیں کرسکے۔
۲۔ ےُونس ایمرے کے ہاں ذریعہ اظہار دیہی علاقوں میں بولی جانے والی ترکی زبان تھی۔ شاید اسی لئیے وہ ایک عوامی شاعرہیں۔
۳۔ ےُونس ایمرے کا کہنا ہے دینِ حق سر میں ہے۔سر پر رکھی جانے والی پگڑیوں اور دستاروں میں نہیں۔

ہم لائبریری میں آگئیں۔یقیناًدل چاہتا تھا تھوڑا سا وقت اور یہاں گزارا جائے۔لائبریری کی انچارج مسز ایمل بہت سلجھی ہوئی خاتون تھیں۔سکارف پہنے ہوئے تھیں۔باتیں ہونے لگیں تو احساس ہوا کہ سوچ اسلامی فکر میں گندھی ہوئی ہے ۔ان کے ہاں یہ تاسف بھرا اظہار تھا کہ ہماری نئی نسلیں اُن عظیم شاعروں ،ادیبوں اور فنکاروں کے بارے نہیں جانتی ہیں جنہیں ہم ترجمہ نہیں کرسکے۔ہمارا شاندار ماضی تو جگہ جگہ بکھرا ہوا ہے۔بازاروں،محلوں عجائب گھروں کو چھوڑئیے ہمارے تو قبرستان بھی ہمارا اثاثہ سنبھالے ہوئے ہیں مگر انہیں پڑھنے والے نہیں۔
وہ ہمارے جذبات کو زبان دے رہی تھیں۔میں ناامید نہیں۔ایک دن وہ وقت ضرور آئے گا جب ہمیں اپنی عثمانی ترکی زبان کی عظمت کا احساس ہوگا۔جب یہ ایک مضمون کے طور پر سکولوں،کالجوں اور یونیوسٹیوں میں پڑھائی جائے گی۔ہمارے امام حاطب(مذہبی)سکولوں میں تو یہ نصاب کا ایک حصّہ ہے۔مگر اِسے اسکا جائز حق ملنا چاہیے۔
ہمارے امین کہنے میں ہماری دلی تمنائیں شامل تھیں۔
باتوں کی اس بحث میں اچانک یونس ایمرے Yunus Emre کا ذکر آگیا۔خاتون نے اناطولیہ کے اِس درویش، صوفی اور خداداد صلاحیتوں کے حامل شاعر کا ذکرجس محبت اور شوق سے کیا اُس نے آتش شوق کو گویا بھڑکا سا دیا۔انہوں نے ان کی عوامی اور وحدت میں ڈوبی ہوئی شاعری کے چند ٹکڑے سُنائے اور ایک دلچسپ واقعہ بھی۔
زمانہ تو مولانا جلال الدین رومی کا ہی تھا۔کہتے بھی انہیں رومی ثانی ہے مگر دونوں عظیم شاعروں میں فرق ذریعہ اظہار کا تھا۔
مولانا رومی کا کلام اُس وقت ترکی کی شہری اشرافیہ کی مروجہ ادبی زبان فارسی میں ہونے کی و جہ سے خاص الخاص تھا جبکہ یونسEmre کے ہاں ذریعہ اظہار اُن کی عام لوگوں کی یعنی دیہی علاقوں میں بولی جانے والی ترکی زبان میں ہی تھا۔زبان سادہ ،مفہوم واضح، تشبہیں استعارے عام فہم اور زبان زد عام ہونے والے کلام میں غنائیت اور نغمگی کا بہاؤ اِس درجہ تھا کہ صوفیاء کی محفلوں میں جب گایا جاتا تھا تو لوگ و جد میں آجاتے تھے۔یونس ایمرے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ بہت شریں گفتار اور لحن داؤدی کا سا کمال رکھتے تھے۔کبھی اگر دریا کے کنارے قرات سے قرآن پاک پڑھتے تو بہتا پانی رک جاتا تھا۔
بہت دلچسپ ایک واقعہ بھی سُن لیجئیے۔ یونس اُمرے کے قونیہ سفر کے دوران کہیں مولانا رومی سے ملاقات ہوئی تو مولانا نے اُن سے اپنی مثنوی کے بارے میں دریافت کیا۔یونس ایمرے نے کہا۔’’بہت خوبصورت ،بہت عظیم ،بہت اعلیٰ شاہکار ۔میں مگر اِسے ذرا مختلف طریقے سے لکھتا ۔‘‘مولانا نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا’’بتاؤ ذرا کیسے۔‘‘یونس بولے ۔’’میں آسمان سے زمین پر آیا ۔گوشت پوست کا لباس پہنا اور خود کو ےُونس ایمرے کا نام دیا۔‘‘

مصنفہ،سلمیٰ اعوان

ترکی کے اس مقبول اور اہم ترین شاعر کا زمانہ لگ بھگ1238 تا 1320 کا ہے۔مقام پیدائش صاری کوئے نامی گاؤں میں ہوئی۔اس زمانے میں قونیہ پرسلجوق ترکوں کی حکومت تھی۔
مولانا رومی شمس تبریز سے متاثر تھے۔ایسے ہی یونس ایمرے نے چالیس سال اپنے استاد شیخ تاپدوک ایمرے Tapduk Emre کے قدموں میں گزار دئیے۔اُن کی زیر نگرانی انہوں نے قرآن و حدیث کے علم میں کمال حاصل کیا۔طریقت کے اسرار و رموز سے شناسا ہوئے۔ اُن کے کلام میں رباعی،گیت،نظمیں ،غزلیں سبھی نظر آتی ہیں۔ذرا دیکھئے کلام کی سادگی اور حُسن۔
ایک لفظ ہی چہرے کو روشن بنا سکتا ہے
اُس شخص کیلئے جو لفظوں کی قدرو منزلت جانتا ہے
جان لو کہ لفظ کب بولنا ہے اور کب نہیں
ایک اکیلا لفظ دنیا کی دوزخ کو آٹھ بہشتوں میں بدل سکتا ہے
یونس ایمرے اِس بات پر زور دیتے ہیں کہ انسان کو زندگی محبت و پیار کے اصولوں پر گزارنی چاہیے۔ان کی فلاسفی میں اُونچ نیچ او ر تفریق کہیں نہیں۔یہ صرف انسانوں کے اعمال ہیں جو انہیں اچھا یا بُرا بناتے ہیں۔زندگی عفو ودرگزر ،حلیمی اور رواداری جیسے جذبات کے تابع ہونی چاہیے۔ان کا عقیدہ تھا کہ خدا تک پہنچنے اور بخشش کا راستہ اکابرین دین،مختلف مذہبی اور مسلکی فرقوں کے اماموں کے ذریعے نہیں بلکہ یہ انسان دوستی اور احترام
انسانیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ہر مذہب اور ہر مذہبی فرقے کا دوسرے کو جہنمی کہنا اور سمجھنا بہت غلط ہے۔دنیا کا ہر مذہب انسانیت کی بھلائی کا درس دیتا ہے۔ان مذاہب اور انسانوں کے احترام سے خدا سے سچا عشق پیدا ہوتا ہے۔ان کا یہ کہنا کتنا خوبصورت ہے۔دین حق سر میں ہے سر پر رکھی جانے والی پگڑیوں اور دستاروں میں نہیں۔ذرا دیکھئیے وہ کیسے کہتے ہیں۔
تم اگر دوسروں کو نفرت سے دیکھوگے بلندی سے نیچے گرجاؤ گے
وہ کہ جس کی لمبی سفید داڑھی ہے اور جو خاصا معقول نظرآتا ہے
اگر اُسنے کِسی ایک کی بھی دل شکنی کی تو بلا سے وہ مکّہ جائے کچھ فائدہ نہیں
ایک اور جگہ کہتے ہیں
اگر سب مذاہب مل کر ایک اکائی کا روپ دھارلیں
تو اِس امتزاج سے عشق حقیقی پیدا ہوگا
ذرا اس شعر کو دیکھئیے۔
خواہ کعبہ ہو،مسجد ہو یا کوئی اور عبادت گاہ
ہر ایک اپنی اپنی بیماریاں اٹھائے ہوئے ہے
زندگی کے کڑے حقائق ،روایتی اور کھوکھلی مذہب پرستی اور اُس کی آڑ میں انسانوں کا استحصال ۔یونس نے اپنی ذات کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔خود اپنے آپ کو رگیدا۔اپنے آپ پر ملامتوں کے کوڑے برسائے۔
یونس ایمرے عشق حقیقی کے پرستار اور اسیر تھے۔شاعری میں صوفیانہ علم، عجزو انکسار اور انسانیت کا بے پناہ جذبہ نظرآتا ہے۔
میں یہاں رہنے کیلئے نہیں آیا میں تو رُخصت ہونے کیلئے آیا ہوں

Advertisements
julia rana solicitors london

میں مسائل پیدا کرنے کیلئے نہیں میں صرف محبت کیلئے آیا ہوں
ان کی شاعری میں جابجا وحدت الوجود کا اظہار ملتا ہے۔
یہ خاک کا پیکر نہیں تھا
میرا نام تو یونس بھی نہیں تھا
میں وہ تھا اور وہ میں تھا
متاع عشق جب اُس نے عطا کی
تو اس لمہے میں اس کے پاس ہی تھا
یونس ایمرے ترکوں میں بہت ہر دل عزیز ہیں۔دراصل اُن کی شاعری ترکوں کے قومی مزاج کی خوبصورت عکاس ہے۔ترک قوم کی دلیری اور خودداری کا اظہار ہے۔یہی و جہ ہے کہ ان کے اشعار خاص و عام کی زبانوں پر ہیں۔بیرونی دنیا میں اب ان پہچان ہورہی ہے۔ اس کی و جہ دراصل اُن کا کلام اپنی مادری ترکی زبان میں ہے۔ان کے ہم عصر مولانا رومی کا کلام فارسی میں ہونے کی و جہ سے وہ برصغیر اور وسط ایشیا کی ریاستوں میں بہت زیادہ ہر دل عزیز ہیں۔تاہم اب انگریزی ترجمے کی و جہ سے یونس ایمرے کے قارئین ان کی خداداد صلاحیتوں سے آگاہ ہورہے ہیں۔اُن کے فن اور کلام کی سادگی،برجستگی اور فلسفے سے واقف ہو رہے ہیں۔
ہم بھی شکر گزار ہوئے کہ انہوں نے ہمیں وقت دیا اور ہمیں ایک عظیم ہستی سے ملوایا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply