پیوما(Puma)۔۔۔۔محمد اقبال دیوان/قسط1

یہ کہانی اردو کے موقر ادبی جریدے ’’سویرا ‘‘کے سالانہ کہانی نمبر بابت دسمبر سن2017میں شائع ہونے پر قارئین میں بے حد پسند کی گئی
چار اقساط کی پہلی قسط!

کراچی شہر کی اس مصروف شاہراہ پر گزرتے ہوئے شور مچاتے ٹریفک اور سائبریا کی کوئٹہ کے راستے آنے والی یخ بستہ ہواؤں کی ٹھنڈک سے بے نیاز ململ کے اُجلے، سفید کرتے سے دل کو برماتی ،بادلوں میں چھپے چاند کی مانند جھلملاتی جھاگ کی طرح ملائم Bordelle کی مشہور ،سیاہ شیلف ۔برا پہنے، وہ جو دل نشین و جواں سال خاتون میری جانب پشت کیے بیٹھی ہیں، ان کا نام بینش مزمل واحدی ہے۔

ان کی نگاہیں اس وقت برطانوی جاسوسی ناول نگار جان لا کارے ( John Le Carre ) کی کتاب’’ لٹل ڈرمرز گرل‘‘ کے صفحات پر مرکوز ہیں۔چہرے کا انہماک اور بدلتے تاثرات سے لگتا ہے کہ وہ کہانی اور کرداروں کے ساتھ ذہنی طور پر یکسوئی سے ہم رکاب ہیں۔پاکستان میں اس مصنف کا نام اور اس کی کتب شاید بہت سے افراد کے لیے اجنبی ہو ں مگر یہ  خاتون فریڈرک فورسیتھ ہو ، رابرٹ لڈلم یا ڈینل سلوا، سب ہی   جاسوسی کی کتب بہت دل چسپی سے پڑھتی ہیں۔اس کے علاوہ اُن کے مطالعے میں مختلف جاسوسی اداروں سے وابستہ افراد کی لکھی ہوئی کتابیں بھی رہتی ہیں جیسے وکٹر شیمو کی ٹا ور آف  سائلنس ،پال ویلمز کی آپریشن گلیڈیو اور ہربرٹ ہور کی سوانح حیات ماسٹر آف ڈسیٹ۔یہ ذرا حیرت ناک بات ہے۔

Bordelle کی شلیف برا
لاکارے

لٹل ڈرمر ز گرل
ٹاور آف سائلنس
آپریشن گلیڈیو
ماسٹر آف ڈسیٹ

میں اس خاتون کو اُن کے اسکول کے نام بی ۔ایم ۔ڈبلیو ( جوبینش مزمل واحدی کا مخفف ہے) سے پکارتا ہوں۔ باقی سب اُنہیں ان کے جوانی کے نام پیوما سے پکارتے ہیں۔پیوما آپ تو جانتے ہی ہیں شمالی اور جنوبی امریکہ کی ایک نسبتاً بڑے سائز کی جنگلی بلی کا نام ہے۔یہ بِلّی حسین،پھرتیلی،چالاک اور اپنی حرکات و سکنات کے حساب سے اپنے سے کچھ بڑے کزن ،تیندوے کی مانند چھلاوے کی طرح پراسرار ہوتی ہے۔میں بھی انہیں اکثر و بیشتر اس نام سے پکارلیتا ہوں۔اُنہیں اس پر کبھی اعتراض نہیں ہوا۔آپ ان سے کچھ عرصے ملتے رہیں گے تو یقیناً اس بات کی داد دیے بغیر نہ رہ سکیں گے کہ بینش مزمل واحدی پر یہ بی ۔ایم ۔ڈبلیو اور پیوما دونوں ہی نام کس قدر پھبتے ہیں۔
پیوما سے پہلے میں اپنا ذکر یعنی حمّاد بخاری کا ذکر خیر کیوں نہ کرلوں تاکہ محفل کی ابتدا توہو،ورنہ آپ کہیں گے کیسی محفل ہے ابتدا ہی نہیں ۔اپنے بارے میں بات کرنا مجھے ویسے تو بہتVulgar ( یہ لفظ میں نے انگریز ی میں ہی استعمال کرنا بہتر سمجھا )لگتا ہے مگر چونکہ اس کہانی کا میں ایک ایسا مرکزی کردار ہوں جس سے ہر واقعے اور کردار کا گہرا تال میل ہے لہذا ایک بخاری سب پر بھاری، اگر میرا تذکرہ نہیں ہوگا تو دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی۔

پیوما

آپ میری اس غیر مہذب جسارت کو یہ سوچ کر بھی معاف کرسکتے ہیں کہ امریکہ کے سابق صدر اوباما نے چند یوم قبل اپنی الوداعی تقریر میں خود اپنا ذکر خیر 75 مرتبہ کیا تھا۔ان کی اس خود ستائی پر کسی نے کہا کہ’’ اگر خود پسندی پٹرول ہوتی تو اوباما کا مقام ایران اور سعودی عرب والا ہوتا‘‘۔
میرا نام حماد بخاری ہے۔ میرا مرحوم دوست سعدی مجھے روز اوّل سے ہی آیت اللہ کہا کرتا تھا۔میں نے اس کا کبھی برا نہیں مانا۔مرکزی حکومت کا ملازم سعد نجم الدین ا لمعروف بہ سعدی میرا جگری دوست تھا۔
میری موجودہ بیوی بینش مزمل واحدی( المعروف بہ بی ۔ایم ۔ڈبلیو المعروف بہ پیوما جس کا تذکرہ تفصیل اور لطف سے آگے آئے گا۔تب تک التجائے صبر) اس کا کہنا ہے کہ جو لوگ اللہ کو پیارے ہوجائیں، اُن سے محبت کرنے والے پس ماندگان کا فرض ہے کہ وہ انہیں اُس نئی اور انجانی دنیا میں چین سے جینے دیں۔انہیں وہاں بھی ایسا ساز گار ماحول فراہم کریں کہ وہ اللہ کی محبت کا یکسوئی سے لطف اٹھا سکیں۔ زندہ لوگوں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم انہیں تواتر سے یاد کرکے ڈسٹرب کرتے رہیں۔سعد نجم الدین جسے ہم سب سعدی کہتے تھے ،اب اللہ کو پیارا ہوچکاہے۔جو اللہ کو پیارے ہوجائیں انہیں ہمیں انگریزی کی اصطلاح کے مطابق ریسٹ۔ ان ۔ پیس(R.I.P) کرنے دینا چاہیے۔
ہمارے گھرانے کا تعلق جھنگ کے علاقے چنڈ بھراونہ سے ہے۔ہم یہاں کے جاگیردار ہیں۔ گاؤں میں پرکھوں کی حویلی کے علاوہ بھی میرے دو گھر اور بھی ہیں۔ ان میں سے ایک پرانی حویلی، پنڈنیاز بیگ لاہور میں ہے۔ اس بستی کو بعد میں ٹھوکر نیاز بیگ کہا جانے لگا ۔ہمارے بڑے کہتے ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں ایک نہر نکالی گئی تو بستی کے قریب پانی کے بہاؤ میں تیزی لانے اور اسے ایک اچھال دینے کے لیے آبشار کی طرح کی ڈھلان بنائی گئی۔پنجابی میں اسے ٹھوکر اورانگریزی زبان میںVenturi کہتے ہیں۔دوسرا یہ بڑا سا فلیٹ کراچی کی ایک مصروف شاہراہ پر جہاں خاکسار پیوما کے ساتھ مقیم ہے۔کھارادر کراچی اور راولپنڈی میں ہماری تین تین مارکیٹیں اور بھی ہیں۔ یہ سب پراپرٹیاں الحمدللہ میری ہیں۔یہ کسی آف شور کمپنی کی ملکیت نہیں۔خادم ان کا بینفیشل اونر ہے ان کو ہولڈ کررہی ہیں میری ہمشیرہ سیدہ معصومہ بخاری۔ٹھیک ہے جی، اور یہ ایک باقاعدہ ٹرسٹ ڈیڈ کے تحت رجسٹرڈ ہیں۔ان کا سارا کرایہ الحمدللہ اس خاکسار کو ملتا ہے۔جس کی وجہ سے زندگی ہمیشہ سے بہت آسودہ گزری ہے۔تمام عمر کوئی ملازمت نہیں کی ۔چھ جامعات میں ایک ہی ڈگری کی تلاش میں اندرون ملک اور بیرون ملک خاک چھانی۔ڈگری تو کیا ملتی مگر بہکا بہکا سا باتوں کا یہ قرینہ آگیا۔

چنڈ بھروانہ
ٹھوکر نیاز بیگ
تین تلوار،کراچی

سعد نجم الدین مرکزی حکومت کا ملازم، میرا جگری دوست تھا۔ وہ مسلکاً کٹر سلفی، تکفیری ،خارجی ،دیوبندیوں کا دلدادہ، سعودی عرب کی محبت میں ہمہ وقت خاک بر سر لہو بہ داماں رہتا تھا ، طالبان کی محبت میں ایسا غلطاں و پیچاں کہ ملا عمر کا نام بھی کبھی امیر المومنین کہے بغیر نہیں لیتا تھا ۔میں اس کے برعکس ایرانی ثقافت کا دلداہ، عزا دار،لبرل ، مسلکی دہریہ۔
فارسی لٹک کا شکار ہوکر صدیقہ صدقے، گل لالہ ،گل لالے اور فرخندہ ، فرخندے بن جاتی ہیں کہ  اس طرح کی اٹھکیلیوں کا فائدہ اٹھا کر میں نے ایک لچکیلی ،صوتی جسارت پیوما کے نام کے ساتھ بھی کرنے کی کوشش کی، کئی ایک دفعہ اسے پیومے پکارا مگر اس نے ہر بار رو ہانسا ہوکر اعتراض کیا
کہ’’ لے دے کر پرکھوں کی ایک نشانی ،جوانی کا یہ نام بچا ہے ۔اُسے بھی آپ over-stretch کرکے برباد کرنا چاہتے ہیں۔ نہ کریں‘‘۔میں نے فی الفور،اُنسیت کی اس سر پٹ دوڑتی ،بے تکلف Ferrariکو اسی کے اعتراض کے گیرج میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پارک کردیا۔

میں اور سعدی جب عقائد پر بات کرتے تو ایک دوسرے کے چیتھڑے اڑا کر رکھ دیتے تھے مگر دل میں میل تو کجا ، لہجے میں معمولی تلخی تک نہ آتی،نہ ماتھے پر کبھی بل، نہ تعلقات میں کوئی کھنچاؤ ۔
پیوما ہماری اس مثالی دوستی پر ایک ہی مدعا (سوال )اٹھاتی تھی کہ جب میں اور سعدی آپس میں اتنی رواداری سے ایک جان دو قالب بن کر رہ سکتے ہیں تو سعودی عرب اور ایران کے درمیان آخر کیا مسئلہ ہے۔وہ کیوں امت مسلمہ میں بھائی بھائی بن کر رہ نہیں سکتے؟ جس پر میں کہتا کہ عربوں کو ہم اہل فارس کی ثقافتی برتری کو تسلیم کرنا ہوگا یہ سن کر سعدی مسکراکر کہتا اور ان کے ایرانی دلداروں کوہماری دینی فوقیت کو۔سعدی سے میرے والہانہ لگاؤ کا نتیجہ یہ نکلا کہ پیوما نے اس کی موت کے بعد مجھے اس کی ہی ایک مردانہ توسیع ( Extension)سمجھا۔سعدی کی دنیا سے جڑے رہنے کے لیے خود اس کی موت کے بعد بھی وہ میری بدستور دوست بنی رہی۔میرے اس کے تعلق میں ذرا بھی کمی نہ آئی جس کی وہ سعدی کی زندگی میں شدت سے عادی تھی۔
سعدی کی موت کے بعدتین ماہ تک میری اس سے ملاقاتیں روازانہ کی بنیاد پر ہوتی رہیں۔ وہ بہت اجڑی اجڑی لگتی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے جینے کی امنگ کھو بیٹھی ہو۔میز پر رکھی ہوئی سعدی کی تصویر کو تکتے تکتے کھو کر رہ جاتی۔میرا بنگالی کک منعم بھوئیاں مجھے بتاتا کہ اس نے میری اور زرمینے کی غیر موجودگی میں کئی دفعہ پیوما کو تصویر کے سامنے آنسو بہاتے اور اس سے باتیں کرتے دیکھا ہے۔
ان دنوں میرے ساتھ ایک افغان دوشیزہ زرمینے رہتی تھی۔ہم دونوں اکثر پیوما کو لے کر سیر و تفریح کے لیے نکل جاتے تھے۔ان تمام مواقع پر بھی وہ بہت چپ چاپ رہتی تھی ،سعدی کا ذکر آتا تو اس کی رنگ بدلتی آنکھوں سے آنسووں کی لڑیاں بہنے لگتی تھیں۔
ان تین ماہ میں مجھے کئی دفعہ ایسا لگا کہ پیوما نے بہت آہستگی اور غیر اعلانیہ طور پر مجھے سعدی کے نعم البدل کے طور پر تسلیم کرلیا ہے۔زرمینے کی وجہ سے اس قربت میں کوئی خاص اچھال تو نہ آیا مگر ایسا کئی دفعہ ہوا کہ جب وہ موجود نہ ہوتی تو میں اور پیوما ایک دوسرے کے ہم آغوش بھی ہوجاتے اور قدرے معصومانہ سا باہم بوس و کنار بھی کرلیتے۔جو اس کی جانب سے احتجاجاً ام ام ام اور اسٹاپ اٹ پر تھم تھم جاتا تھا۔

میری زندگی سے زرمینے اور پیوما کے رخصت ہونے کی وجہ یہ تھی کہ عراق میں صدام حکومت کے خاتمے کے بعدوہاں کاروبار کے نئے مواقع نکل آئے تھے ۔مقامی افراد میں کچھ سے ہمارے پرانے روابط تھے ۔مجھے اس وجہ سے لاہور ،تہران، افغانستان اور عراق کا سفر مسلسل درپیش رہتا تھا۔ پیوما اکثر میرے فلیٹ پر میری غیر موجودگی میں بھی آتی رہی پھر یکایک غائب ہوگئی۔
۔ سعدی سے میری جنون کی حد تک محبت کا دوسرا ثبوت اس کی موت کے بعد افشا ہونے والے انکشافات اور شواہد تھے جن کی روشنی میں مقتدر حلقوں نے ایک خوف ناک فیصلہ کیا ۔ اس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے ان کے کارندوں کو بھرپور Back-End معاونت کی ضرورت تھی سو وہ تعاون میں نے محض سعدی کی موت کا بدلہ لینے کے لیے کیا تھا۔حب الوطنی ہمارے گھرانے میں ہمیشہ سے عقیدے کی ہم سایہ بن کر رہی ہے۔ہم معاف کردیتے ہیں، بھولتے نہیں۔ ہمارے ہاں بدلہ کبھی پرانا نہیں ہوتا۔
سعدی مقابلے کے امتحان کے کڑے عمل سے گزر کر سرکار کے در دولت پر پہنچا تھا۔ ۔میری اس سے ملاقات کراچی میں ہوئی۔وہ ان دنوں ایک خفیہ ادارے سے وابستہ تھا۔اس خفیہ ادارے میں اس کی پوسٹنگ میرے کزن اور سعدی کے بچپن کے دوست ثمر جعفری نے کرائی تھی۔
سعدی سے وزیر اعلیٰ ناراض ہوگئے تھے۔ثمر کے بہنوئی ان دنوں وزارت داخلہ میں ایک جوائنٹ سیکرٹری کے عہدے پر فائز تھے۔سیکرٹری نااہل اور بہت ماٹھا تھا۔اس وجہ سے وہ وزیر داخلہ کے جگر گوشے سمجھے جاتے تھے۔دو گدھوں یعنی وزیر اور سیکرٹری کا بوجھ، ریس کا یہ ایک گھوڑا ہمارے شجاعت بھائی اٹھا تے تھے،۔ثمر کے منہ  سے بات نکلی تو انہوں نے ماتحت خفیہ ادارے میں سعدی کو Deputation پر بلالیا۔
باوجود اس کے سعدی کے پوسٹنگ آرڈر ماہ ڈیڑھ ماہ بعد نکلے۔ ادارے کے مقامی سربراہ رنگ رنگیلے پی۔ بی۔ گھانگرو ( پیر بخش گھانگرو جنہیں ان کے انگریزی مخفف کی وجہ سے کچھ حاسد مہاجر افسر ماتحت پلے۔ بوائے۔ گھانگرو کہتے تھے )نے اسے گاڑی ،ڈرائیور ،کمرہ اسلام آباد سے فون پر احکامات ملتے ہی دے دیا ۔صدر دفتر کی ہدایت تھی کہ سعدی ایک Asset ہے ۔کراچی کی رگ و پے سے واقف ۔اس کا فائدہ اٹھالو۔یوں بھی گھانگھرو جس کا بچپن گاؤں کے ندی نالے پھلانگتے گزرا تھا وہ پلوں کو بہت اہمیت دیتا تھا۔سعدی اسے بہت سارے ادھر ادھر پھیلے ہوئے کناروں کے درمیان برج لگا۔ایک محفوظ زپ لائن جس پر لٹک کر وہ دوسرے کنارے پہنچ سکتے تھے۔

زپ لائن

دیہاتی ہونے کے ناطے ان میں Native Intelligence کوٹ کوٹ کر بھرے تھے گو وہ بظاہر جٹ(سندھی زبان میں پینڈو)   لگتے تھے۔پہلی جنریشن کے معمولی تعلیم والے سفارش پر بھرتی افسر  اللہ نہ کرے آپ کا کبھی پی۔ بی۔ گھانگرو کی انگریزی تحریرو تقریرسے واسطہ پڑے ۔ وہ آپ کو کسی بدحال روہنگیا بیوہ کے آنسووں کاتھم تھم کر بہتا ہوا شکوہ لگتی تھیں۔انہوں نے اسلام آباد کی تجویز پر آرڈر نکلنے سے پہلے ہی کراچی میں بد امنی پر پے در پے کئی رپورٹیں لکھوائیں ۔وہ محکمے میں سفارش سے آئے تھے،وفاداری اور معاملہ فہمی نے ان کے کئیریر کوپروان چڑھایا۔
ریٹائرمنٹ کے بعد کنٹریکٹ کی ملازمت کی وجہ سے اسلام آباد والوں کی خوشنودی کو نقلِ کفر ، کفر نہ باشد کے مصداق تقریباًرضائے الہی کا ابتدائی درجہ دیتے تھے۔ مزاجاً بھی وہ سعادت مندی کے تندور میں پکے ایسے افسر تھے جو پیر،افسر اور معشوق کی ناراضگی کو عین الکفر سمجھتے تھے۔ان کے معمولی سے اشارے پر بچھ بچھ جاتے۔ سعدی کی رپورٹوں پر سینہ ٹھونک کر وہ اپنا نام پی بی گھانگرو ایم اے سندھی لٹریچر۔ ایل ۔ایل۔ بی سینئر ڈایئریکٹر لکھتے تھے اور اسلام آباد بھیج دیتے تھے ۔
یہ رپورٹیں تیر بہدف اور دیگر ذرائع سے موصول شدہ اطلاعات سے ہم آہنگ اور لب و لہجے کے اعتبار سے زیادہ کھری اور کاٹ دار ہوتی تھیں ۔
ان رپورٹوں کے موصول ہوتے ہی صدر دفتر میں گھانگرو صاحب کی قابلیت کے نقارے بجنے لگے۔یوں بھی اس شہر اسلام آباد میں جہاں چھوٹے بڑے سبھی ایک دوسرے کی پلیٹ سے نوالے اٹھا کر بھاگنے کی فکر میں ہوتے ہیں۔انہوں نے فیاضی کی ایسی ریت ڈال دی تھی کہ وہاں ان کی آمد کا وظیفہ خوار ماتحت عملے میں ے صبری سے انتظار رہتا تھا۔
یہ رپورٹیں بعد میں سندھ کے مقامی سیاست دانوں سے مال کے بدلے مال کے عوض بارٹر ہوتی تھیں۔ خود گھانگرو صاحب کسی نہ کسی بہانے رپورٹ ارسال کرنے کے و دن بعد اسلام آبادپہنچ جاتے۔ کراچی میں مخبروں میں بانٹے جانے کے لیے مختص سیکرٹ فنڈ میں سے نکالے ہوئے کے ایک لاکھ روپے ادارے کے نچلے عملے میں بانٹ دیتے جس کی وجہ سے دفتر کا عملہ انہیں وڈیرہ گھانگرو سائیں کہا کرتا تھا۔
اس فنڈ کا مقصد یوں تو سندھ میں تخریب کاروں کے بارے میں اہم معلومات خریدنا تھا مگر سندھ کے افسر جانتے تھے۔ اسلام آباد میں ایمانداری کا ہر بھاشن ایسا ہے جیسا پوپ کی راجدھانی وٹیکن
کا۔ عیسائیت کے اس دھرم پورے کے لیے دنیا بھر میں یہ خیال عام ہے کہ دین، چینی مال کی طرح مینوفیکچر یہاں ضرور ہوتا ہے مگر بکتا کہیں اور ہے۔جیسے امریکہ میں ڈی ڈی ٹی Dichloro.Diphenyl.Trichloroethane نامی کیڑا مار دوا جس کا وہاں بنانا جائز مگر بیچنا اور استعمال کرنا ممنوع تھا۔ایمانداری اسی طرح اسلام آباد میں مینوفیکچر ضرور ہوتی ہے مگر بکتی دوسرے مقامات پر ہے۔
پاکستان میں سندھ کے لوگ سیاسی طور پر سب سے زیادہ باشعور ہیں۔ ان کے   ہاں لسانی شناخت یعنی ماں بولی بہت گہری شناخت ہے ۔سندھ میں سب سے بڑی قسم دھرتی ماں کی ہے ۔اب تک اپنے سات وزیر اعظم اس قلیل تعداد کے باوجود لاچکے ہیں جب کہ  بلوچستان اور سرحد کے صوبے ایک وزیر اعظم لانے میں بھی کامیاب نہیں ہوئے۔

 

اسی ادائیگی کا چمتکار تھا کہ ان کے خفیہ بیورو کا ہر کاغذ،ہر اطلاع، ہر میٹنگ کی تحریری کاروائی ماتحت عملہ کسی ہچکچاہٹ کے بغیر انہیں ستارہ مارکیٹ سے ان کے پالے ہوئے فوٹو اسٹیٹ والے کے ہاں سے گھانگھرو صاحب کے گھر کے فیکس نمبر پر آباد آدھمکتے تھے۔سیکرٹ فنڈز سے مخبران خاص کی ادائیگی کے لیے مختص رقوم کے لفافے وہ صدر دفتر کے ماتحت عملے میں کھلے دل سے تقسیم کرتے۔صدر دفتر میں ان کی شہرت ایک رئیس وڈیرے کی تھی۔وہاں یہ تاثر عام تھا کہ یہ تبسم اور فیاضی ان کے مزاج کا حصہ ہے۔
ہیڈ کوراٹر میں تعینات کسی نا آسودہ وظیفہ خوار کو کبھی ان کی اس لکھ لٹ طبیعت پر تجسس بھرا اعتراض ہوتا  تو وہ کہتے ’’بابا سندھ قلندر اور صوفیوں کا ڈیرہ ہے۔اللہ نے ہم کو سمندر بھی دیا ہے اور سمندر جیسا دل بھی۔۔ صوبے میں سیاست سڑکوں، ایشوز یا نظریات کی بنیاد پر نہیں بلکہ مٹی مائٹی ( سندھی زبان میں رشتہ داری) کی پٹریوں پر بلٹ ٹرین کی طرح چلتی ہے۔یہ دو ہزار ایکسٹرا لے۔ بابا ہمارے سندھ کو بری نظر سے مت دیکھ ہم مسکین لوگ ہیں۔۔انہیں محافل اور کچہریوں (سندھی زبان میں ملاقات) سے سمیٹی گئی معلومات کو وہ ری سائیکل کرکے ہیڈ کوارٹر بھجوادیتے تھے۔یوں اس شاہراہ اطلاعات پر دو طرفہ ٹریفک بلا رکاوٹ جاری رہتا۔
گھانگرو صاحب کی سرکاری زندگی میں سعدی نے قدم رکھا تو ان کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں کو طاقت کی ایک نئی معجون فلک سیر مل گئی۔ دن میں اسلام آباد کے صدر دفتر سے چوری شدہ معلومات اور شب کے پھولوں کو چوم کر جمع کی گئیں قطرہ قطرہ سرگوشیاں، پلے بوائے گھانگرو دفتر میں لنچ پر سعادت مند سعدی سے شئیر کرتے۔اپنے ہی دفتر میں اسے بٹھا کر بیوٹی پارلر سے سجی دلہن کی مانند اس کی رواں دواں اور دنیا دار انگریزی میں ایک رپورٹ بنا کر دفتر چھوڑنے سے پہلے اسلام آباد بھجوادیتے۔ رات گئے تجزیے کی بارہ مسالے کی چاٹ والا یہ اطلاعات نامہ اسلام آباد میں وزیر اعظم یا صدر کا پرنسپل سیکرٹری پڑھ رہا ہوتا۔ اس متعلقہ پرنسپل سیکرٹری یا سیکرٹری داخلہ کی نوکری کے ایام باقی ہوتے تو وہ یہ اطلاعات  باجی اداروں یعنی Sister Agencies کے ساتھ جام گھٹکا کر دیگر طاقت ور ہستیوں سے Reference to Context صلے اور ستائش کی روشنی میں میلاد کے عطر کی مانند ہاتھوں ہاتھ بانٹتا اور من کی مراد پاجاتا۔
ان رپورٹس نے جب ہیڈ کوارٹر میں دما دم مست قلندر کرنا شروع کیا تو وزیر اعظم سیکرٹریٹ کی خصوصی ہدایت پر گھانگرو صاحب کا دو سال کے لئے ملازمت میں مزید توسیع کاکنٹریکٹ جاری ہو گیا۔اس طوالت نامہ ء خدمت گزاری کے بعد انہوں نے سعدی کی رپورٹوں سے چھیڑ چھاڑ کم کردی۔
ان رپورٹوں کی دھار آئے دن خنجر آب دار ہوتی چلی جارہی تھی۔ گھانگرو صاحب بالخصوص مذہب کے لبادے میں ملبوس دہشت گرد تنظیم کے  بارے میں سعدی کی کسی بھی رپورٹ کے ساتھ   صرف اپنامعصوم سا آگے بڑھانے والا Covering Note لگاتے۔ انہیں بخوبی علم تھا کہ سرکار میں سوائے ٹوائلیٹ پیپر کے کوئی دستاویز خفیہ نہیں ہوتی۔ لہذا کم لکھو اور موج کرو۔
یہ تنظیمیں اب نظام میں بہت حد تک سرائیت کرچکی تھیں۔انتقام بھی بہت بھیانک انداز میں سرد مہر منصوبہ بندی اور عجلت سے بے نیاز ہوکر لیتی تھیں۔کراچی کے ایک پولیس افسر بہت بے رحم بھی تھے اور دشنام طراز بھی۔جھوٹی سچی کاروائیوں اور ہیڈ مینی (سر کی قیمت ) کے برتے پر مال بھی بے تحاشا بناتے تھے۔بیگمات کا بھی ایک طویل سلسلہ تھا اور حرم بھی بہت آباد تھا۔ایک دوپہر مقامی طالبان کے کسی گروپ کے ایک رہنما کو جب تک مار پڑتی رہی معاملہ ٹھنڈا رہا۔گالیوں کا سلسلہ دراز ہوا تو اس نے کہا ایسا نہ ہو جو زبانی کہہ رہے ہووہ تمہاری گھر کی عورتوں کے ساتھ عملاً کرکے تمہیں ویڈیو دکھادی جائے تو تم سے برداشت  نہ ہوسکے۔ شام میں  بیگم ،بہن اورسالی کسی پارلر سے تیار ہوئے مہندی میں جانا تھا۔مہندی میں نہ صرف ایک ویٹر نے انہیں پرچی دی کہ  اگلی دفعہ بغیر بارات کے رخصتی ہوجائے گی لہذا اپنے بیوڑے کو سمجھالیں۔ابھی پرچی کا اثر کم نہ ہوا تھا کہ تینوں کے فون پر یہی ایک پیغام موصول ہوا۔ راتوں رات اس کو چھوڑ دیا گیا۔
گھناگرو آن کنڑیکٹ  نے سعدی کو سمجھایا بھی کہ’’بابا جانی، میرے مٹھڑے، میرے پنھل، اپنی رپورٹوں میں ذرا ہاتھ ہولا رکھ۔ ہم کو کیا معلوم اسلام آباد میں ہماری رپورٹ کس کس کے پاس جاتی ہے۔ سعدی نے ساری عمر سچ سے سمجھوتا نہیں کیا تھا۔ وہ کب مڑنے والا تھا۔سو پلے بوائے گھانگرو کی یہ چیتاونی بھی صدا بہ صحرا ثابت ہوئی۔

سعدی کا ذکر کرنے سے پہلے اور اس حسین رات کا ذکر کیوں نہ کرلیں ، جس کی صبح کا ذکر میں نے اپنی موجودہ بیوی بینش مزمل واحدی المعروف بہ بی ۔ایم ۔ڈبلیو المعروف بہ پیوما کے حوالے سے آغاز میں کیا ہے، وہ درحقیقت میری بیوی نہیں۔وہ میری رہائشی گرل فرینڈ ہے۔یہ اصطلاح بھی کم بخت سعدی کی ہے ۔۔اسے ا س طرح کی حرکتوں میں بہت مزا آتا تھا ۔وہ کال گرلز کو فاحشہء تیلیفونی، پنجابی زبان میں نکّے  بھانڈے کو سمال کراکری ،خاندانی دولت مندوں کو Rich from Behind داشتا وءں کو Resident Rundi اور انگریزی اصطلاح puppy-love ۔ کو پنجابی میں کتے لاڈیاں دا پیار کہتا تھا۔اسی حوالے سے پیوما میری Live – in -Girlfriendہے ۔پاکستان میں یہ تعارف چونکہ غیر محفوظ اور بلاوجہ اعتراضات کو دعوت دینے والا ہے۔لہذا یہاں قیام کے دوران ہم دونوں ایک دوسرے کو رشتہء ازدواج میں منسلک ظاہر کرتے ہیں ۔ سعدی کہتا تھا کہ ہماری سوسائٹی ایسی ہے کہ یہاں رنڈیاں بھی، بدنامی سے ڈرتی ہیں۔یوں ہمارے اس محتاط اہتمام سے بہت سے کھلے نکتہ چین دہن،بے تاب متجسس آنکھیں پتھرا کے رہ جاتی ہیں۔

ہم دونوں جب امریکہ میں ہوتے ہیں تو یہ تعلق صوفہ کم بیڈ کی مانند کھل بھی جاتا ہے اور سمٹ بھی جاتا ہے ۔ بحیرہ اوقیانوس کے پار اس open- relationshipُ کے بارے میں ہمارا خاموش معاہدہ یہ ہے کہ  مجھے ان کے چاہنے والوں پر اور میرے دلبران راہ گزر پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔امریکی آئین میں مسرت کے تعاقب  (Pursuit of Happiness) پر کوئی پابندی نہیں۔ ہم نے ایک باہمی پابندی ضرور عائد کررکھی ہے کہ ہماری مشترکہ رہائش گاہوں پر بھلے سے وہ عارضی ہی کیوں نہ ہوں کوئی تیسرا فرد مہمان نہیں ہوگا۔
جس طرح قدیم زمانے میں فاتح بادشاہ کو مفتوحین کے حرم مل جاتے تھے اس طرح مجھے پیوما سعدی کی وفات حسرت آیات کے بعد ملی ہے۔ سچ پوچھیں تو پیوما کو سعدی سے ملوانے کا جرم بھی میرا ہے۔سعدی کی پیوما سے اکثر ملاقاتیں میرے ہی اس فلیٹ پر ہوا کرتی تھیں۔ یہ تذکرہ بعد میں۔
کل سعدی کی دوسری برسی تھی۔مجھے لگا کہ پیوما کچھ زیادہ ہی اداس ہے۔ میرے جیسے بے ربط (Random)مرد کا ، اداس عورت کو بہلانا چھلنی میں برف جمانے کے مترادف ہوتا ہے۔ سو میں نے غینمت جانا کہ اسے تجویز دوں کہ وہ کچھ دیر کو اپنی بڑی بہن کی طرف اور وہاں سے اپنی سوتیلی امی کی طرف چلی جائے ۔انہیں وہ خالا می یعنی خالہ امی کہتی ہے۔وہ اس کی سب سے چھوٹی خالہ بھی ہیں(اس کی اپنی والدہ نے طلاق لے کر کسی بھارتی نژاد امریکی ہندو کلیان جی مہتہ سے شادی کرلی اور وہ اب ان کے ساتھ لاس اینجلس میں رہتی ہیں)۔اسی شہر کی ایک نواحی بستی میں پیوما سے میری رفاقت ایک معنی خیز مرحلے میں داخل ہوئی اور وہ میری رہائشی گرل فرینڈ بنی۔ اس کی امی یہاں اس کے بھائی اوربھابھی کے ساتھ رہتی ہیں۔
میں آپ کو بتاتا چلوں کہ پیوما یہاں, اپنی سوتیلی امی، جنہیں وہ خالامی کہتی ہے ان کے زیادہ قریب ہے۔ کچھ ایسا ہی معاملہ اس کا وہاں امریکہ میں بھی ہے۔وہ اپنی اصل والدہ روحانہ حسن کی نسبت اپنے سوتیلے ابو، کلیان جی مہتہ سے زیادہ قریب ہے ۔
اس کا سگا بھائی جو کسی بین الاقوامی این جی او میں ملازم ہے، وہ آج کل کسی باہر کی پوسٹنگ پر گیا ہوا ہے ،اسی لیے پیوما کی بھابھی اپنے دو عدد بچوں کے ساتھ اوپر والی منزل میں رہتی ہیں ۔خالہ امی کی اپنی کوئی اولاد نہیں۔
ایک دن سعدی کہہ رہا تھا کہ اس نے محسوس کیا ہے کہ پیوما کی شخصیت ثانوی رشتوں میں بہتر طور پر پنپتی ہے ۔بنیادی اور قریب کے رشتوں میں اس کا دم گھٹتا ہے۔ایسا اس لیے ہے کہ اسے اپنے مرکز سے ذرا دور ہٹ کر جینے کی عادت ہے۔بنیادی رشتے اُس میں ایک احساس بے چارگی پیدا کرتے ہیں۔پیوما دل کے ہاتھوں مجبور ہو تو خود کو بہت بے دست پا محسوس کرتی ہے۔اس کی سانس سی رکنے لگتی ہے ۔ مرکزی رشتوں کا بنیادی تقاضا دل کے فیصلے ہوتے ہیں۔اس کا ناز اور اعتماد اپنے دماغ پر زیادہ رہتا ہے یوں وہ ثانوی رشتوں کو بہتر نبھا پاتی ہے۔
اُس میں ایک اور عادت بھی ہے۔ وہ ایک رشتے کی موجودگی میں دوسرا رشتہ بہت خاموشی سے اپنا لیتی ہے۔ سعدی اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا گیلانی کی موجودگی میں اس نے مجھے گلے لگا لیا۔ آیت اللہ آپ دیکھو گے میری موجودگی میں وہ کسی اور اپنا لے گی۔رشتے پر پہلی پھوپھوندی ( Fungus )دکھائی دیتے ہی وہ اس سے جان چھڑالیتی ہے۔تعلقات میں وہ بائی پاس سرجری کی ماہر ہے۔ سعدی کی موت کے بعد اب ایسے مشاہدے بیان کرنے والا کوئی نہیں۔
پیوماکو میں اس کی امی کی  طرف اتار کر اپنے صحراؤں کی  مانند  پیاسے حلقوم والے دوستوں رفیع اور جواد کی طرف چلا گیا ۔دھیمی پھوار اور پھر سندھی دوست کے ہاں میزبانی ۔۔کیا کیا رہے ہیں حرف و حکایت کے سلسلے۔خیال تھا کہ رات دیر تک پئیں گے ۔ خاندانی وڈیرہ ، دسترخوان کا وسیع اور دلدار طبع جواد ایک پائلٹ ہے۔ اس کے ہاں بھی نسوانی دوستوں کی بڑی آوک جاوک لگی رہتی ہے۔اس شام بھی ایسا تھا۔ ایک فضائی میزبان اور دو سیل فون کمپنی کی ملازم خواتین بھی وہاں مہمان تھیں ۔یہ تینوں شراب کی بوتل سے کہے چلی جاتی تھیں کہ میں پیاس کا صحرا ہوں میری پیاس بجھادے ۔ جام پہ جام لنڈھائے جاتی تھیں اورعالم بے خودی میں سرکاری اور نجی راز کھولے چلے جاتی تھیں۔لگتا تھا ایک عالم رسائی انہیں دستیاب ہے۔ جواد نے ان میں سے ایک بارے میں بتایا کہ وہ اقتدار کے کن مساکن سے وابستہ خواب گاہوں کے multiple -entry visas ہر وقت اس کے پاس ہوتے ہیں۔ سعدی اس طرح کی سماجی تتلیوں کو بیڈ روم بطوطہ کہا کرتا تھا۔محفل شراب سے مخمور اور دل چسپ تھی مگر نو بجے پیوما کا اچانک فون آگیا کہ ’’ آتے ہو؟‘‘۔
آپ اگر موسموں کی ادا جانتے ہوں تو یہ آپ کے علم میں ہوگا کہ ہمارے پاک و ہند کے علاقوں میں برسات سے پہلے ماحول میں ایک امُس(گھٹی ہوئی گرمی) ہوتی ہے۔ جب یہ حبس ذرا گیلا ہٹ اچک لیتا ہے تو پھر پُروائی ( برسات سے پہلے چلنے والی خنک ہوا )پھبک پھبک کر چلنے لگتی ہے۔ذرا سی دیر میں تڑاتڑ بوندیں برسنے لگتی ہیں۔ پیوما کے ا س’’ آتے ہو ‘‘میں ایک امُس،ایک دعوت تھی۔مجھے یہ اندازہ اس کے لہجے میں لگاوٹ اور احتیاط کے ساتھ ایک سپردگی والا تھرو (throw)بھی محسوس ہوا ۔یہ دعوت اپنی سادگی کے باوجود وعدہ وصل کی پھبک اور سپردگی کی فرحت بخش بوندوں سے جل تھل تھی۔
اس نے پوچھا کہ اگر میں جلد آرہا ہوں تو وہ کسی رشتہ دار کے ساتھ میرے فلیٹ پر ڈراپ لے لی گی۔میں نے بھی موقع  غنیمت جانا اور فرمائش کردی کہ ایک شرط پر کہ وہ چولی بلاؤز والی نیلی شفون کی ساڑھی پہنے گی اور میں لابی میں پہنچ کر مس کال دوں گا ۔ دروازے کی گھنٹی نہیں بجاؤں گا۔وہ میرا دروازے سے لگ کر انتظار کرے گی۔تب تک نہ تو Fifty Shades of Grey والی تین کتب شائع ہوئی تھیں نہ ہی اس پر اداکارہ ڈکوٹا جانسن والی فلم بنی تھی۔

نیلی ساڑھی
ففٹی شیڈ آف گرے، فلم

بہت بعد میں نے جب یہ فلم دیکھی تو سعدی اور پیوما کو بہت اشکبار ہو ہو کر یاد کیا تھا۔ میں نے یہ راز بہت جلد جان لیا تھا کہ اگر کوئی خاتون آپ کا پسندیدہ لباس پہن کر آپ سے ملنے کی منتظر ہو تو بات دور تک جاتی ہے۔ میاں دے نعرے وج جاتے ہیں پنجابی میں کڑاکے کڈ جاتے ہیں۔ آپ کے پہناوئے اور بناؤ سنگھار کی فرمائشوں کی تفصیلات پر جس قدر خوش دلی سے عمل ہوگا،سپردگی کے اہتمام کا پھیلاؤ بھی ایسا ہی وسیع اور مکمل ہوگا۔
چولی بلاؤز والی نیلی شفون کی ساڑھی کی فرمائش اس لیے کی تھی کہ سعدی کی برسی بھی تھی ۔میں اور سعدی جب پہلی بار گیلانی کی ضد اور دعوت پر اس کے گھر گئے تھے تواس کی بیوی ،پیوما نے یہ ہی ساڑھی پہنی تھی۔ عالم سرور میں جب میں اپنے فلیٹ پر پہنچا تو دروازے کا پٹ معمولی سا کھلا تھا۔ پیوما دروازے کے پیچھے اک ادائے سپردگی سے اسی بلیو ساڑھی میں سرجھکائے کھڑی تھی ، گلے میں منگل سوتر (کالے موتیوں کی وہ مالا جو جنوبی ہند میں سہاگنیں گلے میں پہنتی ہیں )کے ساتھ سونے کی ڈھولکی جس میں چھوٹے چھوٹے روبی کے پتھر لٹک رہے تھے اورماتھے پر مانگ ٹیکا اور دونوں پیروں میں پتلی دوپٹی کی چپلوں پر چاندی کی نرم و نازک ایک گھنٹی والی لاپرواہ سی پائل۔میرے ہی میوزک سسٹم جو میرے ڈیسک ٹاپ سے جڑا تھا اس پر بہت مدھم سروں میں عابدہ پروین کا رقص بسمل البم والا حضرت ذہین شاہ تاجی ؒ کا جی چاہے تو شیشہ بن جا ، جی چاہے پیمانہ بن جا بج رہا تھا۔خود سپردگی کا یہ اہتمام مجھے بہت ڈرامائی اور دل فریب لگا ۔

 

منگل سوترا
منگل سوتر

پائلیں چھن من چھن من
رقص بسمل

ایک سال کی رفاقت میں اور اس سے پہلے سعدی کی زبانی مجھے علم تھا کہ پیوما کی شخصیت میں خود سری،خود پسندی،غیر جانبداری،بے حسی اور بے رحمی کے ساتھ ذہانت، دلیری، لبھاؤ اور خوش گفتاری کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔پاکستان میں نسوانی حسن کا جو محدود کتابی تصور محض چہرے کے خد و خال تک عام ہے۔ اس معیار حسن پر پیوما پوری نہیں اترتی تھی۔اس کی آواز بھی عام پاکستانی عورتوں کے برعکس بھاری اور  تربوزکی طرح رسیلی یعنی Raspy تھی۔پیوما کو اپنے جملوں کو ادھورا چھوڑ کر اپنے بیانیے کو کھل کھلاتی ہنسی کے کنوئیں میں ڈبونا بھی خوب آتا تھا اور اس پر انگریزی، اردو اور پنجابی تو ایسی کہ لگتا تھا کہ بی بی سی والوں نے خبریں پڑھنے کے لیے سکھائی ہے۔
وہ اپنی نسوانیت کا اظہار موقع محل کی مناسبت سے کرتی تھی۔اس طرح کے مواقع پر وہ لباس اور اداؤں کا ایک نیا حرم آباد کرتی تھی اور پیوما کے بجائے چھوٹا سا پوڈل یا لیپ ڈاگ بن جاتی تھی۔ورنہ اس کا سارا وجود ایک خنجر آب دار کی طرح تھا۔یوگا اور پلیٹس کی ورزشوں کا پالا بدن، بہت بھرپور ،لچک دار، سجیلا ۔

یوگا
پلیٹس
پلیٹس
لیڈی گا گا اور ان کا پوڈل

آغوشِ سگاں

دیگر خواتین کے مقابلے میں وہ اپنی وضع قطع اور جسمانی ساخت سے دراز قد مگر بہت Curvy دکھائی دیتی تھی ۔آپ کو اگر اشعار یاد رہتے ہوں تو جاوید اختر کی نظم آفریں،آفریں
بھی یاد ہو گی جس میں کہا گیا ہے کہ۔۔۔

جسم جیسے مچلتی ہوئی راگنی،

جسم جیسے کہ کھلتا ہوا ایک چمن،

جسم جیسے کہ سورج کی پہلی کرن ،

جسم ترشا ہوا ،دلکش و دل نشین،

صندلیں صندلیں ،مرمریں مرمریں!!
خوش لباس بھی بہت تھی ،جو پہن لیتی ۔اس کی جامہ زیبی کی روشنی میں Fashion Statement لگتا تھا۔ سرو قد ہونے کے ناطے ساڑھی توایسی چنتی تھی کہ لگتا کہ ظالم نے ایلفی سے چپکائی ہے۔سعدی کہتا تھا کہ یہ مرے گی تو اسے کفن کی بجائے ریتو کمار (بھارت کی  مشہور ساڑھی ڈیزائنر )کی ساڑھی میں لپیٹ کر دفن کریں گے۔ مدفون مرُدوں کا وقت اچھا کٹے گا۔

ریتو کمار
ریتو کمار کی ساڑھی

پیوما سے برسوں کی رفاقت میں بھی آپ آشنائی یا اختیار کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔یہ میرا نہیں سعدی کا کہنا تھا۔مجھے سعدی نے جب اس کے مزاج کے حوالے سے یہ انکشاف کیا ، تو مجھے حیرت ہوئی ۔ہمارا خیال تھا کہ سعدی اسے اپنی چھوٹی انگلی کے گرد لپیٹے پھرتا ہے اور کھیلتا رہتا ہے۔ابھی ہفتہ بھر پہلے ہی کرنی کچھ یوں ہوئی کہ میری دوست نے دعویٰ  کیا تھا کہ سعدی اور پیوما کے تعلقات میری سمجھ میں نہیں آتے ۔تقابل کرتے وقت میری دوست سیمی نے ، گیلانی ور سعدی کی شخصیات میں گیلانی یعنی پیوما کے میاں کو کچھ زیادہ ہی نمبر دے دیے،سعدی کے حصے میں صرف علمیت اور شیریں گفتاری کے خانے میں نمبر زیادہ تھے۔مردانہ وجاہت میں دونوں ہی مذکور نہ تھے۔اس معاملے میں الحمد للہ آپ کا خادم ،یہ خاکسار اور ثمر جعفری ان دونوں سے نوری سال آگے تھے۔
سیمی کے اس سوال کا  جواب کہ پیوما سعدی پر ہاتھ پاؤں چھوڑ کر عاشق ہے کہ نہیں، جلد ہی مل گیا۔اتفاقاً کہیں سے اس دوران پیوما اور سعدی آگئے۔پیوما کسی مہندی پر گئی تھی۔ میرے بیڈ روم میں کرسیاں دو تھیں خاکسارپلنگ کی پائینتی پر تو سیمی ایک کرسی پر بیٹھی تھی۔سعدی نے بہت کہا وہ ساتھ والے کمرے سے کوئی اسٹول وغیرہ لے آئے گا مگر پیوما نے اسے دھکا دے کر خالی کرسی پر بٹھا دیا اور خود اس کے پیروں میں پالتی مارکر بیٹھ گئی ۔چونکہ کمرے میں داخل ہوتے وقت یہ دونوں ننگے پاؤں تھے لہذا پیوما نے ایک اور غضب یہ کیا کہ سعدی کے پیر کھینچ کر اپنی گود میں رکھ لیے اور خودٹانگوں کے درمیان اس کے گھٹنے پر سر رکھ لیٹ سی گئی ۔
اُس رات ’’ آتے ہو‘‘ کے  حوالے سے میرے اور پیوما کے درمیان جو کچھ ہوا اسے عبید اللہ علیم کا یہ شعر شاید بہتر بیان کرپائے کہ ع
سائے پہ پڑ رہا تھا ،سایہ
خود اپنی ہی تعبیر پر دنگ تھا میں
ٍ وصال بے پایاں کے ان لمحات میں مجھے ایسا لگا کہ سعدی کا بنایا ہوا نقشہ اپنے وجود کی  گہرائیوں سے نکال کر وہ مجھے اپنے بدن کے Guided tour  پر لیے لیے پھر رہی ہے۔
مجھے بھی لگا کہ قرطبہ و غرناطہ کا میں ایک ایسا سیاح ہوں جو پہلی   دفعہ ہی تاج محل کو دیکھ رہا ہو۔سارے وجود میں اٹھتے ہوئے خورشید کی سی عریانی تھی۔جھرنے کی سی تراوٹ اور اس کی وحشت وصل میں moans میں کرسٹل کے جام میں تنگ گردن کے decanter جسے فارسی میں مینا کہتے ہیں اس سے انڈیلی جانے والی شراب کی مستی بھری خوشبو لٹاتی قلقل تھی۔اس سے قطع نظر کہ اس کے ان انکشافات کا مجھ بے کس و لاچار پرکیا اثر ہوگا ،وہ بتاتی رہی کہ لطف و سپردگی کے ان لمحات میں سعدی اسے کیسے برتتا تھا۔

ڈی کینٹر یا صراحی

سعدی بھلے سے مجھے عزیز از جان تھا ۔ان لمحات میں مگر ان حوالوں نے حسد کی عجب آگ بھڑکائی ۔ممکن تھا کہ کسی اور موقع پر یہ شیطانی مشاغل مجھے اس پریم چتا میں حسد سے بھسم کرڈالتے مگر میں نے یہ سوچ کر  کہ اگلی باری ،صرف بخاری کے نعرے وجن گے ،میں نے بھی خود کو اس کے بدن سے اٹھتی ہوئی موجِ طوفان کے حوالے کردیا۔ سعدی کو استاد ملاّ عبدالصمد مان کر خود کو یہ سمجھا کربہلاتا رہا کہ استاد عبدالصمد کو کون جانتا ہے سب ہونہار شاگرد غالب کو داد دیتے ہیں۔
جب مجھ پر تھکاوٹ غالب آئی تو وہ شاور لینے چلی گئی ۔ بعد از وصال غنودگی کا وہ سکون آمیز دور جو مجھ پر اس کی غیر موجودگی میں طاری ہوا تھا وہ اس کے بستر میں ایک مختصر سی نائیٹی میں واپس آن کر سینے پر سر رکھنے کی وجہ سے بھک سے اڑ گیا۔میں جب خود بھی شاور لے کر آیا تو وہ Antinori Toscana کی ریڈ وائن کے دو گلاس اور چرس کا ایک سگریٹ سلگائے کچھ نیم خوابیدگی کے عالم میں کسی گہری سوچ میں گم تھی۔

Antinori Toscana

جب پیوما میرے سینے پر سر رکھ کر لیٹی تو میں اس کی کمر کے کٹاؤ میں اپنے تئیں استاد ولایت خان بن کر ستار پر راگ شنکارا بجاتا رہا۔ کوئی وقت تھا کہ جب شراب اور سگریٹ دونوں ہی ہمیں سلگا چکے تھے، آہوں اور وحشتوں کے اس عالم وصال میں جب وہ سرپٹختی نڈھال ہوکر بستر پر گری تو اپنی نیم وا آنکھوں اور کپکپاتے ہونٹوں سے میری تعریف کرتے ہوئے کہنے لگی کہ’’ تم بھی نا وسیم اکرم کی طرح آخری اوورز کے بالرز ہو۔Tail -enders کو آوٹ کرکے اپنی  وکٹوں میں اضافہ کرکے اتراتے ہو۔چلو ایک اور گلاس اور سگریٹ لگاتے ہیں۔ مرحوم سعدی کی یاد میں ایک بینفیٹ میچ اور ‘‘۔میں نے شرارتاً کہا ’ ’ لیمٹڈ اوورز کا میچ تھا، ختم ہوگیا ‘‘ تو وہ کہاں کی چوکنے والی تھی کہنے لگی’’ دوسری ٹیم کی باری نہیں آئے گی کیا؟ ایسی ہی باتوں کا جنہیں انگریزی میں Banter کہتے ہیں کرتے کرتے اچانک اس نے دو باتیں ایسی کیں جن میں سے ایک نے مجھے بے لطف تو دوسری نے میرے اوسان خطا کردیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

  • julia rana solicitors
  • julia rana solicitors london
  • merkit.pk

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply