دیوار توڑدیجئے۔۔۔۔گل نوخیز اختر

شاہ صاحب نے کپڑے کا کاروبار شروع کیاتوگھر پر سب دوستوں کو بلایا ‘ میں نے مبارکباد دی اور پوچھا کہ ’’شاہ جی!آپ کی فیملی تو ہمیشہ سے فرنیچر کے کاروبار سے وابستہ رہی ہے‘ یہ آپ کپڑے کے کاروبار کی طرف کیسے آنکلے؟‘‘ شاہ جی مسکرائے اور بولے’’یہی تو میری بدنصیبی ہے کہ مجھے پہلے علم ہی نہیں ہوسکا کہ کپڑے کا کاروبار کتنا کمال کا کاروبار ہے‘ والد صاحب نے بہت زور لگایا کہ فرنیچر کا کاروبار کرو لیکن میں نے انکار کردیا‘ آج الحمد للہ دو ہفتے ہوگئے ہیں کپڑے کی دوکان کھولے ‘ اور دھڑا دھڑگاہک آرہے ہیں۔‘‘ تین ماہ بعد شاہ صاحب سے دوبارہ ملاقات ہوئی تو میں نے پوچھا’’شاہ جی دوکان کیسی چل رہی ہے؟‘‘ چہک کر بولے’’آپ کی دعا سے روز کی سو درجن مرغیاں سیل ہورہی ہیں۔‘‘ میں بوکھلا گیا’’ مرغیاں؟؟؟ لیکن شاہ جی کپڑے کی دوکان پر مرغیوں کا کیا کام؟؟؟‘‘ شاہ جی چونک کر بولے ’’کون سی کپڑوں کی دوکان؟۔۔۔اچھا وہ۔۔۔یار وہ تو بڑا ماٹھا کام نکلا‘ ایک دوست نے بتایا تھا کہ مرغیوں کا کام شروع کرو ‘ یقین کرو اتنا پرافٹ ہورہا ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھلتا‘بوتل منگواؤں؟‘‘ میں نے شکریہ اداکیا اور واپس آگیا۔کافی دنوں بعد اتفاقاً شاہ صاحب مجھے ماڈل ٹاؤن پارک میں جوگنگ کرتے ہوئے مل گئے‘بہت خوش نظر آرہے تھے۔میں نے پوچھا’’شاہ جی!کام کیسا جارہا ہے؟‘‘ آنکھ مار کر بولے’’پانچوں گھی میں ہیں‘ اب تو بچوں کا سائز بھی رکھ لیا ہے‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا’’یعنی چوزے بھی رکھ لیے ہیں؟‘‘چونک کر بولے ’’چوزے۔۔۔کون سے چوزے۔۔۔اوہ اچھا اچھا۔۔۔وہ۔۔۔مرغیوں والا کام۔۔۔نہ بھائی نہ‘ انتہائی فضول کام تھا‘ بس ایسے ہی دوست کی باتوں میں آگیا‘ اصل کام تو جوتیوں کا ہے‘ لبرٹی میں دوکان کھولی ہے‘ زنانہ مردانہ اور بچگانہ جوتے رکھے ہیں‘ ہر وقت رش پڑا رہتاہے۔‘‘ مجھے یقین تھا کہ اگلی بار جب شاہ جی سے ملاقات ہوگی تو وہ یقیناًنیا کام شروع کر چکے ہوں گے لیکن اس کی نوبت ہی نہ آسکی‘ اگلی دفعہ وہ ملے تو ایک کمپنی میں سیلز مین کی نوکری کر رہے تھے‘ پتا چلا کہ چھ مختلف کاروبار شروع کر کے 25 لاکھ کا بیڑا غرق کرچکے ہیں اور اب گھر تک بک گیا ہے لہذا مجبوراً بارہ ہزار کی نوکری کر رہے ہیں۔
آپ کو بھی ایسے بہت سے لوگ ملتے ہوں گے جن کا آفس اور بزنس کچھ عرصے بعد تبدیل ہوجاتا ہے۔کیا وجہ ہے کہ بھرپو ر محنت پیسے اور ایمانداری سے شروع کیے گئے کاروبار بھی نہیں چل رہے؟ ؟؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم ہر وہ کاروبار کرنا چاہتے ہیں جس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اور جس کے بارے میں جانتے ہیں وہ کام ہمیں پسند ہی نہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ مارکیٹ میں ایک بندے نے جوس کی دوکان کھولی اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اتنا چل نکلی کہ اب اُس نے چار دوکانیں اور خرید لی ہیں‘ ہم فوراً فیصلہ کرلیتے ہیں کہ ہم بھی جوس کی دوکان کھولیں گے اور اُسی کے برابر میں کھولیں گے‘ لیکن پتا نہیں کیوں‘ اُس کی دوکان چلتی ہے‘ ہماری نہیں چلتی۔اسی طرح ہمیں کوئی رشتہ دار یا دوست آکے مشورہ دیتا ہے کہ آج کل یوپی ایس کا بزنس بہت چل رہا ہے‘ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ اگر اُس کے پاس پیسہ ہوتا تو وہ یہ بزنس ضرور شروع کرتا‘ ہمارے ہاتھوں میں خارش شروع ہوجاتی ہے اور ہم کہتے ہیں کہ یار اگر پیسہ میں لگاؤں تو کیا تم ٹائم دو گے؟ وہ فوراً حامی بھر لیتا ہے‘ ہم اُس کے بھروسے پہ دوکان میں سامان ڈالتے ہیں‘شروع شروع میں ایک دوسرے پر جا ن چھڑکی جاتی ہے اور جونہی کاروبار چلنے لگتا ہے ‘ رنجشیں بیدار ہونا شروع ہوجاتی ہے اور چند مہینوں میں دونوں علیحدہ علیحدہ ہوجاتے ہیں‘ دوست کسی اور کے ساتھ کام شروع کر دیتا ہے اور ہم ہونقوں کی طرح منہ اٹھائے بیٹھے رہ جاتے ہیں کہ نہ یوپی ایس کے کام کوجانتے ہیں نہ اِس شعبے سے متعلقہ لوگوں کو۔ہم آفس پہلے کھول لیتے ہیں اور یہ بعد میں سوچتے ہیں کہ اِس میں کام کیا کرنا ہے؟ ہماری ساری توجہ آفس کی ڈیکوریشن پر لگی رہتی ہے حالانکہ دنیا بھر میں آفس کا تصور ختم ہوتا جارہا ہے‘ لوگ آپ کا کام دیکھتے ہیں ‘ آفس نہیں۔ہم کاروبار شروع تو کر لیتے ہیں ‘ اور کام نہ جاننے کے باوجود کچھ عرصہ تک اُسے چلا بھی لیتے ہیں لیکن جیسے ہی ہمیں کام کی کچھ سمجھ آنا شروع ہوتی ہے‘ ہمارا صبر کا پیمانہ لبریز ہوجاتاہے اور ہم وہ کاروبار ختم کر دیتے ہیں۔ہمارے ہاں ایک عجیب و غریب بات مشہور ہے کہ پاکستان میں اور کوئی کام چلے نہ چلے‘ کھانے کا کام ضرور چل جاتاہے‘ یہ بالکل غلط ہے‘ کیا آپ نے اپنی گلی‘ محلے‘ شہر میں کئی ریسٹورنٹ کھلتے اور پھر بند ہوتے نہیں دیکھے؟ اِن کا کام کیوں نہیں چلا؟ وجہ صرف یہ ہے کہ ہم کاروبار کے انتخاب پر سوچ و بچار ہی نہیں کرتے‘ بہت سے لوگ اپنا خاندانی کام نہیں کرنا چاہتے حالانکہ اُس میں ان کے پاس نہ صرف مہارت بھی ہوتی ہے اور تجربہ بھی ۔کاروبار نہ چلنے کی ایک وجہ ہمارا ضرورت سے زیادہ خود پر اعتماد بھی ہے‘ بعض اوقات یہ اعتماد ضد کی شکل اختیار کرلیتا ہے‘ ہمیں صاف نظر آرہا ہوتا ہے کہ ہمارا کاروبار اب مزید نہیں چل سکتا‘ اِسے بند کردینا چاہیے لیکن ہم دنیا کے طعنوں کے خوف سے اسے مسلسل چلانے پر بضد رہتے ہیں‘ اپنا نقصان کرتے رہتے ہیں اور ہوش تب آتاہے جب سب کچھ لٹ چکا ہوتاہے۔ناتجربہ کاری اور عدم برداشت دونوں کسی بھی کاروبار کو تباہ کردیتی ہیں۔میرے گھر کے قریب والی مارکیٹ میں میرے ایک محلے دار نے پیزاشاپ کھولی ‘ دن رات اُس کی دوکان پر رش لگا رہتاتھا‘ پتا چلا کہ یہ سب رشتے دار اور دوست عزیز ہیں جو مفت میں پیز ا کھانے کھینچے چلے آتے ہیں۔ موصوف بھی دل کے سخی تھے لہذا اپنی ٹور بنانے کے لیے دھڑا دھڑ مفت پیزے کھلاتے رہے ۔۔۔چھ ماہ بعد شاپ بند ہوگئی ‘ آج کل ایک پیزاشاپ پر ڈلیوری بوائے کی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔کاروبار کرنے کے کچھ اصول اور طریقے ہوتے ہیں‘ کسی بھی کاروبار کو شروع کرنے سے پہلے اُن لوگوں کو ضرور دیکھئے جو کامیابی سے کاروبار چلا رہے ہیں‘ اِن میں سے آپ کو اکثر ایسے لوگ ملیں گے جو برسوں سے ایک ہی کاروبار کرتے چلے آرہے ہیں‘ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ اُن کے Contacts بھی بن گئے‘ جان پہچان بھی ہوگئی اور کاروبار کے اسرارو رموز سے بھی آگاہی حاصل ہوگئی۔ہونا بھی یہی چاہیے ‘ جو کاروبار آپ شروع کر رہے ہیں اُس کے متعلق آپ کو سب کچھ خود پتا ہونا چاہیے‘ مثلاً اگر آپ دہی بھلے کی دوکان کھولنا چاہتے ہیں تو آپ کو شروع سے آخر تک دہی بھلے خود بنانے آنے چاہئیں ورنہ آپ ملازمین کے رحم وکرم پر رہ جائیں گے اور آخری وقت تک پتا نہیں چلے گا کہ کاروبار میں نقصان کیوں ہورہا ہے؟ یاد رکھئے ! ہر وہ کام جو ہمیں پوری طرح آتا ہے وہی ہمارا بہترین کاروبار ہوسکتا ہے‘ تاہم اس میں جگہ کا انتخاب بھی بنیادی اہمیت رکھتاہے‘ قبرستان میں پی سی او کھول لیں گے یا چوتھی منزل پر پٹرول پمپ بنا لیں گے تو گاہک نے خاک آنا ہے!!! آپ نے ایسے لوگ بھی دیکھے ہوں گے جو پہلی دفعہ کوئی کاروبار شروع کرتے ہیں‘ اُس میں اُ ن کا کوئی خاص تجربہ بھی نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ان کا کاروبار دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتاہے۔۔۔جی ہاں! ایسا بھی ہوتاہے لیکن بالکل ایسے ہی جیسے لاکھوں لوگوں میں سے کسی ایک کا پرائز بانڈ نکل آتاہے‘ لہذا قسمت کا دروازہ کھلنے کا انتظار نہ کیجئے۔۔۔دیوار توڑئیے اور راستہ بنا لیجئے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply