ٹی وی چینلز میں لڑکیوں کا جنسی استحصال ۔۔۔۔۔زاری جلیل

جب پاکستان ٹیلی وژن اینکر پرسن تنزیلہ مظہر نے اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے خلاف ایک کیس دائر کروایا، اس معاملے کو جانچنے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی بٹھائی گئی۔ لیکن مناسب طور پر اس معاملے کی چھان بین کرنے اور ملزم سے تفتیش کرنے کی بجائے کمیٹی نے تنزیلہ سے پوچھا کہ ”کہ اگر انہیں ہراساں کیا گیا تو انہوں نے ملازمت کیوں نہیں چھوڑی”۔

تنزیلہ واحد فرد نہیں ہے جس نے پی ٹی وی مینیجمنٹ کے خلاف رسمی شکایت کی ہو۔ ایک دوسری نیوز اینکر یشفین جمال نے بھی کرنٹ افیئر ڈائریکٹر کے خلاف ان پر اور دوسری دو خواتین پر جنسی حملے کرنے کی شکایت کی تھی۔

تنزیلہ کہتی ہیں۔ ”اصل میں پہلے بھی ایک مرتبہ ان کے علاوہ کسی نے ان کے خلاف شکایت کی تھی لیکن اس سے کچھ فائدہ نہ ہوا سوائے اس کے کہ انہیں اور ہمت مل گئی۔ جب یہ ہمارے پاس آئے، انہوں نے غالبا سوچا کہ وہ کسی طرح بچ نکلیں گے اور وہ بچ نکلے،” انہوں نے شکایت کی کہ انہوں نے اکثر اپنے ماتحتوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا اور زبردستی اپنے دفتر میں بٹھائے رکھا، جو کہ ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھنے کی واحد جگہ ہے، اور انہیں غیر ضروری طور پر گھنٹوں اپنے ساتھ وقت گزاری کے لیے بٹھائے رکھا۔ وہ وضاحت کرتی ہیں۔ ”وہ صرف ان لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ان کے ساتھ ایسی حرکات کرتے ہیں اور ان کے بیہودہ مذاق کو برداشت کرتے ہیں ، جبکہ جنہوں نے اس سب سے دور رہنے کی کوشش کی یا پیشہ ورانہ فاصلہ رکھا تو ان کی تنخواہ کاٹ لی گئی،”

”میں پی ٹی وی میں تین مختلف مینیجنگ ڈائریکٹرز کے پاس گئی، اور ان سب نے مجھے یقین دلایا کہ صورتحال بہتر ہو جائے گی کچھ تبدیل نہیں ہو ا۔ وہ بہت با اثر شخصیت تھے، کسی کو انہیں چھونے تک کی جرآت نہ ہوئی اور وہ اپنے کام کے ساتھ جڑے رہے۔”

آخر کار تنزیلہ اور یشفین دونوں کو سزا ملی۔ انہیں 23 جنوری 2017 کو ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے پی ٹی وی نشریات سے ہٹا دیا گیا۔ جو وجہ بتائی گئی یہ تھی کہ انہوں نے آرگنائزیشن کو بدنام کیا ہے۔

تنزیلہ تقریبا ایک عشرے تک جنسی ہراسمنٹ جس کا وہ نشانہ بنی تھیں کے خلاف لڑنے کے لیے پی ٹی وی کے ساتھ منسلک رہیں لیکن آخر کار 2017 میں استعفی دے دیا۔ دوسری طرف ملزم پوری آب وتاب کے ساتھ ادھر ہی براجمان ہیں ۔

ملازمت کی جگہ پر 2010 کے عورتوں پر جنسی ہراسمنٹ کے تحفظ کے ایکٹ کے سیکشن 4 (4) کے تحت: ”انکوائری کمیٹی اپنے مشاہدات اور سفارشات کو ذیلی محکمے کے پاس انکوائری شروع ہونے کے 30 دن کے اندر جمع کروائے گی۔” ایک رپورٹ ابھی جاری کی جانے والی ہے، تنزیلہ کہتی ہیں، جو ابھی تک یشفین کے ساتھ اپنے اوپر غلط الزامات کے خلاف کیس لڑ رہی ہیں۔

مضحکہ خیز طور پر، یہ اس ٹیلی وژن چینل میں ہوا جو ریاستی چینل ہے ۔ اور یہ وہاں کا جنسی ہراسمنٹ کا پہلا کیس نہیں تھا۔

چند ماہ قبل ایک پرائیویٹ ٹی وی چینل میں مہوش اپنے ہی نیوز ڈائریکٹر کی طرف سے جنسی ہراست کا نشانہ بنیں۔

مہوش نے کہا۔”وہ مجھے گھورتے، مجھے بلاتے اور کسی پرائیویٹ جگہ جانے کا کہتے تا کہ میں ان سے کھل کر باتیں کر سکوں اور سب سے بد ترین چیز یہ کہ وہ مجھے مالی مدد کی پیشکشیں کرتے،” امداد وہ تھیں جن کا ملازمین مطالبہ کرتے تھے، جیسا کہ تنخواہ بڑھانا، پٹرول کے اخراجات، اور موبائل فون کے الاؤنس۔

”وہ تقریبا ساٹھ سال کے تھے، اور تقریبا میرے دادا کی عمر کے تھے،” وہ کہتی ہیں۔ میں ان کے رویے اور اپنے ارد گرد کام کرنے والے لوگوں کے رویے سے بھی بہت پریشان تھی، کہ مجھے اس سب پر پردہ ڈالنے میں بہت وقت لگا۔”

مہوش کہتی ہیں کہ ان کے خلاف کوئی انکوائری کمیٹی نہیں بٹھائی گئی۔ مہوشن نے اپنے ہی رپورٹنگ مینیجر کو شکایت کی جنہوں نے اس بات کا بہانہ کیا کہ ان کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہیں۔

”ہر کوئی، بشمول وہاں موجود عورتوں کے، مجھے یہ بتاتا رہا کہ وہ ڈائریکٹر ایک عمدہ انسان تھا، اور اگر انہوں نے مجھے اپنے پاس بیٹھ کر کوئی چیز توجہ سے سمجھانے کے لیے کہا تو کچھ برا نہیں کیا۔

”اس شخص نے اصل میں مجھے شہر میں اپنے ساتھ سیر کرنے کی دعوت دی، اور کسی نے مجھے بتایا کہ وہ اکثر عورتوں کو سیر پر لے جاتا ہے،” مہوش نے کہا۔ ”لیکن عورتیں مجھے بتاتی رہیں کہ ان کے ساتھ کہیں جانے میں کوئی برائی نہیں ہے۔”

انکوائری کمیٹی کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے، مہوش اپنی شکایت درج کروانے پاکستان فیڈرل یونین فار جرنلسٹس کے پاس گئیں لیکن ان کے رویے سے بہت مایوس ہوئیں۔ کمیٹی میں موجود واحد خاتون غیر حاضر تھیں جب کہ انہیں کیس کے بارے میں علم تھا۔ مرد حضرات غیر سنجیدہ اور سمجھوتہ کرنے والوں میں سے نہیں تھے۔ ”آج تک کوئی رپورٹ سامنے نہیں آئی،” وہ کہتی ہیں۔

مہوش کو غلط الزامات لگانے پر کمپنی کی طرف سے قانونی نوٹس موصول ہوا، لیکن اسے عدالت میں کبھی نہیں لے جایا گیا۔ ”میرے وکیل نے کہا کہ وہ ایسا عورتوں کو تنگ کرنے کے لیے کرتے ہیں،” مہوش نے کہا۔ آرگنائزیشن چھوڑنے سے پہلے مہوش کے پروگراموں کو اکثر تبدیل کر دیا جاتا تھا، یا انہیں پتا چلتا کہ سٹوڈیو کو بک کر دیا گیا ہے، یا ان کا پروگرام لائیو رپورٹنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔

جو خواتین دوسروں دفاتر میں عورتوں پر حملوں کے واقعات میڈیا پر لاتی ہیں وہی جب اپنے ادارے میں اس طرح کےو اقعات دیکھتی ہیں تو خاموش رہتی ہیں یا ملزم کی حمایت میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔

ایک رپورٹر ایس کے کہتی ہیں: آپ کو جو احساس ہوتا ہے وہ یہ کہ آپ غیر محفوظ ہیں،” ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے کچھ سٹاف ممبرز کی طرف سے فون میسج، لفظی پیغامات اور جسمانی تعلقات کی کوشش کے ذریعے جنسی ہراسمنٹ کا سامنا کیا۔ ”

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کی داد رسی کے لیے کوئی قدم بڑھانے کے لیے تیار نہیں ہوتا تا کہ انہیں تحفظ فراہم کیا جائے۔ وہ کہتی ہیں۔:”آپ بلکل اکیلے اور بے یار و مددگار ہوتے ہیں، اور آپ کے گرد ایسے لوگ ہوتے جو آپ کو مزید خراب کرنے کے درپے ہوتے ہیں،”

جب میمونہ نے ایک ٹی وی چینل میں ملازمت اختیار کی، نیوز کنٹرولر نے اسے اپنے آفس میں بلایا اور اسے بتایا کہ وہ اپنے ‘خوبصورت چہرے اور مسکراہٹ’ کی وجہ سے آسانی سے اینکر پرسن بن سکتی ہے۔ ”اس نے کہا کہ اگر میں اسے روزانہ ایک مسکراہٹ دوں گی تو وہ میری مدد کرے گا،” وہ کہتی ہیں۔ وہ مجھے مالی امداد اور دوسری امداد کی پیشکش کرتا۔ ”جب میں نے ان پیشکشوں کو ٹھکرا دیا تو فورا ہی مجھے ایک مانیٹرنگ ڈیسک کی طرف منتقل کر دیا گیا۔”

اولڈ ٹائمرز کا کہنا ہے کہ یہ پرانی کہانیاں ہیں۔

سابق رپورٹر شہناز جو اب عمر کی چھٹی دہائی میں ہیں، کا ماننا ہے کہ ” مرد حضرات اپنے شعبہ میں آنے والی نئی خواتین ملازمین کے ساتھ جو کرتے ہیں اس کا علم وہاں پر موجود سب لوگوں کو ہوتا ہے لیکن وہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔”

بعض جگہوں میں عورتوں کا نیٹ ورک ہوتا ہے جو مظلوم خواتین کی تھوڑی بہت داد رسی کرتا ہے لیکن بہت سی شکایات کے مطابق دوسری عورتوں سے ایسی صورتحال میں تعاون حاصل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ تنزیلہ کہتی ہیں۔ ” سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ عورتیں آپ کا تعاون نہیں کرتیں، جب آپ کسی واقعے کے بارے میں بات کرتے ہیں،کیوں کہ رزق کا حصول بہت مشکل ہے اور خواتین بہادری کا مظاہرہ کر کے اس سے محروم ہونا نہیں چاہتیں “۔

یہی سخت سبق تھا جو مہوش نے بھی اپنے تجربے سے سیکھا۔

نوکری سے استعفیٰ دینے کے فورا بعد مہوش کو پتہ چلا کہ ہر ایک کو دستخط کرنے کے لیے ایک پٹیشن دی گئی تھی کہ اس نے آرگنائزیشن کو بدنام کیا تھا۔ ”حیران کن طور پر مردوں کی اکثر تعداد نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کیا، جب کہ سب عورتوں نے بغیر کسی توقف کے اس پر دستخط کیے، جن میں سے کچھ ایسی تھیں جو مہوش کو بد کردار ثابت کرنے پر بھی تیار تھیں ‘ ۔ مہوش کو اس کے بعد کافی عرصہ تک شدید دھمکیوں کا بھی سامنا رہا۔

ایک ٖانٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس کے 2018 کے سروے سے پتہ چلا ہے کہ صحافی عورتوں میں سے دو تہائی جنسی حملوں کا نشانہ بنتی ہیں۔ تقریبا 58 فیصد نے کہا کہ ان کے کردار کے بارے میں ان پر کیچڑ اچھالا گیا، 48 فیصد پر گنہاونے الزامات لگائے گئے ۔ 22 فیصد کو فحش تصویریں شئیر کی گئیں ، جبکہ 14 فیصد عورتوں کو جنسی حملوں کی دھمکیاں دی گئیں۔ 46 فیصد عورتوں نے کہا کہ جنسیت کی وجہ سے ان کے کام کو حوصلہ افزا نہیں سمجھا گیا۔

ان حملوں کا صحافی عورتوں پر ایک بڑا اثر پڑا ہے۔ 63 فیصد کی ایک بڑی تعداد نے کہا کہ وہ بے چینی اور دباؤ کا شکار ہیں، 38 فیصد نے کہا کہ وہ احساس جرم میں مبتلا ہیں جبکہ 8 فیصد نے اپنی ملازمت ہی گنوا دی۔ 47 فیصد عورتوں نے تسلیم کیا کہ انہوں نے اس فحاشی کی رپورٹ ہی نہیں کی اور جب انہوں نے کی تو اس لیے کہ ان کی میڈیا مینیجمنٹ نے ان کی مدد کی۔

دفتروں میں عورتوں کے خلاف ہراسمنٹ کے خلاف حفاظتی ایکٹ میں ہر چیز کو تبدیل کر دیا جانا چاہیے۔ یہ واحد قانون ہے جو دفتروں میں ہراسمنٹ کو جرم تصور کرتا ہے۔ اس قانون کے تحت کسی بھی جگہ میں اس جرم کی رپورٹنگ اور چھان بین کے لیے ایک ڈیپارٹمنٹ بنانا لازم ہے ۔ لیکن جب یہ قانون پاس کی گیا اور 2010 میں اسے صوبوں کی تحویل میں دیا گیا، بہت سی میڈیا تنظیمیں اس کی ہدایات پر عمل پیرا نہیں ہو ئیں ۔ کچھ تو اسے کبھی کبھار نافذ کرتی رہی ہیں اور کچھ نے کیا ہی نہیں۔

صرف دو یا تین تنظیموں کے پاس قانون کے مطابق فعال انکوائری کمیٹی ہے۔ دو بڑے میڈیا گروہوں نے اس قانون کے نفاذ کو یقینی بنایا ہے۔ ان کی انکوائری کمیٹی ہر الزام کو سنجیدگی سے لیتی ہے اور ان کا مقصد ایک ایسی فضا پیدا کرنا ہے جہاں عورتیں کام کرنے میں خود کو محفوظ محسوس کریں۔

ذہنیت کو تبدیل کرنا

جب اس قانون کی بات کی جائے تو اخبارات اور میڈیا چینلز پاگل پن کی حد تک چلے جاتے ہیں۔

ساؤتھ ایشین ویمن ان میڈیا، جو اب غیر فعال ہے کی سابق رکن مہمل سرفراز، کہتی ہیں کہ پچھلے عرصے میں جب عورتوں کے تحفظ کا کوئی قانون نہیں تھا ایس اے ڈبلیو ایم نے انہیں ایک پلیٹ فارم کی پیشکش کی جہاں وہ دوسرے معاملات کے ساتھ ساتھ کسی بھی قسم کی جنسی ہراسمنٹ کی شکایت کی جا سکے ۔ ”ہم نے انہیں نفسیاتی اور قانونی کونسلنگ کی بھی پیشکش کی، جبکہ مرحوم عاصمہ جہانگیر ہمارے ساتھ تھیں۔ لیکن زیادہ تر لڑکیوں نے کہا کہ وہ اس میں شامل نہیں ہو سکتیں۔”

سرفراز کا مشاہدہ ہے کہ زیادہ تر عورتیں جو جنسی ہراسمنٹ کا نشانہ بنتی ہیں نچلے سماجی طبقات سے تعلق رکھتی ہیں۔

”ان میں سے زیادہ تر لڑکیوں کو ملازمت کی ضرورت ہوتی ہے (کم از کم کیرئر بنانے کے لیے)،” سرفراز کہتی ہیں۔ ”جب وہ اپنے سینئرز سے بُری حرکات کا سامنا کرتی ہیں تو وہ جاب اور کیریر بچانے کے لیے خاموش رہنے کو ترجیح دیتی ہیں۔ ۔ نتیجہ کے طور پر عدم تحفظ طبقے کی وجہ سے دوگنا ہو جاتا ہے۔”

غالبا یہی وجہ ہے کہ اردو اور علاقائی زبانوں کے اشاعتی اداروں اور چینلز میں جنسی ہراسمنٹ کے واقعات اس قدر زیادہ ہیں ۔ اس کے علاوہ، زیادہ تر عملہ مردوں پر مشتمل ہوتا ہے،” سرفراز کہتی ہیں۔ ”مجھے یہ کہنا چاہیے کہ یہ زبان کے بجائے پورے نیوزروم میں ہوتا ہے۔ میڈیا حلقوں میں بھی یہ چیز بہت کم ہے کہ عورتوں کو سینیئر عہدہ دیا جائے، یا انہیں آپریشنز یا ایڈیٹوریل مضامین کی درستگی کی ذمہ دار ی دی جائے۔ ”

فرحانہ اپنے بارے میں بُرے تبصرے سن کر بہت پریشان تھی اس لیے اسے اپنی شناخت بچانے کے لیے اقدامات کرنا پڑے۔ ”میں ایک بہت قدامت پرست خاندان سے تعلق رکھتی ہوں۔ ان کے لیے یہ ایسی صورتحال تھی جہاں وہ اس بارے میں پریشان تھے کہ دوسرے اس بارے میں کیا سوچیں گے کہ مجھے ہراساں کیا گیا۔ انہوں نے میری عزت کی حفاظت کے لیے میری شادی کروا دی،” وہ کہتی ہیں۔ ”میرا کیرئر، میری مکمل پیشہ ورانہ شناخت، سب ڈوب گئے۔ مجھے خود کو دوبارہ ایجاد کرنا پڑا۔”

لاہور سے سونیہ بھی ایک بہت قدامت پرست فیملی سے تعلق رکھتی ہیں۔ اسے والد کے گزر جانے کے بعد لواحقین کی معاونت کے لیے بہت کام کرنا پڑا۔ کام پر اسے جس برے خواب کا سامنا کرنا پڑا اس سے اس کی زندگی مزید مشکل بنتی گئی۔ وہ کہتی ہیں ۔ ”ہمارے دفتر میں ایک شخص ننگی فلمیں دیکھتا تھا، اور جب میں وہاں جاتی تو اسے غائب کر دیتا، لیکن کسی طرح اسے یقین ہو گیا کہ میں نے وہ فلم چلتے ہوئے دیکھ لیا ہے،”

فرحانہ اور سونیا میں سے کسی کے دفتر میں بھی تنگ کرنے والے افراد کو نہ کوئی وارننگ دی گئی اور نہ ہی کوئی انکوائری عمل میں آئی جبکہ وہ دونوں سب سے بڑے 2 چینلوں میں کام کرتی تھیں۔

”واحد انسان جسے میں شکایت کر سکتی تھی وہ میرا سیکشن ہیڈ تھا، ایک مرد، اور میں ایسا کرنے میں تسلی محسوس نہیں کر رہی تھی،” فرحانہ کہتی ہے۔

ایک طرف نچلے سماجی طبقے کی لڑکیاں خطرے میں ہیں، تو اچھے پس منظر سے آنے والی خواتین جو صحافت میں آتی ہیں وہ بھی غیر محفوظ ہیں، سرفراز کہتی ہیں۔ انہیں اپنے لباس پر تبصرے سننا پڑتے ہیں ، گندی زبان ان کےسامنے استعمال کی جاتی ہے اور ہر طرح کے طریقے اپنا کر ان کی زندگی اجیرن بنائی جاتی ہے۔

شارکس کے ساتھ کام کرنا

”میرا باس مجھے ”بچے” کہہ کر بلاتا تھا،” ایف ڈبلیو کہتی ہیں، جو ایک بڑے چینل میں کام کرتی ہیں، ”لیکن ایک دن اچانک انہوں نے مجھے مشاورتی تصویریں بھیجیں اور مجھے بتانا شروع کیا کہ ان کے ڈاکٹر نے انہیں مشورہ دیا ہے کہ کوئی ایسی لڑکی تلاش کریں جس کے ساتھ وہ جنسی تعلقات رکھ سکیں، کیوں کہ ان کے ان کی بیوی کے ساتھ تعلقات اچھے نہیں تھے۔” کوئی کمیٹی نہیں تھی جس کو شکایت کی جائے اور ”ہم پہلے ہی دیکھ چکے تھے کہ ایک نئی تربیت لینے والی لڑکی نے جب سیکشن ہیڈ کو شکایت کی تھی کہ کچھ لڑکے اسے ہراساں کرتے تھے۔ اگلے دن کام پر موجود سب کو معلوم ہو گیا تھا کہ کس لڑکی نے کس کے خلاف شکایت کی ہے۔

کسی بھی وقت کسی سینئر ورکر پر یا کسی اچھے عہدے والی شخصیت پر الزام لگانا اتنا بھی آسان نہیں ہے۔

ایک ٹی وی چینل ایک ایسی شخصیت کی ملکیت ہے جس پر اکثر لڑکیوں کے ساتھ بہت آگے تک تعلق رکھنے کے بارے میں الزام دیا گیا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ کوئی بھی انکوائری کمیٹی اسے مجرم ثابت نہیں کر سکتی (شاید اس وجہ سے کہ چینل میں کوئی کمیٹی ہے ہی نہیں)۔

”بعض اوقات اسے نظر انداز کر دینا بھی بہتر ہے بجائے اس کے کہ شکایت کی جائے کیوں کہ اس کے پیچھے بڑا ہاتھ ہوتا ہے،” ایک شو پروڈیوسر ایس ایم کہتی ہیں۔

سرفراز کہتی ہیں کہ بہت سے کیسز میں خواتین ان کے ساتھ اس حد تک برداشت کرنا سیکھ جاتی ہیں جتنا وہ سیکھ سکتی ہیں۔ ”اگر وہ ان کو شٹ اپ کال دے دیں، تو یہ اچھا ہے، لیکن ان میں سے بہت سے شکاری، خاص طور پر پر اثر اور طاقتور شکاریوں کو روکا نہیں جا سکتا۔”

نتیجتا بہت سی لڑکیوں کو صرف ہراسمنٹ سے بچنے کے لیے ملازمت چھوڑنی پڑتی ہے۔ اور عین وقت پر جو خواتین امتیازی طبقے سے تعلق رکھتی ہیں کو اپنے ساتھی ورکروں سے کسی طرح کے اندیشے سے بچنے کے لیے اپنے پاس کلاس کارڈ رکھنا ہوتا ہے۔

لاہور کے ایک ٹی وی چینل کی ایسوسی ایٹ پروڈیوسر ماریہ کہتی ہیں کہ چونکہ کہ ان کے انکل ایک معروف تعلیمی شخصیت تھے اس لیے ان کی کسی حد تک عزت کی جاتی تھی، لیکن وہ دیکھ سکتی تھیں کہ دوسری لڑکیوں کے ساتھ کس طرح کی بد سلوکی کی جاتی تھی۔

کچھ کام کی جگہیں کیا کر رہی ہیں؟

یہ سمجھنا باقی ہے کہ کیوں خاص ورکشاپس نے ہی اپنی عمارتوں میں اس قانون کو نافذ نہیں کیا ہے۔ حتی کہ مینیجمنٹ میں موجود اشخاص سے سوال کرنا بنتا ہے جن سے ابھی تک جوابات حاصل نہیں کیے جا سکے۔ کچھ لوگ تسلیم کرتے ہیں کہ کمیٹیاں ابھی بہت دیر سے بنیں گی۔

لاہور کے ایک انگلش روزنامے کے ایک سینئر ایڈیٹر کہتے ہیں کہ حال ہی میں ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی تھی۔ ”ایمانداری سے کہتا ہوں کہ ہم نے ایک ہی شکایت وصول کی اور اس کا خیال رکھا،” وہ کہتے ہیں۔ ”غیر جانبدارانہ تحقیقات کے ذریعے ہم نے ملزم کو مجرم پایا اور اسے نکال دیا گیا۔” تاہم وہ کہتے ہیں کہ ان کی ورک فورس میں 20 فیصد سے کم خواتین ہیں۔ ”ہماری آرگنائزیشن میں عورتیں بہت کم ہیں لیکن پھر بھی ہم نے انہیں ہمیشہ مثبت ورک ماحول مہیا کیا۔”

بعض جگہوں میں ایک قسم کا اخلاقی کوڈ موجود ہوتا ہے جس کی وجہ سے بغیر انکوائری کمیٹی کے کام چلایا جا سکتا ہے۔ حتی کہ 8 سال بعد بھی ان میڈیا ہاؤسز کے مالکان جہاں مرد اور عورتیں اکٹھے کام کرتے ہوں وہاں کے ہراست کے کیس از خود نمٹاتے ہیں۔

مثال کے طور پر افشاں لاہور کے ایک معروف اردو اخبار میں کام کرتی ہیں۔ یہ شہر کی ایک سب سے بڑی میڈیا فیملی کی ملکیت ہے۔ وہاں کوئی انکوائری کمیٹی نہیں لیکن مالک نے بلڈنگ میں ایک ایسا سخت کوڈ قائم کیا ہوا ہے جو، وہ دعویٰ کرتی ہیں کہ، ”کوئی بھی جنسی ہراسمنٹ کا سوچ بھی نہیں سکتا۔” اس کی مثال یہ تھی کہ ایک جوڑے کو ایک ہی پلیٹ میں کھانا کھانے پر بغیر کہانی سنے نکال دیا گیا۔

”ان کے مورال کوبلند کرنے کے لیے اس طرح کی کاروائی کرنا ہی کافی تھا،” افشاں کہتی ہیں۔ ” اس لیے ہمارے ہاں کسی قسم کے ہراسمنٹ کے واقعات نہیں ہیں۔ تمام بوڑھی اور نوجوان عورتیں جو کام پر آتی ہیں یہاں کام کرتے ہوئے اطمینان محسوس کرتی ہیں۔”

ایک اخبار کی انکوائری کمیٹی کے ایک نمائندے کا ماننا ہے کہ اس قانون کو نافذ کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ پورے ملک میں ذیلی قوانین کو عام طور پر نظر انداز کرنا ہے۔ لیکن ایک بڑی وجہ غالبا خود کا تحفظ ہے۔ ”اگر جنسی ہراسمنٹ کا کوئی کیس آ جائے، میڈیا مالکان اور مینیجر اتنا ڈر جاتے ہیں جتنا کسی اور چیز سے نہیں ڈرتے، کہ یہ پبلک کی نظروں میں نہ آ جائے،” وہ کہتے ہیں۔ ”اپنی خواتین ملازمین کو تحفظ دینے کی بجائے وہ اس پر پردہ ڈالیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کمیٹی قائم کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔”وہ مزید کہتے ہیں کہ بعض اوقات سینئر لوگ جنسی ہراست کے کیس میں ملوث ہوتے ہیں اور ملازمین نہیں چاہتے کہ بڑے عہدیداروں کے خلاف شکایت کریں ۔

مردوں میں بھی بہت زیادہ خوف پایا جاتا ہے کہ ان پر کسی ایسی چیز کا الزام لگے جو ان کی دلچسپی کے بر عکس جنسی ہراسمنٹ کے طور پر لیا جائے۔ ”بہت سی چیزوں کو بعض اوقات غلط طور پر پیش کیا جاتا ہے،” ایک ڈیسک انچارج کہتے ہیں، جن کا کہنا ہے کہ ایک لڑکی نے ان پر جنسی ہراسمنٹ کا الزام لگایا تھا۔ ”اصل میں میرا ایسا کچھ کرنے کا مقصد نہیں تھا۔ وہ بس مجھ سے بطور سینئر ہدایات لینا پسند نہیں کرتی تھی اور در اصل چاہتی تھی کہ میرہ عہدہ ان کو مل جائے۔ انہوں نے مجھے ایک مرتبہ دھمکی بھی دی کہ وہ میری شکایت کریں گی اور میں نے انہیں بتایا کہ وہ ایسا کر سکتی ہیں۔ کیوں کہ مجھے یقین تھا کہ وہ کچھ بھی میرے خلاف ثابت نہیں کر پائیں گی۔”

آرگنائزیشن کی انکوائری کمیٹی کی طرف سے مکمل اور منصفانہ تحقیقات ہوئیں، ایسی کمیٹی جو عورتوں کو شک کا فائدہ دینے کے لیے مشہور تھی، اور نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں اس کو مجرم ثابت کرنے کے لیے کچھ نہ ملا۔

”اس کے الزام کے بعد میں کافی عرصہ تک ذہنی تناؤ کا شکار رہا، کیوں میں اس قسم کا شخص تھا ہی نہیں،” وہ کہتے ہیں۔ ”ان چیزوں کا غلط استعمال نہیں کرنا چاہیے۔”

کلچر کے شکار

کچھ خواتین نے دوسری کلچر کی جنسی حملوں کا شکار عورتوں کو دیکھ کر سبق سیکھا اور اس مہم میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔

ایک اردو روزنامے کی ایک رپورٹر جی ایچ کہتی ہیں کہ دو یا تین بڑی عمر کی صحافی خواتین ہیں جو نوجوان جرنلسٹ عورتوں کو اکساتی ہیں اور انہیں بڑے عہدے کے مردوں سے ملوانے کے لیے کھینچ لاتی ہیں۔ اس کے بعد وہ مرد خود ہی ان لڑکیوں کا پیچھا کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ”بدلے میں یہ بڑی عمر کی خواتین کپڑے یا معاوضے کے طور پر کوئی چیز وصول کرتی ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کا شکار میں بھی ہوئی لیکن پھر میں محفوظ راستہ لے کر باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی۔ ”

افشاں کہتی ہیں کہ صنعت میں ‘کاسٹنگ کاؤچ’ کلچر کی بڑھتی ہوئی قبولیت ہے۔ ”ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ انہیں کوئی عہدہ چاہیے،” وہ کہتی ہیں، ”لیکن خاص عورتیں اس قدر غیر محفوظ ہوتی ہیں اور ملازمت کی اس قدر ضرورت مند ہوتی ہیں کہ وہ ہراسمنٹ کو برداشت کرنے پر بھی رضا مند ہو جاتی ہیں۔”

وہ کہتی ہیں کہ ایک وقت تھا جب اپنے سینئر ساتھی کے ساتھ کھانا کھانے اور اس کے ساتھ کافی پینے کو ممنوع سمجھا جاتا تھا، لیکن آج یہ بہت قابل قبول چیز بن گئی ہے ”وہ ہمیشہ بڑی تنخواہوں کی خواہش مند نہیں ہوتیں اس لیے خواتین کو بھرتی کرنے کا سلسلہ بڑھ چکا ہے۔ مرد حضرات صرف ان کے ساتھ ایک کپ کافی پینے کا کہتے ہیں، یا اپنے کمروں میں کسی قسم کی بات چیت کرنے کا کہتے ہیں، اور عورتیں ان کی بات مان لیتی ہیں کیوں کہ انہیں ڈر ہوتا ہے کہ اگر انہوں نے بات پھیلا دی تو انہیں نکال دیا جائے گا۔”

صحافی شیراز حسنات محسوس کرتے ہیں کہ ایک عورت حالات کو سنبھال سکتی ہے اگر پہلے دن سے ہی اسے پتہ ہو کہ لکیر کہاں کھینچنی ہے۔ ”ہمارے کچھ کیمرہ مین اور این ایل ایز کم معروف اور کم تعلیم یافتہ پس منظر سے ہیں، اور وہ غیر مناسب حرکتیں کرتے ہیں،” وہ کہتے ہیں۔ ”کبھی کبھار میرے پاس عورتیں آتی رہی ہیں اور کہتی رہی ہیں کہ وہ فلاں شخص کے ساتھ بیٹھ کر سفر نہیں کریں گی، تو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ کے طور پر یہ میرے اوپر ہے کہ میں ان کا تحفظ کیسے کر سکتا ہوں ۔

عام طور پر جو شکایات حسنات کو موصول ہوتی ہیں، اس قسم کی ہوتی ہیں ان مردوں کا رویہ ان کے ساتھ کام کرنے والی عورتوں کے ساتھ ایسا ہے ”میں کہوں گا کہ جنسی ہراسمنٹ یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ جنسیت نہیں ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر افسر شاہی، یا بڑائی یا عورتوں پر دباؤ ڈالنے جیسی حرکتیں ہیں ۔ اس مرحلے میں عورتوں کو انہیں دور رہنے کا کہنا چاہیے۔ میں اپنا دروازہ تک بند نہیں کرتا جب کسی عورت سے بات کر رہا ہوتا ہوں، اس لیے کہ وہ مطمئن رہے۔”

لیکن مرد ایسا کیوں کرتے ہیں؟

”یہ ایک ذہنیت ہے، یہ ان کے ارد گرد کا کلچر ہے۔” حسنات کہتے ہیں۔ ”ایک شخص جس نے اپنے خاندان کی عورت کو کام کرتے ہوئے دیکھا ہو وہ ایسا ہر گز نہیں کرے گا۔” وہ دوبارہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ عورتوں کا کم تنخواہ پر کام کرنا اور مردوں کےکام کے عوض مرد باس کے ساتھ وقت گزارنے پر رضا مندی ہے جس سے مردوں کو مزیدہمت ملتی ہے۔

قانون

پروفیشنل ورلڈ میں جنسی برابری کو یقینی بنانا پوری دنیا میں ایک ہمیشہ کی جنگ رہا ہے۔ پاکستان جنسی ہراسمنٹ پر خاص قانون بنانے میں جنوبی ایشیا کا پہلا ملک بنا۔ یہ قانون 10 سال کے عرصے تک بحث و مباحثہ کے بعد بنا اور اس کے پیچھے کچھ حقوق نسواں کے پر جوش کارکن تھے، جن میں عاصمہ جہانگیر شامل ہیں، جو تب تک لڑتی رہیں جب تک اسے دونوں اسمبلیوں سے منظور نہ کر دیا گیا۔

ایک مشہور کتاب ‘ورکنگ ود شارکس’ کی مصنفہ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اس بل کی کو ڈرافٹ کرنے میں مدد کی۔ دوسرے ممالک کے بر عکس، ڈاکٹر فوزیہ کہتی ہیں، پاکستان کی اپنی ”می ٹو” مہم تھی، لیکن لوگوں کو یہ احساس نہیں کہ کیسے یہ سالوں پہلے وجود میں آئی۔ ”2012 میں جہاں ہمارے پاس ایک قومی مہم تھی، اور ہر اجتماع پر عورتیں آتیں اور اپنے واقعات بیان کرتیں۔ اس وقت ہم نے اسے بڑی ذمہ دارانہ طریقے سے چلایا۔ ہم نے قوانین بنائے اور ان کا نفاذ کیا۔ ہم مرد اور عورت دونوں کے لیے ایک جیسے قوانین پر یقین رکھتے ہیں۔ ”

میں مکمل طور پر سمجھتی ہوں کہ جب ہراساں کرنے والا ایک بڑا شخص ہو تو اسے نیچے لانا مشکل ہوتا ہے اور صرف معاشرتی جدوجہد اسے نیچے لا سکتی ہے لیکن میں میڈیا ٹرائل کے حق میں نہیں ہوں۔ ایک رسمی شکایت ہونی چاہیے، تحقیق اور احتساب ہونا چاہیے، ترجیحی طور پر در پردہ ہونا چاہیے تا کہ اس دوران کسی بھی پارٹی کی شہرت متاثر نہ ہو ۔ ایک بار جب نتیجہ سامنے آ جائے تو تنقید کے لیے معاملہ سامنے لایا جا سکتا ہے ، ہمیں ذہنیت کو بدلنا ہو گا۔

اشاعتی اداروں میں اس معاملے میں واضح بہتری نظر آ رہی ہے،” وہ کہتی ہیں۔ ”لیکن یہ مسئلہ سنگین ہے۔ ٹی وی چینل حال ہی میں اس مہم کا حصہ بنے اور ان میں سے بہت سے ابھی تک اس قانون کو نافذ کرنے پر تیار نہیں ہیں۔ میرا خیال ہے کہ صحافی برادری کو اس معاملے میں جاگنا چاہیے اور اپنے ہاؤسز کی صفائی کرنی چاہیے۔”

اس معاملے میں فوزیہ محسوس کرتی ہیں کہ اسلام آباد پریس کلب نے بہت سے مثبت اقدامات کیے ہیں لیکن ابھی بہت کچھ باقی ہے جو صحافیوں نے کرنا ہے۔ ”ذہنیت میں بڑی تبدیلی آئی ہے خاص طور پر کام کرنے والی عورتوں کے حوصلے کی سطح میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ اب وہ محسوس کرتی ہیں کہ ان کی عظمت ان کا حق ہے۔ پہلے جنسی ہراسمنٹ صرف ایک بری بات ہوتی تھی لیکن اب یہ قابل سزا جرم ہے۔”

فوزیہ سعید یہ بھی کہتی ہیں کہ قانون میں صرف طریقہ کار واضح کیا گیا ہے اور بذات خود اس کے نفاذ کا حکم نہیں دیا گیا ۔ وہ لوگ جو اپنے محکمے کی کمیٹی کے فیصلے پر اپیل کرنا چاہتے ہیں وہ دفتر محتسب میں اپیل کر سکتے ہیں اور اس کے بعد صدر سے اس پر نظر ثانی کی درخواست کر سکتے ہیں۔ ”ہم نے احتساب آفس بنایا تا کہ عورتوں کو مقدمہ سازی میں سالوں نہ بیت جائیں،” ڈاکٹر فوزیہ کہتی ہیں۔ ”وہ قانون کے مطابق ایک فوری حل نکالنے میں وقت کے پابند ہیں لیکن وہ ایسا کر نہیں رہے۔”

بیرسٹر مرزا تیمور جو ایک صحافی خاتون کا کیس لڑ رہے ہیں نے کہا کہ جب تک کسی ادارے کے وکیل اور ملازمین جنسی ہراسمنٹ پر مکمل تربیت حاصل نہیں کر لیتے تو مسئلہ کم نہیں ہو گا۔ ”ہم ایف بی آر اور نیب کی کرپشن کے بارے میں مہمات اور اشتہارات کو دیکھتے ہیں، لیکن ہم اس قانون کے بارے میں بہت کم ایکٹوزم دیکھتے ہیں،وکیل یہ تک نہیں جانتے کہ اس طرح کے کیسز کو کیسے لڑا جائے۔”

جہاں تک تنزیلہ کا تعلق ہے، وہ اپنی لڑائی کبھی نہیں چھوڑیں گی۔ ”میرے پاس رابطے ہیں، ایک فورم ہے جہاں میں بول سکتی ہوں،” وہ کہتی ہیں۔ ”لیکن ان سینکڑوں خواتین کے بارے میں مجھے بہت بُرا محسوس ہوتا ہے جن کے پاس نہ کوئی تعاون ہے اور نہ کوئی داد رسی کرنے والا ہے تو وہ خاموش رہتی ہیں۔ لیکن میں پیچھے نہیں ہٹوں گی۔”

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہhttp://dunyapakistan.com

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply