چائے تاریخ کے آئینے میں۔۔۔ایم وسیم

آج کے دور میں جو شخص چائے کے ذائقے اور لذت سے محروم رہ گیا وہ بڑا ہی بد نصیب انسان ہے۔ایک تحقیق کے مطابق اس وقت دنیا میں پانی کے بعد سب سے مقبول مشروب چائے ہے۔روزانہ تقریبا دو ارب لوگ اپنی صبح کا آغاز چائے سے کرتے ہیں۔چائے چینیوں کی دریافت ہے لیکن اس پہ کوئی مقدمہ ڈاکومنٹ نہیں ہوا کے چائے شروع کہاں سے ہوئی تھی۔ ایک دیو مالائی داستان یہ بتاتی ہے کے ایک چینی بادشاہ تھا جس کا نام شیونگ تھا۔اس نے اپنی رعایا کو یہ کہہ رکھا تھا کے سب پانی گرم کر کے پیا کریں۔اب ظاہر ہے اگر اس نے رعایا کو کہا تھا تو وہ خود بھی گرم پانی پیتا ہوگا۔ایک دن بادشاہ  شیونگ جنگل سے گزر رہا تھا، تھوڑی دیر آرام کرنے کے لیے رکا تواس کے لیے پانی گرم ہونے لگا۔ہوا سے اڑتی تین چار پتیاں آکر اس ابلتے پانی میں گر گئیں۔جب بادشاہ نے وہ پتیوں ملا پانی پیا تو حیران رہ گیا۔کیا شاندار ذائقہ تھا۔وہ پتیوں ملا مشروب پینے کے بعد بادشاہ شیونگ کے بدن میں چستی سی آگئی۔اس نے سوچا کے میں اپنی رعایا کو بھی بتاوں کے وہ ان پتیوں سے مستفید ہوں۔یوں چین میں چائے کا رواج پڑ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہندوستان میں چائے بہت بعد میں پہنچی تھی۔پہلے چائے یورپ گئی تھی۔چائے کو پرتگالیوں نے یورپ تک پہنچایا تھا۔صولہویں صدی کی ابتدا میں پرتگالیوں نے یورپ تک چائے کی تجارت کی۔ایک صدی میں چائے پوری دنیا میں عام ہو چکی تھی۔ایسٹ انڈیا کمپنی کو تو ہم سب جانتے ہیں۔ایسٹ انڈیا کمپنی چائے کی بہت بڑی خریدار تھی، باقی چیزیں تو وہ ہندوستان سے سستے داموں خرید کر منافع پر عالمی منڈیوں میں بیچ دیا کرتی تھی لیکن چائے اسے چین سے بڑے مہنگے داموں خریدنی پڑتی تھی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ تھی کے چائے کا پودا صرف چین میں تھا اور پودے سے چائے کیسے بنتی تھی یہ چینیوں کا اپنا ایک راز تھا جو وہ کسی کو نہیں بتاتے تھے۔انگریز یہ چاہتا تھا کہ  کسی طرح چائے پر سے چینیوں کی اجارہ داری ختم ہو جائے، چینیوں سے چائے کا پودا چرایا جائے اور اس راز کو حاصل کیا جائے کہ  پودے سے چائے کیسے بنتی ہے۔اس مقصد کے لیے انگریزوں نے ایک جاسوس تیار کیا۔اس جاسوس کا نام روبرٹ فورچون تھا وہ ماہر نباتات تھا اور اسے ہر قسم کے پودوں کی پہچان تھی۔اسے تیار کیا گیا کہ  وہ بھیس بدل کر چین جائے اور وہاں سے اس چائے کا پودا اور بیچ لے کر آئے جو اس وقت پوری دنیا پر راج کر رہی تھی۔روبرٹ فورچون کو بھیس بدلنے کےلیے اپنا سر تک منڈوانا پڑا۔کافی لمبے عرصے کے بعد فورچون کی مہم کامیاب ہو گئی اور وہ چین سے چائے کے پودے چرا لایا۔فورچون کے لائے ہوئے پودے چین کے پہاڑی سلسلوں اور ٹھنڈے موسم کے عادی تھے۔جب انہیں لا کر ایسٹ انڈیا کمپنی نے آسام میں لگایا تو وہ ایک ایک کر کے سوکھتے چلے گئے کیوں کہ آسام کا موسم گرم اور مرطوب تھا۔یوں فورچون کی ساری مشقت ضائع ہو گئی۔
اسی دوران ایک عجیب اتفاق ہوا یا یوں کہیے کہ  ایسٹ انڈیا کمپنی کی خوش قسمتی۔1823ء میں سکوٹش سیاح روبرٹ روس کو آسام کے پہاڑی سلسلوں میں ایک پودا ملا جو بالکل چائے کے پودوں سے ملتا جلتا تھا۔ماہرین یہ کہتے تھے کہ آسام میں اگنے والا چائے کا پودا چین میں اگنے والے چائے کے پودے سے کمتر تھا۔جب ایک ایک کر کے فورچون کے لائے ہوئے سارے پودے سوکھ گئے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہ تھا کے وہ اپنی ساری توجہ آسام میں ملنے والے پودے کی طرف مرکوز کر دے کیوں کہ  فورچون کوئے عام پودا چرانے چین نہیں گیا تھا وہ ایک عمدہ چائے کا پودا چرانے وہاں گیا تھا۔لہذا انگریزوں نے آسام میں ملنے والے چائے کے پودوں پر محنت کی اور تیار کر کے مارکیٹ میں پیش کر دیا۔یوں چین کی چائے پر قائم ایک صدی کی اجارہ داری ختم ہو گئی۔
امریکا کی آزادی میں چائے کا بڑا اہم کردار ہے۔1985ء میں راجیو گاندھی نے امریکا جا کر ایک تقریر کی اور کہا کے ہندوستان میں اگنے والی چائے نے امریکی آزادی کی بنیاد رکھی تھی۔راجیو گاندھی کا اشارہ 1773ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرف تھا جو امریکا میں چائے تو بیچتی تھی لیکن ٹیکس ادا نہیں کرتی تھی، اسی بات سے تنگ آ کر کچھ امریکیوں نے بوسٹن کے ساحل پر کھڑے ایک بحری جہاز میں موجود چائے کی تمام پیٹیاں پانی میں بہا دیں۔یہ وہی واقع ہے جس کی یاد میں آج بھی بوسٹن ٹی پارٹی منائی جاتی ہے۔
چائے پر بڑی بڑی شاعریاں بھی ہوئی ہیں اور اسے بڑا گلوریفائی کیا گیا ہے، مثال کے طور پر
ایک گرم چائے کی پیالی ہو
کوئی اس کو پلانے والی ہو
اور
شاید میری شادی کا خیال دل میں آیا ہے
اسی لیے ممی نے میری تمہیں چائے پہ بلایا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply